WE News:
2025-06-09@14:29:03 GMT

شان مسعود کے ساتھ اب یہ کمپنی نہیں چلے گی!

اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT

تو ویسٹ انڈیز بالآخر 35 سال بعد پاکستان میں ٹیسٹ میچ جیت گیا، آخری مرتبہ جب ویسٹ انڈیز نے کامیابی حاصل کی تھی تو شان مسعود اور نعمان علی کے علاوہ کوئی بھی پاکستانی کھلاڑی پیدا بھی نہیں ہوا تھا۔

تو پھر اس شاندار میزبانی پر ’کریڈٹ گوز تو آل دی بوائز‘ ہی ہونا چاہیے کہ ایک ایسی ٹیم سے ہم ہار گئے جس کا کوئی کھلاڑی ماضی میں پاکستان میں ٹیسٹ میچ نہیں کھیلا اور یہاں کی کنڈیشن سے ناواقف تھا۔

دوسری طرف ہم ہیں کہ فل اسٹرینٹھ ٹیم میدان میں اتار دی، یعنی ہزیمت سے بچنے کے لیے اب ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ ابھی تو ہمارے اہم کھلاڑی ٹیم میں نہیں تھے۔

سیریز جیتنے کے لیے ہم اتنے بے تاب تھے کہ پہلے ہی دن وکٹ اسپنرز کے لیے سازگار بنادی۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ 1910 کے بعد 3 ایسے ٹیسٹ میچ کھیلے گئے جن میں بولنگ کا آغاز اسپنرز نے کیا اور یہ تینوں پاکستان میں کھیلے گئے۔ ایک انگلینڈ کے خلاف اور 2 ویسٹ انڈیز کے خلاف۔

یعنی ہوم کنڈیشنز کا فائدہ اٹھانے کے لیے ہر طرح کے جتن کرلیے کہ کسی طرح کامیابیاں سمیٹ لیں مگر ایک سیریز جیتنے کے بعد اگلی برابر ہوگئی۔ اب آگے ہمارے کرتا دھرتا کیا حکمت عملی بناتے ہیں اس کا انتظار دلچسپ ہوگیا ہے۔

عاقب جاوید نے شاید ٹھیک ہی سوچا ہوگا کہ یار اپنے کھلاڑیوں کو فائدہ دینے کے لیے وکٹیں بناتے ہیں مگر شاید وہ اپنے بلے بازوں کو بھول گئے۔ شاید انہیں یاد نہیں رہا کہ اگر ویسٹ انڈیز کے بیٹسمین ناکام رہیں گے تو اپنوں میں کونسے سرخاب کے پر لگے ہیں؟

بلے بازوں کی ناکامی پر تو بات ہوتی ہی رہتی ہے مگر شاید اب کپتان کے کردار پر بھی بات کرلینی چاہیے۔ بطور کپتان شان مسعود کی یہ 5ویں سیریز تھی۔ ابتدائی 2 بہت مشکل یعنی آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ میں تھیں جہاں ہارنا ہماری روایت ہے اور ناجانے یہ روایت کون توڑے گا، توڑے گا بھی یا نہیں، اس بارے میں بھی کچھ یقینی نہیں۔

لیکن اگلی 3 سیریز پاکستان میں کھیلی گئیں۔ سب سے پہلا جھٹکا ہمیں اس وقت لگا جب بنگلہ دیش نے ہمیں 2 ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں کلین سوئپ کیا، حالانکہ اس سے قبل بنگلہ دیشی ٹیم ہمارے خلاف کوئی ایک میچ بھی نہیں جیت سکی تھی۔

پھر ٹیم انتظامیہ میں تبدیلی ہوئی اور عاقب جاوید نے آتے ہی وکٹوں میں تبدیلی کا فیصلہ کیا جس کے بعد ہم نے انگلیںڈ کو سیریز میں شکست دی۔ اس کامیابی کے بعد ہمارا خیال تھا کہ ویسٹ انڈیز کو ہرانا تو کوئی مشکل نہیں ہوگا اور پہلا میچ جیتنے کے بعد یہ بات یقینی بھی ہوگئی تھی مگر دوسرے میچ میں سارے اندازے غلط ثابت ہوئے۔

دوسرے میچ میں کپتانی کا کردار کس قدر بھیانک تھا اسے سمجھنے کے لیے یہی کافی ہے کہ پہلی اننگز میں ہمارے بولرز نے محض 54 رنز پرمہمان ٹیم کے 8 کھلاڑیوں کو پویلین بھیج دیا تھا، مگر آخری 2 بلے بازوں نے اسکور کو 163 رنز تک پہنچا دیا۔

اب آپ یوٹیوب پر جائیے اور اس موقعے پر شان مسعود کی کپتانی دیکھیے کہ کس طرح رنز کے انبار لگوادیے۔ شان مسعود نے بار بار یہ ثابت کیا ہے کہ ان کے پاس کپتان والا دماغ نہیں، وہ اچھا بول سکتے ہیں، presentable ہوسکتے ہیں مگر قومی ٹیم کی قیادت کے اہل نہیں۔ جس طرح بابر اعظم کے بارے میں یہ رائے ٹھیک ثابت ہوئی کہ وہ بلے باز تو اچھے ہوسکتے ہیں مگر کپتان نہیں بالکل یہی بات اب شان مسعود کے اوپر بھی لاگو ہوتی ہے۔

اس پورے سلسلے میں ایک اور بُری خبر یہ بھی سن لیجیے کہ اب تک 3 ٹیسٹ چیمیئن شپ منعقد ہوچکی ہیں، 2019 سے 2021 تک، 2021 سے 2023 تک اور پھر 2023 سے 2025 تک۔ فائنل تو دُور کی بات ہم ہر گزرتے سال کے ساتھ نیچے گر رہے ہیں۔ پہلی چیمپیئن شپ میں ہمارا نمبر 5واں تھا، پھر ہم 7ویں تک آئے اور اس بار ہمارا نمبر 9واں ہوچکا ہے۔ جس تیزی کے ساتھ ہم نیچے گر رہے ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ ٹیسٹ پلیئنگ نیشن سے ہی ہم باہر ہوجائیں، اس لیے خبردار ہونا بنتا ہے۔

مگر سوال یہ ہے کہ کیسے اور ٹیم کے نتائج کو بہتر کرنے کے لیے کیا کیا جائے؟ سوال اچھا ہے مگر ایک اور اچھا پہلو یہ ہے کہ اگلے کچھ عرصے تک پاکستان کو ٹیسٹ میچ نہیں کھیلنا، اس لیے اگلا کپتان کس کو ہونا چاہیے اس حوالے سے فوری طور پر کوئی بھی فیصلہ سودمند نہیں ہوگا۔ ہاں یہ بات ضرور کہنا چاہوں گا کہ چونکہ محمد رضوان ایک روزہ اور ٹی20 ٹیم میں قیادت کررہے ہیں اس لیے ان پر اضافی بوجھ ڈالنے کے بجائے سعود شکیل پر غور کیا جاسکتا ہے، مگر بات وہی ہے کہ ابھی کوئی بھی فیصلہ جلد بازی تصور ہوگا لیکن یہ بات بہرحال اب ناگزیر ہوچکی ہے کہ شان مسعود کے ساتھ یہ کمپنی نہیں چل سکے گی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

فہیم پٹیل

گزشتہ 15 سال سے صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں، اس وقت وی نیوز میں بطور نیوز ایڈیٹر منسلک ہیں۔

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: پاکستان میں ویسٹ انڈیز ٹیسٹ میچ کے ساتھ کے بعد ہیں کہ کے لیے

پڑھیں:

ٹرمپ کی اطلاع کے بغیر ایران پر اسرائیلی حملے کے امکانات

اسلام ٹائمز: ایک محدود اسرائیلی حملے پر تہران کے ممکنہ ردعمل کو کنٹرول کرنے اور خطے میں امریکی مفادات کو کسی ممکنہ فوجی تنازع سے دور رکھنے کیلئے جو اقدام ضروری ہے، ٹرمپ اس میں داخل ہونے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ مختلف منظرنامے اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ٹرمپ اسرائیل کی ایران مخالف دھمکیوں کو مذاکرات میں اپنی بات منوانے کیلئے استعمال کرنا چاہتا ہے۔ دوسری طرف رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے گذشتہ دنوں دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ امریکہ ہوتا کون ہے، جو ایران میں یورینیم کی افزودگی کے بارے میں یہ فیصلہ کرے کہ افزودگی ہونی چاہیئے یا نہیں۔ تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

حالیہ دنوں میں اسرائیل کی جانب سے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کے امکان کے بارے میں متعدد اطلاعات سامنے آئی ہیں اور ساتھ ہی کئی اسرائیلی ذرائع ابلاغ نے یہ خبریں بھی دی ہیں کہ امریکا نے ان تنصیبات پر حملے کے منصوبے پر اسرائیل کے ساتھ تعاون بند کر دیا ہے۔ ٹرمپ نے یہ بھی کہا ہے کہ اسں نے نیتن یاہو سے کہا ہے کہ وہ کوئی ایسا اقدام نہ کرے، جس سے ایران کے ساتھ جوہری مذاکرات میں خلل پڑے۔

کیا اسرائیل امریکہ کے علم میں لائے بغیر ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ کرے گا؟
یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس طرح کا واقعہ حملے کی سطح پر منحصر ہے۔ اسرائیل کی طرف سے امریکہ کے تعاون اور یہاں تک کہ اس کی عوامی یا نجی شرکت کے بغیر بڑے اور وسیع پیمانے پر حملے کا امکان بہت کم ہے۔ تاہم، اسرائیل کی طرف سے "محدود حملے" کے دو امکانات ہیں۔ پہلا، امریکہ کو بتائے یا ہم آہنگی کے بغیر اور دوسرا، دونوں فریقوں کے علم اور ہم آہنگی کے ساتھ۔ ٹرمپ نیتن یاہو کے تعلقات کے نتائج پر غور کرتے ہوئے پہلا منظر نامہ اس وقت پیش آسکتا ہے، جب نیتن یاہو کو مکمل یقین ہو جائے کہ ایران اور امریکہ ایک ایسے معاہدے پر پہنچ جائیں گے، جو اسرائیل کے نقطہ نظر سے "ناگوار" ہوگا تو وہ اس صورت حال میں خلل ڈالنے اور دوسرے طریقوں سے مایوس ہونے کے بعد حملہ کرسکتا ہے۔ یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ ’’عارضی اور جزوی‘‘ معاہدے تک پہنچنے کے بعد بھی اس طرح کے حملے کا امکان موجود ہے۔

بلاشبہ، نیتن یاہو ایسا شخص نہیں ہے، جو بغیر حساب کتاب اور صرف غیر ضروری خطرات مول لے کر حملے کا رسک لے گا۔ ٹرمپ کے رویئے اور انتقام کے بارے میں اس کی تشویش کو دیکھتے ہوئے وہ کسی بھی غیر اعلانیہ حملے کا فیصلہ نہیں کرے گا، کیونکہ اس کا نتیجہ اسے غزہ کے تناظر میں دیکھنا پڑے گا۔ غزہ کی جنگ سے نیتن یاہو کا سارا سیاسی مستقبل وابستہ ہے اور اس کا اقتدار اس جنگ سے جڑا ہوا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ٹرمپ اور نیتن یاہو کے درمیان ایران کے ساتھ تصادم کی نوعیت اور دیگر مسائل کے بارے میں اختلاف رائے اور "معمولی تناؤ موجود ہے، جس کے بارے میں حقیقت سے زیادہ مبالغہ آرائی ہے، کیونکہ اس طرح کے تناؤ کا ابھی تک کوئی قابل ذکر عملی ثبوت سامنے نہیں آیا ہے۔"

لیکن فی الحال ایسا لگتا ہے کہ موجودہ صورتحال میں غزہ کی صورتحال کے تناظر میں نیتن یاہو اور ٹرمپ کے درمیان ایک طرح سے سمجھوتہ اور سودے بازی کی صورت حال موجود ہے۔ ہعنی اسرائیل، ٹرمپ کی درخواست کی تعمیل کے بدلے میں ایران کے ساتھ مذاکرات میں خلل ڈالنے کے لیے کوئی اقدام نہ کرے گا اور ٹرمپ غزہ کی جنگ کو روکنے کے لیے کوئی عملی اقدام انجام نہ دے۔ اس کی ایک ٹھوس مثال وتکاف کی طرف سے جنگ بندی کے لیے پیش کیے گئے منصوبے میں دیکھی جا سکتی ہے، جو اسرائیل کے مطالبات کو مکمل طور پر پورا کرتا ہے اور یہی چیز نیتن یاہو کو فوری طور پر اس معاہدے کے خلاف کچھ اقدام سے روکے ہوئے ہے۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ بالآخر کوئی معاہدہ نہیں کرے گا۔ چاہے ایران کے ساتھ ہو یا دوسرے علاقائی کھلاڑیوں کے ساتھ۔ امریکہ اسرائیل کے "بڑے مفادات" کو مدنظر رکھے بغیر کوئی مستقل اقدام نہیں کرے گا۔ البتہ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ وٹکوف نے بظاہر ٹرمپ کی مذاکراتی پالیسی سے متاثر ہو کر ایرانی فریق کے ساتھ مذاکرات میں ایسا مبہم اور متضاد رویہ اپنایا ہے۔ غزہ پر نیتن یاہو اور ٹرمپ کے درمیان کچھ دو اور کچھ لو کا عمل اس بات کا باعث بنے گا کہ اسرائیل امریکہ کے علم میں لائے بغیر ایران کی جوہری تنصیبات پر کسی قسم کا محدود حملہ بھی نہیں کرے گا۔ مجموعی طور پر، ایران کے خلاف کسی بڑے حملے کا فیصلہ امریکی گرین لائٹ کے ساتھ ہی ممکن ہے۔

اس طرح کے مفروضے کو درست مانتے ہوئے، ممکنہ محدود حملے کو مذاکرات کو آگے بڑھانے کے لیے ایک قسم کا دباؤ قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ حالیہ دنوں میں ایران پر مشترکہ حملے کے لیے واشنگٹن اور تل ابیب کے درمیان ہم آہنگی کے خاتمے کے بارے میں کچھ رپورٹس اور تبصرے سامنے آئے ہیں۔ ایک محدود اسرائیلی حملے پر تہران کے ممکنہ ردعمل کو کنٹرول کرنے اور خطے میں امریکی مفادات کو کسی ممکنہ فوجی تنازع سے دور رکھنے کے لیے جو اقدام  ضروری ہے، ٹرمپ اس میں داخل ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ مختلف منظرنامہ اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ٹرمپ اسرائیل کی ایران مخالف دھمکیوں کو مذاکرات میں اپنی بات منوانے کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے۔

دوسری طرف رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے گذشتہ دنوں دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ امریکہ ہوتا کون ہے، جو ایران میں یورینیم کی افزودگی کے بارے میں یہ فیصلہ کرے کہ افزودگی ہونی چاہیئے یا نہیں۔ رہبر انقلاب کے اس موقف نے ٹرمپ کو ایک نئے مخمصے میں ڈال دیا ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ امریکی انتظامیہ اب کس انداز سے نیتن یاہو کو اپنے اہداف کے لیے استعمال کرتی ہے یا نیتن یاہو ٹرمپ کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ مفادات کی اس جنگ میں ضامن کوئی نہیں۔ یہ دنگل کون جیتے گا، اس کے لئے کچھ انتظار کرنا پڑے گا۔

متعلقہ مضامین

  • راولپنڈی: ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کا عید صفائی آپریشن کامیابی سے مکمل
  • سنڈے اسپیشل : ٹو این ون اسٹوریز
  • شہباز شریف کا ڈاکٹر مسعود پزشکیان سے ٹیلیفونک رابطہ، علاقائی، عالمی پیشرفت پر تبادلہ خیال
  • اسپیس ایکس نے فلوریڈا سے سرئیس ایکس ایم کا نیا سیٹلائٹ لانچ کر دیا
  • ایسی کیا شکایت تھی کہ 40 لاکھ ایڈجسٹ ایبل ڈمبلز واپس منگوانے پڑگئے؟
  • جاپانی کمپنی ‘آئی اسپیس’ کا دوسرا چاند مشن بھی ناکام، ‘ریزیلینس’ لینڈر چاند پر گر کر تباہ
  • جاپانی کمپنی کا مون لینڈر ایک بار پھر ناکام، چاند پر پہنچنے سے پہلے رابطہ منقطع
  • قربانی کا گوشت کھاتے وقت کن باتوں کا خیال ضرور رکھیں؟
  • تحریک سے کچھ حاصل نہیں ہوگا پی ٹی آئی ہم سے بات کرے، رانا ثنااللہ
  • ٹرمپ کی اطلاع کے بغیر ایران پر اسرائیلی حملے کے امکانات