ڈیجیٹل کرنسی کیلئے ریگولیٹری تقاضوں کا جائزہ لے رہے ہیں، گورنر اسٹیٹ بینک
اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT
اپنے بیان میں جمیل احمد نے کہا کہ ڈیجیٹل کرنسی پر 2 سال سے اپنی صلاحیت بہتر بنا رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر جمیل احمد نے کہا ہے کہ ڈیجیٹل کرنسی پر 2 سال سے اپنی صلاحیت بہتر بنا رہے ہیں۔ ایک بیان میں گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد نے کہا کہ ڈیجیٹل کرنسی کیلئے ٹیکنالوجی اور ریگولیٹری تقاضوں کا جائزہ لے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انٹرنیشنل ایجنسیوں اور بینکوں کے ساتھ مل کر صلاحیتیں بہتر بنا رہے ہیں، ڈیجیٹل کرنسی کیلئے اسٹیٹ بینک ایکٹ میں ترمیم کی ضرورت ہوگی۔ گورنر اسٹیٹ بینک نے یہ بھی کہا کہ نئے نوٹ آئندہ مالی سال سے جاری ہونا شروع جائیں گے۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ڈیجیٹل کرنسی اسٹیٹ بینک رہے ہیں کہا کہ نے کہا
پڑھیں:
سوات واقعہ پر معروف عالم دین مولاناطارق جمیل کاردعمل سامنے آگیا
معروف عالم دین مولانا طارق جمیل نے سوات کے مدرسے میں استاد کے تشدد سے بچے کےجاں بحق ہونے کی شدید مذمت کی ہے۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر جاری بیان میں مولانا طارق جمیل نے کہا کہ قاری نے بچے پر اتنا تشدد کیا کہ اس کا انتقال ہوگیا، اس پر بہت دکھ ہوا۔
مولانا طارق جمیل نے کہا کہ بچے کی کمر کی تصویر دیکھ کر بہت صدمہ ہوا، معصوم بچے کی میت کی تصویر بھی دیکھی اور نامراد قاری کی بھی میں نے تصویر دیکھی ہے۔
انہوں نے کہا کہ نہ یہ دین کا طریقہ ہے اور نہ ہی ہمارے نبیؐ نے اس طرح کی تعلیم دی ہے، ایک دن بچے نے چھٹی کرلی اسے پیار سے بھی سمجھایا جاسکتا تھا لیکن اسے اتنا مارا پیٹا گیا کہ وہ مر ہی گیا اس کے والدین پر کیا گزری ہوگی۔
مولانا طارق جمیل نے کہا کہ ہمارا ستم یہ ہے کہ ایک بچہ حفظ کرکے فارغ ہوتا ہے اسے بغیر سمجھائے اور تربیت کے حفظ کی جماعت میں بٹھا دیتے ہیں سوٹی اس کے ہاتھ میں ہوتی ہے، وہ جدھر چاہتا ہے اسے سفاکانہ طریقے سے استعمال کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ والدین بھی اتنے نادان ہیں کہ وہ چاہتے ہیں ہمارا بچہ بس حافظ بن جائے، چاہے اس کی کھال اتار دی جائے، میں کہتا ہوں وہ حافظ تو بن جائے گا مگر صحیح مسلمان نہیں بن سکے گا، کیونکہ مار پیٹ سے کبھی کسی کو ہدایت نہیں ملتی کسی کو راستہ نہیں ملتا۔
واضح رہے کہ 21 جولائی کو سوات کے مدرسے میں استاد کے تشدد سے بچہ جاں بحق ہوگیا تھا، 14 سالہ مقتول فرحان کے چچا کے مطابق مدرسے کے مہتمم کا بیٹا بچے سے ناجائز مطالبات کرتا تھا۔
21 جولائی کو خوازہ خیلہ اسپتال میں 12 سالہ فرحان کی تشدد زدہ لاش لائی گئی تھی۔ مقتول کے چچا صدر ایاز کی مدعیت میں مدرسے کے مہتمم قاری محمد عمر، اُس کے بیٹے احسان اللّٰہ، ناظم مدرسہ عبد اللّٰہ، اور بخت امین کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا۔