خیبر پختونخوا اسمبلی نے زرعی انکم ٹیکس بل منظور کرلیا ، کتنی آمدنی پر کتنا ٹیکس لگے گا؟
اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT
فوٹو فائل
خیبر پختونخوا حکومت نے زرعی انکم ٹیکس بل صوبائی اسمبلی سے منظور کرلیا۔ زرعی انکم ٹیکس یکم جنوری 2025 سے عائد ہوگا۔
بل کے مطابق 12 لاکھ سے زائد زرعی آمدن پر 15 فیصد یعنی 1 لاکھ 80 ہزار انکم ٹیکس اور 90 ہزار سپر ٹیکس عائد ہوگا۔
16 لاکھ سے زائد زرعی امدن پر 30 فیصد انکم ٹکیس اور ایک لاکھ 70 ہزار سپر ٹیکس عائد کیا جائے گا۔ بل کے مطابق 32 لاکھ سے زائد زرعی آمدن پر 40 فیصد انکم ٹیکس اور 6 لاکھ 50 ہزار سپر ٹیکس دینا ہوگا۔
بل کے تحت صوبے کی زمین کو تین ڈویژنز اور چار زونز میں تقسیم کیا جائے گا۔ بل میں کارپوریٹ فارمنگ پر بھی ٹیکس لاگو کیا جائے گا۔ چھوٹی کمپنیوں پر 20 فیصد جبکہ بڑی کمپنیوں پر 29 فیصد ٹیکس عائد کیاجائے گا۔
کسان کی جانب سے مفت تقسیم کیے جانے کا اعلان سن کر شہری بوریوں میں بھر کر گوبھی لے گئے۔
56 لاکھ روپے سے زائد زرعی آمدن پر 45 فیصد انکم، ایک لاکھ 61 ہزار روپے سپر ٹیکس ہوگا۔
خیبر پختونخوا اسمبلی میں سول کورٹس ترمیمی بل 2025 بھی پیش کردیا گیا، بل صوبائی وزیر قانون آفتاب عالم نے ایوان میں پیش کیا۔
اس کے علاوہ خیبر پختونخوا ریگولیٹری فورس سے متعلق بل بھی ایوان میں پیش کردیا گیا، بل کو بحث کے لیے قائمہ کمیٹی کےحوالے کر دیا گیا۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: خیبر پختونخوا انکم ٹیکس سپر ٹیکس
پڑھیں:
وفاقی حکومت کا بڑا فیصلہ: سرکاری ملازمین کے ہاؤس رینٹ سیلنگ میں 85 فیصد اضافہ منظور
وفاقی حکومت نے سرکاری ملازمین کے لیے ایک بڑا ریلیف پیکج منظور کرتے ہوئے ہاؤس رینٹ سیلنگ میں 85 فیصد اضافہ کر دیا ہے۔
نجی میڈیا کے مطابق، وفاقی کابینہ نے وزارتِ ہاؤسنگ اینڈ ورکس کی جانب سے پیش کی گئی سمری کی منظوری دے دی، جس کے تحت گریڈ 1 سے 22 تک کے تمام وفاقی ملازمین کو اس اضافے کا یکساں فائدہ حاصل ہوگا۔
یہ اضافہ سرکاری ملازمین کی بڑھتی ہوئی رہائشی مشکلات اور کرایوں میں اضافے کے پیش نظر کیا گیا ہے۔ حکومت کے مطابق، اس فیصلے سے وفاقی اداروں میں تعینات سیکڑوں سرکاری اہلکاروں کو براہِ راست فائدہ پہنچے گا، تاہم اس سے قومی خزانے پر تقریباً 12 ارب روپے سالانہ کا اضافی بوجھ بھی پڑے گا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ کئی سالوں سے ہاؤس رینٹ سیلنگ میں خاطر خواہ اضافہ نہیں کیا گیا تھا، جبکہ حالیہ معاشی صورتحال میں رہائش کے اخراجات مسلسل بڑھ رہے تھے۔ ملازمین کی جانب سے اس اضافے کا مطالبہ عرصے سے کیا جا رہا تھا، جسے اب حکومت نے تسلیم کر لیا ہے۔
ماہرین کے مطابق یہ فیصلہ اگرچہ ملازمین کے لیے ریلیف کا باعث ہے، لیکن وفاقی بجٹ پر اس کے اثرات نمایاں ہوں گے۔ اس اضافے سے ایک طرف سرکاری عملے کی فلاح یقینی بنے گی تو دوسری طرف مالیاتی نظم و ضبط برقرار رکھنا وزارتِ خزانہ کے لیے ایک نیا چیلنج ہوگا۔