Express News:
2025-07-25@09:46:27 GMT

’’انانیت‘‘ کیسے ختم کی جائے؟

اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT

عام طور پر دیکھا جائے تو ’’انا‘‘جسے انگریزی میں ’’ایگو‘‘ کہتے ہیں ہر انسان کے لیے نقصان دہ ہے۔ ’’ایگو‘‘ والے سے بہت سے لوگ دور ہوجاتے ہیں اور ایسے ہی ’’ایگو‘‘ والا بہت لوگوں سے دور رہتا ہے، انانیت انسان کو زندگی کے بھیانک موڑ پرلا کر کھڑا کرتی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جب ایک مرتبہ میں تربیتی سیشن لے رہا تھا تو ہمارے ایک استاد ہمیں کام یاب لوگوں کی زندگی کے بارے بتاتے ہوئے کہنے لگے:’’بیٹا! کام یابی کے لیے Flexible (لچک دار) ہونا ضروری ہے، ہمیشہ وہی بندہ ترقی کرتا ہے جو اپنے آپ کو موقع اور حالات کے ساتھ تبدیل کرتا ہے۔‘‘

 اس وقت مجھے یہ سن کر بڑا تعجب ہوا کہ کوئی انسان کیسے تبدیل ہوسکتا ہے لیکن آج لوگوں کو بدلتا دیکھ کر میں خود حیران ہوجاتا ہوں۔ میرا مشاہدہ ہے کہ انا پرستی زیادہ تر ان لوگوں میں پائی جاتی ہے جو خود کو بدلنا پسند نہیں کرتے، اس کے نتیجے میں ایسے لوگوں کو اپنی ذاتی زندگی میں، اپنے گھریلو معاملات میں اور یہاں تک کہ اپنے معاشی اور معاشرتی معاملات میں بھی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

تکبر اور انانیت والے کو اللہ رب ذوالجلال پسند نہیں فرماتا:

چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ:

اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْتَکْبِرِیْنَ۔ (پارہ: ۱۴، سورۃ النحل، آیت:۲۳)

ترجمہ: بے شک وہ مغروروں کو پسند نہیں فرماتا۔

امام محمد غزالی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: تکبر کی تین قسمیں ہیں:

(۱) وہ تکبر جو اللّہ پاک کے مقابلے میں ہو جیسے ابلیس، نمرود اور فرعون کا تکبر یا ایسے لوگوں کا تکبر جو خدائی کا دعویٰ کرتے ہیں اور اللّہ پاک کے بندوں سے نفرت کے طور پر منہ پھیرتے ہیں۔

(۲) وہ تکبر جو اللّہ پاک کے رسول ﷺ کے مقابلے میں ہو، جس طرح کفارِ مکہ نے کیا اور کہا کہ ہم آپ جیسے بشر کی اطاعت نہیں کریں گے، ہماری ہدایت کے لیے اللّہ پاک نے کوئی فرشتہ یا سردار کیوں نہیں بھیجا، آپ تو ایک یتیم شخص ہیں۔

(۳) وہ تکبر جو آدمی عام انسانوں پر کرے، جیسے انہیں حقارت سے دیکھے، حق کو نہ مانے اور خود کو بہتر اور بڑا جانے۔

(کیمیائے سعادت، رکن سوم: مہلکات، اصل نہم، پیدا کردن درجات کبر، ج:۲، ص:۷۰۷)

یاد رہے کہ تکبر کرنے سے انسان کافر تو نہیں ہوتا مگر گناہوں کا بہت بڑا بوجھ اپنے سر پر اُٹھا لیتا ہے اور جب تک توبہ نہیں کرے گا اس وقت تک وہ اس گناہ سے خلاصی نہیں پاسکتا ہے۔

’’ایگو‘‘ (انا) پیدا ہونے کی کثیر وجوہات میں سے ایک وجہ  زیادہ تعریف کا ہونا بھی ہے۔ اگر کسی شخص کی بار بار تعریف کی جائے یا اس کی کام یابیوں کو حد سے زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا جائے، تو وہ اپنی اہمیت کے متعلق غیرحقیقی خیالات پیدا کرلیتا ہے، جو ’’ایگو‘‘ کا باعث بنتے ہیں۔ یہ معاملہ اکثر ان لوگوں میں ہوتا ہے جو زیادہ مشہورومعروف ہوتے ہیں۔ شہرت کی وجہ سے کسی بھی تنقید کے نتیجے میں ’’ایگو‘‘ کا اظہار ہوتا ہے۔ اسی طرح بسا اوقات والدین کی تربیت کا انداز ایسا آمرانہ ہوتا ہے کہ وہ بچے کی شخصیت میں ’’ایگو‘‘پیدا کردیتا ہے۔ یعنی وہ والدین جو بچوں پر ضرورت سے زیادہ سختی کرتے ہیں تو اصولاً بچہ اپنے والدین سے ہی سیکھتا ہے کہ اسے کیا کرنا ہے۔ اگر والد ین میں ’’ایگو‘‘ ہوتی ہے تو بہت ممکن ہوتا ہے کہ بچہ بھی اسی طریقے پر چلتے ہوئے انانیت پسند ہوجاتا ہے یا اس کے برعکس اگر بچپن میں والدین اپنے بچے کو حد سے زیادہ ترجیح دیں اور اس کی ہر بات کو صحیح مانیں، تو بچے میں یہ احساس پیدا ہوجاتا ہے کہ وہ ہمیشہ درست ہے، جواس کے اندر ’’ایگو‘‘ پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے۔

 غلط صحبت بھی انانیت کی ایک بڑی وجہ ہے کہ جب ہم ایسے لوگوں کے ساتھ بیٹھتے ہیں جن کے افعال و اقوال میں غرور تکبر ظاہر ہوتا ہے تو ستر فی صد امکانات بڑھ جاتے ہیں کہ ہم بھی ان کا اثر قبول کرلیں گے اور غروروتکبر کا اظہار کرنے لگیں گے۔ جیسے اگر کوئی شریف النفس نوجوان اوباش اور بدتمیز لڑکوں میں بیٹھنے لگتا ہے تو نہ چاہتے ہوئے بھی اس میں بے باکی اور بدتمیزی کا عنصر آجاتا ہے۔

یوں دیکھا جائے تو اس مرض تکبر و انانیت کے بہت سے اسباب ہیں جن کی فہرست بنائی جائے تو تحریر طویل ہوجائے گی، مگر سوال یہ ہے کہ اگر ہم یا ہمارے اردگرد کوئی فرد ’’ایگو‘‘ کی اس سنگین بیماری میں مبتلاء ہے تو اسے کس طرح دور کیا جائے؟ اور کیسے اس کی شخصیت کو تبدیلی پر آمادہ کیا جائے؟

مشائخ کرام اور ماہرین تربیت کہتے ہیں کہ چند کام ایسے ہیں کہ جن کے کرنے سے انسان اس بیماری سے بچ سکتا ہے اور وہ مندرجہ ذیل ہیں:

۱) مثبت اندازِ گفتگو کے ذریعے اسے یہ باور کرایا جائے کہ تم بہت بہادر اور عاجزی کرنے والے شخص ہو۔

۲) روزانہ خود احتسابی کرنا اور اپنے قول و فعل پر غور کرنا کہ میں نے آج کیا کیا کام کیے ہیں۔

۳) سیرت مطہرہ کے وہ واقعات جو عاجزی و انکساری کا درس دیتے ہیں وہ اسے بتائے جائیں۔

۴) ایسے لوگوں کی صحبت کا مشورہ دیا جائے جو عاجزی و انکساری کرتے ہوں۔

۵) خودپسندی کے نقصانات بتائے جائیں اور اس کی مذمت بیان کی جائے مگر اندازِبیاں بہت شائستہ ہو۔

یہ وہ کام ہیں جو انسان کو عاجزی اور انکساری کی طرف لے جاتے ہیں۔ کسی دانش ور نے کیا خوب کہا تھا: ’’جو شخص تکبر کرتا ہے وہ بے وقوف ہے، کیوںکہ تکبر کرنا تو اللّہ رب ذوالجلال کی صفت ہے، وہی متکبر بھی ہے، جبار بھی ہے اور رحمٰن بھی۔‘‘

حضرت قطب ربانی ابومخدوم شاہ سید محمد طاہر اشرف جیلانی رحمہ اللہ نے ایک مرتبہ مریدین کی تربیت کرتے ہوئے فرمایا:’’اپنے آپ کو کم تر سمجھو اور اپنی عبادت پر ناز مت کرو بلکہ دوسروں کے مقابلے میں حقیر سمجھو، کیوںکہ بزرگانِ دین کا یہی معمول ہے۔‘‘ یعنی دنیاوی معاملات تو دنیاوی ہیں دینی معاملات میں بھی اپنے آپ کو کسی سے بڑا نہ سمجھو، اسی میں خیر ہے اسی میں بھلائی ہے۔

یہاں ایک بات خاص طور سے ذکر کرنے کی ضرورت ہے کہ جو لوگ انا پرستی کا شکار ہوتے ہیں تو انہیں صحیح کرنے لے لیے ہم بھی ’’ایگو‘‘ کا مظاہرہ کرتے ہوئے کوشش کرتے ہیں کہ اس شخص کی سختی اور غرور ختم ہوجائے، مگر اکثر طور پر ہمیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کیوںکہ یہ عمل غیرممکن ہے۔ لہٰذا کسی شخص کی ’’ایگو‘‘ کا خاتمہ اگر ممکن ہے تو محبت اور پیار کے ذریعے ہی ہوسکتا ہے، کیوںکہ محبت وہ ہتھیار ہے جو بڑے سے بڑے سنگ دل کو بھی موم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں عجزوانکساری عطا فرمائے اور ہمیں ظاہری و باطنی بیماریوں سے بچائے۔ آمین

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ایسے لوگوں تکبر جو ہوتا ہے ہیں کہ

پڑھیں:

جرگہ کا فیصلہ یا پھر دل کا ۔۔؟

عطاء اللہ ذکی ابڑو

آپ شرابی کے ساتھ چند منٹ گزاریں آپ محسوس کریں گے کہ زندگی بہت آسان ہے ، فقیروں، سادھوؤں یا سنیاسی بابوں کے پاس چلے جائیں ،آپ کو اپنا سب کچھ کسی کو تحفے میں دینے کی خواہش جاگے گی؟ کسی لیڈر سے مل لیں آپ محسوس کریں گے کہ آپ نے اتنا کچھ پڑھ کرابتک جھک ہی ماری ہے ؟ لائف انشورنس ایجنٹ کے سامنے چند منٹ بیٹھیں آپ محسوس کریں گے کہ مرنا کتنا سود مند ہے ؟ تاجروں کی سنیں گے تو آپ کو محسوس ہوگا کہ آپ کی کمائی آٹے میں نمک کے برابر ہے ؟ سائنسدانوں کی تحقیق دیکھیں گے تو آپ کو اپنی لاعلمی کا احساس ہوگا؟ ایک اچھے استاد سے ملیں گے تو آپ کو دوبارہ طالب علمی کا شوق جاگے گا ؟ غرض کہ آپ جیسی عینک پہنیں گے ویسا ہی آپ کو دکھائی دینے لگے گا ؟ وقت کا یہی تقاضا جو اس واقعے پر بھی پورا اترتا ہے ؟جسے آج آپ کے سامنے پیش کرنے جارہا ہوں ۔یہ واقعہ کوئٹہ کے نواحی گاوں ڈیگاری میں جون کے مہینہ میں پیش آیا، 37 سالہ خانو بی بی اور احسان اللہ نامی لڑکے کی سوشل میڈیا پر ایک جرگہ کے ہاتھوں قتل کی وڈیو وائرل ہوتے ہی ٹی وی پرچند ٹکرز چلے ، خبر گرم ہوئی اورہم نے اسے حقیقت مان کر بنا کچھ سوچے ،سمجھے اس واقعہ کو اپنے اپنے نظریہ سے پرکھنا شروع کردیا کسی نے اس ادھوری کہانی کا پورا سچ جاننے کی جستجو ہی نہیں کی؟ کہتے ہیں آدھا سچ پورے وجود کو برباد کرنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ اسی طرح اس واقعے کا بھی پورا سچ سامنے آنا ابھی باقی ہے ؟ تن تنہا بلوچستان کی سنگلاخ چٹانوں کے بیچ کھڑی نہتی لڑکی اورصرف اس کا آشنا ہی جرگے والوں کی بندوقوں کا نشانہ نہیں تھے دونوں کے قتل کی خبرسننے کے لیے اس کے پیچھے دو قبائل بانو اوراحسان اللہ کی موت کے منتظرتھے۔ اب یہ صرف ایک اکیلی خانو بی بی کی زندگی کا سوال نہیں تھا۔ اس کے پیچھے دونوں قبائل کے لوگوں کی زندگی داؤ پرلگی تھی اس لیے خانو نے ہنسی خوشی بندوق کی گولی سینے سے لگانے کو اپنے لیے تمغہ سمجھا اوراسے گلے لگاکر اپنے قبیلے کے کئی پیاروں کی زندگی بچالی ۔جی ہاں اس کڑی دھوپ تلے تپتے صحرا میں اکیلی خانو بی بی نہیں کھڑی تھی اس کی آنکھوں کے سامنے اس کے بچوں،بھائی، بہن،ماں اورباپ سمیت خاندان کے ایک ایک فرد کا چہرہ سامنے تھا جن کا قرض چکانے اپنے گھر کی دہلیز سے اس صحرا تک آئی تھی ؟ اورہاں شاید یہ اس کے عشق کا امتحان تھا ؟ وہ پہلے سے اپنے عقد میں ایک شوہراورکئی بچوں کو گھر میں اکیلا چھوڑ کراحسان کے ساتھ آئی تھی ؟ خانو پریہ بھی الزام تھا کہ وہ تین ماہ سے اپنے عاشق احسان اللہ کے ساتھ بغیر کسی نکاح کے یعنی کسی بھی ازدواجی تعلق کے بغیر شریعت کے حکم کی نفی کرتے ہوئے دن، رات بسرکررہی تھی ۔خانو اپنے اس عشق کے امتحان میں تو پوری اتر گئی مگر اپنے پیچھے اپنے مجازی خدا،پھول سے کھیلتے پانچ بچوں،ماں، باپ، بہن ،بھائی اوراپنے عاشق کی پہلی بیوی جس سے چار بچے بھی ہیں ۔اس کے قبیلے والوں کو بھی ساری زندگی کے لیے کڑے امتحان میں ڈال گئی؟
خانو نے جرگہ کا فیصلہ تو سنا تھا مگر لگتا ہے وہ آج بھی اپنے دل کے فیصلے پراٹل تھی؟ کیونکہ خانو نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے بندوق اٹھائے جرگہ کے کارندوں کو للکارا اورانہیں اپنی زبان میں کہا کہ ( صرسم ائنا اجازت اے نمے ) تمہیں صرف گولی مارنے کی اجازت ہے ؟ یعنی وہ کہہ رہی تھی کہ خبردار یہ جسم اب اس کے محبوب کی امانت ہے بعد مرنے کے اس کی بے حرمتی نہ کرنا؟ ڈیگاری کے صحرا میں خانو پر بندوقیں تانے کھڑے جرگہ کے کارندے 37سالہ خانو کو موت کے گھاٹ اتارنے کا یہ اقدام نہ اٹھاتے تو پیچھے احسان اللہ کا قبیلہ خانو بی بی کے پورے قبیلے کو موت کی گھاٹ اتارنے کے لیے گھات لگائے بیٹھا تھا؟ یہی وجہ تھی کہ خانوکے کنبے والوں نے ایک اکیلی لڑکی کو قبیلے کی بھینٹ چڑھاکر پہ در پہ سات گولیاں چلاکرکا اسے مٹی کا ڈھیر بنادیا؟ لاش کیلئے گڑھا کھودا اورخانو کو اسی صحرا کی مٹی کے سپرد کرکے چلتے بنے؟ دونوں قبائل کے سرکش لوگ شاید یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ بات منوں مٹی تلے دفن ہوگئی؟اوردونوں قبائل نے اپنا اٹل فیصلہ سناکراپنی اپنی زندگیاں بچالیں؟ یہ ان کی خام خیالی ثابت ہوئی؟ ان کا اصل امتحان توتب شروع ہوا جب ٹھیک ایک ماہ بعد سوشل میڈیا پران کے اپنے ہی کسی گروہ کے کارندے نے اس سبق آموزواقعے کی وڈیو کو سوشل میڈیا پراپ لوڈ کردی آناً فاناً ناک پر رومال رکھ غریبوں ، مسکینوں اور محتاجوں کا دم بھرنے والی فلاحی تنظیمیں باہر نکل آئیں؟حکومت سمیت پورا ملک حرکت میں آگیا ۔یہ واقعہ ایک ہولناک خبربن کر سوشل میڈیا کی زینت بن چکا تھا۔ پوری دنیا میں ہمارے سماجی رویوں کی عکاسی کر رہا تھا ؟فوٹیج نے دنیا میں پاکستان کے امیج اورانسانی رویوں کوخاک میں ملادیا تھا ؟ ادھرجوڈیشری بھی حرکت میں آچکی تھی اورمجسٹریٹ نے کوئٹہ واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے مارے جانے والے دونوں لڑکے اور لڑکی کی قبر کشائی کا حکم دیا ۔جرگہ میں قتل کا حکم دینے والا سردار شیر ستکزئی سمیت 13 افراد آج ریمانڈ پر ہیں اور ان پر اے ٹی سی ایکٹ کے تحت ایس ایچ او ہنہ کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا جا چکا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بلوچستان جرگہ میں کیا جانے والا یہ پہلا فیصلہ تھا یا پھر حکومت پہلی بار اس فیصلے سے آشنا ہوئی ؟ ایسا ہرگز نہیں ہے۔
آج بھی کئی قبائلی جرگے ہوتے ہیں اور ان جرگہ کے فیصلوں کا حکومت کو بھی انتظار رہتا ہے کیونکہ یہ اس ملک کے کئی قبیلوں کا رسم رواج ہے، کسی قبیلے میں یہ عورت ونی کے نام پر بھیڑیوں کی بھینٹ چڑھادی جاتی ہے تو کہیں کارو اور کاری غیرت کے سوال پر ابدی نیند سلادیا جاتا ہے تو کہیں اس حوا کی بیٹی کو زمینوں کا بٹوارہ بچانے کے لیے قرآن سے شادی کرنا پڑتی ہے ؟ اور جب بات پگدار کا سربچانے کی ہو تو وہ اپنی جان بخشی کے لیے اپنی جان سے پیاری کمسن بیٹی کو کسی کے باپ پر نچھاور کرتے دیر نہیں کرتے ؟ یہی پگدار سامنے والے کواپنی بیٹیاں بطور بیوی کے پیش کرکے اپنا سر بچاتے ہیں تب ان کی عزت ؟ غیرت کہاں چلی جاتی ہے ؟ یہ وہی قبائلی نظام ہے جو فاٹا میں بھی نافذالعمل تھا ،بلوچستان کے قبائل بھی اسی پر چلتے ہیں ؟ پنجاب اور سندھ میں بھی ان قبائلی سرداروں اور بھوتاروں کے آگے کسی کی ایک نہیں چلتی؟ ہمارے ملک کے حکمراں اگر ان سرداروں، وڈیروں اور جاگیرداوں کی نہیں سنیں گے تو پھر یہ تخت نشیں کیسے بنیں گے ؟آج بھی اس مملکت خداد میں تین الگ الگ قانون نافذ ہیں جہاں جرگہ کے فیصلے ہوتے ہیں ،وہاں حکومتی رٹ کہیں دکھائی نہیں دیتی ؟ اور جہاں حکومت اپنی رٹ قائم کرنا چاہتی ہے وہاں شریعت کورٹ کا قانون ہے ؟ الغرض کوئی شخص ملکی قوانین پر عمل نہیں کرتا ؟ جب ایک ریاست کے ہوتے ہوئے ایک ہی ملک میں تین الگ الگ قانون ہوں گے تو پھر اس طرح کی لاقانونیت کو کون روک سکتا ہے ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

متعلقہ مضامین

  • فساد قلب و نظر کی اصلاح مگر کیسے۔۔۔۔۔ ! 
  • شہباز گل آستین کا سانپ، تم نے عمران خان کو دھوکہ دیا، ایجنسیوں کو وہ باتیں بتائیں جن کا عمران خان کے فرشتوں کو بھی علم نہیں تھا : اعظم سواتی
  • مہم چلانا بانی کے بیٹوں کا حق ہے، لوگوں کو بتائیں عمران خان کو کرپشن کیس میں سزا ہوئی، عطا تارڑ
  • بھارتی انہیں کیسے ٹرول کر سکتے ہیں، ناصر چنیوٹی دلجیت دوسانجھ کے حق میں بول پڑے
  • شہباز گل آستین کا سانپ، تم نے عمران خان کو دھوکہ دیا، ایجنسیوں کو وہ باتیں بتائیں جن کا عمران خان کے فرشتوں کو بھی علم نہیں تھا : اعظم سواتی 
  • جرگہ کا فیصلہ یا پھر دل کا ۔۔؟
  • سیلابی صورتحال کی 1912ء کے ماڈل سے لوگوں کو ارلی وارننگ دی جا رہی ہے: شیری رحمان
  • دبئی میں بطور ویٹرس کام کرنے والی لڑکی مس یونیورس فلپائنز 2025 کی امیدوار کیسے بنی؟
  • غزہ: حصول خوراک کی کوشش میں 67 مزید فلسطینی اسرائیلی فائرنگ سے ہلاک
  • موقع نہیں ملے گا تو کھلاڑی صلاحیت کیسے منوائے گا، علی امین گنڈاپور