کوئٹہ کی بھیگی ہوئی سرد شام ہم علی احمد کرد سے ملاقات کے لیے جناح روڈ پر پہنچے تو بارش اپنی آخری ہچکیاں لے رہی تھی۔ طے شدہ وقت سے ایک گھنٹہ تاخیر کا سبب زیارت میں ہوتی رہی برف باری تھی۔ ہم بروس روڈ جو قیام پاکستان کے بعد اس لیے جناح روڈ میں بدل چکا تھا کہ قائد اعظم یہیں کہیں قیام کرتے تھے اور اپنے آخری ایام میں اسی روڈ سے زیارت لے جائے گئے تھے۔ جناح روڈ پر قائم سلیم میڈیکل سٹی کی بلڈنگ کے تیسرے۔ فلور پر جناب علی احمد کرد کا دفتر تھا اور نیچے آباد ترین چائے خانے تھے۔ ہم کرد صاحب کے کلرک کی رہنمائی میں غلام گردشوں ایسے دائروں میں اوپر اٹھتے ہوئے ان کی ہمت کو داد دیتے ہوئے ان کے کمرے تک پہنچ گئے۔ علی احمد کرد نے ہمارا اس طور بلوچی استقبال کیا کہ ہم اپنی پنجابی میزبانیوں پر شرمسار سے ہو گئے۔ علی احمد کرد کے دفتری کمرے میں کچھ الگ تھا جو اپنی جانب متوجہ کرتا تھا۔ قانون کی حوالہ جاتی کتب سے زیادہ مزاحمتی ادب، باغیانہ شاعری، ماضی کے مقتولین کی خود نوشتیں، سیاسی قیدیوں کی سرگزشتیں اور سچی آپ بیتیاں شیلفوں میں نمایاں تھیں۔ کرد صاحب کے سٹڈی ٹیبل پر جنگجوؤں کے دھاتی مجسمے، تلوار پکڑے گھڑ سوار، گھڑے اٹھاتی عورتیں اور شطرنج کے مہروں جیسی مورتیاں سیکڑوں کی تعداد میں پڑی تھیں۔ وہ وکیل رہنما سے بہت آگے سیاسی درد، سماجی دکھ اور ملکی محبت سے لبریز دانشور ہیں۔ انہوں نے چائے سے پہلے گفتگو کی پچ تیار کی اور پسماندگی کے اسباب، وجوہات اور ان کے حل پر بات کرتے کرتے ہر وقت کی افراتفری کے موضوع پر آ گئے۔ انہوں نے فرمایا کہ وہ عمران خان کو پسند نہیں کرتے مگر انہیں اس وقت کا مقبول ترین سیاست دان مانتے ہیں اور کیا حرج ہے کہ ان سے گفتگو کر کے مسئلہ حل کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ نہ جانے کس عقل کے بادشاہ نے یہ طریقہ ڈھونڈ نکالا ہے کہ اگر بلوچستان میں انتظامی عہدوں، یعنی گریڈ 17 کی اسامیوں کی بھرتی اور بعد میں پرموشن کے لیے مقتدر ایجنسیوں کی جانچ پڑتال کے بعد منظور نظر لوگوں کو تعینات کیا جائے تو بلوچستان، امن کاگہوارہ بن جائے گا اور راوی ہر طرف چین ہی چین لکھے گا، عام اور سادے الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایک چھوٹا ملازم صوبے کے افسران بالا یعنی کمشنر، ڈپٹی کمشنر، آئی جی اور ایس پی جیسے انتہائی با اختیار افسران کی تقرریوں کی منظوری دے گا تو لازمی طور پر اس کے لیے سب سے پہلے بلوچستان پبلک سروس کمیشن جو کہ افسران کی تقرری کا قانونی اور بااختیار ادارہ ہے، اسے سرے سے ہی ختم کرنا پڑے گا۔ صرف چند دن پہلے محض شک کی بنا پر، بی ایل اے سے کسی قسم کی ہمدردی یا تعلق رکھنے کے بنا پر بلوچستان میں کئی ہزار لوگوں کو انسداد دہشت گردی قانون 1997 کے فورتھ شیڈول کے تحت نوٹسز دئیے یا دلوائے گئے ہیں اور پولیس تھانے کی اجازت کے بغیر ان کی ہر طرح کی سرگرمیاں اور آمد و رفت پر پابندی لگا دی گئی ہے، واہ کیا زمانہ آ گیا ہے اور حکومت بلوچستان یقینا اپنے اس حکم کے لیے داد کی مستحق ہے۔ کہتے ہیں کہ اگر حکومت پہ خوف طاری ہو جائے تو وہ حکومت کرنے کے قابل نہیں رہ جاتی اور محض زبانی جمع خرچ کرنے کی وجہ سے عوام پہ ایک نفسیاتی اور ذہنی بوجھ بن کے رہ جاتا ہے۔ آئین اور قانون کے تحت منظور پشتین ہر شہری کی طرح تمام بنیادی حقوق کا حقدار ہے مگر ماضی قریب کے تمام ریکارڈ کو دیکھا جائے تو جتنی پابندیاں منظور پشتین کی سیاسی سرگرمیوں پہ لگائی گئی ہیں، یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومت اس کے اس عمل سے خوفزدہ ہے اور یہی اس کا سب سے بڑا گناہ ہے کہ وہ پورے ملک میں پھیلے ہوئے پشتونوں کو امن اور اپنے حقوق کے حصول کے لیے متحد کرنا چاہتا ہے۔ کرد صاحب نے بتایا کہ مجھے ایک شادی میں مدعو کیا گیا یہ اسلام آباد میں بڑی کلاس کی شادی تھی باقی لوگوں کو چھوڑ کر لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ اسد درانی میرے پاس آیا اور پوچھا۔ سنائیے کرد صاحب، بلوچستان کے کیا حالات ہیں؟۔ میں نے ان کے سوال کے جواب میں کہا کہ اگر آپ بندوق کی نالی سے بلوچستان کے مسئلے کو حل کرنا چاہتے ہیں تو میرے خیال میں یہ نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن ہے یہ سننا تھا کہ وہ پورے غصے کے ساتھ کہنے لگے کہ یہ سارے دشمن ملک کی ایجنسی کے ایجنٹ اور دہشت گرد ہیں اور ان کو ختم کرنا کوئی مشکل کام نہیں۔ آج اس ملاقات اور گفتگو کو 14 سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے مگر فرق صرف اتنا پڑا ہے کہ پہلے بی ایل اے کے کچھ لوگ کارروائی کرتے تھے آج کل بڑے گروپ کی صورت میں آتے ہیں اور جو چاہے کر کے چلے جاتے ہیں۔ وفاقی وزیر داخلہ اور طاقت ور ترین وزیر محسن نقوی کا یہ کہنا کہ بلوچوں کے یہ دہشت گرد ایک ایس ایچ او کی مار ہیں یہ اسد درانی کی سوچ کا دوسرا برانڈ ہے۔ صرف چار دن پہلے ایک ٹی وی چینل پہ کوئی بریگیڈیئر دفاعی تجزیہ نگار نے تقریباً چیختے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے ایک مہینے سے ملک میں جو افراتفری مچا رکھی ہے اسے پکڑو مارو اور تباہ کرو۔ یہ اسد درانی کے سوچ کی تیسری برانڈ ہے ملک میں ایک چوتھی برانڈ بھی موجود ہے جو بڑے فخر سے کہتی ہے کہ مشرقی پاکستان ایک ہزار میل دور واقعہ تھا جہاں پر فوج کے ٹینک نہیں جا سکتے تھے جبکہ یہاں پر یہ مشکلات نہیں ہیں۔ یہی وہ ساری بنیادی سوچ ہے جس کے تحت بلوچستان کے مسئلے کو پچھلے 76 سال سے حل کیا جا رہا ہے۔ میں ایک انسان ہوں اور بہت حساس طبیعت کا مالک ہوں۔ میں نے ہمیشہ تقریروں میں کہا ہے کہ میں اس پنجابی خاتون کو ساری زندگی نہیں بھول سکتا جس نے غربت کی وجہ سے اپنے خوبصورت دو بچوں کو اپنے بازوؤں میں لے کر نہر میں ڈوب کر خودکشی کی اور یہ بھی اسی ملک کا واقعہ ہے کہ ایک شخص نے غربت کی وجہ سے اپنے چار سال کے بچے سے لے کے 12 سال کے بچوں کے ساتھ بیوی کو ذبح کر کے ہلاک کیا، یہ ملک اب صرف امیروں کی جنت ہے جس میں 11 کروڑ سے زیادہ لوگ غربت اور افلاس کی زندگی گزارنے پہ مجبور ہیں، بلوچستان سیکڑوں سال سے ایک پُرامن علاقہ رہا ہے جس میں پٹھان، ہزارہ پنجابی، سندھی، سرائیکی، ہندو اور بلوچ بھائیوں کی طرح رہتے آ رہے ہیں۔ بلوچستان جیسے پُرامن علاقے میں جنہوں نے یہ خون خرابے کا گیم شو شروع کیا ہے اس کو ختم کرنے کی ذمہ داری بھی انہی کے اوپر ہے۔ بلوچستان کا مسئلہ مکمل طور پہ ایک سیاسی مسئلہ ہے اس کو بیٹھ کر حل کرنا ہم سب لوگوں کی ذمہ داری ہے مگر جن کے پاس طاقت ہے یہ فرض بھی انہی کا بنتا ہے۔
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: علی احمد ہیں اور کے لیے
پڑھیں:
بلوچستان کے زخموں پر مرہم رکھیں
بلوچستان کے مسئلے کو عشروں سے جس انداز میں نظر انداز اور غلط طریقے سے نپٹنے کی کوشش کی گئی ہے، اس نے حالات کو مزید پیچیدہ اور نازک بنا دیا ہے۔
ضروری ہے کہ ایک مربوط قومی کوشش کے ذریعے پچھلے برسوں کی غلطیوں کا ازالہ کیا جائے۔ مسائل کا حل حکومت کرسکتی ہے اور دیگر سیاسی قیادت معاونت، مگر مسئلہ یہ ہے کہ موجودہ وفاقی و صوبائی حکومتیں اور اسمبلیاں بنیادی جمہوری تقاضا یعنی عوام کے منصفانہ اور شفاف ووٹ سے منتخب ہونے کی شرائط پوری نہیں کرتیں۔
یہی وجہ ہے کہ ان حکومتوں کو وہ عوامی حمایت حاصل نہیں جو بلوچستان جیسے حساس اور پیچیدہ مسائل کو حل کرنے کے لیے درکار ہے۔ اس خلاء کو پْر کرنے کے لیے انھیں اسٹیبلشمنٹ کی مدد درکار ہوتی ہے، جو ماضی میں بارہا ثابت کر چکی ہے کہ وہ اس مسئلے کو صحیح انداز میں نہیں سنبھال سکی۔ معاشرتی، سیاسی اور معاشی مسائل کو حل کرنا دفاعی اداروں کا کام ہے اورنہ طاقت کے استعمال کی ضرورت ہے۔
اس وقت ضرورت یہ ہے کہ بلوچستان کے زخموں پر مرہم رکھاجائے۔ ان زخموں پر مرہم لگانا ہوگاجو اپنوں اور غیروں نے دیے ہیں۔تاریخی طور پر، خان آف قلات کی وساطت سے بلوچستان نے آزادی کے بعد پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا۔ یہ فیصلہ اْس وقت کے تقسیم ہند کے طے شدہ فارمولہ کے تحت کیا گیا جس میں ریاستوں کو بھارت یا پاکستان میں شمولیت کا اختیار دیا گیا تھا۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ بھارت نے اس فارمولہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے حیدرآباد اور جوناگڑھ پر جبراً قبضہ کیا اور کشمیر پر قبضے کے بعد آج تک قتل و غارتگری جاری ہے۔ بلوچستان کی تاریخی حیثیت ہر لحاظ سے واضح ہے… چاہے وہ افغانستان کے ساتھ قدیمی تعلقات ہوں، برطانوی راج سے آزادی ہو یا پھر گوادَر جیسے ساحلی علاقے کا سلطنتِ عمان سے ریاستی معاہدے کے تحت پاکستان میں شامل ہونا۔ بلوچستان کا اصل مسئلہ وہاں کے باسیوں کے حقوق کا ہے… بلوچ، پشتون، ہزارہ، اقلیتیں اور دوسرے صوبوں سے آ کر بسنے والے لوگ— سب کسی نہ کسی حد تک متاثر ہیں۔
قیامِ پاکستان کے بعد دیگر صوبوں اور ہندوستان سے آنے والے مہاجرین نے بلوچستان کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ بلوچستان کے عوام افسوس کے ساتھ اظہار کرتے ہیں کہ 1970 کی دہائی میں وفاقی و صوبائی حکومتوں کے درمیان اختلافات کی بنا پر مہاجرین کی بڑی تعداد کو صوبہ چھوڑنا پڑا، جس سے تعلیمی نظام شدید متاثر ہوا اور صوبہ طویل عرصے تک ماہر افرادی قوت کی تیاری میں پیچھے رہ گیا۔
آج بھی دیگر صوبوں سے تعلق رکھنے والے ہنر مند اور مزدوریہاں اہم خدمات سرانجام دے رہے ہیں، ان کی سلامتی اور فلاح نہ صرف انسانی بنیادوں پر ضروری ہے بلکہ بلوچستان کی ترقی کے لیے بھی لازم ہے۔ بلوچستان میں ایسے منصوبے بنانے کی ضرورت ہے کہ مقامی نوجوان بین الاقوامی معیار کی افرادی قوت بن سکیں۔اب ہمیں ماضی سے نکل کر مستقبل پر توجہ دینی ہے۔ مسائل کے حل کی طرف جانا ہوگا تاکہ بلوچستان ایک پْرامن اور خوشحال خطہ بنے۔ اس کے قدرتی وسائل سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے ساتھ ساتھ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ اصل دولت انسان ہے۔ انسانی وسائل کی ترقی ہی بلوچستان اور پاکستان کی پائیدارترقی اور خوشحالی کی ضامن ہے۔ بلوچستان کے نوجوانوں کو ایک روشن مستقبل دینا ہوگا تاکہ کوئی دوبارہ پہاڑوں کی طرف نہ دیکھے۔
بلوچستان کا سب سے بڑا مسئلہ میرٹ کی پامالی ہے۔ اسمبلیاں میرٹ پر منتخب ہوتی ہیں اور نہ ہی نوکریوں و تعلیمی اداروں میں میرٹ کا نظام موجود ہے۔ سرداری نظام صوبے کے باصلاحیت نوجوانوں کو آگے بڑھنے سے روک رہا ہے۔ عوام کو اس غلامی سے نجات دلانا ضروری ہے۔ عام آدمی سرداروں کے خلاف الیکشن لڑنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔
حقیقی حکمرانی اور فیصلوں کا اختیار سرداروں کے پاس ہے۔سو ل انتظامیہ اور دیگر اداروں میں ملازمتیں اور تعلیمی مواقع بھی سرداروں اور بااثر طبقات کو ہی ملتے ہیں۔ یہی نظام کاروبار اور ٹھیکوں میں بھی کام آتا ہے، یہاں تک کہ اسمگلنگ جیسے غیر قانونی کام بھی انھی تعلقات کی بنیاد پر فروغ پاتے ہیں۔
سرداروں اور سرکاری اداروں کا یہ اتحاد بلوچستان کو تباہی کے دہانے پر لے آیا ہے۔یہی میرٹ کی پامالی سرکاری و نجی شعبے کے ناکامیوں کی جڑ ہے۔ جو بھی رقم وفاق یا این ایف سی ایوارڈ کے ذریعے آتی ہے، وہ ضایع ہوجاتی ہے۔ مثال کے طور پر 100 ڈیمز کا منصوبہ جو مکمل ہونے سے پہلے ہی سیلاب میں بہہ گیا۔
بلوچستان کے نوجوانوں کو تعلیم، روزگار اور کاروبار کے منصفانہ مواقع دینے سے کئی مسائل خود بخود ختم ہو سکتے ہیں۔ بلوچستان کے نوجوان مایوس ہیں اور یہ مایوسی بیرونی پروپیگنڈے کو کامیاب بناتی ہے، جس کا مقصد علیحدگی پسند ذہنیت پیدا کرنا ہے۔ ہمیں پہلے اپنی غلطیوں کو دیکھنا چاہیے۔چند مثالیں واضح کریں گی کہ بلوچستان کے عام آدمی کے ساتھ کیا ظلم ہو رہا ہے۔ گوادر سی پیک کا مرکز ہے، مگر مقامی آبادی حکومتی توجہ سے محروم ہے۔
غریب ماہی گیر غیر قانونی جالوں سے تنگ ہیں جو سمندر کی حیاتیات کو ختم کر رہے ہیں۔ ایرانی سرحد سے ضروری اشیاء کی نقل و حرکت پر عام لوگوں کو روکا جاتا ہے جب کہ اسمگلرز آزادانہ کام کر رہے ہیں۔ چمن بارڈر پر بھی یہی صورتحال ہے۔ترقی کے اعتبار سے بلوچستان پیچھے ہے۔ سی پیک کے ذریعے بلوچستان کی سڑکوں، صنعت، اور ہنر سازی میں سرمایہ کاری اور چین کے منصوبوں کو بلوچستان میں لانے میں ناکام رہے، نہ ہی ہم نے سی پیک اسکالرشپ کے لیے بلوچستان کے نوجوانوں کو تیار کیا۔ یہی وجہ ہے کہ منصوبے رْکے ہوئے ہیں یا تاخیر کا شکار ہیں۔ اگر صنعتی زونز پر توجہ دی جاتی، تو روزگار اور معیشت میں بہتری آتی۔
بلوچستان کے آئینی حقوق کو تسلیم کرنا ضروری ہے۔ ان حقوق کے لیے جائز جدوجہد کو طاقت سے کچلنا بغاوت کو ہوا دینے کے مترادف ہے۔ اجتماعی سزا اور ''collateral damage'' سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ جبری گمشدگیاں اور ماورائے عدالت قتل بلوچستان کے امن کو تاراج کررہے ہیں۔
بلوچستان کا ایک اور آئینی حق گیس کی فراہمی ہے۔ آئین کے آرٹیکل 158 کے تحت یہ حق محفوظ ہے۔ سچ یہ ہے کہ بلوچستان کے سوئی سے 1950 میں گیس دریافت ہوئی مگر آج تک بلوچستان کے بیشتر علاقوں کو گیس نہیں ملی۔ جس سے صنعتی ترقی بھی نہیں ہورہی۔ سخت موسم والے علاقوں جیسے ژوب، زیارت، اور قلات کے لوگ گیس کی عدم دستیابی کی وجہ سے قیمتی جنگلات کاٹنے پر مجبور ہیں۔
جماعت اسلامی بلوچستان کو امن اور ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے پرعزم ہے۔ ہم بلوچستان کو دیگر صوبوں کے برابر لانے کے لیے 25 جولائی 2025 کو کوئٹہ سے اسلام آباد تک ایک لانگ مارچ کا انعقاد کر رہے ہیں۔ ہم قومی و صوبائی قیادت سے رابطے میں ہیں تاکہ امن کا روڈ میپ طے کیا جا سکے۔ ہم تمام اسٹیک ہولڈرز کو شامل کرکے کچھ عملی منصوبے بھی شروع کریں گے۔ ان میں سے ایک ''بنو قابل'' پروگرام ہے، جسے ہم بلوچستان میں توسیع دے رہے ہیں تاکہ نوجوانوں کو آئی ٹی کی مہارت دی جا سکے اور انھیں بہتر روزگار کے مواقع فراہم ہوں۔
جماعت اسلامی نہ صرف ایک قومی جماعت ہے بلکہ اْمتِ مسلمہ اور انسانیت کے اعلیٰ اصولوں سے جڑی ہوئی تحریک ہے، جو ہر قسم کی تقسیم سے بالاتر ہے۔ ہم یقین رکھتے ہیں کہ یہی اتحاد اور سب کے لیے عدل، خطے میں پائیدار امن اور خوشحالی کی بنیاد رکھ سکتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا:
''اور اگر بستیوں والے ایمان لاتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان و زمین کی برکتیں کھول دیتے...