Nai Baat:
2025-11-03@10:04:05 GMT

علی احمد کرد سے ملاقات

اشاعت کی تاریخ: 28th, January 2025 GMT

علی احمد کرد سے ملاقات

کوئٹہ کی بھیگی ہوئی سرد شام ہم علی احمد کرد سے ملاقات کے لیے جناح روڈ پر پہنچے تو بارش اپنی آخری ہچکیاں لے رہی تھی۔ طے شدہ وقت سے ایک گھنٹہ تاخیر کا سبب زیارت میں ہوتی رہی برف باری تھی۔ ہم بروس روڈ جو قیام پاکستان کے بعد اس لیے جناح روڈ میں بدل چکا تھا کہ قائد اعظم یہیں کہیں قیام کرتے تھے اور اپنے آخری ایام میں اسی روڈ سے زیارت لے جائے گئے تھے۔ جناح روڈ پر قائم سلیم میڈیکل سٹی کی بلڈنگ کے تیسرے۔ فلور پر جناب علی احمد کرد کا دفتر تھا اور نیچے آباد ترین چائے خانے تھے۔ ہم کرد صاحب کے کلرک کی رہنمائی میں غلام گردشوں ایسے دائروں میں اوپر اٹھتے ہوئے ان کی ہمت کو داد دیتے ہوئے ان کے کمرے تک پہنچ گئے۔ علی احمد کرد نے ہمارا اس طور بلوچی استقبال کیا کہ ہم اپنی پنجابی میزبانیوں پر شرمسار سے ہو گئے۔ علی احمد کرد کے دفتری کمرے میں کچھ الگ تھا جو اپنی جانب متوجہ کرتا تھا۔ قانون کی حوالہ جاتی کتب سے زیادہ مزاحمتی ادب، باغیانہ شاعری، ماضی کے مقتولین کی خود نوشتیں، سیاسی قیدیوں کی سرگزشتیں اور سچی آپ بیتیاں شیلفوں میں نمایاں تھیں۔ کرد صاحب کے سٹڈی ٹیبل پر جنگجوؤں کے دھاتی مجسمے، تلوار پکڑے گھڑ سوار، گھڑے اٹھاتی عورتیں اور شطرنج کے مہروں جیسی مورتیاں سیکڑوں کی تعداد میں پڑی تھیں۔ وہ وکیل رہنما سے بہت آگے سیاسی درد، سماجی دکھ اور ملکی محبت سے لبریز دانشور ہیں۔ انہوں نے چائے سے پہلے گفتگو کی پچ تیار کی اور پسماندگی کے اسباب، وجوہات اور ان کے حل پر بات کرتے کرتے ہر وقت کی افراتفری کے موضوع پر آ گئے۔ انہوں نے فرمایا کہ وہ عمران خان کو پسند نہیں کرتے مگر انہیں اس وقت کا مقبول ترین سیاست دان مانتے ہیں اور کیا حرج ہے کہ ان سے گفتگو کر کے مسئلہ حل کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ نہ جانے کس عقل کے بادشاہ نے یہ طریقہ ڈھونڈ نکالا ہے کہ اگر بلوچستان میں انتظامی عہدوں، یعنی گریڈ 17 کی اسامیوں کی بھرتی اور بعد میں پرموشن کے لیے مقتدر ایجنسیوں کی جانچ پڑتال کے بعد منظور نظر لوگوں کو تعینات کیا جائے تو بلوچستان، امن کاگہوارہ بن جائے گا اور راوی ہر طرف چین ہی چین لکھے گا، عام اور سادے الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایک چھوٹا ملازم صوبے کے افسران بالا یعنی کمشنر، ڈپٹی کمشنر، آئی جی اور ایس پی جیسے انتہائی با اختیار افسران کی تقرریوں کی منظوری دے گا تو لازمی طور پر اس کے لیے سب سے پہلے بلوچستان پبلک سروس کمیشن جو کہ افسران کی تقرری کا قانونی اور بااختیار ادارہ ہے، اسے سرے سے ہی ختم کرنا پڑے گا۔ صرف چند دن پہلے محض شک کی بنا پر، بی ایل اے سے کسی قسم کی ہمدردی یا تعلق رکھنے کے بنا پر بلوچستان میں کئی ہزار لوگوں کو انسداد دہشت گردی قانون 1997 کے فورتھ شیڈول کے تحت نوٹسز دئیے یا دلوائے گئے ہیں اور پولیس تھانے کی اجازت کے بغیر ان کی ہر طرح کی سرگرمیاں اور آمد و رفت پر پابندی لگا دی گئی ہے، واہ کیا زمانہ آ گیا ہے اور حکومت بلوچستان یقینا اپنے اس حکم کے لیے داد کی مستحق ہے۔ کہتے ہیں کہ اگر حکومت پہ خوف طاری ہو جائے تو وہ حکومت کرنے کے قابل نہیں رہ جاتی اور محض زبانی جمع خرچ کرنے کی وجہ سے عوام پہ ایک نفسیاتی اور ذہنی بوجھ بن کے رہ جاتا ہے۔ آئین اور قانون کے تحت منظور پشتین ہر شہری کی طرح تمام بنیادی حقوق کا حقدار ہے مگر ماضی قریب کے تمام ریکارڈ کو دیکھا جائے تو جتنی پابندیاں منظور پشتین کی سیاسی سرگرمیوں پہ لگائی گئی ہیں، یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومت اس کے اس عمل سے خوفزدہ ہے اور یہی اس کا سب سے بڑا گناہ ہے کہ وہ پورے ملک میں پھیلے ہوئے پشتونوں کو امن اور اپنے حقوق کے حصول کے لیے متحد کرنا چاہتا ہے۔ کرد صاحب نے بتایا کہ مجھے ایک شادی میں مدعو کیا گیا یہ اسلام آباد میں بڑی کلاس کی شادی تھی باقی لوگوں کو چھوڑ کر لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ اسد درانی میرے پاس آیا اور پوچھا۔ سنائیے کرد صاحب، بلوچستان کے کیا حالات ہیں؟۔ میں نے ان کے سوال کے جواب میں کہا کہ اگر آپ بندوق کی نالی سے بلوچستان کے مسئلے کو حل کرنا چاہتے ہیں تو میرے خیال میں یہ نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن ہے یہ سننا تھا کہ وہ پورے غصے کے ساتھ کہنے لگے کہ یہ سارے دشمن ملک کی ایجنسی کے ایجنٹ اور دہشت گرد ہیں اور ان کو ختم کرنا کوئی مشکل کام نہیں۔ آج اس ملاقات اور گفتگو کو 14 سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے مگر فرق صرف اتنا پڑا ہے کہ پہلے بی ایل اے کے کچھ لوگ کارروائی کرتے تھے آج کل بڑے گروپ کی صورت میں آتے ہیں اور جو چاہے کر کے چلے جاتے ہیں۔ وفاقی وزیر داخلہ اور طاقت ور ترین وزیر محسن نقوی کا یہ کہنا کہ بلوچوں کے یہ دہشت گرد ایک ایس ایچ او کی مار ہیں یہ اسد درانی کی سوچ کا دوسرا برانڈ ہے۔ صرف چار دن پہلے ایک ٹی وی چینل پہ کوئی بریگیڈیئر دفاعی تجزیہ نگار نے تقریباً چیختے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے ایک مہینے سے ملک میں جو افراتفری مچا رکھی ہے اسے پکڑو مارو اور تباہ کرو۔ یہ اسد درانی کے سوچ کی تیسری برانڈ ہے ملک میں ایک چوتھی برانڈ بھی موجود ہے جو بڑے فخر سے کہتی ہے کہ مشرقی پاکستان ایک ہزار میل دور واقعہ تھا جہاں پر فوج کے ٹینک نہیں جا سکتے تھے جبکہ یہاں پر یہ مشکلات نہیں ہیں۔ یہی وہ ساری بنیادی سوچ ہے جس کے تحت بلوچستان کے مسئلے کو پچھلے 76 سال سے حل کیا جا رہا ہے۔ میں ایک انسان ہوں اور بہت حساس طبیعت کا مالک ہوں۔ میں نے ہمیشہ تقریروں میں کہا ہے کہ میں اس پنجابی خاتون کو ساری زندگی نہیں بھول سکتا جس نے غربت کی وجہ سے اپنے خوبصورت دو بچوں کو اپنے بازوؤں میں لے کر نہر میں ڈوب کر خودکشی کی اور یہ بھی اسی ملک کا واقعہ ہے کہ ایک شخص نے غربت کی وجہ سے اپنے چار سال کے بچے سے لے کے 12 سال کے بچوں کے ساتھ بیوی کو ذبح کر کے ہلاک کیا، یہ ملک اب صرف امیروں کی جنت ہے جس میں 11 کروڑ سے زیادہ لوگ غربت اور افلاس کی زندگی گزارنے پہ مجبور ہیں، بلوچستان سیکڑوں سال سے ایک پُرامن علاقہ رہا ہے جس میں پٹھان، ہزارہ پنجابی، سندھی، سرائیکی، ہندو اور بلوچ بھائیوں کی طرح رہتے آ رہے ہیں۔ بلوچستان جیسے پُرامن علاقے میں جنہوں نے یہ خون خرابے کا گیم شو شروع کیا ہے اس کو ختم کرنے کی ذمہ داری بھی انہی کے اوپر ہے۔ بلوچستان کا مسئلہ مکمل طور پہ ایک سیاسی مسئلہ ہے اس کو بیٹھ کر حل کرنا ہم سب لوگوں کی ذمہ داری ہے مگر جن کے پاس طاقت ہے یہ فرض بھی انہی کا بنتا ہے۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: علی احمد ہیں اور کے لیے

پڑھیں:

عوام سے کوئی ایسا وعدہ نہیں کریں گے جو پورا نہ ہو، وزیراعلیٰ بلوچستان

وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ عوام کے اعتماد پر پورا اترنے کی ہر ممکن کوشش کررہے ہیں، کوئی ایسا وعدہ نہیں کریں گے جو پورا نہ ہو۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق بلوچستان کے دور دراز اور پسماندہ علاقے سنجاوی میں اتوار کو اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ بلوچستان کے ہر کونے میں جانے کو تیار ہوں، وسائل کی کمی ہو تو پیدل بھی عوام تک پہنچوں گا.

انہوں نے کہا کہ صوبے کے وسائل اور مسائل سب کے سامنے ہیں مگر صوبائی حکومت کی اولین ترجیح وسائل کے شفاف اور درست استعمال کو یقینی بنانا ہے, جو وعدہ کیا وہ پورا کیا ہے، کوئی ایسا وعدہ نہیں کریں گے جو پورا نہ ہو۔

انہوں نے کہا کہ عوام کے اعتماد پر پورا اترنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ وزیراعلیٰ نے سنجاوی کو ترقی کے نقشے پر نمایاں کرنے کیلئے فوری طور پر کئی بڑے اعلانات کیے جو علاقے کی صحت، تعلیم، انفراسٹرکچر اور سیکیورٹی کو انقلابی تبدیلی دیں گے۔

انہوں نے تحصیل ہیڈکوارٹر اسپتال سنجاوی کو 20 بستروں پر مشتمل مثالی طبی ادارے میں تبدیل کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ اسپتال کو بیکڑ کی طرز پر پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت فعال بنایا جائے گا۔

اس موقع پر اسپتال کا دورہ کرتے ہوئے انہوں نے ڈاکٹرز اور عملے سے ملاقات کی اور مریضوں کی فوری سہولیات کیلئے ہدایات جاری کیں تعلیم کے شعبے میں سنجاوی کے بوائز اور گرلز کالجز کیلئے علیحدہ عمارتوں کی تعمیر اور دو بسوں کی فراہمی کا فیصلہ کیا گیا۔

وزیراعلیٰ نے کیڈٹ کالج زیارت میں سنجاوی کے طلبہ کیلئے دو نئے بلاکس اور چار بسوں کی فراہمی کا بھی اعلان کیا۔

انہوں نے بتایا کہ زیارت کے 14 غیر فعال اسکول موسم سرما کی تعطیلات کے بعد مکمل طور پر فعال ہوں گے جبکہ محکمہ تعلیم میں بھرتیاں سو فیصد میرٹ پر کی جا رہی ہیں۔

وزیراعلیٰ نے کہا کہ میرٹ کی خلاف ورزی کی نشاندہی کی جائے تو فوری کارروائی یقینی بنائی جائے گی ۔

سیکیورٹی اور انفراسٹرکچر کے حوالے سے وزیراعلیٰ نے عوامی مطالبے پر سنجاوی میں چار نئے پولیس اسٹیشنز قائم کرنے، بائی پاس اور نشاندہی کردہ 15 کلومیٹر نئی سڑک کی تعمیر کا اعلان کیا۔

انہوں نے افسران و اہلکاروں کیلئے نیا انتظامی کمپلیکس تعمیر کرنے کا بھی وعدہ کیا، لیویز کو پولیس میں ضم کرنے کے فیصلے کو بظاہر غیر مقبول مگر وقت کی ضرورت قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ دیرپا امن کیلئے ضروری ہے لینڈ سیٹلمنٹ کے عمل کا آغاز کرتے ہوئے۔

وزیراعلیٰ نے کہا کہ سنجاوی کیلئے یہ عمل فوری شروع ہوگا جبکہ بلوچستان بھر میں انتظامی حدود کا ازسرنو تعین کیا جا رہا ہے، زیارت میں نئے ضلع کے قیام پر اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے سنجیدہ غور جاری ہے ۔

اجتماع سے قبل وزیراعلیٰ نے استحکام پاکستان فٹ بال ٹورنامنٹ کے فائنل میچ میں شرکت کی اور کھلاڑیوں میں انعامات تقسیم کیے۔ انہوں نے نوجوانوں کی صلاحیتوں کو سراہتے ہوئے کھیلوں کے فروغ کیلئے مزید اقدامات کا وعدہ کیا۔

دورے کے دوران صوبائی وزیر حاجی نور محمد خان ڈمر، پارلیمانی سیکریٹری ولی محمد نورزئی، سردار کوہیار خان ڈومکی اور میر اصغر رند سمیت اعلیٰ حکام موجود تھے۔

وزیراعلیٰ ہیلی کاپٹر کے ذریعے سنجاوی پہنچے جہاں ڈپٹی کمشنر محمد ریاض خان داوڑ نے پرتپاک استقبال کیا عوام نے وزیراعلیٰ کے اعلانات پر زوردار نعرے بازی کی اور انہیں خراج تحسین پیش کیا۔

متعلقہ مضامین

  • لاہور: اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان کا نئے انوائرمنٹ ایکٹ لانے کا مطالبہ
  • عوام سے کوئی ایسا وعدہ نہیں کریں گے جو پورا نہ ہو; وزیراعلیٰ بلوچستان
  • عوام سے کوئی ایسا وعدہ نہیں کریں گے جو پورا نہ ہو، وزیراعلیٰ بلوچستان
  • بلوچستان حکومت کا نوعمر قیدیوں کیلئے علیحدہ جیل بنانے کا فیصلہ
  • بلوچستان حکومت کا نو عمر قیدیوں کیلئے علیحدہ جیل بنانے کا فیصلہ
  • خطے میں کسی نے بدمعاشی ثابت کی تو پاکستان بھرپور جواب دے گا: ملک احمد خان
  • مخلوط تعلیمی نظام ختم کیا جائے،طلبہ یونین بحال کی جائے،احمد عبداللہ
  • بلوچستان کی ترقی کے بغیر ملک آگے نہیں بڑھ سکتا: حافظ نعیم الرحمن
  • حکمرانوں کو مانگنے اور کشکول اٹھانے کی عادت پڑ چکی ہے، حافظ تنویر احمد
  • ہماری کوشش ہے کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ایک مؤثر رابطے کا کردار ادا کیا جائے، محمود مولوی کا شاہ محمود قریشی سے ملاقات کے بعد بیان