Nai Baat:
2025-09-18@22:23:28 GMT

علی احمد کرد سے ملاقات

اشاعت کی تاریخ: 28th, January 2025 GMT

علی احمد کرد سے ملاقات

کوئٹہ کی بھیگی ہوئی سرد شام ہم علی احمد کرد سے ملاقات کے لیے جناح روڈ پر پہنچے تو بارش اپنی آخری ہچکیاں لے رہی تھی۔ طے شدہ وقت سے ایک گھنٹہ تاخیر کا سبب زیارت میں ہوتی رہی برف باری تھی۔ ہم بروس روڈ جو قیام پاکستان کے بعد اس لیے جناح روڈ میں بدل چکا تھا کہ قائد اعظم یہیں کہیں قیام کرتے تھے اور اپنے آخری ایام میں اسی روڈ سے زیارت لے جائے گئے تھے۔ جناح روڈ پر قائم سلیم میڈیکل سٹی کی بلڈنگ کے تیسرے۔ فلور پر جناب علی احمد کرد کا دفتر تھا اور نیچے آباد ترین چائے خانے تھے۔ ہم کرد صاحب کے کلرک کی رہنمائی میں غلام گردشوں ایسے دائروں میں اوپر اٹھتے ہوئے ان کی ہمت کو داد دیتے ہوئے ان کے کمرے تک پہنچ گئے۔ علی احمد کرد نے ہمارا اس طور بلوچی استقبال کیا کہ ہم اپنی پنجابی میزبانیوں پر شرمسار سے ہو گئے۔ علی احمد کرد کے دفتری کمرے میں کچھ الگ تھا جو اپنی جانب متوجہ کرتا تھا۔ قانون کی حوالہ جاتی کتب سے زیادہ مزاحمتی ادب، باغیانہ شاعری، ماضی کے مقتولین کی خود نوشتیں، سیاسی قیدیوں کی سرگزشتیں اور سچی آپ بیتیاں شیلفوں میں نمایاں تھیں۔ کرد صاحب کے سٹڈی ٹیبل پر جنگجوؤں کے دھاتی مجسمے، تلوار پکڑے گھڑ سوار، گھڑے اٹھاتی عورتیں اور شطرنج کے مہروں جیسی مورتیاں سیکڑوں کی تعداد میں پڑی تھیں۔ وہ وکیل رہنما سے بہت آگے سیاسی درد، سماجی دکھ اور ملکی محبت سے لبریز دانشور ہیں۔ انہوں نے چائے سے پہلے گفتگو کی پچ تیار کی اور پسماندگی کے اسباب، وجوہات اور ان کے حل پر بات کرتے کرتے ہر وقت کی افراتفری کے موضوع پر آ گئے۔ انہوں نے فرمایا کہ وہ عمران خان کو پسند نہیں کرتے مگر انہیں اس وقت کا مقبول ترین سیاست دان مانتے ہیں اور کیا حرج ہے کہ ان سے گفتگو کر کے مسئلہ حل کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ نہ جانے کس عقل کے بادشاہ نے یہ طریقہ ڈھونڈ نکالا ہے کہ اگر بلوچستان میں انتظامی عہدوں، یعنی گریڈ 17 کی اسامیوں کی بھرتی اور بعد میں پرموشن کے لیے مقتدر ایجنسیوں کی جانچ پڑتال کے بعد منظور نظر لوگوں کو تعینات کیا جائے تو بلوچستان، امن کاگہوارہ بن جائے گا اور راوی ہر طرف چین ہی چین لکھے گا، عام اور سادے الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایک چھوٹا ملازم صوبے کے افسران بالا یعنی کمشنر، ڈپٹی کمشنر، آئی جی اور ایس پی جیسے انتہائی با اختیار افسران کی تقرریوں کی منظوری دے گا تو لازمی طور پر اس کے لیے سب سے پہلے بلوچستان پبلک سروس کمیشن جو کہ افسران کی تقرری کا قانونی اور بااختیار ادارہ ہے، اسے سرے سے ہی ختم کرنا پڑے گا۔ صرف چند دن پہلے محض شک کی بنا پر، بی ایل اے سے کسی قسم کی ہمدردی یا تعلق رکھنے کے بنا پر بلوچستان میں کئی ہزار لوگوں کو انسداد دہشت گردی قانون 1997 کے فورتھ شیڈول کے تحت نوٹسز دئیے یا دلوائے گئے ہیں اور پولیس تھانے کی اجازت کے بغیر ان کی ہر طرح کی سرگرمیاں اور آمد و رفت پر پابندی لگا دی گئی ہے، واہ کیا زمانہ آ گیا ہے اور حکومت بلوچستان یقینا اپنے اس حکم کے لیے داد کی مستحق ہے۔ کہتے ہیں کہ اگر حکومت پہ خوف طاری ہو جائے تو وہ حکومت کرنے کے قابل نہیں رہ جاتی اور محض زبانی جمع خرچ کرنے کی وجہ سے عوام پہ ایک نفسیاتی اور ذہنی بوجھ بن کے رہ جاتا ہے۔ آئین اور قانون کے تحت منظور پشتین ہر شہری کی طرح تمام بنیادی حقوق کا حقدار ہے مگر ماضی قریب کے تمام ریکارڈ کو دیکھا جائے تو جتنی پابندیاں منظور پشتین کی سیاسی سرگرمیوں پہ لگائی گئی ہیں، یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومت اس کے اس عمل سے خوفزدہ ہے اور یہی اس کا سب سے بڑا گناہ ہے کہ وہ پورے ملک میں پھیلے ہوئے پشتونوں کو امن اور اپنے حقوق کے حصول کے لیے متحد کرنا چاہتا ہے۔ کرد صاحب نے بتایا کہ مجھے ایک شادی میں مدعو کیا گیا یہ اسلام آباد میں بڑی کلاس کی شادی تھی باقی لوگوں کو چھوڑ کر لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ اسد درانی میرے پاس آیا اور پوچھا۔ سنائیے کرد صاحب، بلوچستان کے کیا حالات ہیں؟۔ میں نے ان کے سوال کے جواب میں کہا کہ اگر آپ بندوق کی نالی سے بلوچستان کے مسئلے کو حل کرنا چاہتے ہیں تو میرے خیال میں یہ نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن ہے یہ سننا تھا کہ وہ پورے غصے کے ساتھ کہنے لگے کہ یہ سارے دشمن ملک کی ایجنسی کے ایجنٹ اور دہشت گرد ہیں اور ان کو ختم کرنا کوئی مشکل کام نہیں۔ آج اس ملاقات اور گفتگو کو 14 سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے مگر فرق صرف اتنا پڑا ہے کہ پہلے بی ایل اے کے کچھ لوگ کارروائی کرتے تھے آج کل بڑے گروپ کی صورت میں آتے ہیں اور جو چاہے کر کے چلے جاتے ہیں۔ وفاقی وزیر داخلہ اور طاقت ور ترین وزیر محسن نقوی کا یہ کہنا کہ بلوچوں کے یہ دہشت گرد ایک ایس ایچ او کی مار ہیں یہ اسد درانی کی سوچ کا دوسرا برانڈ ہے۔ صرف چار دن پہلے ایک ٹی وی چینل پہ کوئی بریگیڈیئر دفاعی تجزیہ نگار نے تقریباً چیختے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے ایک مہینے سے ملک میں جو افراتفری مچا رکھی ہے اسے پکڑو مارو اور تباہ کرو۔ یہ اسد درانی کے سوچ کی تیسری برانڈ ہے ملک میں ایک چوتھی برانڈ بھی موجود ہے جو بڑے فخر سے کہتی ہے کہ مشرقی پاکستان ایک ہزار میل دور واقعہ تھا جہاں پر فوج کے ٹینک نہیں جا سکتے تھے جبکہ یہاں پر یہ مشکلات نہیں ہیں۔ یہی وہ ساری بنیادی سوچ ہے جس کے تحت بلوچستان کے مسئلے کو پچھلے 76 سال سے حل کیا جا رہا ہے۔ میں ایک انسان ہوں اور بہت حساس طبیعت کا مالک ہوں۔ میں نے ہمیشہ تقریروں میں کہا ہے کہ میں اس پنجابی خاتون کو ساری زندگی نہیں بھول سکتا جس نے غربت کی وجہ سے اپنے خوبصورت دو بچوں کو اپنے بازوؤں میں لے کر نہر میں ڈوب کر خودکشی کی اور یہ بھی اسی ملک کا واقعہ ہے کہ ایک شخص نے غربت کی وجہ سے اپنے چار سال کے بچے سے لے کے 12 سال کے بچوں کے ساتھ بیوی کو ذبح کر کے ہلاک کیا، یہ ملک اب صرف امیروں کی جنت ہے جس میں 11 کروڑ سے زیادہ لوگ غربت اور افلاس کی زندگی گزارنے پہ مجبور ہیں، بلوچستان سیکڑوں سال سے ایک پُرامن علاقہ رہا ہے جس میں پٹھان، ہزارہ پنجابی، سندھی، سرائیکی، ہندو اور بلوچ بھائیوں کی طرح رہتے آ رہے ہیں۔ بلوچستان جیسے پُرامن علاقے میں جنہوں نے یہ خون خرابے کا گیم شو شروع کیا ہے اس کو ختم کرنے کی ذمہ داری بھی انہی کے اوپر ہے۔ بلوچستان کا مسئلہ مکمل طور پہ ایک سیاسی مسئلہ ہے اس کو بیٹھ کر حل کرنا ہم سب لوگوں کی ذمہ داری ہے مگر جن کے پاس طاقت ہے یہ فرض بھی انہی کا بنتا ہے۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: علی احمد ہیں اور کے لیے

پڑھیں:

بلوچستان کا پورا بوجھ کراچی کے سول اور جناح اسپتال اٹھا رہے ہیں، ترجمان سندھ حکومت

خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سعدیہ جاوید نے کہا کہ محکمہ صحت میں بائیو میٹرک کا نظام متعارف کرایا جارہا ہے، جو ڈاکٹر یا اسٹاف ڈیوٹی پر نہیں ہوگا ان کیخلاف سخت کارروائی ہوگی، پنجاب میں جس طرح تباہی ہوئی ہے صوبائی حکومت اکیلے قابو نہیں پاسکتی، گجرات میں 4 روز تک پانی کھڑا رہا وہاں کے کسی وزیر نے بیان نہیں دیا۔ اسلام ٹائمز۔ ترجمان سندھ حکومت سعدیہ جاوید نے کہا ہے کہ کراچی کے اسپتالوں میں صرف شہر کے نہیں پورے ملک سے مریض آتے ہیں اور بلوچستان کا پورا بوجھ بھی کراچی کے سول اور جناح اسپتال ہی اٹھارہے ہیں۔ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ترجمان سندھ حکومت سعدیہ جاوید نے کہا کہ آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی کہ سرکاری اسپتالوں میں ایم آر وائی مشینیں خراب ہیں لیکن سیکرٹری صحت نے بتایا ٹیکنیکل اسٹاف جان بوجھ کر ایم آر آئی مشینیں خراب ہونے کا بتاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سرکاری اسپتالوں کا ٹیکنیکل اسٹاف جان بوجھ کر کہتا ہے ایم آر آئی مشینیں خراب ہیں تاکہ لوگ پرائیویٹ اسپتالوں سے ٹیسٹ کرائیں، اس عمل پر ٹیکنیکل اسٹاف کیخلاف کارروائیاں جاری ہیں، کچھ کی نوکریاں بھی ختم کی ہیں، دیگر کیخلاف انکوائری ہورہی ہے۔

سعدیہ جاوید نے کہا کہ سندھ حکومت محکمہ صحت پر جتنا پیسہ لگارہی ہے کسی اور شعبے میں نہیں لگا رہی، کراچی کے اسپتالوں میں صرف شہرکے نہیں پورے ملک سے مریض آتے ہیں۔ ترجمان سندھ حکومت نے کہا کہ بلوچستان کا پورا بوجھ بھی کراچی کے سول اور جناح اسپتال  اٹھارہے ہیں، اسپتالوں کی کیپسٹی سے زیادہ مریض ہیں اس لئے صفائی کے معاملات ہیں، سندھ کا میڈیکل سسٹم باقی تمام صوبوں سے بہت بہتر ہے۔ انہوں نے کہا کہ محکمہ صحت میں بائیو میٹرک کا نظام متعارف کرایا جارہا ہے، جو ڈاکٹر یا اسٹاف ڈیوٹی پر نہیں ہوگا ان کیخلاف سخت کارروائی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب میں جس طرح تباہی ہوئی ہے صوبائی حکومت اکیلے قابو نہیں پاسکتی، گجرات میں 4 روز تک پانی کھڑا رہا وہاں کے کسی وزیر نے بیان نہیں دیا۔

متعلقہ مضامین

  • چمن میں دھماکا: 5 افراد جاں بحق، وزیراعظم اور وزیراعلیٰ بلوچستان کی مذمت
  • فارم 47 والے پی پی کی کرپشن اور بیڈ گورننس کا نوٹس لے کر کراچی کو تباہ ہونے سے بچائیں، آفاق احمد
  • بلوچستان کا پورا بوجھ کراچی کے سول اور جناح اسپتال اٹھا رہے ہیں، ترجمان سندھ حکومت
  • سرزمین بلوچستان کا وقار، کیپٹن وقار احمد شہید
  • بانی نے کہا ہے آپریشن مسئلے کا حل نہیں، مذاکرات کے ذریعے امن بحال کیا جائے، وزیراعلیٰ کے پی
  • بانی نے کہا ہے آپریشن مسئلے کا حل نہیں مذاکرات کے ذریعے امن بحال کیا جائے، وزیراعلیٰ کے پی
  • بانی کے مطابق آپریشن حل نہیں ،مذاکرات کے ذریعے امن بحال کیا جائے،علی امین گنڈاپور
  • لاہور، سپیکر پنجاب اسمبلی سے نئے ترک قونصل جنرل کی ملاقات
  • بشریٰ بی بی کی جیل سہولیات سے متعلق تہلکہ خیز بیان
  • بشریٰ بی بی کو قیدیوں میں سے سب سے اچھا کھانا کھلایا جاتاہے: سلمان احمد