Daily Mumtaz:
2025-07-26@06:25:54 GMT

اختلاف یااختیارات کی جنگ، سپریم کورٹ ججز پھر تقسیم 

اشاعت کی تاریخ: 28th, January 2025 GMT

اختلاف یااختیارات کی جنگ، سپریم کورٹ ججز پھر تقسیم 

اسلام آباد(طارق محمودسمیر)سپریم کورٹ کے ججز کے درمیان تقسیم اور اختلافات ایک بارپھرکھل کر سامنے آگئے ہیں اوریہ پہلاموقع نہیں ہے کہ سپریم کورٹ کے ججز کے درمیان تقسیم پائی جارہی ہے،کیایہ صرف اختلاف رائے ہے یااختیارات کی جنگ ہے،ایک کیس کی سماعت مقررکرنے کاتنازع اتنابڑھاکہ دوججز نے پہلے تو ایڈیشنل رجسٹرارکو توہین عدالت کانوٹس دیااور اس میں ججز کمیٹیوں کے ارکان کوبھی اس کی زدمیں لے آئے تاہم توہین عدالت کانوٹس تو واپس لے لیاگیاہے اور چھ رکنی بینچ نے بھی انٹراکورٹ اپیل واپس لیے جانے پر معاملے کو نمٹادیاتاہم اس دوران ججز نے معنی خیزاور سخت ریمارکس بھی دیئے اورایک جج صاحب نے تو یہاں تک کہہ دیاکہ ہمیں آئین کے آرٹیکل 10اے کے تحت یہ حق نہیں دیاگیاکہ ہم عدالت میں پیش ہوجاتے اور اپناموقف بیان کرتے،جسٹس جمال مندوخیل نے اپنے ریمارکس میں کہاکہ کیاتوہین کے ملزم بن کر چیف جسٹس خود بینچ بناسکتے ہیں،مبینہ طور پر توہین کرنے والوں میں چیف جسٹس کو بھی شامل کرلیاگیا،سپریم کورٹ پاکستان کی سب سے بڑی عدالت ہے اور اس کے ججز کے درمیان باربارتقسیم اور اختلافات کی خبریں میڈیامیں آنااچھی روایت نہیں ہے،اگربینچ میں ایساکیس مقررکرنے کا فیصلہ واپس لیاگیاجس میں آئینی سوال پیداہواتھاتو توہین عدالت کی کارروائی شروع کرنے سے قبل اگرمتعلقہ جج حضرات چیف جسٹس سے ملاقات کرکے یہ معاملہ سامنے رکھتے تو ہوسکتاہے کہ یہ خوش اسلوبی سے حل ہوجاتا،26ویں ترمیم کی منظوری کے بعد آئین میں یہ واضح طورپر لکھ دیاگیاہے کہ آئینی معاملات صرف آئینی بینچ کے سامنے ہی زیرسماعت آسکتیہیں ،چاہئے 26ویں ترمیم کوچیلنج کرنے کامعاملہ ہویاکوئی اور آئینی ایشو ہو۔دوسری جانب پیکاایکٹ کے معاملے میں صحافتی تنظیموں کا احتجاج جاری ہے اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹی داخلہ نے عجلت میں بل کی منظوری دے دی ہے،جے یوآئی کے سینیٹر کامران مرتضیٰ سات اہم ترامیم جمع کرائی تھیں جن میں دوترامیم یہ تھیں کہ ٹریبونل کی بجائے ہائی کورٹ کے حاضر سروس جج کے پاس کیس مقررہوناچاہئے اور دوسرا یہ کہ اتھارٹی میں پارلیمنٹ کی نمائندگی نہیں ہے،چارپارلیمنٹرینزکو اس میں شامل کیاجائے مگراسے بلڈوز کردیاگیا،تحریک انصاف ،جو پیکاایکٹ ترامیم کی مخالفت کررہی ہے،مگرافسوسناک بات یہ ہے کہ داخلہ کی قائمہ کمیٹی کے چیئرمین فیصل سلیم کا تعلق پی ٹی آئی سے ہے اور انہوں نے نہ تو اجلاس کی صدارت سے انکارکیااورنہ ہی اجلاس کو موخرکیا،ن لیگ کے سینیٹرطلال چوہدری کا بھی یہی کہناہے کہ مشاورت ہونی چاہئے تھی اور وہ یہ معاملہ وزیراعظم کے سامنے اٹھائیں گے اور صحافیوں کے تحفظات سے آگاہ کریں گے ،بہرحال سوشل میڈیاکوریگولیٹ کرنا ضروری ہے تاہم حکومتی طریقہ کار نے اس کو ایک بڑا ایشوبنادیاہے ،عجلت میں پاس کرنے کی بجائے اگر اس پر صحافتی تنظیموں سے مشاورت کرلی جائے تو بہتر ہوتا لیکن لگتاہے کہ حکومت منگل کو یہ بل سینیٹ سے منظورکرلے گی ،اسٹیٹ بینک نیپالیسی ریٹ میں مزید100بیسز پوائنٹس یعنی ایک فیصدکمی کردی جواب13 فیصد سے کم ہوکر12فیصدپرآگئی ہے ، مرکزی بینک کی طرف سے مسلسل ساتویں بار پالیسی ریٹ میں کمی لائی گئی ہے، پالیسی ریٹ میں کمی کی شرح اگرچہ توقع سیہے،تاجربرادری کی نمائندہ تنظیموں کا مطالبہ تھاکہ پالیسی ریٹ میں3 فیصد کمی لائی جائے جب کہ وزیراعظم پالیسی ریٹ کوسنگل ڈیجٹ آنے کاعندیہ دے چکے ہیں ،تاہم اس معمولی کمی کا بھی شرح نموپر مثبت اثر ضرورپڑے گا۔
تجزیہ

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: پالیسی ریٹ میں سپریم کورٹ ہے اور

پڑھیں:

نور مقدم قتل کیس: ظاہر جعفر کی سپریم کورٹ میں نظرثانی کی درخواست دائر

سپریم کورٹ میں نور مقدم قتل کیس کے مجرم ظاہر ذاکر جعفر نے سزائے موت کے فیصلے پر نظرثانی کی درخواست دائر کر دی ہے۔

درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ عدالت نے مجرم کی ذہنی حالت کا تعین نہیں کروایا، حالانکہ سپریم کورٹ میں اس حوالے سے میڈیکل بورڈ تشکیل دینے کی درخواست بھی دی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں:نور مقدم قتل کیس: سپریم کورٹ کا تحریری فیصلہ جاری، ظاہر جعفر کی سزائے موت برقرار

درخواست کے مطابق عدالت نے اس متفرق درخواست پر کوئی فیصلہ نہیں سنایا اور ویڈیو ریکارڈنگ پر انحصار کرتے ہوئے سزائے موت دی، حالانکہ وہ ویڈیوز نہ تو ٹرائل کے دوران درست ثابت کی گئیں اور نہ ہی وہ ملزم کو فراہم کی گئیں۔

درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ یہ ویڈیوز عدالت میں کبھی چلائی بھی نہیں گئیں، اور فیصلہ جلد بازی میں کیا گیا۔ اس لیے عدالت سے استدعا ہے کہ وہ 20 مئی کو سنائے گئے فیصلے پر نظرثانی کرے کیونکہ اس کے لیے ٹھوس وجوہات موجود ہیں۔

یاد رہے کہ نور مقدم کو 2021 میں اسلام آباد کے سیکٹر ایف سیون میں بہیمانہ طور پر قتل کیا گیا تھا۔ اسلام آباد کی عدالت نے مجرم ظاہر جعفر کو سزائے موت سنائی تھی، جسے اسلام آباد ہائیکورٹ اور بعد ازاں سپریم کورٹ نے بھی برقرار رکھا تھا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

سپریم کورٹ ظاہر جعفر نورمقدم کیس

متعلقہ مضامین

  • عدالتی احکامات پر عمل درآمد نہ ہونے سے متعلق چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کا فیصلہ جاری
  • ضمانت قبل ازگرفتاری مسترد ہونے کے بعد فوری گرفتاری ضروری ہے،چیف جسٹس  پاکستان  نے فیصلہ جاری کردیا
  • اسلام آباد ہائیکورٹ نے توہینِ مذہب کے الزامات پر کمیشن بنانے کا فیصلہ معطل کردیا
  • ریاست آسام میں بلڈوزر کارروائی پر سپریم کورٹ آف انڈیا برہم، توہین عدالت کا نوٹس جاری
  • توہینِ مذہب کے الزامات: اسلام آباد ہائیکورٹ نے کمیشن کی تشکیل پر عملدرآمد روک دیا
  • توہینِ مذہب الزامات پر کمیشن تشکیل دینے کے فیصلے کیخلاف اپیل قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ
  • خواتین کے بانجھ پن اور نان نفقہ سے متعلق سپریم کورٹ کا بڑا فیصلہ جاری
  • زیر التوا اپیل کی بنیاد پر عدالتی فیصلہ پر عملدرآمد روکنا توہین کے مترادف ہے، سپریم کورٹ
  • زیر التوا اپیل کی بنیاد پر عدالتی فیصلہ پر عملدرآمد روکنا توہین کے مترادف ہے: سپریم کورٹ
  • نور مقدم قتل کیس: ظاہر جعفر کی سپریم کورٹ میں نظرثانی کی درخواست دائر