چینی AI ایپ ’’ڈیپ سیک‘‘ نے چیٹ GPT کو مات دیدی
اشاعت کی تاریخ: 28th, January 2025 GMT
کراچی(نیوز ڈیسک)چین کی تیار کردہ مصنوعی ذہانت کی اپلی کیشن ڈیپ سیک (DeepSeek) چیٹ جی پی ٹی اور دیگر ایسی حریف ایپس کو مات دے کر امریکا‘ برطانیہ اور چین میں ایپل کے ایپ اسٹور پر ٹاپ ریٹیڈ مفت ایپلی کیشن بن گئی ہے‘چیٹ جی پی ٹی کے سستے اور طاقتور چینی متبادل نے مصنوعی ذہانت کی دنیا میں تہلکہ مچا دیا‘اوپن اے آئی جیسی امریکی کمپنیوں کے غلبے کو چیلنج کردیاہے ۔
اس پیش رفت نے امریکی ٹیک کمپنیوں کے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے وعدوں پر سوالات اٹھا دیے ہیں اور کئی بڑی ٹیک کمپنیوں، بشمول اینویڈیا، کے شیئرز کو بھی نقصان پہنچا ہے۔
رواں برس جنوری میں اپنے لانچ کے بعد سے ہی اس ایپ کی مقبولیت میں اضافہ ہوا اور اس ایپ کی بڑھتی مقبولیت نے اس نظریے کو چیلنج کیا ہے کہ امریکہ ہی اے آئی کی صنعت میں اچھوتا لیڈر ہے ۔
یہ ایپ اوپن سورس ڈیپ سیک وی تھری ماڈل پر ڈیزائن کی گئی ہے اور محققین کا دعویٰ ہے کہ اسے چھ ملین ڈالرز سے کم لاگت میں تیار کیا گیا ہے جبکہ چیٹ جی پی ٹی اور دیگر مصنوعی ذہانت کی ایپس پر اربوں ڈالر خرچ کیے گئے تھےتاہم کمپنی کے اس دعوے کو مصنوعی ذہانت کی دنیا میں دیگر نے متنازعہ قرار دیا ہے۔
رواں ماہ کے اوائل میں کمپنی نے ڈیپ سیک آر ون کے لانچ کے بعد دعویٰ کیا تھا کہ اس کی کارکردگی چیٹ جی پی ٹی بنانے والی کمپنی اوپن اے آئی کے جدید ترین ماڈلز کے برابر ہے۔
سلیکون ویلی وینچر کیپیٹلسٹ اور ڈونلڈ ٹرمپ کے مشیر مارک اینڈریسن نے ڈیپ سیک آرون کو اے آئی کی دنیا میں سپوٹنک کے لمحہ کے طور پر بیان کیا ہے۔
انہوںنے اس کا موازانہ سنہ 1957میں سوویت یونین کے ذریعہ لانچ کیے گئے پہلے مصنوعی زمینی سیٹلائٹ سے کیا۔چیٹ جی پی ٹی اور ڈیپ سیک جیسی ایپس کے مصنوعی ذہانت کے ماڈلز کو تیار کرنے اور ان کے مؤثر طرح سے کام کرنے کے لیے جدید اور ایڈوانس چپیس درکار ہوتی ہیں۔
مگر سنہ 2021 سے امریکہ نے چین کو یہ جدید چپس فروخت کرنے پر پابندیاں لگا رکھی ہیں۔درآمد شدہ جدید چپس کی مسلسل فراہمی کے بغیر اپنا کام جاری رکھنے کے لیے، چینی اے آئی ڈویلپرز نے اپنے کام کو ایک دوسرے کے ساتھ شیئر کیا ہے اور ٹیکنالوجی کے لیے نئے طریقوں کے ساتھ تجربہ کیا۔
اس کے نتیجے میں ایسے اے آئی ماڈلز سامنے آئے ہیں جن کے لیے پہلے سے کہیں کم کمپیوٹنگ پاور کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ ان کی لاگت اس سے بہت کم ہے جو پہلے سوچا گیا تھا۔ اور یہ مصنوعی ذہانت کی صنعت میں تہلکہ مچانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
سنگاپور میں مقیم ٹیکنالوجی ایکویٹی ایڈوائزر وے سرن لنگ نے برطانوی نشریاتی ادارے کو بتایاکہ یہ ممکنہ طورپرپوری اے آئی سپلائی چین کے لیے سرمایہ کاری کوپٹری سے اتار سکتا ہےلیکن وال اسٹریٹ بینکنگ کمپنی سٹی نے خبردار کیا کہ ڈیپ سیک اوپن اے آئی جیسی امریکی کمپنیوں کے غلبے کو چیلنج کر سکتا ہے اور چینی فرمیں ان کی ترقی کو روک سکتی ہیں،ڈیپ سیک کمپنی کی بنیاد سنہ 2023 میں جنوب مشرقی چین کے شہر ہانگزو میں لیانگ وینفینگ نے رکھی تھی۔
مبینہ طور پر انھوں نے چین میں ایک ایونیڈیا اے 100 چپس کا ایک اسٹور بنایا تھا۔ اب چین کو یہ چپس برآمد کرنے پر پابندی ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ ان کے پاس اس وقت 50 ہزار یہ چپس موجود تھیں جنھیں انھوں نے کم لاگت والی سستی چپس کے ساتھ جوڑ کر ڈیپ سیک کو لانچ کیا ہے۔لیانگ کو حال ہی میں ایک اے آئی صنعت کے ماہرین اور چینی وزیر اعظم کے مابین ایک ملاقات میں دیکھا گیا ہے۔
گزشتہ ماہ ایک تحقیقاتی مقالے میں ذکر کیا گیا کہ ڈیپ سیک-وی 3 کی تربیت کے لیے اینویڈیا ایچ 800 چپس پر صرف 60لاکھ ڈالر سے کم کی کمپیوٹنگ پاور استعمال ہوئی۔
اس انکشاف کے بعد کمپنی نے عالمی مصنوعی ذہانت کے حلقوں میں توجہ حاصل کر لی ہے‘اس پیش رفت نے امریکی ٹیک کمپنیوں کے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے وعدوں پر سوالات اٹھا دیے ہیں اور کئی بڑی ٹیک کمپنیوں، بشمول اینویڈیا، کے شیئرز کو بھی نقصان پہنچا ہے۔
2022 کے آخر میں اوپن اے آئی کے چیٹ جی پی ٹی کے اجراء نے چینی ٹیک کمپنیوں میں ہلچل مچا دی، جنہوں نے مصنوعی ذہانت سے چلنے والے اپنے چیٹ بوٹس تیار کرنے کی دوڑ شروع کر دی لیکن جب سرچ انجن کی بڑی کمپنی بائیڈو (9888.
چینی اسٹارٹ اپ نے کہا ہے کہ دو ماڈلز، ڈیپ سیک-وی 3 اور ڈیپ سیک-آر 1، جنہیں سلیکان ویلی کے ایگزیکٹوز اور امریکی ٹیک کمپنیوں کے انجینئرز نے سراہا ہے، اوپن اے آئی اور میٹا کے سب سے جدید ماڈلز کے ہم پلہ ہیں۔ یہ ماڈلز استعمال میں بھی کم مہنگے ہیں۔
ڈیپ سیک کے آفیشل وی چیٹ اکاؤنٹ پر ایک پوسٹ کے مطابق ڈیپ سیک-آر 1، جو پچھلے ہفتے جاری کیا گیا، اوپن اے آئی کے o1 ماڈل سے 20 سے 50 گنا کم قیمت پر استعمال ہوتا ہے، جو کہ کام کی نوعیت پر منحصر ہے۔
لیکن کچھ افراد نے ڈیپ سیک کی کامیابی کی کہانی پر عوامی طور پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے۔
اسکیل اے آئی کے سی ای او الیگزینڈر وانگ نے جمعرات کو سی این بی سی کے ساتھ ایک انٹرویو کے دوران، بغیر کسی ثبوت کے، کہا کہ ڈیپ سیک کے پاس 50 ہزار اینویڈیا ایچ 100 چپس ہیں، جن کا دعویٰ کیا گیا کہ وہ ظاہر نہیں کی جائیں گی کیونکہ یہ واشنگٹن کے برآمدی کنٹرولز کی خلاف ورزی ہوگی جو چینی کمپنیوں کو ایسے جدید اے آئی چپس کی فروخت پر پابندی عائد کرتے ہیں۔ ڈیپ سیک نے اس الزام پر تبصرہ کرنے کی درخواست پر فوری طور پر جواب نہیں دیا۔
برن اسٹین کے تجزیہ کاروں نے پیر کے روز ایک تحقیقی نوٹ میں نشاندہی کی کہ ڈیپ سیک کے وی 3 ماڈل کی کل تربیتی لاگت نامعلوم ہے، لیکن یہ اس 5.58 ملین ڈالرز سے کہیں زیادہ ہے جس کا اسٹارٹ اپ نے کمپیوٹنگ پاور کے لیے استعمال ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ تجزیہ کاروں نے یہ بھی کہا کہ یکساں طور پر سراہا جانے والے آر 1 ماڈل کی تربیتی لاگت ظاہر نہیں کی گئی۔
ڈیپ سیک ایک ہانگژو میں مقیم اسٹارٹ اپ ہے جس کے کنٹرولنگ شیئر ہولڈر لینگ وینفینگ ہیں، جو چینی کارپوریٹ ریکارڈز کے مطابق مقداری ہیج فنڈ ہائی فلیئر کے شریک بانی ہیں۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: مصنوعی ذہانت کی ٹیک کمپنیوں چیٹ جی پی ٹی کمپنیوں کے اے ا ئی کے اور چین کیا گیا کے ساتھ کے لیے کیا ہے
پڑھیں:
مختلف شہروں میں چینی کی قیمت 210 روپے فی کلو تک پہنچ گئی
ملک کے مختلف شہروں میں چینی کی قیمت 210 روپے تک پہنچ گئی، سرگودھا میں ایک ہفتے کے دوران چینی کے نرخ 23 روپے بڑھ گئے۔ سرکاری دستاویز میں گزشتہ ایک ہفتے میں چینی کی اوسط فی کلو قیمت میں 12 پیسے کی کمی ہوئی تھی اور گذشتہ ہفتے تک ملک میں چینی کی اوسط فی کلو قیمت 188 روپے 81 پیسے تھی۔ادارہ شماریات کے دستاویز کے مطابق ایک سال قبل ملک میں چینی کی اوسط فی کلو قیمت 132 روپے47 پیسے تھی، اور اس وقت ملک میں چینی کی اوسط فی کلو قیمت 188 روپے 69 پیسے پر آگئی ہے۔تاہم،ملک کے مختلف شہروں میں چینی 210 روپے فی کلو تک فروخت کی جارہی ہے اور ملک میں چینی کی زیادہ سے زیادہ فی کلو قیمت 210 روپے تک پہنچ گئی ہے جب کہ پشاور کے شہری سب سے زیادہ مہنگی چینی خریدنے پر مجبور ہیں۔ادارہ شماریات کے مطابق گذشتہ ایک ہفتے کے دوران سرگودھا میں چینی کی فی کلو قیمت میں 23 روپے تک کا اضافہ ہوا جس سے قیمت 200 روپے فی کلو تک پہنچ گئی جب کہ کراچی اورحیدر آباد میں چینی کی فی کلو قیمت 5 روپے تک بڑھ گئی جس سے حیدرآباد میں چینی فی کلو 195 روپے اور کراچی میں 200 روپے میں فروخت ہورہی ہے۔اسی طرح، جڑواں شہروں اسلام آباد اور راولپنڈی میں چینی کی زیادہ سے زیادہ فی کلو قیمت 200 روپے تک ہے۔
دوسری جانب، پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں چینی کی مقررہ قیمتوں سے زائد پر فروخت کی بڑھتی شکایات پر محکمہ پرائس کنٹرول اینڈ کموڈیٹیز مینجمنٹ نے تمام ڈپٹی کمشنرز کو مراسلہ جاری کیا تھا جس میں چینی کی زائد قیمتوں پر فروخت کا اعتراف کیا گیا ہے۔مراسلہ کے مطابق رپورٹس میں سامنے آیا کہ چینی کی اضافی قیمتوں پر فروخت جاری ہے، چینی کی زائد قینتوں کی وصولی عوام پر مالی بوجھ بڑھا رہی ہے۔مزید کہا گیا کہ تمام ڈپٹی کمشنرز پرائس کنٹرول مجسٹریٹس کو فوری کارروائیوں کا پابند کریں اور اضافی قیمتیں وصول کرنے والے دکانداروں کے خلاف سخت کاروائی کی جائے۔