کراچی ایئر پورٹ سے بیرونِ ممالک جاتے ہوئے 103 مسافر آف لوڈ
اشاعت کی تاریخ: 28th, January 2025 GMT
—فائل فوٹو
وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کے امیگریشن سیل کے عملے نے گزشتہ 48 گھنٹوں کے دوران کراچی ایئر پورٹ سے مختلف ممالک جانے والے 103 مسافروں کو آف لوڈ کر دیا۔
آف لوڈ کیے گئے مسافروں میں 28 عمرہ زائرین اور ورک ویزا کے 18 مسافر بھی شامل ہیں۔
امیگریشن ذرائع کے مطابق عمرے کے لیے سعودی عرب جاتے ہوئے 28، آذربائیجان، سعودی عرب، ترکیہ، قبرص، بحرین، ملائیشیا، تھائی لینڈ، سری لنکا، سنگاپور، مالوی، برونڈی، کانگو، عمان، بوٹسوانا انڈونیشیا، البانیہ اور مڈغاسکر جاتے ہوئے ورک ویزا پر 18، وزٹ ویزا پر 47، اسٹڈی ویزا پر 2 اور بزنس ویزا پر جانے والے 5 افراد کو آف لوڈ کیا گیا۔
کراچی سے بیرون ممالک جاتے ہوئے 24 گھنٹے میں مزید 35 مسافر آف لوڈ کردیے گئے۔
دوسری جانب ایف آئی اے کا کہنا ہے کہ وزٹ ویزے پر بحرین جانے والی خاتون کو روک دیا گیا ہے، ملزمہ سعودی عرب اور قطر میں گداگری میں ملوث رہی ہے۔
اس کے علاوہ سینیگال سے آنے والے شخص کو مشکوک دستاویزات پر حراست میں لے لیا گیا ہے، ملزم احسان کے پاسپورٹ پر اٹلی کی امیگریشن کا اسٹیمپ جعلی تھا۔
ایف آئی اے کا کہنا ہے کہ گرفتار ملزمان کو مزید قانونی کارروائی کے لیے انسدادِ انسانی اسمگلنگ سرکل منتقل کر دیا گیا ہے۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: جاتے ہوئے ویزا پر آف لوڈ
پڑھیں:
ایئر انڈیا طیارہ حادثہ: جاں بحق مسافروں کے لواحقین نے امریکی کمپنیوں پر مقدمہ دائر کر دیا
ایئر انڈیا کے ایک طیارے کو پیش آنے والے تین ماہ پرانے خوفناک حادثے کے بعد، جاں بحق مسافروں کے اہل خانہ نے انصاف کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا دیا ہے۔ مقدمہ امریکی ریاست ڈیلویئر کی سپیریئر کورٹ میں دائر کیا گیا ہے، جس میں دو معروف امریکی کمپنیوں — بوئنگ اور ہنی ویل — کو حادثے کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔
فیول سوئچز پر سوال، تحقیقات کی گونج
متاثرہ خاندانوں کا دعویٰ ہے کہ طیارے میں نصب فیول سوئچز میں خرابی حادثے کی بڑی وجہ بنی۔ ان سوئچز کی تیاری ہنی ویل نے کی تھی، جبکہ طیارہ بوئنگ کا تیار کردہ تھا۔ مقدمے میں 2018 کی امریکی فیڈرل ایوی ایشن ایڈمنسٹریشن (FAA) کی ایک رپورٹ کا حوالہ بھی دیا گیا ہے، جس میں واضح طور پر کہا گیا تھا کہ بوئنگ کے متعدد طیاروں میں فیول کٹ آف سوئچز کے لاکنگ میکانزم کی جانچ ضروری ہے۔
اہل خانہ کا مؤقف ہے کہ ان سفارشات کے باوجود ایئر انڈیا نے معائنے کا عمل مکمل نہیں کیا، جس کی وجہ سے یہ جان لیوا حادثہ پیش آیا۔
کاک پٹ ریکارڈنگ میں اہم انکشاف
حادثے کی تحقیقات کے دوران سامنے آنے والی کاک پٹ ریکارڈنگ میں انکشاف ہوا کہ پائلٹ نے غلطی سے انجنز کو فیول کی فراہمی روک دی تھی۔ لواحقین کا کہنا ہے کہ سوئچز کا مقام اس طرح تھا کہ وہ غلطی سے دب سکتے تھے۔ تاہم، کچھ ایوی ایشن ماہرین نے اس امکان کو سوئچ کے “ڈیزائن” کی بنیاد پر مسترد کیا ہے۔
بوئنگ اور ہنی ویل کی خاموشی
تاحال بوئنگ اور ہنی ویل نے اس مقدمے یا حادثے پر کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا۔
بھارتی تحقیقاتی رپورٹ کا مؤقف
بھارت کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ میں بوئنگ اور انجن بنانے والی کمپنی GE ایروسپیس کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا گیا، جبکہ رپورٹ کا فوکس زیادہ تر پائلٹس کی کارکردگی پر رہا۔ تاہم، متاثرہ خاندان اس نقطہ نظر سے مطمئن نہیں اور اس تحقیق کو نامکمل اور یکطرفہ قرار دے رہے ہیں۔
پہلا مقدمہ، پہلا قدم
یہ حادثے سے متعلق امریکا میں دائر ہونے والا پہلا مقدمہ ہے، جس میں چار جاں بحق افراد — کانتابین دھیرُبھائی پگھڈال، ناویا چرگ پگھڈال، کوبربھائی پٹیل، اور بابیبین پٹیل — کے لواحقین نے معاوضے کا باقاعدہ مطالبہ کیا ہے۔
یاد رہے کہ اس المناک حادثے میں: 229 مسافر 12 عملے کے ارکان 19 زمینی افراد
ہلاک ہوئے تھے، جب کہ صرف ایک مسافر زندہ بچ پایا تھا۔
امریکی عدالتیں: متاثرین کے لیے امید کی کرن
قانونی ماہرین کے مطابق، متاثرہ خاندان عموماً مینوفیکچررز (جیسے بوئنگ یا ہنی ویل) کے خلاف مقدمہ دائر کرتے ہیں، کیونکہ:
ایئرلائنز پر قانونی طور پر ہرجانے کی حد مقرر ہوتی ہے۔
جبکہ مینوفیکچررز پر ایسی کوئی حد لاگو نہیں ہوتی۔
اس کے علاوہ، امریکی عدالتیں متاثرین کے ساتھ نسبتاً زیادہ ہمدردانہ رویہ اختیار کرتی ہیں، جس سے بہتر معاوضے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
Post Views: 6