’جیو نیوز‘ گریب 

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس محسن اختر کیانی کا کہنا ہے کہ 26ویں آئینی ترمیم ایک خط کی بنیاد پر آئی، ایک خط نے پورے نظام کو تبدیل کر دیا۔

اسلام آباد میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم کو بالآخر سپریم کورٹ کا فُل کورٹ بینچ ہی سنے گا، یہ ایشو پاکستان کے عوام اور نظام کی بقاء کے لیے حل ہو گا۔

جسٹس محسن اختر کیانی کا کہنا ہے کہ ہمیں وہ آزاد جج چاہئیں جو عدلیہ کا تقدس برقرار رکھیں، لوگوں کی اُمید آج عدلیہ، پارلیمان اور میڈیا سے ہے۔

انہوں نے کہا کہ وکلاء اپنے حقوق اور عوام کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، بار کے اندر سے ہی عدالتی عہدوں پر تقرریاں ہونی چاہئیں۔

26ویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواستوں کی سماعت 27 جنوری کو ہوگی، سپریم کورٹ اعلامیہ

سپریم کورٹ کے اعلامیہ کے مطابق 27 جنوری کو کورٹ روم نمبر 2 میں 26ویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواستوں کی سماعت ہوگی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج کا کہنا ہے کہ ڈسٹرکٹ کمپلکس کی تعمیر میں پیش رفت نہیں ہو رہی، حکومت سے درخواست سے ڈسٹرکٹ کمپلکس کی تعمیر جلد مکمل کرے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ وزراء سے درخواست ہے جو پھرتی قانون سازی میں دکھا رہے ہیں، ان عمارتوں کی تکمیل میں بھی دکھائیں، اُمید ہے عدلیہ اپنا کردار ادا کرے گی۔

ان کا کہنا ہے کہ شخصی آزادیوں سمیت جس قسم کے مسائل ہیں سب کو نظر آرہے ہیں، ہمیں اپ رائٹ وکلاء کی ضرورت ہے جو بعد میں اپ رائٹ جج بنتے ہیں، شخصی آزادی کا تحفظ کرنے والے میڈیا کی بھی ضرورت ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج مزید کہا کہ اس بار میں بہت قابلیت ہے، وکلاء کی کارکردگی بہتر ہو رہی ہے، ججز سے بھی غلطیاں ہوتی ہیں، وکلاء سے بھی ہوتی ہیں، کبھی کبھار چیزیں بری بھی لگتی ہیں، لیکن ہمارے وکلاء نے پچھلے 10 سال میں بہت امپروو کیا ہے۔

جسٹس محسن اختر کیانی کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس کی وجہ آپ سب کی کوششوں سے بنی ہوئی یہ عدالت ہے، ہم اپنے وقتوں میں راولپنڈی بینچ میں جاتے تھے، چاہے 26ویں آئینی ترمیم ہی ہو، آپ کو اپنے ارادوں سے مایوس نہیں کر سکتے، اس طرح کے مراحل پاکستان کی تاریخ میں آتے رہے ہیں۔

.

ذریعہ: Jang News

کلیدی لفظ: جسٹس محسن اختر کیانی کا کہنا ہے کہ اسلام ا باد کورٹ کے کہا کہ

پڑھیں:

عدالتی احکامات پر عمل درآمد نہ ہونے سے متعلق چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کا فیصلہ جاری


چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل درآمد نہ ہونے سے متعلق فیصلہ جاری کردیا۔

چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے 4 صفحات پر مشتمل حکمنامہ جاری کیا ہے۔ ملزم زاہد خان نے درخواست ضمانت کے حوالے سے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا ہے کہ قبل از گرفتاری درخواست ضمانت مسترد ہونے کے بعد فوری گرفتاری ضروری ہے، صرف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کرنا گرفتاری کو نہیں روک سکتا، عبوری تحفظ خودکار نہیں، عدالت سے واضح اجازت لینا ضروری ہے۔

سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ ملزم زاہد خان و دیگر کی ضمانت لاہور ہائیکورٹ سے مسترد ہوئیں، ضمانت مسترد ہونے کے بعد بھی 6 ماہ تک پولیس نے گرفتاری کے لیے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا، عدالتی احکامات پر فوری عملدرآمد انصاف کی بنیاد ہے۔

عدالت کا کہنا ہے کہ آئی جی پنجاب نے غفلت کا اعتراف کرتے ہوئے عدالتی احکامات پر عملدرآمد کا سرکلر جاری کرنے کی یقین دہانی کرائی، غیر قانونی تاخیر سے نظامِ انصاف اور عوام کا اعتماد مجروح ہوتا ہے۔

سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ اپیل زیرِ التوا ہو تو بھی گرفتاری سے بچاؤ ممکن نہیں، جب تک کوئی حکم نہ ہو۔

متعلقہ مضامین

  • چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کا جناح اسپتال کے سائبر نائف یونٹ کا دورہ
  • ضرورت محسوس ہوئی تو 27ویں آئینی ترمیم بھی ہو جائے گی، قمر زمان کائرہ
  • عدلیہ کیلئے ماہر اور سیاسی وابستگی نہ رکھنے والے نوجوان وکلاء کو سامنے لایا جائے گا، چیف جسٹس
  • یقین دلاتا ہوں ہر ایمان دار جوڈیشل افسر کے ساتھ کھڑا ہوں گا، چیف جسٹس یحییٰ آفریدی
  • عدالتی احکامات پر عمل درآمد نہ ہونے سے متعلق چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کا فیصلہ جاری
  • ضمانت قبل ازگرفتاری مسترد ہونے کے بعد فوری گرفتاری ضروری ہے،چیف جسٹس  پاکستان  نے فیصلہ جاری کردیا
  • توہینِ مذہب کے الزامات: اسلام آباد ہائیکورٹ نے کمیشن کی تشکیل پر عملدرآمد روک دیا
  • سپریم کورٹ کا بڑا فیصلہ: بانجھ پن کی بنیاد پر مہر یا نان نفقہ سے انکار غیر قانونی قرار
  • اپیلز کورٹ: ٹرمپ کا پیدائشی شہریت ختم کرنے کا صدارتی حکم غیر آئینی قرار
  • انضمام ختم کرنے یا ایف سی آر بحالی سے متعلق افواہیں بے بنیاد ہیں، کمیٹی اجلاس کا اعلامیہ