Islam Times:
2025-09-18@15:55:19 GMT

امریکی نو سامراجیت

اشاعت کی تاریخ: 28th, January 2025 GMT

امریکی نو سامراجیت

اسلام ٹائمز: 1897ء میں امریکہ کے صدر ویلیم میک کیلنی نے سیاسی، اقتصادی اور سماجی شعبوں میں مخصوص تبدیلیاں ایجاد کر کے رائے عامہ کو اپنی مطلوبہ سامراجی پالیسیاں قبول کرنے کے لیے تیار کرنے میں کامیابی حاصل کی تھی۔ اس کے اصلی اہداف بحرالکاہل اور بحیرہ کریبین کے جزیروں کو امریکہ سے ملحق کرنے پر مبنی تھے جن کے حصول کے لیے 1898ء میں ہسپانوی سلطنت سے خونریز جنگ لڑی گئی۔ اس سے پہلے ہمیشہ دوسروں کی مداخلت آمیز خارجہ پالیسیوں سے خائف رہنے والے امریکیوں نے پہلی بار یورپی سامراجی طاقتوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ملک سے باہر فتح کا مزہ چکھا۔ صدر ویلیم میک کیلنی نے ان کامیابیوں کو امریکہ کا "سنہری دور" قرار دیا۔ اب 20 جنوری 2025ء کے دن جب دنیا والوں نے تقریب حلف برداری میں نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریر سنی تو انہیں اس میں میک کیلنی کی جھلک دکھائی دی۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی امریکی عوام کو "نئے دور" کا عندیہ دیا ہے۔ تحریر: سید رضا حسینی
 
ڈونلڈ ٹرمپ نے 2024ء کے صدارتی الیکشن میں فتح حاصل کر کے ایک بار پھر امریکہ کا اقتدار اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے جبکہ اس بار اس نے 2016ء میں گذشتہ مدت صدارت کے مقابلے میں زیادہ جارحانہ خارجہ پالیسی وضع کر رکھی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے مدنظر امریکہ، ایسا ملک ہے جو دوسری عالمی جنگ (1939ء تا 1945ء) کے اختتام کے بعد برسراقتدار آنے والے امریکی صدور مملکت کے برعکس، جو عالمی نظام میں لبرل طرز فکر کی ترویج کے لیے ایک طرح کی بین الاقومی پولیس کا کردار ادا کرنے پر توجہ مرکوز کیے ہوئے تھے، سازباز کرنے والی سپر پاور (مرچنٹلسٹ) کی حیثیت رکھتا ہے اور کسی قسم کے آئیڈیلز اور اعلی اہداف سے عاری ہے۔ دوسرے الفاظ میں، نیا امریکی صدر، امریکی معاشرے کے ایک ایسے حصے کا نمائندہ ہے جو خارجہ امور میں توسیع پسندی کے خواہاں ہیں۔
 
گذشتہ اوہام کی قید میں
ٹرمپ کی سربراہی میں وائٹ ہاوس کی نئی ڈاکٹرائن درحقیقت شان و شوکت کے افسانوں اور جدید ناراضگیوں کی ملی جلی حالت ہے۔ 1945ء کے بعد بائی پولر ورلڈ آرڈر حکمفرما ہونے کے بعد کسی بھی امریکی صدر نے دیگر سرزمینوں کا امریکہ سے الحاق کی بات نہیں کی۔ آخری امریکی صدر جس نے واضح طور پر امریکی سرزمین میں توسیع کی بات کی تھی ریپبلکن پارٹی کا صدر ویلیم میک کیلنی (1897ء تا 1901ء) تھا۔ میک کیلنی بھی ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح عالمی نظام میں امریکی طاقت اور اثرورسوخ بڑھانے کا خواہاں تھا اور اس مقصد کے لیے اس نے ہوائی جزیروں، گوام اور فلپائن کو امریکہ سے ملحق کرنے کے مقدمات بھی فراہم کیے تھے۔ اس نے کیریبین خطے میں واشنگٹن کا اثرورسوخ بڑھانے کے لیے اسپین سے جنگ بھی کی اور آخرکار خلیج میکسیکو کو امریکی اثرورسوخ والے علاقے میں تبدیل کر دیا۔
 
ڈونلڈ ٹرمپ سے پہلے امریکہ کا 25 واں صدر، درآمدات پر 50 فیصد ٹیکس عائد کرنے کا زبردست حامی تھا اور اس نے اندرونی صنعت کی حمایت کی پالیسی اختیار کر رکھی تھی۔ 1896ء میں ریپبلکن پارٹی کی جانب سے امریکہ کا صدارتی امیدوار بھی ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح اپنے زمانے کے امریکی ارب پتیوں (مورگن اور راک فیلر) کی حمایت سے برخوردار تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریب حلف برداری میں بھی سیلیکان ویلی کے ارب پتی موجود تھے۔ امریکہ کا 47 واں صدر، اپنے اسلاف کی مانند لاطینی خطے میں واشنگٹن کے اثرورسوخ کے احیاء کا خواہاں ہے۔ وہ خلیج میکسیکو کا نام تبدیل کر کے خلیج امریکہ رکھنا چاہتا ہے اور پاناما کینال (جو میک کیلنی کے جانشینوں نے تعمیر کی تھی) بھی ڈونلڈ ٹرمپ کی جارحانہ پالیسی کا شکار ہو چکا ہے۔ ٹرمپ کی نئی پالیسی کا اہم نکتہ یہ ہے کہ وہ 19 ویں صدی کے سامراجی ہتھکنڈوں کو دوبارہ بروئے کار لانا چاہتا ہے۔
 
ٹرمپ کا وحشی امریکہ
امریکہ نے دوسری عالمی جنگ کے ویران کھنڈروں میں عالمی ڈھانچے کی تنظیم نو کا نعرہ لگا کر بین الاقوامی سیاسی، فوجی اور اقتصادی نظام اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا۔ اس مقصد کے لیے امریکہ نے ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف جیسے ادارے بنا کر اقتصاد میں اداروں کی اجارہ داری کی حکمت عملی اختیار کی۔ ساتھ ہی اقوام متحدہ جیسے سیاسی ادارے تشکیل دے کر دنیا بھر میں اپنا من مانا ورلڈ آرڈر مسلط کرنے کا زمینہ فراہم کیا۔ وہ ٹیم جس کی نمائندگی آج ڈونلڈ ٹرمپ کر رہا ہے، 1990ء کے عشرے میں ان بین الاقوامی اداروں کی کارکردگی سے سخت ناراض تھی۔ اس ٹیم نے امریکی کمپنیوں کو جنوب مشرقی ایشیا منتقل کیا اور دنیا کے مختلف حصوں میں امریکہ کے حریف ممالک کی اقتصادی ترقی کے پیش نظر لبرل طرز فکر کا مقابلہ کرنے کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ جیسی شخصیت کو سامنے لانے کے مقدمات فراہم کیے۔ ٹرمپ کا امریکہ مطلوبہ اہداف کے حصول کے لیے روایتی ہتھکنڈوں (19 ویں صدی میں میک کیلنی جیسے ہتھکنڈوں) کی طرف واپس لوٹ رہا ہے۔
 
نو لبرل ازم کو درپیش مسائل
21 ویں صدی کے آغاز میں جیوپولیٹیکل شعبے کے ماہر رابرٹ کپلان نے اپنے کتاب "انارکی" میں اپنے ہم عصر بعض مغربی تجزیہ کاروں کی خوش بینانہ نگاہ کے برعکس اس بات کا اظہار کیا کہ اقتصادی ناانصافیاں، موسمیاتی تبدیلیاں اور حکومتوں کی کمزوری کا نتیجہ علاقائی سطح پر جنگوں اور سماجی انتشار کی صورت میں ظاہر ہو سکتا ہے۔ امریکہ میں ساحلی اور مرکزی شہروں پر مبنی تقسیم (ساحلی شہروں میں دولت کی فراوانی اور مرکزی شہروں میں غربت)، 90 کے عشرے سے مزدور طبقے کا بے روزگار ہونا (امریکی کارخانے چین منتقل ہو جانے کے باعث) اور ایسی عالمی لبرل ثقافت تشکیل پا جانا جس کے بارے میں امریکہ کا نچلا طبقہ زیادہ آگاہی نہیں رکھتا، نے ڈونلڈ ٹرمپ کی سربراہی میں موجود ورلڈ آرڈر کے خلاف بغاوت کا زمینہ فراہم کیا ہے۔ ٹرمپ نے گذشتہ چار عشروں کے دوران گلوبلائزیشن کے مخالفین کی جانب سے تشکیل پانے والے ہتھکنڈوں کی مدد سے امریکی معاشرے کے ایک حصے کو منظم کر لیا ہے۔
 
امریکی خارجہ سیاست کی انیسویں صدی کی جانب واپسی
1897ء میں امریکہ کے صدر ویلیم میک کیلنی نے سیاسی، اقتصادی اور سماجی شعبوں میں مخصوص تبدیلیاں ایجاد کر کے رائے عامہ کو اپنی مطلوبہ سامراجی پالیسیاں قبول کرنے کے لیے تیار کرنے میں کامیابی حاصل کی تھی۔ اس کے اصلی اہداف بحرالکاہل اور بحیرہ کریبین کے جزیروں کو امریکہ سے ملحق کرنے پر مبنی تھے جن کے حصول کے لیے 1898ء میں ہسپانوی سلطنت سے خونریز جنگ لڑی گئی۔ اس سے پہلے ہمیشہ دوسروں کی مداخلت آمیز خارجہ پالیسیوں سے خائف رہنے والے امریکیوں نے پہلی بار یورپی سامراجی طاقتوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ملک سے باہر فتح کا مزہ چکھا۔ صدر ویلیم میک کیلنی نے ان کامیابیوں کو امریکہ کا "سنہری دور" قرار دیا۔ اب 20 جنوری 2025ء کے دن جب دنیا والوں نے تقریب حلف برداری میں نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریر سنی تو انہیں اس میں میک کیلنی کی جھلک دکھائی دی۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی امریکی عوام کو "نئے دور" کا عندیہ دیا ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: ڈونلڈ ٹرمپ کی امریکی صدر میں امریکہ امریکہ سے امریکہ کا کو امریکہ کرنے کے کی تھی کے لیے

پڑھیں:

ٹرمپ کیخلاف وسطی لندن میں احتجاجی مظاہرہ، غزہ میں جنگ رُکوانے کا مطالبہ

فلسطینی پرچم اٹھائے مظاہرین نے ٹرمپ مخالف پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے، مظاہرین ٹرمپ سے اسرائیل کو ہتھیار نہ دینے اور غزہ میں جنگ رُکوانے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ اسلام ٹائمز۔ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ سرکاری دورے پر برطانیہ میں موجود ہیں، امریکی صدر کی آمد کے خلاف وسطی لندن میں احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ فلسطینی پرچم اٹھائے مظاہرین نے ٹرمپ مخالف پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے، مظاہرین ٹرمپ سے اسرائیل کو ہتھیار نہ دینے اور غزہ میں جنگ رُکوانے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ احتجاجی مظاہروں کے پیش نظر لندن میں پولیس کی اضافی نفری تعینات کی گئی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور خاتون اول میلانیا ٹرمپ کی برطانیہ آمد پر پرنس ولیم اور شہزادی کیتھرین نے پرتپاک استقبال کیا۔

خبر ایجنسی کے مطابق صدر ٹرمپ ہیلی کاپٹر کے ذریعے شاہی محل ونزر کاسل پہنچے، برطانوی شاہی خاندان اور امریکی مہمانوں کے درمیان خصوصی جلوس نکالا گیا، جس میں صدر ٹرمپ کے ساتھ کنگ چارلس سوار تھے، جبکہ کوئین کمیلا اور میلانیا ٹرمپ اسکاٹش اسٹیٹ کوچ میں موجود تھیں۔ شاہی محل پہنچنے پر شاہ چارلس سوم اور ملکہ کمیلا نے ٹرمپ اور میلانیا ٹرمپ کو خوش آمدید کہا، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی کل برطانوی وزیراعظم اسٹارمر سے ملاقات ہوگی۔

متعلقہ مضامین

  • ٹرمپ کیخلاف وسطی لندن میں احتجاجی مظاہرہ، غزہ میں جنگ رُکوانے کا مطالبہ
  • ٹرمپ کے خلا ف لندن میں احتجاج، مظاہرین کاغزہ جنگ رکوانے کا مطالبہ
  • امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سرکاری دورے پر لندن پہنچ گئے، کن اہم امور پر گفتگو ہوگی؟
  • ٹرمپ کا نیو یارک ٹائمز کیخلاف کئی ارب ڈالر کے ہرجانے کا دعویٰ
  • ٹر مپ کا نیو یارک ٹائمز کیخلاف کئی ارب ڈالر کے ہرجانے کا دعویٰ
  • وزیراعظم شہباز شریف کی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے 25 ستمبر کو ملاقات کی تیاریاں
  • ڈونلڈ ٹرمپ کا نیویارک ٹائمز پر 15 ارب ڈالر ہرجانے کا دعویٰ
  • وزیراعظم شہباز شریف کی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے 25 ستمبر کو ملاقات کا امکان
  • دوحہ پر حملے سے 50 منٹ پہلے صدر ٹرمپ کو خبر تھی، امریکی میڈیا کا دھماکہ خیز انکشاف
  • ٹرمپ عمر رسیدہ ، صدارت کے اہل نہیں؟ امریکی سیاست میں نئی بحث چھڑ گئی