UrduPoint:
2025-07-26@14:00:27 GMT

نقطہ نظر کی تبدیلی زندگی تبدیل کر دیتی ہے

اشاعت کی تاریخ: 28th, January 2025 GMT

نقطہ نظر کی تبدیلی زندگی تبدیل کر دیتی ہے

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 28 جنوری 2025ء) نیورو سائنس کی تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ ہمارا دماغ ملنے والی حسی معلومات اور ہمارے موجودہ علم کی بنیاد پر مسلسل دنیا کے ماڈل بنا رہا ہے۔ نقطہ نظر کی تبدیلی میں مشغول ہو کر ہم ان ذہنی ماڈلز کو نئی شکل دے سکتے ہیں یعنی ہم اپنے دماغ کو مسلسل کون سی معلومات فراہم کر رہے ہیں اس کا ہماری زندگی پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے۔

ہم اپنا فارغ وقت کن سرگرمیوں میں گزارتے ہیں ہمارے نقطہ نظر کی سمت متعین کرتا ہے۔ ایک بڑھتا ہوا رجحان زیادہ تر وقت انٹرنیٹ پر غیر حاضر دماغی سے سکرولنگ کرنا ہے جو کہ ذہنی صحت پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔

سوشل میڈیا انفلوئنسز کی نظر آنے والی ظاہری چمک دمک والی زندگی بہت سے لوگوں میں مسلسل اپنی زندگی کا موازنہ کرنا اور احساس کمتری کا شکار ہونے کو فروغ دیتی ہے۔

(جاری ہے)

اس کے برعکس اگر ہم اپنا وقت مثبت سرگرمیوں میں گزاریں تو سوچ کا زاویہ بدل سکتا ہے اور اس طرحح ہمارے خوشی، غمی، آسودگی کے معیار سطحی نہیں رہتے۔

جیسے کہ ورزش کرنا، جم جانا، تازہ ہوا میں چہل قدمی کرنا مزاج اور ذہن دونوں پر مثبت اثر ڈالتا ہے۔ یوں ذہنی کشمش اور پریشانیاں کم ہوتی ہیں اور جسمانی صحت بھی بہتر رہتی ہے۔

اسی طرح مطالعہ کی عادت انسان کی سوچ کے دائرے کو وسیع کرنے میں بہت مفید ثابت ہوتی ہے۔

مختلف مصنفین کی تحریریں مختلف نقطہ نظر سامنے لاتی ہیں اور کھلی ذہنیت کو بڑھاوا دیتی ہیں۔ مختلف تاریخ، ثقافت، مذاہب وغیرہ کے بارے میں جاننا نا صرف دلچسپ تفریح ہے بلکہ انسان میں عاجزی بھی پیدا کرتی ہے جو کہ نسل پرستی اور نفرت کے خلاف بہت کارآمد ہتھیار ہے۔

فلاحی کاموں میں فعال کردار وقت کا ایک اور بہترین مصرف ہو سکتا ہے جو کہ اجتماعی فوائد کا حامل ہے۔

فلاحی کام عام طور پر ذہنی سکون اور مکمل احساس فراہم کرتا ہے جو کسی کی مدد کر کے انسان پر گہرا اثر چھوڑتا ہے۔ انسانی خدمات ایک مثبت سوچ اور شکر گزاری کو ممکن بناتی ہیں۔ ان خدمات کا صرف مالی ہونا ضروری نہیں۔ اپنا وقت اور کوشش بھی کسی ایسے بامقصد منصوبے میں شامل کرنا جس سے ضرورت مندوں کی مدد ہو سکے کسی بھی سطحی اور عارضی خوشی سے بڑھ کر ہے۔

اسی طرح لوگوں سے ملنا جلنا بہت سے ذاتی تجربات سامنے لاتا ہے جن سے ہم سب بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ مثلا ایک صاحب نے اپنا ذاتی تجربہ بیان کیا کہ وہ کیسے بہت پریشان تھے کیونکہ انہوں نے اپنی تمام تر جمع پونجی ایک پلاٹ خریدنے میں اس امید پر لگا دی تھی کہ انہیں جند برس میں دگنا تگنا منافع ہو گا مگر بد قسمتی سے اس زمین کی قیمت اتنی گری که انہیں آدمی قیمت بھی واپس نہ مل سکی۔

وہ شدید ذہنی دباؤ کا شکار تھے کہ ان کی ملاقات بچپن کے ایک دوست سے ہو گئی جس نے بتایا کہ اس نے اپنی تمام جمع پونجی اپنے بیمار اکلوتے بیٹے کے علاج پر خرچ کر دی مگر قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔

دوست کی یہ کہانی سن کر ان صاحب کو شدت سے احساس ہوا کہ جس مالی نقصان کی وجہ سے وہ کب سے دل چھوڑے بیٹھے ہیں اس کی تو زندگی، صحت، خاندان، گھرانے کے سامنے شاید کوئی وقعت ہی نہیں۔

اگر وہ اس دوست سے نہ ملتے تو شاید ساری زندگی خود سے مالدار عزیز و اقارب کو دیکھ کر اس نقصان کا ملال کرتے رہتے اور اصل دولت کو پہچان ہی نہ پاتے۔

سوشل میڈیا پر خریداری، تقاریب، بیرون ملک سیر و تفریح وغیرہ کی تشہیر مرد اور خواتین دونوں میں ذہنی دباؤ، پریشانی اور احساس کمتری پیدا کر رہا ہے۔ امیر و غریب طبقات میں خلیج تو ہمیشہ سے ہر جگہ موجود ہی تھی مگر مسلسل دوسروں کی زندگی پر نظر رکھنا ہماری ترجیح نہیں تھی اور نہ ہی گھنٹوں گھنٹوں انہی معلومات کو حاصل کرنے میں صرف کیے جاتے تھے جو کہ اب ہم اپنے سمارٹ فون پر با آسانی اور غیر حاضر دماغی سے کرتے چلے جاتے ہیں۔

ایک تحقیق نے بھی اس بات کی نشاندہی کی ہے مادی اثاثوں کو جمع کرنا زندگی کو پرسکون اور مطمئن نہیں کرتا بلکہ درحقیقت اضطراب عدم تحفظ اور خالی پن کے گہرے احساسات کا باعث بن سکتا ہے۔ حقیقی زندگی میں اس سے خاص فرق نہیں پڑتا کہ کس کے پاس کتنا پیسہ ہے کیونکہ کسی نہ کسی کے پاس ہم سے زیادہ ہی ہوگا۔ برتر حیثیت حاصل کرنے کا سفر ہمیں ترقی کی بجائے اضطراب کا شکار بنا دیتا ہے۔

کسی بھی چیز کا نیا پن جیسے برانڈڈ لائف سٹائل کے لیے مہنگے بیگ، زیورات، بڑا گھر، بڑی گاڑی وغیرہ آخر کار ختم ہو جاتا ہے اور اسے تبدیل کرنے کی خواہش مزید بڑھ جاتی ہے۔

ہم اپنے دماغ کو جس طرف چاہیں راغب کر سکتے ہیں۔ جیسے کہ صرف امیر سے امیر ہونے کا شوق ہی نہیں بلکہ ہم کن موضوعات پر سوشل میڈیا کی پوسٹ یا ٹی وی ڈرامے دیکھ رہے ہیں اور کسی صحبت میں وقت گزار رہے ہیں کا ہمارے نقطہ نظر سے براہ راست تعلق ہوتا ہے۔

اگر ہم مسلسل خاندانی سیاست، ساس بہو کے جھگڑے، دیورانی جیٹھانی کی جلن ہی دیکھتے اور اس بر بات کرتے رہیں گے تو ہمارا ذہن بھی اپنی سوچ کا زاویہ یہیں تک محدود کرلے گا۔ اس کے برعکس اگر ہم کتب، حالات حاضرہ، زندگی کے اصل معنی، صحت، اولاد، تعلیم و تربیت اور فلاحی خدمات پر تو مرکوز کرکے اپنا وقت گزاریں گے تو ہمارا ذہن بھی مثبت راہ پر چلے گا۔

زندگی کی ستم ظریفی یہ ہے کہ ہم اکثر ایسی چیزوں کا پیچھا کرتے ہیں جن کے بارے میں ہم یہ گمان رکھتے ہیں کہ وہ ہمیں مطمئن اور مکمل ہونے کا احساس فراہم کریں گے مگر اکثر ان چیزوں کو حاصل کرنے کے بعد بہت عارضی خوشی نصیب ہوتی ہے اور جلد خالی پن پہلے سے زیادہ بے چین کر دیتا ہے۔

اپنی ترجیحات درست رکھنا اپنی اور اپنے پیاروں کی صحت، زندگی، اپنا گھر، رشتے، خاندان، دوست احباب، اپنوں کا وقت، پیار اور ان کا ساتھ اس خالی پن کو دور کر سکتا ہے۔

نقطہ نظر کا قبلہ سیدھا رکھنا انفرادی طور پر انسان کو خود اور اجتماعی طور پر اس کے ارد گرد والوں کو پرسکون، مطمئن اور خوش کر سکتا ہے۔ یہ وہ ذہنی ترقی ہے جس سے ہم اپنی نئی نسل کا بھلا کر سکتے ہیں۔ اگر ہم 40 اور 50 سال کی عمر میں بھی زندگی اور دنیا کو اسی نظر سے دیکھیں جیسے ہم انیس بیس سال کی کچی عمر میں دیکھتے تھے تو شاید ہم نے اس بیچ کے تمام برس ضائع کر دیے ہیں یعنی وقت کے ساتھ علم و دانش سے ذہن سازی اور بہتر سوچ ہی مستقبل کی راہ ہے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے سکتے ہیں سکتا ہے اگر ہم

پڑھیں:

جعلی بیج زراعت اور کلائیمیٹ چینج

جی آپ نے درست سنا کہ 19 جولائی کو حکومت نے اعلان کیا تھا کہ بیج فراہم کرنے والی 400 کمپنیوں کے لائسنس معطل کر دیے گئے ہیں۔ یہ اقدام زرعی پیداوار کو بہتر بنانے کے لیے کیا گیا ہے۔ یہ کمپنیاں کسانوں کو جعلی بیج فراہم کرنے میں ملوث پائی گئیں۔ کسان ان کمپنیز کے بیجوں پر بھروسہ کرتے تھے لیکن اب یہ سن کر زمین اور کسان دونوں کو جھٹکا لگا ہوگا۔ زمین کے نیچے سے زمین سرک گئی ہوگی اور کسان کے سر پر سے سایہ چھن گیا ہوگا۔

جن کمپنیز پر آسرا کیا ہوا تھا معلوم ہوا کہ یہ وہی بیج ہیں جو مٹی میں جب مل جاتے تو ان بیجوں کی ناکامی سے زمین بانجھ ہو جایا کرتی تھی۔ کہا جا رہا ہے کہ جتنے بیج استعمال ہو رہے تھے اس کا نصف جعلی بیج کہلاتے تھے لیکن کسانوں کو کیا معلوم اور زمین خاموشی سے یہ ظلم کب سے سہے جا رہی تھی۔

ہر سال فی ایکڑ پیداوار میں کمی بھی ہو رہی تھی تو اس کا الزام ماہرین زراعت سے لے کر کسان اور کالم نگار سب بیج کے علاوہ دیگر امور کو مورد الزام ٹھہراتے۔ کسان ہر سال زمین کی تیاری پر پہلے سے زیادہ محنت کرتا، پانی ڈالتا، راتوں کو اٹھ اٹھ کر پانی کی باری لگاتا، خوب محنت و مشقت کرتا رہا لیکن جب فصل کم ہوتی تو پانی کی کمی کا رونا، کبھی زمین کی زرخیزی کی شکایت۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ کمپنیاں سالہا سال سے جعلی بیج زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں بیچ رہی تھیں۔ جس کے نتیجے میں کم پیداوار اور ملک کی مجموعی پیداوار میں زبردست کمی کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔

چند سالوں سے اب کلائیمیٹ چینج کا کاندھا بازار میں دستیاب ہے، جعلی بیج بونے کے بعد پیداوار میں کمی کا رونا رونے کے لیے موسمی تبدیلی کے کندھے پر سر رکھ کر رو لیتے ہیں۔ ٹھیک ہے کلائیمیٹ چینج کے اثرات اپنی جگہ انتہائی اہمیت کے حامل ہیں لیکن موسمی تبدیلی کو خواہ مخواہ دھر لینے کا فیشن بھی چل نکلا ہے۔

اس کی آڑ میں وہ جعلی بیج فروخت کرنے والی کمپنیاں اپنا دامن بچائے جا رہی تھیں۔ حکومت کو دیر بلکہ بہت زیادہ دیر سے معلوم ہوا کہ اصل مجرم تو یہ ناقص بیج ہیں جو زمین میں مل کر دھرتی کو خون کے آنسو رلا دیتے ہیں۔ اصلی کھاد ہاتھ جوڑ لیتی کہ آپ کے کیے دھرے کا الزام اب میرے سر لگے گا۔ بات کچھ یوں ہے کہ جعلی کھاد بھی دستیاب ہے جو کم دام میں مل جائے اور جب جعلی بیج اور جعلی کھاد مل کر کھیتوں میں خوب دھما چوکڑی مچاتے ہیں کہ اس جرم کے پیچھے ہر کوئی موسمیاتی تبدیلی کا ذکر لے بیٹھتا ہے۔ بات مکمل نہیں ہوتی جب تک مثلث کو مکمل نہ کیا جائے۔ حیران نہ ہوں کسان بھائی اچھی طرح جانتے ہیں کہ پیسے بچانے کی خاطر سستی ادویات کا چھڑکاؤ کیا جاتا ہے۔

اب تینوں جب مل جاتے ہیں تو نتائج کا ذمے دار آج کل صرف اور صرف کلائیمیٹ چینج کو قرار دیا جاتا ہے اب یہ حقیقت بھی بنتا چلا جا رہا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ کلائیمیٹ چینج کے اثرات ہیں جو زمین کی اداسی کو بڑھا رہی ہے اسے گھن کی طرح کھائے جا رہی ہے۔ زمین ان اثرات کے زیر اثر بہے چلی جا رہی ہے اور کھوکھلی ہوتی چلی جا رہی ہے۔ جس طرح جعلی بیجوں کا خیال حکومت کو 15 سے 20 سال کے بعد آیا اسی طرح کچھ نہ کچھ اب موسمیاتی تبدیلی کا خیال بھی آ ہی گیا ہے لیکن اسے ایک فی صد کہہ سکتے ہیں۔

اسی موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے باعث چکوال میں کلاؤڈ برسٹ ہوا تھا۔ 450 ملی میٹر بارش ہوئی۔ نصف درجن سے زائد ڈیمز ٹوٹ گئے۔ پورے شہر میں اور ارد گرد کے مختلف گاؤں دیہاتوں میں لوگوں کا لاکھوں روپے کا نقصان ہوا۔ اس کلائیمیٹ چینج کے اثرات زمینوں پر مرتب ہو رہے ہیں۔ پاکستان میں چند ایک تنظیمیں ہیں جو اس پر کام کر رہی ہیں بلکہ ملک کے ایک نام ور ماہر کلائیمیٹ چینج جناب مجتبیٰ بیگ اپنے ذاتی وسائل اور قیمتی وقت خرچ کرکے کلائیمیٹ جرنلسٹ تیار کر رہے ہیں جوکہ موسمیاتی تبدیلی کے برے اثرات کو کم کرنے کے لیے ہر اول دستے کا کام کریں گے۔

اب زراعت کو بچانے کے لیے بھی کلائیمیٹ چینج کے اثرات کم کرنے کے لیے ترجیحی بنیادوں پر کام کرنا ہوگا۔ اب پاکستان کی زراعت کو جعلی بیجوں، جعلی کھاد اور جعلی ادویات کے ساتھ ساتھ کلائیمیٹ چینج کا بھی مقابلہ کرنا ہوگا۔ حکومت نے جعلی بیجوں کے سلسلے میں 400کمپنیوں کے خلاف سخت تادیبی کارروائی کا فیصلہ کیا ہے۔ اسی طرح اب جعلی کھاد کے علاوہ جب کھاد کا سیزن ہوتا ہے تو اصلی کھاد چھپا لی جاتی ہے۔ کئی عشرے قبل یہ کام ذخیرہ اندوز کیا کرتے تھے۔ وہ لالچ کے تحت معمولی منافع کے عوض پھر کھاد فروخت بھی کر دیتے تھے۔

اسی طرح جعلی ادویات کا اسٹاک ختم ہوتا تو مارکیٹ میں اصلی ادویات تھوڑے مہنگے داموں فروخت کر دیتے۔ اب بات ذخیرہ اندوزوں کے ہاتھ سے نکل کر مافیا کے ہاتھ آ گئی ہے۔ جو انتہائی ذہانت، مہارت اور سائنسی انداز میں بڑے کیلکولیشن کے ساتھ مارکیٹ پر قبضہ کرتے ہیں اور سائنسی اصولوں کے تحت بڑی ذہانت کے ساتھ اپنے حق میں نتائج حاصل کرتے ہیں۔

ظاہر سی بات ہے حکام کے پاس کار سرکار کے ہزاروں کام ہوتے ہیں، ان کا ایک ایک منٹ ، ایک ایک سیکنڈ قیمتی ہوتا ہے اور اب موسمیاتی تبدیلی کا عنصر بھی شامل ہو گیا ہے لہٰذا اتنا وقت نہیں ہوتا کہ توجہ دی جائے لہٰذا جب تک زراعت کو ترجیح نہیں دی جائے گی اسی طرح جعلی بیج ادویات کھاد مہنگی ہو کر ملتی رہیں گی اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کسانوں اور شہروں میں شہریوں تک سب کو شدید متاثر کرتے رہیں گے۔ لہٰذا موسمیاتی تبدیلی کو بھی ترجیحات میں شامل کیا جائے اور اس کے لیے فوری عملی اقدامات اٹھائے جائیں۔

متعلقہ مضامین

  • کرشمہ کپور اور آنجہانی سنجے کپور کے تعلقات پر سنیل درشن کے حیران کن انکشافات
  • آج کا دن کیسا رہے گا؟
  •  ٹک ٹاک کے جنون نے ایک اور زندگی نگل لی
  • سیاسی اختلافات کو نفرت میں تبدیل نہیں کرنا چاہیے)حافظ نعیم (
  • کراچی میں غیر ملکی شہریوں کے گھروں میں ڈکیتیاں، اہم انکشافات
  • شوگر کے مریضوں کے لیے زندگی بچانے والا معمول کیا ہوسکتا ہے؟
  • سیاسی اختلافات کو نفرت میں تبدیل نہیں کرنا چاہئے،حافظ نعیم الرحمان 
  • سرجری یافلرز، کومل میر کا چہرہ کیوں بدلا؟ اداکارہ نے سب کچھ بتادیا
  • بارشیں اور حکومتی ذمے داری
  • جعلی بیج زراعت اور کلائیمیٹ چینج