Nai Baat:
2025-04-26@01:25:35 GMT

سیاست تو چلتی رہے گی!

اشاعت کی تاریخ: 29th, January 2025 GMT

سیاست تو چلتی رہے گی!

پاکستان کی سیاست کی کو ئی کل سیدھی نہیں ہے، یہاں کل کے حریف آج کے حلیف اور آج کے حریف کل کے حلیف بنتے ذرا دیر نہیں لگتی ۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا اور یہ مفادات کے حصول کے گرد گھومتی ہے۔ جس کو جہاں اپنا فائدہ نظر آیا وہ اس طرف چلا جاتا ہے ، اصول اور نظریات جو کسی زمانہ میں سیاست کی جان ہوا کرتے تھے اب یہ الفاظ اپنی قدر کھو چکے ہیں ۔ قومی مفادات پر ذاتی مفادات کو ترجیح حاصل ہو چکی اور یہی وجہ ہے کہ سیاستدانوں کی اکثریت کو عوام سے کوئی سروکار نظر نہیں آتا ہے ۔ اراکین پارلیمنٹ بھی آپ کو الیکشن کے دنوں میں ہی نظر آتے ہیں اور اس کے بعد ایسے غائب ہوتے ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ سیاست خدمت کی بجائے پیسوں کاکھیل بن چکی ہے اور عام آدمی الیکشن میں حصہ لینے کا سوچ بھی نہیں سکتا کہ یہ اب امراء کا پسندیدہ مشغلہ بن گیا ہے۔عام طور پر کہا جاتا ہے کہ سیاست میں سب سے اہم کردار ایک سیاسی کارکن کا ہوتا ہے۔ کسی بھی جماعت کی ریڑھ کی ہڈی اس جماعت کا کارکن ہوتا ہے لیکن کارکن ہمیشہ مظلوم ہوتا ہے جسے سیاستدان اپنے مطلب کیلئے ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرتا اور ضرورت پوری ہونے پر چھوڑ دیتا ہے۔ کارکن ہمیشہ جذباتی اور محب وطن ہوتا ہے جس کیلئے سب کچھ اپنا وطن اور جماعت ہوتی ہے ‘ وہ اپنے ملک و قوم کی ترقی کیلئے اپنے لیڈر کی میٹھی میٹھی باتوں سے متاثر ہو کر اسے قوم کا مسیحا سمجھنے لگتا ہے اور ملک و قوم کی محبت کی آڑ میں سیاستدانوں کے ہاتھوں استعمال بھی ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں سیاستدان کارکن کے ان جذبات کا فائدہ اٹھا کر اسے خوب استعمال کرتا ہے۔جہاں تک زیادہ تر سیاسی جماعتوں کا تعلق ہے وہ اپنی ساخت کے اعتبار سے اس طرح کی نہیں جیسا کہ مغربی ممالک کی سیاسی جماعتیں ہیںجو باقاعدہ ایک نظام کے ماتحت ہیں۔ ہمارے ہاں عوام سب کی عزت کرتے ہیں مگر ان کی عزت کون کرتا ہے؟

ایک سوال تو یہ بھی ہے کہ قانون ساز ادارہ میں کیا ایسے افراد ناپید ہیں جو عوام کی بھلائی کیلئے قانون سازی کر سکیں؟ عوام کا سب سے بڑا مسئلہ ہمیشہ سے مہنگائی ہی رہا ہے۔ گو مہنگائی کم کرنا اراکین پارلیمنٹ کا کام نہیں لیکن حکومتی و اپوزیشن بینچز پر بیٹھے اراکین حکومت پر دبائو تو ڈال سکتے ہیں کہ وہ عوام کو ریلیف دینے کیلئے بنیادی اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں نمایاں کمی کرے۔ اس کے علاوہ ہر فرد کو صحت و تعلیم کی بنیادی سہولیات کی فراہمی بھی حکومت کا کام ہے۔ لیکن آپ کسی سرکاری ہسپتال چلے جائیں آپ کو نا لائقی اور کرپشن کی مثالیں قدم قدم پر نظر آئیں گی ۔تھانہ کچہری کلچر کے ڈسے عوام کی دہائی الگ داستانیں سنا رہی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اچھے لوگوں کی اس معاشرہ میں کمی نہیں لیکن بحیثیت مجموعی معاشرہ گراوٹ کا شکا ر ہے۔ دھوکہ دہی، فراڈ، بے ایمانی، ملاوٹ، کرپشن جیسی معاشرتی برائیاں معاشرہ کیلئے ناسور بن چکی ہیں ۔ کیا یہ نظام ٹھیک ہو گا؟ یہ وہ سوال ہے جو ہر شریف اور ایماندار آدمی کے ذہن میں موجود ہے۔ اس سوال کا جواب تو یہ ہونا چاہئے کہ یہ نظام ضرور بدلے گا لیکن یہ اتنا بھی آسان نہیں‘ اس کیلئے ہم میں سے ہر ایک کو اپنا آپ بدلنا ہو گا۔ ایک سیاسی جماعت کا شاید سلوگن تھا ’یہ نظام تب بدلے گا جب ہم بدلیں گے۔‘ میرے نزدیک بھی ایسا ہی ہے۔ شر اور خیر کی لڑائی ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گی ۔ کبھی شر کی قوتیں زور پکڑ لیتی ہیں تو کبھی خیر غالب آ جاتی ہے۔وقتی طور پر آپ کو شاید لگے کہ شر کی قوتیں جیت رہی ہیں لیکن آخری فتح خیر کی ہو تی ہے۔

پاکستانی سیاست میں یہی وتیرہ رہا ہے کہ ہر نئی حکومت دو طرح کے وعدوں کے ساتھ اقتدار سنبھالتی ہے ایک وعدہ عام لوگوں سے کیا جاتا ہے جبکہ خواص سے دوسری نوعیت کا وعدہ ہوتا ہے۔ عوام الناس سے کیے جانے والے عام وعدوں میں بہتر معیار زندگی،بے روزگاری میں کمی،تعلیم اور صحت کے شعبوں میں بہتر سہولیات کی فراہمی وغیرہ شامل ہوتے ہیں ۔خصوصی وعدے سیاستدانوں سے انفرادی اور گروہی سطح پر کیے جاتے ہیں یہ وعدے حکومتی پارٹی کی حمایت کے صلے میں سیاستدانوں اور ان کے خاندانوں کیلئے انفرادی مراعات اور ان کے انتخابی حلقوں میں ان کی سیاسی حیثیت کو مستحکم کرنے کیلئے ترقیاتی کاموں کا اجرا ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست کا ایک اور عجیب طرزِ عمل ہے۔ یہاں سیاست عوامی مفاد سے زیادہ مخصوص لیڈروں کی خواہشات کے گرد گھومتی ہے اور ماضی وحال میں اس کی کئی مثالیں موجود ہیں اور مستقبل میں بھی مزید مثالیں سامنے آئیں گی۔ پاکستان کے 24 کروڑ عوام بہترین زندگی نہیں صرف جینے کا حق چاہتے ہیں، پینے کا صاف پانی، بجلی، گیس، دو وقت کی روٹی، پرامن ماحول، وہ بیرون ممالک میں نہیں پاکستان کے سرکاری ہسپتال میں علاج کرانا چاہتے ہیں، اپنے بچوں کو امریکا میں نہیں پاکستان میں پڑھوانا چاہتے ہیں۔انہیں ان کا حق دیا جائے لیکن یہ گتھی اتنی آسانی سے سلجھنے والی نہیں۔ بقول شاعر ؎
غیرممکن ہے کہ حالات کی گتھی سلجھے
اہل دانش نے بہت سوچ کے الجھائی ہے
آخر میں ‘ میں تمام سیاسی جماعتوں سے صرف یہ کہنا چاہوں گا کہ خدارا ہوش کے ناخن لیں۔ یہ وقت سیاست کا نہیں بلکہ عوام کے زخموں پر مرہم رکھنے کا ہے۔ عوام اس نظام سے تنگ آ چکے ہیں‘ وہ سیاستدانوں کی آپسی لڑائیوں سے سخت نالاں ہیں جو اپنے مفادات کی خاطرباہمی دست و گریبان ہیں ۔ عوام کی خواہش ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں ایک میز پر بیٹھیں اور ملکی مسائل کے حل کیلئے ٹھوس اور قابل عمل لائحہ عمل بنائیں ۔ پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے ہر طرح کے قدرتی وسائل سے نواز رکھا ہے‘ نوجوان افرای قوت ہمارا بڑا قیمتی اثاثہ ہے۔عوام حسرت بھری نگاہوں سے سیاستدانوں کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ وہ اپنے مفادات اور خواہشات کا گلہ گھونٹ کر ان کے حلق میں پانی انڈیلیں۔خدارا‘ ان کی امید ٹوٹنے نہ دیں۔ کل کیا ہو گا کسی کو کچھ پتہ نہیں لیکن پاکستانی عوام جانتے ہیں کہ کچھ نہیں ہو گا ‘ تاہم یہ وقت ہے کہ سیاستدان اپنے طرزِ عمل سے ا س تاثر کو زائل کرتے ہوئے نفرت‘ انتشار اور تقسیم کا خاتمہ کریں۔ باقی سیاست تو چلتی رہے گی۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: سیاسی جماعت ہے کہ سیاست ہیں لیکن جاتا ہے ہوتا ہے ہے اور ہیں کہ

پڑھیں:

اسسٹنٹ کمشنرز کیلئے گاڑیوں کی خریداری،جماعت اسلامی نے فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا

جماعت اسلامی نے اسسٹنٹ کمشنرز کے لیے 138 ڈبل کیبن گاڑیوں کی خریداری کے حوالے سے سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا۔

جماعت اسلامی کے رکن سندھ اسمبلی محمد فاروق نے سندھ حکومت کی جانب سے اسسٹنٹ کمشنرز کے لیے 138 ڈبل کیبن گاڑیوں کی خریداری سے متعلق سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں اپیل دائر کردی گئی ۔

درخواست گزار کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ 28 مارچ کو سندھ ہائی کورٹ نے گاڑیوں کی خریداری کے خلاف درخواست مسترد کردی ہے، حکومت سندھ کی جانب سے بیوروکریسی کیلیے 138 بڑی گاڑیاں خریدی جارہی ہیں، ان گاڑیوں کی خریداری کے لیے تقریباً 2 ارب روپے کے اخراجات ہوں گے، 3 ستمبر کو اس سلسلے میں نوٹیفکیشن جاری کیا جاچکاہے ۔

درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ گاڑیاں عوام کے ادا کردہ ٹیکسوں کی رقم سے خریدی جائیں گی جبکہ صوبے میں عوام کو صحت اور تعلیم کی بنیادی سہولتیں میسر نہیں ہیں، عوام کے ٹیکس کے پیسے کو عوام کی بہبود کیلیے استعمال کرنا چاہیے۔درخواست میں کہا گیا ہے کہ بیوروکریسی کیلیے ڈبل کیبن گاڑیاں خریدنے سے عوام کا کوئی فائدہ نہیں، اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہوئے یہ عوامی پیسے کا بے جا استعمال ہے۔

درخواست گزار محمد فاروق نے کہا کہ3 ستمبر کے گاڑیاں خریدنے سے متعلق نوٹیفکیشن کو غیر قانونی اور کالعدم قرار دیا جائے، عدالتی فیصلے تک نوٹیفکیشن پر عملدرآمد معطل کیا جائے اور سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے۔

واضح رہے کہ ستمبر 2024 میں کفایت شعاری مہم کے نام پر حکومتی اخراجات میں کمی کے دعووں کے درمیان یہ بات سامنے آئی تھی کہ حکومت سندھ نے صوبے بھر میں تعینات اپنے اسسٹنٹ کمشنرز کے لیے 138 لگژری ڈبل کیبن گاڑیوں کی خریداری کی منظوری دی تھی۔

رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ سروسز، جنرل ایڈمنسٹریشن اور کوآرڈنیشن ڈپارٹمنٹ نے صوبہ بھر میں اسسٹنٹ کمشنر کے لیے 138 ڈبل کیبن (4ایکس4) گاڑیوں کی خریداری کے لیے تقریباً 2 ارب روپے کے فنڈز جاری کرنے کے لیے محکمہ خزانہ کو خط لکھا تھا۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ نے ایک ہفتے کے دورے پر امریکا روانہ ہونے سے قبل اس ہفتے کے شروع میں اسسٹنٹ کمشنرز کے لیے گاڑیوں کی خریداری کی سمری کی منظوری دی تھی۔گاڑیوں کی خریداری کے لیے بھاری رقم کی منظوری صوبائی حکومت کی جانب سے مالیاتی رکاوٹوں کی وجہ سے مالی سال 2024-2025 کے سالانہ ترقیاتی پروگرام کے تحت کوئی نیا اپ لفٹ پروجیکٹ شروع نہ کرنے کے فیصلے کے پس منظر میں دی گئی تھی۔

بعدازاں سندھ ہائیکورٹ نے جماعت اسلامی کے رکن سندھ اسمبلی محمد فاروق کی درخواست پر سندھ حکومت کو گاڑیوں کی خریداری روکنے کا حکم دیا تاہم بعدازاں عدالت نے سندھ حکومت کو افسران کے لیے گاڑیاں خریدنے کی اجازت دے دی تھی جس کے بعد رواں ہفتے ہی محکمہ خزانہ سندھ نے گاڑیوں کی خریداری کے لیے 55 کروڑ 66 لاکھ روپے جاری کردیے تھے۔

متعلقہ مضامین

  • دنیا کا سب سے کڑوا ترین مادہ دریافت
  • جنرل بخشی جیسے نیم پاگل لوگوں کی چیخوں سے پاکستان کی صحت پہ کوئی فرق نہیں پڑتا، ایمان شاہ
  • کرکٹ میں بھی سیاست، پہلگام حملے کے بعد بھارتی کرکٹ بورڈ نے پاکستان کو کیا پیغام دیا؟
  • کھیل میں سیاست؛ پہلگام واقعہ! “کرکٹ نہیں کھیلیں گے”
  • کھیل میں سیاست؛ پہلگام واقعہ! کرکٹ نہیں کھیلیں گے
  • اسسٹنٹ کمشنرز کیلئے گاڑیوں کی خریداری،جماعت اسلامی نے فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا
  • فضل الرحمٰن کا فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کیلئے لاہور، کراچی، کوئٹہ میں ملین مارچ کا اعلان
  • پاکستان کسان اتحاد کا گندم کی کاشت میں بہت بڑی کمی لانے کا اعلان
  • اے سیز کیلئے گاڑیوں کی خریداری: جماعت اسلامی نے فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا
  • وفاق نے معاملہ خراب کردیا، حکومت گرانا نہیں چاہتے لیکن گراسکتے ہیں، وزیراعلیٰ سندھ