خاتون کی قابلِ اعتراض تصاویر پھیلانے والے کو 3 سال قید کا حکم
اشاعت کی تاریخ: 19th, November 2025 GMT
اسلام آباد(نیوزڈیسک)ایڈیشنل سیشن کورٹ نے خاتون کی قابلِ اعتراض تصاویر کے کے پھیلاؤ کا الزام ثابت ہونے پر ڈیرہ غازی خان سے تعلق رکھنے والے شخص کو تین سال کی قید کا حکم دے دیا۔
نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی نے مقدمہ درج کیا تھا، سنگین مقدمے میں تحقیقات مکمل کر کے اہم کامیابی حاصل کی ہے۔
مجرم نے متاثرہ خاتون کی جنسی ناقابل اعتراض تصاویر اس کے شوہر اور بھائی کو متعدد واٹس ایپ نمبرز کے ذریعے بھیجیں۔
ملزم نے یہ قابلِ اعتراض مواد اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر بھی شئیر کیا، ملزم کو 09 مارچ 2023 کو گرفتار کیا اور اس کے قبضے سے موبائل فون، سم کارڈز اور دیگر ڈیجیٹل شواہد برآمد کیے۔
فورینزک لیبارٹری کی ٹیکنیکل اینالیسس رپورٹس نے ملزم کے خلاف شواہد کو مزید مضبوط کیا۔
ایڈیشنل سیشن جج ویسٹ اسلام آباد عبدالحفیظ میمن نے فیصلہ سنایا، ملزم کو الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016 کے تحت تین سال قید اور 1 لاکھ روپے جرمانہ کی سزا دی گئی، عدالت نےمجرم کو 50 ہزار روپے ہرجانہ کی رقم متاثرہ خاتون کو ادا کرنے کا حکم بھی دیا۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
لاہور ہائیکورٹ کا پولیس کو خاتون نور بی بی کو ہراساں نہ کرنے کا حکم
لاہور ہائیکورٹ نے اسلام قبول کرنے کے بعد شیخوپورہ کے رہائشی ناصر حسین سے نکاح کرنے والی بھارتی سکھ یاتری سربجیت کور (نور بی بی) کو ہراساں کرنے سے روک دیا۔
لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس فاروق حیدر نے نور بی بی (سربجیت کور) اور اس کے شوہر کو ہراسانی سے روکنے کی درخواست پر سماعت کی۔
درخواست گزار نے عدالت میں موقف اپنایا کہ مذہبی رسومات کےلیے آئی بھارتی سکھ خاتون نے قبول اسلام کے بعد ناصر سے نکاح کیا ہے۔
مذہبی تہوار کے سلسلے میں بھارت سے آئی سکھ خاتون نے بھارت واپس جانے سے انکار کردیا۔ اسلام قبول کرکے پاکستانی شہری سے شادی کرلی۔
درخواست میں الزام عائد کیا گیا کہ 8 نومبر کو پولیس نے درخواست گزار کے گھر پر غیرقانونی چھاپہ مارا اور خاتون پر شادی ختم کرنے کےلیے دباؤ ڈالا۔
درخواست کے مطابق خاتون نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا اور نکاح کیا ہے، پولیس حکام کے پاس درخواست گزار کے گھر چھاپہ مارنے کا اختیار نہیں۔
سماعت کے بعد لاہور ہائیکورٹ نے پولیس کو نور بی بی کو ہراساں کرنے سے روک دیا۔