ہمارا ملک اتنا ٹرین ہوچکا ہے کہ آٹھ ججز کے فیصلے کو دو ججز کہتے ہیں غلط ہے، جسٹس جمال خان
اشاعت کی تاریخ: 29th, January 2025 GMT
فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر آج ایک بار پھر جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے سماعت کی ہے۔
سماعت شروع ہوتے ہی وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل شروع کئے اور شق 19 کا حوالہ دیا۔ جس پر جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ میرا سوال گزشتہ روز بھی یہی تھا کہ کیا تفتیش چارج سے پہلے ہوتی ہے؟ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ پہلے تفتیش ہوتی ہے پھر چارج ہوتا ہے۔
خواجہ حارث نے جواب دیا کہ قانون میں واضح ہے کہ ٹرائل اور فئیر ٹرائل میں کیا فرق ہے، چارج فریم ہونے کے بعد شامل تفتیش کیا جاتا ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ اگر کوئی فیصلہ ہو تو کیا آرڈر کے خلاف کوئی ریمیڈی کرسکتے ہیں، مطلب اس میں بھی وہی سزائیں ہوتی ہیں؟
جسٹس محمد علی مظہر نے پوچھا کہ اگر اعتراف نا کرے تو پھر کیا طریقہ کار ہوگا؟ جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ اعتراف نا کرنے کی صورت میں بھی کیس وہی چلے گا؟
خواجہ حارث نے بتایا کہ جج اور ایڈووکیٹ جنرل حلف اٹھاتا ہے کہ غیر جانبداری کو برقرار رکھے گا، سپریم کورٹ اس سماعت میں ہر کیس کا انفرادی حیثیت سے جائزہ نہیں لے سکتی ہے۔ سپریم کورٹ کے سامنے آرٹیکل 184 کی شق 3 کا کیس نہیں ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ملٹری ٹرائل کس بنیاد پر چیلنج ہوسکتا ہے؟
وکیل وزارت دفاع نے بتایا کہ مجاز عدالت نہ ہو، بدنیتی پر مشتمل کارروائی چلے یا اختیار سماعت سے تجاوز ہو تو ٹرائل چیلنج ہو سکتا ہے۔ اگر ملٹری ٹرائل میں کوئی ملزم اقبال جرم کرلے تو اسے اسلامک قانون کے تحت رعایت ملتی ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ اقبال جرم تو مجسٹریٹ کے سامنے ہوتا ہے۔ خواجہ حارث نے کہا کہ وہ معاملہ الگ ہے۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ اگر ملٹری ٹرائل میں کوئی ملزم وکیل کی حیثیت نہ رکھتا ہو تو کیا اسے سرکاری خرچ پر وکیل دیا جاتا ہے؟
وکیل وزارت دفاع نے بتایا کہ وکیل کرنے کی حیثیت نہ رکھنے والے ملزم کو سرکاری خرچ پر وکیل دیا جاتا ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ عام طور پر تو ملزم عدالت کا فیورٹ چائلڈ ہوتا ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا ملٹری کورٹ میں بھی ملزم کو فیورٹ چائلڈ سمجھا جاتا ہے؟
خواجہ حارث نے بتایا کہ آرمی ایکٹ کے رولز کے تحت ملزم کو مکمل تحفظ دیا جاتا ہے۔
جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ میں نے بطور چیف جسٹس بلوچستان، ملٹری کورٹس کے فیصلے کے خلاف اپیلیں سنی ہیں، ایسا نہیں ہوتا کہ محض ملٹری کورٹس کے فیصلے میں صرف ایک سادے کاغذ پر لکھا جاتا ہے کہ ملزم قصور وار ہے یا بے قصور۔
انہوں نے کہا کہ جب رٹ میں ہائیکورٹس میں اپیل آتی ہیں تو جی ایچ کیو پورا ریکارڈ فراہم کرتا ہے۔ ریکارڈ میں پوری عدالتی کارروائی ہوتی ہے جس میں شواہد سمیت پورا طریقہ کار درج ہوتا ہے، آپ 9 مئی کے مقدمات سے ہٹ کر ماضی کے ملٹری کورٹس کے فیصلے کی کچھ مثالیں بھی پیش کریں۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ غیر ملکی جاسوسوں کے علاوہ اگر کسی عام شہری کا ملٹری ٹرائل ہو تو کیا وہاں صحافیوں اور ملزم کے رشتہ داروں کو رسائی دی جاتی ہے۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ قانون میں رشتہ داروں اور صحافیوں کو رسائی کا ذکر تو ہے لیکن سیکیورٹی وجوہات کے سبب رسائی نہیں دی جاتی۔
جسٹس حسن اظہررضوی نے کہا کہ کنڈکٹ کرنے والے کا تجربہ ہوتا ہے یا پہلی دفعہ ہی بٹھا دیا جاتا ہے؟ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ بیس سال کی محنت کے بعد سیشن جج بنتے ہیں۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ دفاعی آفیسر کا کوئی تجربہ ہوتا ہے یا نہیں، جج ایڈووکیٹ عدالت میں موجود ہوتا ہے کورٹ مارشل بھی کرسکتا ہے؟ جس طرح ہم ججز بیٹھے ہوتے ہیں اسی طرح سیٹنگ ہوتی ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ جب ٹرائل مکمل ہوجاتا ہے تو کیا کوئی سرٹیفیکیٹ دیا جاتا ہے؟
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آج کل ہمارا ملک اتنا ٹرین ہوچکا ہے کہ آٹھ ججز کے فیصلے کو دوججز کہتے ہیں غلط ہے، کیا ان کیسز کا کوئی ڈاکیومنٹ دیا جاتا ہے؟
اس دوران سماعت میں وقفہ کردیا گیا۔ وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ ٹرائل میں کوئی غلطی رہ گئی ہو تو کیا اپیل میں غلطی کی نشاندہی پر ملزم کو فائدہ ملتا ہے؟
جس پر خواجہ حارث نے بتایا کہ اپیل کا حق دیا گیا ہے اور اس کے تمام پہلو دیکھے جاتے ہیں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کیا رٹ میں اتنا اختیار ہے کہ پروسیجر کو دیکھا جائے کہ اسے مکمل فالو کیا گیا یا نہیں، زندگی کسی کی بھی ہو انتہائی اہم ہوتی ہے، جج پر بھی تو منحصر ہوتا ہے کہ وہ ٹرائل کیسے چلاتا ہے۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ اپیل میں اپیل کنندہ کو کیا مکمل موقع دیا جاتا ہے؟
خواجہ حارث نے کہا کہ رولز 63 میں ملٹری کورٹ کے پرائزئڈنگ آفیسر کی ذمہ داریاں بتائی گئی ہیں، انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنا اور شفاف ٹرائل کا موقع دینا اس کی ذمہ داری میں شامل ہے، حلف لینے کے بعد آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل کرتے ہیں، ٹرائل کرنے والے افسران کا تجربہ ضروری نہیں لیکن ملٹری ایکٹ پر عبور رکھتے ہوں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ پروسیجر اور شفاف ٹرائل کا موقع تو ہونا چاہیے۔ خواجہ حارث نے کہا کہ ملٹری ٹرائل کرنے والوں کو اس کی کوئی خاص ٹریننگ کی ضرورت نہیں ہوتی، انہوں نے صرف حقائق دیکھنے ہوتے ہیں کہ یہ قصوروار ہے کہ نہیں۔
سوشل میڈیا کی تو بات نہ کریں وہاں کیا کچھ نہیں ہو رہا، سوشل میڈیا پر کچھ لوگ بیٹھ کر اپنے آپ کو سب کچھ سمجھتے ہیں، ان کا کام ہے ان کو کرنے دیں ہمیں ان کی ضرورت نہیں۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ افسوس ہے سوشل میڈیا پر ایسے تاثر دیا جاتا ہے کہ جیسے ہم کسی سیاسی پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں، میرا تعلق خیبرپختونخوا سے ہے میں ملٹری ٹرائل پر اس کے اثرات کہ وجہ سے سوال کرتی ہوں، لیکن افسوس میرے ان سوالات کی وجہ سے مجھے سیاسی پارٹی سے جوڑ دیا جاتا ہے۔
خواجہ حارث نے کہا کہ سوشل میڈیا پر جو بھی ہے وہ فیکٹ میں دلچسپی نہیں لیتے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ میرا تعلق خیبرپختونخوا سے ہے، سوال یہ ہے کہ ان فیصلوں کا عام شہریوں پر کیا اثر پڑے گا، ہمیں ایک بےلگام معاشرے کا سامنا ہے۔
جس پر لطیف کھوسہ بولے کہ صرف بے لگام نہیں بلکہ فسطائیت کا سامنا ہے۔
خواجہ حارث نے کہا کہ ملٹری ٹرائل میں شفاف ٹرائل کے تمام سیف گارڈز رکھے گئے ہیں۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا کہ ڈیفنس آفیسر کا کوئی تجربہ ہوتا ہے، کیا ڈیفنس آفیسر کی صلاحیت ہوتی ہے ملزم کے دفاع کی؟ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ جی متعلقہ افیسر کا تجربہ ہوتا ہے۔
اس دوران لطیف کھوسہ بولے کہ جج ایڈووکیٹ ملزم کے ساتھ نہیں بلکہ پریزائڈنگ آفیسر کے ساتھ بیٹھتا ہے۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ جب جج ایڈووکیٹ پریزائڈنگ آفیسر کے ساتھ بیٹھتا ہے تو وہ ملزم کی کیسے معاونت کرے گا؟ لطیف کھوسہ نے کہا کہ اس حوالے سے بڑے خواجہ صاحب کا بہت وسیع تجریہ تھا۔
لطیف کھوسہ کے بار بار سیٹ پر کھڑے ہونے پر جسٹس امین الدین نے لطیف کھوسہ کو ٹوک دیا اور کہا کہ کھوسہ صاحب یہ کوئی طریقہ نہیں ہے آپ اپنی باری پر بات کیجئے گا۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ خواجہ حارث نے کہا کہ تجربہ ہوتا ہے ملٹری ٹرائل دیا جاتا ہے نے بتایا کہ لطیف کھوسہ سوشل میڈیا ملٹری کورٹ ہو تو کیا کے فیصلے ملزم کو ہوتی ہے کے بعد
پڑھیں:
جسٹس منصور علی شاہ نے بطور قائم مقام چیف جسٹس پاکستان ذمہ داریاں سنبھال لیں
سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس سید منصور علی شاہ نے قائم مقام چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے کا حلف اٹھا لیا ہے۔ حلف برداری کی پُروقار تقریب لاہور میں سپریم کورٹ رجسٹری میں منعقد ہوئی، جہاں جسٹس عائشہ اے ملک نے ان سے حلف لیا۔
یہ بھی پڑھیں:ہراسگی عالمی مسئلہ ہے، جسٹس منصور علی شاہ کا اہم فیصلہ
تقریب میں اعلیٰ عدلیہ کے ججز، معروف وکلاء، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب امجد پرویز، اور دیگر قانونی ماہرین نے شرکت کی۔ اس موقع پر جسٹس شاہد وحید، جسٹس عامر فاروق، جسٹس شاہد بلال اور جسٹس علی باقر نجفی بھی موجود تھے۔
جسٹس منصور علی شاہ کی بطور قائم مقام چیف جسٹس تقرری آئین کے مطابق عمل میں لائی گئی، جب کہ باقاعدہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ غیر ملکی دورے پر روانہ ہو چکے ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ کی عدلیہ میں شفاف اور اصلاحاتی سوچ کی شہرت ہے، اور ان سے توقع کی جا رہی ہے کہ وہ اپنی عبوری قیادت میں عدالتی نظام کی کارکردگی اور شفافیت کو مزید بہتر بنائیں گے۔
عدلیہ سے وابستہ حلقوں نے ان کی تقرری کو ایک مثبت پیش رفت قرار دیا ہے، کیونکہ جسٹس منصور علی شاہ ماضی میں بھی عدالتی اصلاحات اور جدید عدالتی نظام کے حامی رہے ہیں۔ وہ انسانی حقوق، ماحولیاتی انصاف، اور عدالتی شفافیت جیسے موضوعات پر گہری بصیرت رکھتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:کچھ غلط کیا ہی نہیں تو ریفرنس کا ڈر کیوں، اللہ مالک ہے، جسٹس منصور علی شاہ
حلف برداری کے بعد جسٹس منصور علی شاہ نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ قانون کی بالادستی، عدلیہ کی آزادی اور انصاف کی بروقت فراہمی کو یقینی بنانے کی کوشش کریں گے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
جسٹس منصور علی شاہ حلف سپریم کورٹ قائم مقام چیف جسٹس