اسلام آباد (نیوز ڈیسک) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ماحولیاتی تبدیلی کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر شیری رحمان کی زیر صدارت منعقد ہوا، جس میں وزارت صنعت و پیداوار کے حکام نے الیکٹرک وہیکل (EV) پالیسی پر بریفنگ دی۔ اجلاس کے دوران شیری رحمان نے حکام کی ناقص تیاری پر شدید برہمی کا اظہار کیا اور انہیں سرزنش کی۔

شیری رحمان نے کہا کہ سردیوں میں اسموگ جیسے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے الیکٹرک گاڑیوں کی حوصلہ افزائی ضروری ہے۔ ان کے مطابق پاکستان 2030 تک 30 فیصد الیکٹرک گاڑیوں کا ہدف رکھتا ہے، لیکن چارجنگ انفراسٹرکچر کی کمی اس عمل میں بڑی رکاوٹ ہے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ ملک میں 3,000 چارجنگ اسٹیشنز اور بیٹری اسواپنگ اسٹیشنز کا قیام ناگزیر ہے تاکہ صارفین کو سہولت فراہم کی جا سکے۔

انہوں نے وزارت صنعت و پیداوار کے حکام پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ افسوس کی بات ہے کہ وزارت کو یہ تک معلوم نہیں کہ ملک میں مقامی سطح پر کتنی الیکٹرک گاڑیاں تیار ہو رہی ہیں اور چارجنگ اسٹیشنز کہاں ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ آئندہ اجلاس میں کسی بھی قسم کے بہانے قبول نہیں کیے جائیں گے اور تیاری کے بغیر آنے والے حکام کو جوابدہ ہونا پڑے گا۔

سیکرٹری وزارت موسمیاتی تبدیلی نے اجلاس کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ پبلک ٹرانسپورٹ میں الیکٹرک وہیکلز کا آنا زیادہ ضروری ہے تاکہ کاربن کے اخراج کو کم کیا جا سکے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت 2030 تک ملک میں 30 فیصد الیکٹرک گاڑیوں کے ہدف کے لیے پرعزم ہے اور اس حوالے سے وزیرِاعظم نے اسٹیئرنگ کمیٹی بھی تشکیل دی ہے۔

کمیٹی کے چیئرمین نے کہا کہ گاڑیوں کے کاربن اخراج سے ماحول میں آلودگی میں اضافہ ہو رہا ہے، اور اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے واضح پالیسی کی ضرورت ہے۔ وزارت صنعت و پیداوار کے حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ دو سے تین ویلرز پر سبسڈی دینے کی تجویز زیر غور ہے تاکہ عوام کو سستی اور ماحول دوست ٹرانسپورٹ فراہم کی جا سکے۔

شیری رحمان نے اجلاس کے دوران کہا کہ وزارت صنعت و پیداوار الیکٹرک وہیکل پالیسی پر واضح موقف اختیار کرنے میں ناکام ہو رہی ہے اور ان کے پاس اس حوالے سے کوئی عملی منصوبہ موجود نہیں ہے۔ انہوں نے حکام کو ہدایت کی کہ آئندہ اجلاس میں مکمل تیاری کے ساتھ شرکت کی جائے ورنہ مزید سخت اقدامات کیے جائیں گے۔

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: وزارت صنعت و پیداوار انہوں نے کہا کہ

پڑھیں:

این ڈی ایم اے اور محکمہ موسمیات نے بارشوں کی الگ الگ پیش گوئی کی، سینیٹ کمیٹی میں انکشاف

ملک بھر میں رواں سال مون سون کی بارشوں سے 998 افراد ہلاک اور 1062 افراد زخمی ہوئے جبکہ مجموعی طور پر 3 کروڑ لوگ متاثر ہو چکے ہیں۔

اس کے باوجود ملک میں پیشگی انتباہی نظام یعنی ارلی وارننگ سسٹم کا نہ ہونا حالیہ تباہی کی بڑی وجہ بن رہی ہے۔ اب سینیٹ کمیٹی برائے ماحولیاتی تبدیلی کے اجلاس میں انکشاف ہوا ہے کہ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) اور پاکستان میٹرولوجیکل ڈپارٹمنٹ (پی ڈی ایم) نے سیلاب اور بارشوں کی الگ الگ پیش گوئی کی ہے۔

یہ بھی پڑھیے: مون سون کا آخری اسپیل اختتام کے قریب،5 ہزار سے زائد دیہات زیر آب: چیئرمین این ڈی ایم اے

سینیٹ کمیٹی برائے ماحولیاتی تبدیلی کا اجلاس سینیٹر شیری رحمان کی زیر صدارت منعقد ہوا، کمیٹی اجلاس میں رکن کمیٹی سینیٹر وقار احمد نے کہا کہ ملک میں پیشگی انتباہی نظام کا نہ ہونا حالیہ تباہی کی بڑی وجہ بن رہی ہے، سندھ اور کراچی میں ہونے والی بارشوں کے موقع پر پی ایم ڈی نے غلط وارننگ جاری کی تھی۔

پی ڈی ایم اے سندھ کے ڈائریکٹر جنرل نے کمیٹی کو بتایا کہ ہمارے پاس محدود وسائل ہیں، بارشوں سے قبل پی ایم ڈی اور این ڈی ایم اے کی مختلف رپورٹس آ رہی تھی اور پی ایم ڈی نے غلط جگہ پر زیادہ بارشوں کی اطلاع دی تھی، ہم نے اس مقام پر تیاری کی اور بارش کسی اور جگہ ہو گئی جس سے نقصانات ہوئے، حیدرآباد میں بھی 27 اگست کو این ڈی ایم اے اور پی ایم ڈی نے الگ الگ پیشنگوئیاں بھیجیں تھیں۔

اس موقع پر پی ایم ڈی حکام نے بتایا کہ پی ایم ڈی صرف بارشوں کی پیشگوئی کرتا ہے جبکہ پی ڈی ایم اے اس پیشنگوئی کا جائزہ لے کر وارننگ جاری کرتا ہے۔

ملک میں پیشگی انتباہی نظام کے نہ ہونے پر سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ گلگت بلتستان میں گلیشیئر تیزی سے پگھل رہے ہیں، فلیش فلڈنگ کے واقعات بڑھتے جارہے ہیں، مقامی لوگوں کے لیے یہ بہت تکلیف دہ ہوتا ہے ان کے مویشی اور بہت سی قیمتی اشیا پانی میں بہہ جاتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان میں چرواہے کا کردار سب نے دیکھا ہے، چرواہے کی بروقت اطلاع دینے سے بڑے پیمانے پر لوگوں کی جان بچ گئی۔

کمیٹی اجلاس میں حالیہ سیلاب، متاثرین کی حالت، امدادی سرگرمیوں کی پیشرفت، پینے کے پانی کی صورتحال اور حکومتی اقدامات کا تفصیلی جائزہ لیا گیا، نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے چیئرمین نے بریفنگ دیتے ہوئے انکشاف کیا کہ حالیہ سیلاب کے باعث ملک بھر میں تقریباً 30 لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں۔ ان میں سے 3 لاکھ سے زائد افراد اب بھی خیموں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

یہ بھی پڑھیے: وزیراعظم شہباز شریف کا سیلاب متاثرین کے لیے ریلیف پیکج کا اعلان

انہوں نے کہا کہ سیلاب کے نتیجے میں 998 افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں جبکہ 1062 افراد زخمی ہوئے۔ سب سے زیادہ متاثرہ علاقہ پنجاب رہا جہاں 29 لاکھ لوگ سیلاب کی زد میں آئے۔

سینیٹر شیری رحمان نے حکومت کی جانب سے متاثرہ افراد کو بروقت مالی امداد نہ دیے جانے پر سخت برہمی کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ متاثرین کو فوری طور پر بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) کے تحت امدادی رقوم منتقل کی جائیں کیونکہ اس حوالے سے تاخیر کسی صورت قابل قبول نہیں۔

کمیٹی نے خیمہ بستیوں میں موجود لوگوں کی حالتِ زار پر بھی شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ چیئرپرسن نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ خیمہ بستیوں میں صاف پانی، بجلی، صحت کی بنیادی سہولیات اور انسانی وقار کے مطابق حالات مہیا کیے جائیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ حکومت کو عارضی خیموں سے متاثرین کو مستقل رہائش فراہم کرنے کی منصوبہ بندی کرنی چاہیے تاکہ انہیں بار بار قدرتی آفات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

چیئرمین این ڈی ایم اے نے بریفنگ میں بتایا کہ حالیہ سیلاب کا آغاز خیبرپختونخوا کے علاقے بونیر اور شمالی علاقہ جات میں گلگت بلتستان سے فلیش فلڈنگ کی صورت میں ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک میں ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں اور پاکستان اب دنیا کے ان 5 ممالک میں شامل ہو چکا ہے جو ماحولیاتی تباہی سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے: پنجاب میں سیلاب سے کتنے نقصانات ہوئے، پی ڈی ایم اے نے تفصیلات جاری کردیں

انہوں نے کہا کہ ملک میں سردیوں کا دورانیہ کم اور گرمیوں کا دورانیہ بڑھتا جا رہا ہے جس کی وجہ سے بارشوں کی شدت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ اپریل 2025 کو گزشتہ 65 سال کا گرم ترین اپریل قرار دیا گیا ہے۔

بریفنگ میں انہوں نے بتایا کہ پنجاب اور سندھ میں پاک فوج اور نیوی کے ساتھ مل کر بڑے پیمانے پر ریسکیو آپریشن جاری ہیں۔ اب تک ملک بھر میں 2000 سے زائد ریلیف کیمپس قائم کیے جا چکے ہیں جہاں متاثرین کو عارضی پناہ دی جا رہی ہے۔ تاہم چیئرمیں کمیٹی نے ان کیمپس کی حالت پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ وہاں انسانی معیار کے مطابق سہولیات دستیاب نہیں ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

این ڈی ایم اے بارشیں پی ڈی ایم اے سیلاب

متعلقہ مضامین

  • قائمہ کمیٹی اجلاس میں محکمہ موسمیات کی پیشگوئی سے متعلق سوالات
  • قائمہ کمیٹی نے غلط پیش گوئیوں پر محکمہ موسمیات کے حکام کو آڑے ہاتھوں لے لیا
  • این ڈی ایم اے اور محکمہ موسمیات نے بارشوں کی الگ الگ پیش گوئی کی، سینیٹ کمیٹی میں انکشاف
  • کشمیر کی باغبانی صنعت پابندیوں کی زد میں کیوں ہے، ممبر پارلیمنٹ آغا سید روح اللہ
  • شرح سود 11فیصد برقراررکھنے پر صنعت کاروں کا مایوسی کا اظہار
  • قائمہ کمیٹی کا جنگلات کی کٹائی کا جائزہ،سیٹلائٹ نگرانی کی سفارش
  • کراچی: وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ سے وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی مصدق ملک ملاقات کررہے ہیں
  • ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لئے صوبائی حکومتوں کے اشتراک سے 300 یومیہ منصوبہ
  • قائمہ کمیٹی : گلگت بلستان کے وزیر کا جنگلات کی کٹائی میں ملوث ہونے کا انکشاف
  • ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے صوبائی حکومتوں کے اشتراک سے 300 یومیہ منصوبہ