ہر تنازعہ عدالت میں آ جاتا ہے، معاملات ثالثی سے حل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے: جسٹس منصور
اشاعت کی تاریخ: 30th, January 2025 GMT
اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ بات چیت اور مصالحت کے بعد ہی کورٹ کا رخ کرنا چاہیے۔کراچی میں آئی بی اے میں سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ پاکستان میں 86 فیصد کیسز ڈسٹرکٹ کورٹس میں ہیں اور ضلعی عدالتوں میں 24 لاکھ مقدمات زیرالتوا ہیں، ہر کیس کورٹ میں لے جانے کی کوشش کے بجائے مصالحت اختیار کرنی چاہیے۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیسز میں سست روی کے تناظر میں معاملات کے حل کے لیے دیگر ذریعے استعمال ہونے چاہئیں، انصاف تک رسائی کا مطلب مسئلے کا حل سمجھا جانا چاہیے۔حکم امتناع اور ضمانت سے معاملات حل نہیں ہوں گے، ضلعی عدالتوں میں 24 لاکھ کیسز زیرِ التوا ہیں، ہمارے پاس ججوں کی تعداد محدود ہے۔سپریم کورٹ کے سینئر جج نے کہا ہے کہ پاکستان اب تک سنگل ٹریک پر ہے، ہر تنازع عدالت میں جاتا ہے تاہم معاملات ثالثی سے حل کرنے کوشش کرنی چاہیے، مائنڈ سیٹ کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔عوامی سطح پر آگاہی ضروری ہے اور پراسیکیوشن کورٹس میں 13 سے 14 فیصد مقدمات ہیں، عالمی سطح پر ایک لاکھ لوگوں کے لیے 90 ججز ہیں جبکہ ہمارے پاس ججز کم ہیں اور یہ تعداد بڑھانے کی ضرورت ہے۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: نے کہا
پڑھیں:
عدالتی احکامات پر عمل درآمد نہ ہونے سے متعلق چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کا فیصلہ جاری
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل درآمد نہ ہونے سے متعلق فیصلہ جاری کردیا۔
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے 4 صفحات پر مشتمل حکمنامہ جاری کیا ہے۔ ملزم زاہد خان نے درخواست ضمانت کے حوالے سے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا ہے کہ قبل از گرفتاری درخواست ضمانت مسترد ہونے کے بعد فوری گرفتاری ضروری ہے، صرف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کرنا گرفتاری کو نہیں روک سکتا، عبوری تحفظ خودکار نہیں، عدالت سے واضح اجازت لینا ضروری ہے۔
سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ ملزم زاہد خان و دیگر کی ضمانت لاہور ہائیکورٹ سے مسترد ہوئیں، ضمانت مسترد ہونے کے بعد بھی 6 ماہ تک پولیس نے گرفتاری کے لیے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا، عدالتی احکامات پر فوری عملدرآمد انصاف کی بنیاد ہے۔
عدالت کا کہنا ہے کہ آئی جی پنجاب نے غفلت کا اعتراف کرتے ہوئے عدالتی احکامات پر عملدرآمد کا سرکلر جاری کرنے کی یقین دہانی کرائی، غیر قانونی تاخیر سے نظامِ انصاف اور عوام کا اعتماد مجروح ہوتا ہے۔
سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ اپیل زیرِ التوا ہو تو بھی گرفتاری سے بچاؤ ممکن نہیں، جب تک کوئی حکم نہ ہو۔