بھارت نے 400 استھیاں گنگا میں بہانے کیلیے ویزے جاری کر دیے
اشاعت کی تاریخ: 30th, January 2025 GMT
کراچی:
بھارتی سرکار نے شہر کے سون پوری شمشان گھاٹ اوردیگر مندروں میں رکھی 400 سے زائد استھیوں کے گنگامیا میں و سرجن کے لیے ویزے جاری کر دیے جو 2 فروری کو کینٹ اسٹیشن سے استھیاں واہگہ روانہ کی جائینگی۔
ہریدوار تک سفر پیدل اور گاڑیوں کے ذریعے طے کیا جائیگا، بھارت کی جانب سے اسپانسرشپ کی عائد شرط کے سبب استھیوں کی روانگی میں 8 سال کا طویل عرصہ بیت گیا۔
گنگا میں بہانے سے قبل استھیوں پر 100 کلو دودھ کی دھاریں بہائی جائینگی، 400 کے لگ بھگ استھیوں میں ایک استھی 14 سال پرانی اور سال 2011 میں دیہانت کرنے والے فرد کی ہے۔
بھارت میں 144 سال کے بعد جاری مہا کمبھ میلے کے موقع پرمودی سرکارکا دل بلآخر پسیج گیا، اور عرصہ 8 سال کے صبرآزما انتظار کے بعد کراچی سمیت دیہی سندھ کے مختلف اضلاع میں مقیم ہندو دھرم کے ماننے والوں میں خوشی کی لہردوڑی گئی۔
شہرکے قدیم علاقے پرانا گولیمارکے قریب واقع سون پوری شمشان گھاٹ میں اس خوشی کے موقع پوجا اورپراتھنا کے موقع پر ہندودھرم کے ماننے والوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی جبکہ دیہانت کرنے والوں کی مذید استھیوں کی آمد کا سلسلہ جاری ہے۔
سون پوری مندر کے استھی کلش میں 300 وہ استھیاں رکھی ہیں جو سولجر بازار میں واقع شری پنج مکھی، ہنومان مندر کے گدی نشین مہاراج شری رام ناتھ کو ان مرنے والوں کے لواحقین نے سونپ دی ہیں۔
جبکہ 100 دیگراستھیاں بھی موجود ہیں،ان 400 کے قریب استھیوں کے پیاروں کی امیدیں برآئیں، ان سیکڑوں کی تعداد میں موجود استھیوں میں سب سے پرانی استھی سن 2011 میں دیہانت کر جانے (14سال پرانی استھی ) والے ہندودھرم کے ماننے والی کی ہے۔
اس کے علاوہ استھیاں ان افراد کی ہیں جو بتدریج سال 2013 سے سال 2015 کے دوران دنیا سے جا چکے ہیں۔
مہاراج رام ناتھ کا کہنا ہے کہ چونکہ یہ دھرم کا معاملہ ہے تواس پربھارتی سرکار کو نرم رویہ اور لچک کا مظاہرہ کرنا چاہیے، اور پاکستان کی جانب سے بھی ہندودھرم کے حقوق پربات کرنا چاہیے۔
مہاراج رام ناتھ کے مطابق 400 استھیاں 2 فروری کوکینٹ اسٹیشن کراچی سے ایک قافلے کی شکل میں بذریہ ریل گاڑی روانہ کی جائیگی،جس کے بعد واہگہ بارڈر سے ہریدوارتک سفرشروع ہوگا۔
شہیدی پارک سے دہلی تک استھیوں کوجلوس کی شکل میں لے جایا جائیگا،اس سے قبل 15 دن تک ہریدوارمیں ان استھیوں کا بھگت کا پوجا پاٹ کیا جائیگا۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
کراچی والوں کو بخش بھی دیں
حکومت سندھ نے پہلے سے عذابوں میں مبتلا ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کے شہریوں پر ایک اور مزید مہربانی کی اور کراچی ٹریفک پولیس کے ذریعے نئے فیس لیس ای ٹریکنگ سسٹم (ٹریکس) کا نفاذ کرا دیا جس کے نتیجے میں صرف 6 گھنٹوں میں ایک کروڑ تیس لاکھ روپے کے ای ٹکٹس جاری ہو گئے اور کمائی کا ایک نیا طریقہ ہاتھ آ گیا جو شاید لاہور کی نقل میں کیا گیا ہے جہاں کشادہ اور خوبصورت سڑکوں پر گاڑیاں تیز رفتاری سے دوڑ رہی ہیں اور ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی والوں سے ٹریکس کے ذریعے جو بھاری جرمانوں کے ذریعے آمدنی ہو رہی ہے وہ رقم سڑکوں اور شاہراہوں کے علاوہ اندرون شہر میں سڑکوں کی تعمیر پر خرچ کی جا رہی ہے۔
کراچی میں ٹریکس کے ذریعے کمائی کا جو طریقہ اختیار کیا گیا ہے، اس کے ذریعے صرف 6 گھنٹوں میں ایک کروڑ 30 لاکھ روپے کے ای ٹکٹس جاری ہو گئے جس کی ملک بھر میں مثال نہیں ملتی کہ افتتاح کے بعد کسی اور شہر میں اتنی بڑی رقم کے ای ٹکٹس جاری ہوئے ہوں، جن کی تعداد 2600 سے زائد ہے جب کہ کراچی میں لاہور جیسی سڑکیں شاید چند ہی ہیں جو بلدیہ عظمیٰ کراچی کی بجائے دیگر اداروں کے ماتحت ہوں۔
ڈی آئی جی ٹریفک کے مطابق شہر کے 30 فی صد علاقوں میں جدید کیمروں کی تنصیب کا کام مکمل کر لیا گیا ہے اور باقی 70 فی صد جن سڑکوں پر ٹریفک سگنل، لین مارکنگ، زیبرا کراسنگ اور اسٹاپ لائن موجود ہی نہیں، وہاں ای ٹکٹ جاری نہیں ہوں گے۔ یہ فیصلہ سندھ حکومت کا شہریوں پر احسان عظیم ہے، ورنہ کراچی کی ٹریفک پولیس نے نئے ناظم آباد اور ان علاقوں میں بھی جرمانے کیے ہیں جو نجی رہائشی منصوبے ہیں جہاں سڑکوں کی تعمیر کوئی بلدیاتی ادارہ نہیں بلکہ نجی ہاؤسنگ سوسائٹیز کراتی ہیں جو مضبوط اور پائیدار ہوتی ہیں۔
کراچی ٹریفک پولیس کے مطابق سب سے زیادہ چالان سیٹ بیلٹ کی خلاف ورزی، ہیلمٹ نہ استعمال کرنے پر کیے گئے جب کہ اوور اسپیڈنگ، سگنل توڑنے، لین لائن کی خلاف ورزیوں پر ہوئے ہیں۔ ٹریفک کے جدید خودکار نظام میں سیف سٹی اتھارٹی کے کیمروں کو سافٹ ویئر سے منسلک کرکے ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کی نشان دہی کی جا رہی ہے۔
یہ بھی سو فی صد حقیقت ہے کہ کراچی میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی عام بنی ہوئی ہے اور پوش علاقوں والے فخریہ طور پر ٹریفک قوانین توڑتے ہیں اور جرمانے ان کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ یہ لوگ مہنگی گاڑیوں اور لاکھوں روپے مالیت کی ہیوی بائیکس پر شوقیہ سفر کرتے اور جان بوجھ کر ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرتے آ رہے ہیں۔
پوش علاقوں کی امیر خواتین کے لیے بھی ٹریفک قوانین کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی، وہ بھی تیز رفتاری کا مظاہرہ کرکے متعدد افراد کو کچل چکی ہیں اور نہایت امیر گھرانوں کی یہ خواتین گرفتار بھی ہو چکی ہیں اور پوش علاقوں کے نوجوان بھی اس سلسلے میں کم نہیں جب کہ شہر کے اندرونی علاقوں میں کمسن بچے گلیوں میں موٹر سائیکلیں اس کے باوجود دوڑاتے ہیں کہ وہاں سڑکوں کا وجود نہیں ہوتا اور راستے بھی ناہموار ہوتے ہیں اور ان کے والدین بھی اپنے کمسن بچوں کو موٹرسائیکلیں دے دیتے ہیں جن سے اکثر حادثات بھی ہوتے رہتے ہیں۔ٹریفک پولیس مرکزی شاہراہوں پر جلد 12 ہزار جدید کیمرے نصب کرے گی جس کے نتیجے میں لاکھوں لوگوں پر بھاری جرمانے ہوں گے جن سے حاصل ہونے والی آمدنی کا تصور ٹریفک پولیس افسران کو بھی نہیں ہوگا۔
ٹریکس کا نشانہ شہر کی وہ اکثریتی آبادی بنے گی، جہاں سڑکوں کا وجود نہیں اور اگر سڑکیں ہیں تو وہ انتہائی تباہ حال ہیں جہاں جگہ جگہ گڑھے پڑے ہوئے ہیں اور پیدل چلنے کے بھی قابل نہیں رہی ہیں۔ ٹریفک پولیس کے ایک ڈی ایس پی کا کہنا ہے کہ ای ٹکٹس سسٹم حکومت نے جرمانہ وصولی کے لیے نہیں بلکہ شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کے لیے نافذ کیا ہے جب کہ اس سے قبل آئی جی پولیس کا ایک بیان میڈیا میں آیا تھا کہ ٹریفک خلاف ورزی پر ان کے خیال میں جرمانہ کم ہے جو کم ازکم ایک لاکھ روپے ہونا چاہیے اس بیان سے واضح ہے کہ حکومت کو کراچی کے لوگوں کا کتنا احساس ہے اور حکومت نے عوام پر احسان کرکے بیس ہزار تک جرمانہ مقرر کیا ہے جس کی وصولی ای ٹکٹس سے شروع بھی ہو گئی ہے۔
حکومت اور کراچی ٹریفک پولیس کی بے حسی یہ ہے کہ اجرک والی موٹرسائیکل نمبر پلیٹس کی طرح ٹریکس کا نفاذ بھی صرف کراچی پر کیا گیا ہے کیونکہ ان کے خیال میں کراچی سونے کی چڑیا ہے جہاں کے لوگوں کے پاس پیسہ بہت ہے جو پہلے اجرک والی نمبر پلیٹس اور اب ای ٹکٹس سسٹم کے تحت وصول ہوگا جب کہ ایک دردناک حقیقت ہے کہ کراچی میں سفری سہولتوں کا شدید فقدان ہے، جس کی وجہ سے شہریوں کی بڑی تعداد موٹر سائیکلوں کا استعمال کرتی ہے اور ان غریبوں کے پاس سفرکی جو کھٹارا بائیکس ہیں ان کی موجودہ پندرہ بیس ہزار روپے کی بھی مالیت نہیں ہے ان سے بھی ٹریفک خلاف ورزی پر جرمانہ بیس ہزار وصول کیا جائے گا۔
ایم کیو ایم اور مرکزی مسلم لیگ نے ای ٹکٹس سسٹم کے خلاف عدالت جانے کا اعلان کیا ہے اور شہریوں نے بھی ٹریکس پر انتہائی برہمی اور تحفظات کا اظہارکرتے ہوئے اسے مزید کراچی دشمنی قرار دیا ہے کہ سندھ حکومت کراچی کی دشمن بنی ہوئی ہے وہ پہلے کراچی کی صرف سڑکیں ہی تعمیر کرا دے پھر ٹریکس نافذ کرے۔
تباہ حال سڑکوں پر بے دردی سے جرمانے شہریوں پر ظلم کی انتہا ہے، اس لیے سندھ حکومت کراچی والوں کو اب تو بخش دے کیونکہ عالمی رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ اب کراچی رہائش کے قابل نہیں رہا، جس کے شہری تمام بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں اور پی پی حکومت کراچی سے بے حسی پر اتری ہے، اب تو کراچی کو بخش دیا جائے اور سب سے پہلے کراچی والوں کو بنیادی سہولیات ہی فراہم کر دی جائیں۔