امریکہ کے نومنتحب صدر ڈونلڈ ٹرمپ جب یہ کہہ رہے تھے کہ ’’یہ ہماری نہیں حماس اور اسرائیل کی جنگ ہے‘‘۔ درحقیقت وہ دنیا اور خاص کر امریکی قوم کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ امریکی قوم کے ٹیکس سے خریدا گیا مہلک اسلحہ و ہزاروں ٹن بارود ، امریکی حکومت کی منظوری سے اگر اسرائیل کو نہ دیا جاتا۔ دنیا کو یقین دلاتا ہوں کہ تین ماہ کے اندر اندر اسرائیل کا وجود ختم ہوجاتا۔ دنیا کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ یہ اسرائیل اور فلسطین کی جنگ نہیں ۔ بلکہ یہ امریکہ اور نہتے و محصورفلسطینی مسلمانوں کی جنگ ہے ۔ یہ شیرخوار بچوں اور اعلیٰ تربیت یافتہ مہلک ترین ہتھیاروں سے لیس صلیبی و دجالی فورسز کے درمیان حق وباطل کے معرکے ہیں۔ جس کے بہت سے مراحل ابھی باقی ہیں۔ اقوام متحدہ میں آج تک اسرائیلی دہشت گردیوں کے خلاف جتنی بھی قراردادیں پیش کی گئیں۔ ان سب کو امریکی حکومتوں نے مخالفت کیا۔ ٹرمپ کس منہ سے کہہ رہا ہے؟ کہ یہ امریکہ کی جنگ نہیں۔ جو دجالی ریاست’’اسرائیل‘‘ کو 270 ارب ڈالرسے زائدکی فوجی و اقتصادی امداد دے چکا ہے۔ 7 اکتوبر کے حملے کے فوری بعد دجالی ریاست کو بچانے کے لیے بحیرہ روم میں نہ صرف 2 طیارہ بردار جنگی بحری جہاز بھیجے بلکہ اس دوران بموں و میزائلوں سمیت گولہ بارود کی بڑی کھیپ بھی بھیجی۔ یہ سپلائی آج بھی جاری ہے ۔ٹرمپ گلوبل ویلج کو مزید دھوکا نہیں دے سکتا۔
WASP کے تنخواہ دار امریکی صدر ہیری ٹرومین پہلے عالمی لیڈر تھے ، جنہوں نے اسرائیل کو اس کے ناجائز قیام کے صرف گیارہ منٹ بعد 14 مئی 1948 کو ایک یہودی ریاست کے طور پر تسلیم کیا تھا ۔ 1973 عرب اسرائیل جنگ کے دوران ایک ایسا وقت آیا جب اسرائیل کا کینسر ہمیشہ کے لیے ختم کیا جا سکتا تھا۔اس موقع پر امریکی صدر رچرڈ نکسن نے مصری صدر انور ساداست کو دھمکاتے ہوئے کہا تھاکہ تم یقینا ایسا کر سکتے ہو ۔ لیکن یہ بھی یاد رکھنا کہ اس کے بعد امریکہ مصر پر حملہ آور ہو گا ۔ تب انور سادات نے کہا کہ’’ ہم اسرائیل سے لڑ سکتے ہیں لیکن امریکہ سے نہیں‘‘ ۔ 2014 کی اسرائیل فلسطین جنگ کے دوران 2 ہزار امریکیوں نے براہ راست جنگ میں حصہ لیا۔ بین الاقوامی سطح پر متنازعہ علاقے یروشلم کو سب سے پہلے اسرائیلی دارالحکومت کا اعلان کرنے والا امریکی صدر ٹرمپ تھا ۔ ٹرمپ آخر کب تک دنیا اور خاص کر اپنی قوم کو دھوکا دیتا رہے گا کہ یہ ہماری جنگ نہیں ۔ جنگ بندی معاہدے کی سیاہی ابھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ جنگوں سے نفرت کا لبادہ اوڑھنے والے کٹر یہود نواز ٹرمپ نے فوری طور پر دجالی ریاست کو 200 پونڈ مہلک ترین بم فراہمی کا آرڈر کر دیا ۔ ساتھ ہی امریکہ نے 20 لاکھ کے قریب فلسطینیوں کو اردن و مصر سمیت دوسرے ملکوں میں بسانے کا عندیہ بھی دے دیا ۔ اگر یہ امریکہ کی جنگ نہیں تو پھر یہ کس کی جنگ ہے ؟۔
اس جنگ کے دوران غزہ کے بھوک وپیاس سے بلکتے معصوم بچوں کو اگر خوراک، پانی، اور میڈیسن نہیں پہنچ سکی۔ دنیا جانتی ہے کہ یہ سب کچھ امریکہ کی خاموش رضامندی سے ہوا۔ اگر امریکہ ایک دھمکی پر اسرائیل کو جنگ بندی پر مجبور کر سکتا ہے تو انسانیت کا ڈھنڈورا پیٹنے والے( امریکہ) کے لیے زخموں سے چور چور ایڑیاں رگڑتے ہوئے مسلم بچوں کے لیے خوراک و میڈیسن پہنچانا کونسا مشکل تھا ۔ درحقیقت امریکہ خود یہ نہیں چاہتا تھا۔
77 سالوں سے فلسطینی و کشمیری جو سٹرٹیجک غلطی کا ارتکاب کرتے چلے آرہے ہیں اب ان کے ازالے کا وقت آ گیا ہے ۔ فلسطینی وکشمیری مسلمانوں کو اچھی طرح ان تلخ زمینی حقائق کا ادراک کر لینا چاہیے کہ ان کے مدقابل بھارت یا اسرائیل نہیں بلکہ امریکہ وبرطانیہ ہیں۔’’ Radical Islam انتہا پسند اسلام ‘‘ کے نعرے کی آڑ میں دین اسلام کے خلاف نفرت پیدا کرنے والے کوئی اور نہیں بلکہ برطانیہ’’ٹونی بلیئر‘‘ و امریکہ ’’ ٹرمپ ‘‘ ہی تھے۔ اسرائیل، فلسطین وعرب جنگوں کے دوران امریکہ کا کردار ایک نظریاتی، فکری، فزیکلی ایسے عسکری اتحادی کارہا ہے، جس کی جان دجالی مٹھی میں ہے۔ لہٰذا ٹرمپ کس طرح کہہ سکتا ہے؟ کہ یہ ہماری نہیں اسرائیل کی جنگ ہے۔
نہتے غزہ پر آتش وآہن کی آگ برسانے والوں کو تاریخ کا ایک عبرتناک انجام ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہیے کہ ’’ غزہ سے عین جالوت سے لد‘‘ زیادہ دور نہیں۔ وقت آگیا ہے کہ دنیائے اسلام کی عسکری، حریت پسند، دینی و مذہبی اور سیاسی قیادتوں کو WASP ڈاکٹرائن کی Strategic Depth کے تمام پہلوئوں کو قرآن وسنت کی روشنی میں سمجھنا ہو گا۔ کہ جب دجالی ریاست کسی بھی دہشت گردی کا ارتکاب کرنا چاہتی ہے یا کرتی ہے کسی بھی شکل میں ۔ تب دنیا کے غیظ و غضب سے بچنے کے لیے امریکہ پوری قوت سے اس کی پشت پر کھڑا ہو جاتا ہے ۔ اسی طرح شیطانی ریاست جب کوئی ورلڈ آرڈر یا نظریہ ’’ کسی بھی لبادے میں فتنہ ( اسلامی دنیا )میں لانچ کرنا چاہتی ہے ۔ تو وہ خود سامنے نہیں آتی ، بلکہ براہ راست امریکیs Threat کے ذریعے و خفیہ طریقے سے عمل درآمد کرواتی ہے ۔ راقم کی رائے میں دنیا کی اقتصادی امداد کی بندش تو ایک بہانہ ہے دراصل شیطانی ریاست کو تسلیم کروانا ہے ۔
پینٹا گان کی امریکی غلام عوام کو سمجھنا ہو گا کہ ان کے دشمن مسلمان نہیں بلکہ ملعون یہودی ہیں ۔ تمام تر زمینی حقائق کے باوجود اگر امریکی غلام عوام کو سمجھ نہ آئے ۔ تو اسلامی عسکری تاریخ کے مطالعہ سے سبق حاصل کر سکتی ہے۔ غزوہ بدر سے پہلے یہودیوں کی جانب سے رچائی جانے والیاں فتنہ انگیزیوں اور کارستانیوں کا مطالعہ کر لیں ۔ کہ کس طرح انہوں نے مشرکین مکہ کو مسلمانوں کے خلاف اشتعال دلایا ، ان کے دلوں و سوچوں میں نفرت پیدا کی ۔ پھر مالی سپورٹ کر کے جنگ کے لیے اکسایا۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جزیرۃ العرب میں نہ تو یہودی رہے اور نہ ہی مشرکین ۔ لامحالہ آج یہی کھیل ایک دفعہ پھر ملعون یہودی معزز کرسچن والدین کے بیٹوں کے ساتھ کھیل رہا ہے ۔ عالم اسلام کے خلاف خفیہ ، ظاہری یا منافقانہ طور پر استعمال ہونے والوں کو تاریخ کا عبرتناک انجام ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہیے کہ ’’ غزہ سے عین جالوت سے ’’لد‘‘ زیادہ دور نہیں۔
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: دجالی ریاست کی جنگ ہے جنگ نہیں چاہیے کہ کے دوران کے خلاف کے لیے جنگ کے
پڑھیں:
امریکی صدر ٹرمپ کا پاک بھارت کشیدگی پر ردعمل سامنے آگیا
واشنگٹن:مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں ہونے والے واقعے کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا ردعمل سامنے آ گیا ہے۔ امریکی صدر نے کہا ہے کہ دونوں ممالک کو چاہیے کہ وہ خود اس مسئلے کو حل کریں کیونکہ ان کے درمیان کشیدگی کوئی نئی بات نہیں۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق صدر ٹرمپ نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، "پاکستان اور بھارت کسی نہ کسی طرح اس مسئلے کو خود ہی حل کر لیں گے۔ ان کے درمیان ہمیشہ سے بڑی کشیدگی رہی ہے۔" انہوں نے واضح کیا کہ وہ دونوں ممالک کے رہنماؤں کو جانتے ہیں مگر اس بات کی تصدیق نہیں کی کہ وہ ان سے براہ راست رابطہ کریں گے یا نہیں۔
مقبوضہ کشمیر کے پہلگام علاقے میں حالیہ حملے کے بعد خطے میں تناؤ میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ یہ واقعہ گزشتہ بیس سالوں میں اپنی نوعیت کا بدترین واقعہ قرار دیا جا رہا ہے، جس میں 26 افراد ہلاک ہوئے۔ بھارت نے حملے کی ذمہ داری پاکستان پر عائد کی ہے جسے پاکستان نے مسترد کیا ہے۔
اس واقعے کے بعد دونوں ہمسایہ ممالک کے تعلقات میں مزید کشیدگی آ گئی ہے۔ بھارت نے سندھ طاس معاہدہ معطل کر دیا ہے جبکہ پاکستان نے بھارتی پروازوں کے لیے اپنی فضائی حدود بند کر دی ہیں۔ تجارتی تعلقات بھی متاثر ہو رہے ہیں۔
مزید پڑھیں: پہلگام واقعہ؛ بھارت پاکستان کی مخالفت میں جعلی تصاویر پھیلانے لگا
صدر ٹرمپ نے کہا، "ان دونوں ممالک کے درمیان 1500 سال سے کشیدگی چل رہی ہے تو آپ جانتے ہیں، یہ ہمیشہ سے رہا ہے۔" انہوں نے مزید کہا کہ وہ پاکستان اور بھارت، دونوں کے "بہت قریب" ہیں لیکن کشمیر کے تنازع پر ان کا براہ راست مداخلت کا کوئی ارادہ نہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے بھی اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال ہے اور ہم اس پر قریبی نظر رکھے ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکا فی الحال کشمیر کی حیثیت پر کوئی واضح موقف اختیار نہیں کر رہا۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے بھی موجودہ کشیدگی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے دونوں ممالک سے زیادہ سے زیادہ تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی ہے۔
صدر ٹرمپ کے بیان سے یہ تاثر ملتا ہے کہ امریکا اس تنازعے میں ثالثی کی بجائے دونوں فریقین پر زور دے رہا ہے کہ وہ اپنے مسائل سفارتی اور پرامن طریقے سے خود حل کریں۔