بھارت اسرائیل اور امریکہ دنیا بھر میں دہشت گردی کا سبب ہیں، یہ ہرجگہ انسانیت کا خون بہا رہے ہیں، نعیم الرحمن
اشاعت کی تاریخ: 25th, April 2025 GMT
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے جماعت اسلامی کے امیر کا کہنا تھا کہ حکومت سے اختلافات اپنی جگہ پہلے دشمن سے لڑیں گے بعد میں اپنے مسائل حل کرلیں گے، سندھ طاس معاہدہ یکطرفہ طور پر ختم نہیں کیا جاسکتا، بھارتی اقدامات جنگ مسلط کرنے کی کوشش ہے، عالمی برادری ہندوتوا سرکار کے پاکستان کو بنجر بنانے کے بیان اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا نوٹس لے۔ اسلام ٹائمز۔ امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ اہل فلسطین سے اظہار یکجہتی کے لیے ہفتہ کو ملک گیر ہڑتال ہوگی، پوری قوم مکمل یکسوئی سے اس کی تیاری کررہی ہے۔ بھارت نے پاکستان کے خلاف جارحیت کی تو اسے منہ توڑ جواب ملے گا، قوم متحد ہے۔ حکومت بھارتی اقدامات کے خلاف پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلائے۔ حکومت سے اختلافات اپنی جگہ پہلے دشمن سے لڑیں گے بعد میں اپنے مسائل حل کرلیں گے۔ سندھ طاس معاہدہ یکطرفہ طور پر ختم نہیں کیا جاسکتا، بھارتی اقدامات جنگ مسلط کرنے کی کوشش ہے، عالمی برادری ہندوتوا سرکار کے پاکستان کو بنجر بنانے کے بیان اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا نوٹس لے۔ اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بھارت اسرائیل اور امریکہ دنیا بھر میں دہشت گردی کا سبب ہیں، یہ ہرجگہ انسانیت کا خون بہا رہے ہیں۔ پوری قوم دشمن کے خلاف متحد، جنگیں قومیں لڑتی ہیں، جو جنگ قوم لڑے وہی جیتی جاسکتی ہے۔ نائب امیر میاں اسلم، امیر اسلام آباد نصراللہ رندھاوا اور ڈائریکٹرسوشل میڈیا سلمان شیخ بھی ان کے ہمراہ تھے۔
حافظ نعیم الرحمن نے کہاکہ مودی سرکار نے مقبوصہ کشمیر میں فالس فلیگ آپریشن کیا، بھارت کے اقدمات کی وجہ خطے میں ہولناک صوتحال پیدا ہوگئی ہے، ان حالات میں قومی یکجہتی کی ضرورت ہے، حکومت کی ذمہ داری ہے کہ پوری قوم کو اکٹھا کرے۔ بھارت امریکہ اور اسرائیل کی شیطانی مثلث کے خلاف لوگوں کو متحد کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ پہلگام فالس فلیگ آپریشن نیا نہیں، اس سے پہلے بھی اس طرح کے فالس فلیگ آپریشن میں 35 سکھوں کو قتل کرکے پاکستان پر الزام لگایا تھا جس پر امریکی صدر بل کلنٹن نے یہاں تک کہ دیا تھا کہ اگر ان کا دورہ نہ ہوتا تو یہ کارروائی نہ ہوتی۔ اس سے قبل 6 سیاحوں کو قتل کیا گیا اور الفاران نامی تنظیم نے ذمہ داری قبول کی۔ 2001میں پارلیمنٹ پر حملہ کا الزام پاکستان پر لگایا اور ثبوت نہ ہونے کے باوجود افضل گرو کو سزا ئے موت سنائی۔ 2008 میں تاج ہوٹل پر حملہ ہوا اور الزام پاکستان پر لگادیا۔ بھارت خود حملہ کرتا ہے اور اس کے بعد بھارتی میڈیا ہیجان پیدا کردیتا ہے، بھارت کا جنگی جنون ہے جو ایسے واقعات کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی اقدامات جس طرح کا جواب دفتر خارجہ کو دینا چاہیے تھا اس میں تاخیر ہوئی ہے۔
امیر جماعت نے کہا کہ 26 اپریل کو ہڑتال کرکے پوری قوم دنیا کو بتائے گی ہم اہل فلسطین کے ساتھ ہیں۔ ہڑتال قومی یکجہتی کی علامت ہے، قوم متحد ہوکر بھارت اور اسرائیل کو پیغام دے گی کہ وہ ان کے خلاف ہے، جماعت اسلامی کلمہ کی بنیاد پر عوام کو متحد کررہی ہے، لاہور، ملتان، کراچی میں غزہ ملین مارچز کیے، اسلام آباد میں وفاقی دارلحکومت کی تاریخ کا سب سے بڑا غزہ مارچ تھا، لوگ اسرائیل مصنوعات کا بائیکاٹ کررہے ہیں جس سے اسرائیلی نواز لوگوں کو تکلیف ہے۔ انہوں نے کہا کہ حماس نے مزاحمت کی تاریخ رقم کردی، اسرائیل کو تسلیم کیا جا رہا تھا، مسجد اقصی کا معاملہ پس پشت ڈالا جا رہا تھا، غیرت مند قوم کی طرح حماس کے مجاہدین اور اہل غزہ نے مزاحمت کی جس اسرائیل کو شکست ہوئی ہے، اب بوکھلاہٹ میں اسرائیلی افواج خواتین اور بچوں کو شہید کررہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مغرب میں بھی لوگ حماس کے ساتھ کھڑے ہیں۔ دوسری طرف کچھ لوگ ہیں جو حماس کی مذمت کررہے ہیں، یہ دراصل امریکی ایجنٹ ہیں، بھارت کے فوجی اسرائیل میں اسرائیل کی مدد کر رہا ہے۔
حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ اس وقت قوم کو متحد کرنے کی ضرورت ہے،حکومت ایسے اقدامات کرئے تاکہ قوم متحد ہو۔ بلوچستان اور کے پی کے مسائل حل کیے جائیں، ملک میں لاپتہ افراد کا مسئلہ حل ہونا چاہیے، افغانوں کی باعزت وطن واپسی ہونی چاہیے، عوام کے ساتھ انصاف ہوگا تو قوم یکجا ہوگی، تمام افواج کو بھارت کے خلاف تیار ہونا ہوگا، ہم اپنی خود مختاری اور وقار پرسمجھوتہ نہیں کریں گے۔ اگر بھارت کو پہلے سخت جواب دیا جاتا تو آج اسے دھمکیوں کی جرات نہ ہوتی۔ صحافیوں کے سوالات کے جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہاکہ جتنے سیاسی قیدی ہیں ان کو رہا کیا جائے، سیاسی پارٹیوں کو اختلاف حکومت سے ہے ملک سے نہیں۔ انہوں نے کہا نواز شریف کا وہ بیان جو بھارت نے عالمی عدالت میں پاکستان کے خلاف پیش کیا اس پر سابق وزیراعظم کو قوم سے معافی مانگنی چاہیے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: بھارتی اقدامات انہوں نے کہا کہ نعیم الرحمن اسلام آباد پوری قوم کے خلاف
پڑھیں:
امریکہ میں سفارتکاری: بلاول بمقابلہ بینظیر بھٹو،ا یک تجز یہ
واشنگٹن (ڈیلی پاکستان آن لائن) تجز یہ نگا ر نسیم حیدر کے مطابق پاکستان پیپلزپارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری کٹھن ترین اوقات میں سے ایک میں بھارت کے خلاف انتہائی مؤثرانداز سے پاکستان کا مقدمہ پیش کرنے کے بعد اب برطانیہ اور یورپ کےدورے پر ہیں۔
نجی ٹی وی جیو نیوز کے مطابق یہاں سوال ذہن میں آتا ہے کہ اگر بے نظیربھٹو اس مشن پر ہوتیں تو کیا وہ اس سے بھی زیادہ پراثرانداز اپناتیں یا ذوالفقار علی بھٹو اس چیلنجنگ لمحے پر مغربی ممالک کا دورہ کرتے تو بھارت کا کیا حشر کرتے؟
سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو کا شہید بے نظیر بھٹو یا شہید ذوالفقار علی بھٹو سے موازانہ کرنا لاکھ قبل ازوقت سہی مگر میرے ذہن میں اس کا خیال آنے کی ایک بڑی وجہ ہے۔
وہ وجہ یہ کہ اگست 2007 میں جب میں نے بے نظیر بھٹو کا جیونیوز کے لیے تاریخی انٹرویو کیا تھا اس وقت لڑکپن میں داخل بلاول بھٹو پڑھنے کے لیے آکسفورڈ یونیورسٹی جارہے تھے۔بے نظیر بھٹو نے مجھے بتایا تھا کہ بلاول کے لیے انہوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی کے ہاسٹل میں وہ کمرہ ریزرو کرایا ہے جہاں بلاول کے نانا شہید ذوالفقار علی بھٹو اپنے زمانہ طالب علمی میں رہے تھے۔ یعنی بھٹو خاندان ان چند سیاسی خاندانوں میں سے ایک ہے جہاں روایات کا اس درجے تک لحاظ رکھا جاتا ہے۔
بلاول بھٹو 2022 اور2023 کےدرمیان مختصر عرصے کے لیے وزیر خارجہ رہے ہیں۔ وہ تاحال نہ تو بےنظیر بھٹو اور ذوالفقار علی بھٹو کی طرح ملک کے وزیراعظم بنے ہیں اور نہ ہی ان تجربات سے گزرے ہیں جن سے ان کی والدہ اور نانا گزرے تھے، تاہم کہا جاتا ہے کہ بچے کے پاؤں پالنے میں نظرآتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے پیپلزپارٹی کے کئی سینئر رہنماؤں سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ اگر آج بے نظیر ہوتیں تو پاکستان کا مقدمہ پیش کرنے کا انداز کتنا مختلف ہوتا۔
یہ بات مسلمہ ہے کہ شخصیات کا موازنہ کرنے سے بڑی حد تک گریز کیا جانا چاہیے، خاص طور پر عالمی امور میں سفارتکاری کا مرحلہ ہو اور وہ بھی ایک ایسی جنگ کے بعد جس میں دو ایٹمی طاقتوں نے میزائلوں سے شہروں پر حملے کیے ہوں تو نتائج اخذ کرنا غیر ذمہ دارانہ ہوسکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ بلاول بھٹو کو اپنا مقدمہ ایسے ممالک میں پیش کرنے کا چیلنج درپیش ہے جن کا بھارت چہیتا بنا ہوا ہے۔
یہ 1980 کی دہائی یا 1990 کی دہائی کا اوائل نہیں جب سوویت یونین کے خلاف امریکہ اور مغربی ممالک کو بھارت سے زیادہ پاکستان کی ضرورت تھی۔ یہ 2000 کی دہائی بھی نہیں جب امریکہ پر طیارہ حملوں کےبعد بُش انتظامیہ نے افغانستان کو سزاوار ٹھہرا کر ملاعمر حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجانا تھی اوریہ پاکستان کے بغیر انتہائی دشوار تھا۔
حالیہ پاک بھارت جنگ ایسے وقت ہوئی ہے جب افغانستان سے انخلا کے بعد بہت سے تجزیہ کاروں کے مطابق، امریکہ نے پاکستان کو ایک بار پھر دہشتگردی بھگتنے کے لیے بڑی حد تک اس کے حال پرچھوڑا ہوا ہے۔ یہ تاریخ کا وہ لمحہ بھی ہے جب چین سے دفاعی، معاشی، سیاسی تعلقات اور عوامی رابطے بڑھا کر پاکستان متوازن خارجہ پالیسی اپنانے کی کوششوں میں تیزی لارہا ہے۔ اس میں دو رائے نہیں کہ خطے میں چین کے قدم مضبوط ہونا مغربی ممالک کے لیے ناگوار ترین شے ہے۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ پاکستان نے پچھلے ایک عشرے میں روس سے بھی تعلقات میں بہتری پیدا کی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ صدر ٹرمپ اب بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی کا جائز کریڈٹ لے رہے ہیں تاہم پہلگام واقعے کے بعد مغربی ممالک کو بھارت کی جنونی کیفیت کے اثرات پر قائل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ اس کا اندازہ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اُس بیان سے بھی کیا جاسکتا ہے جو انہوں نے پہلگام واقعے کے بعد پیدا کشیدگی کے عین موقع پر دیا تھا۔
ائیرفورس ون میں صحافیوں سے بات چیت کے دوران صدر ٹرمپ سے پوچھا گیا تھا کہ کشمیر میں حملے کے بعد سے بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی ہے تو کیا آپ ان ممالک کو کوئی پیغام دیں گے یا ان ممالک کے رہنماؤں سے بات کریں گے؟ صدرٹرمپ نے برملا کہا تھا کہ وہ دونوں ملکوں کے لیڈروں کو جانتے ہیں تاہم پاک بھارت رہنماؤں سے رابطہ کرنے سے متعلق سوال کا جواب دینے سے گریزکیا تھا۔
بات کرتے ہوئے صدرٹرمپ تاریخ میں بھی گڑبڑ کر گئے تھے، پاکستان اوربھارت کے حوالے سے دعویٰ کیا تھا کہ دونوں ممالک کشمیر پر ایک ہزار سال سے لڑ رہے ہیں۔ کشمیر کا مسئلہ ایک ہزار سال سے چل رہا ہے شاید اس سے بھی زیادہ عرصے سےچل رہا ہے اور یہ بری صورتحال ہے۔ طیارے میں موجود مغربی صحافیوں میں سے بھی کسی نے غلطی درست نہیں کی کہ مسئلہ کشمیر 1947 میں غلط تقسیم ہند کے نتیجے میں پیدا ہوا تھا، ڈیڑھ ہزار سال پہلے نہیں۔
ایک صحافی نے صدر ٹرمپ سے پوچھا کہ آیا آپ کو تشویش ہے کہ دونوں ملکوں کی سرحدوں پر تناؤ ہے جس پر صدر ٹرمپ نے دہرایا تھا کہ اُس سرحد پر 1500سال سے کشیدگی ہے۔ مگر وہ کسی نہ کسی طرح سے مسئلہ کا حل نکال لیں گے۔ مجھے اس بارے میں یقین ہے۔
بھارت نے پہلگام واقعے کے بعد پاکستان کے شہروں پر طیاروں سے میزائل حملے کرکے کیا حل نکالا، یہ دنیا نے دیکھا۔ بہت سے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ مغربی ممالک سمجھتے تھے کہ بھارت جارحیت پراترا تو پاکستان کی کانپیں ٹانگ جائیں گی اور یہ ملک کبھی سراٹھا کرکھڑا نہیں ہوسکےگا۔ یہ الگ بات ہے کہ وزیراعظم شہبازشریف کی قیادت میں فیلڈ مارشل عاصم منیر نے پاکستان کو چھپا رستم ثابت کیا، بھارت کوناکوں چنے چبوا کر ناگ رگڑوائی اورجنگ بندی پرمجبور کردیا۔
اس پس منظر کو دیکھیں تو پاکستان کے نسبتاً قریب سمجھے جانیوالے مشرق کے سامنے اپنا مؤقف پیش کرنا آسان ہے تاہم امریکہ سمیت مغربی ممالک کو قائل کرنا کئی گنا کٹھن مرحلہ ہے۔ اسی لیے بلاول بھٹو کی قیادت میں امریکا، برطانیہ اور یورپ جانے والے مشن کی اہمیت زیادہ واضح ہوتی ہے۔
امریکہ میں سفارتکاری کی نوعیت پردعمل میں شہید ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیربھٹو کے قریب سمجھے جانیوالے پیپلزپارٹی کے کئی رہنماوں نے برجستہ کہا کہ بلاول بھٹو سفارتی میدان میں درحقیقت بےنظیر بھٹو اور ذوالفقار علی بھٹو کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔
ایک انتہائی سینئر اور بے لاگ مؤقف بیان کرنیوالے پیپلزپارٹی کے رہنما نے کہا کہ آپ سابق وزرا خارجہ کا بلاول بھٹو سے موازانہ کرلیں،حقیقت خود روز روشن کی طرح عیاں ہوجائے گی۔ انہوں نے نام لے کر کہا کہ گوہر ایوب ہوں، سردار آصف علی ،خواجہ آصف، حنا ربانی کھر یا شاہ محمود قریشی ہوں، اپنے ادوار میں انہوں نے بھی سفارتکاری کی مگر ان میں سے کوئی بھی بلاول بھٹو کے قریب بھی نہیں پہنچ سکا۔ یہی وجہ تھی کہ بلاول کو اس وفد کی قیادت سونپی گئی۔ یہ دیکھتے ہوئے بھی کہ بلاول بھٹو نسبتاً نوجوان اور سیاست میں کم تجربہ رکھتے ہیں۔ ان رہنما کے مطابق یہ بلاول نہیں بھٹو کا خون بولتا ہے۔
بےنظیربھٹو کے دست راست اور صدر زرداری کے سابق ترجمان فرحت اللہ بابر نے کہا کہ بلاول بھٹو درحقیقت بی بی کا نعم البدل ہیں۔موقف بیان کرنے میں ان کے الفاظ کا چناؤ، انداز تخاطب اور بات کرنے کا سلیقہ اس بات کا اظہار ہے کہ وہ کس کمال مہارت سے سفارتکاری انجام دے رہے ہیں۔
فرحت اللہ بابر نے کہا کہ اس نازک ترین لمحے میں بلاول بھٹو نے انتہائی غیر معمولی طورپر شاندارپرفارمنس سے پاکستان کا نام روشن کیا ہے اور دنیا نے بھٹو کی وراثت دیکھی ہے۔
سینیٹر وقار مہدی نے کہا کہ بلاول بھٹو نے اپنی والدہ کی کمی پورا کردی، نانا کی طرح دو ٹوک انداز میں پاکستان کا مقدمہ لڑا اور مغربی ممالک کو باور کرایا ہے کہ پاکستان امن کا خواہاں ہے جبکہ بھارت بلااشتعال جارحیت پر اترا ہوا ہے۔ بلاول کے دورہ امریکہ سے واضح ہے کہ انہیں بہت کامیابی بھی حاصل ہوئی ہے۔ وقار مہدی کے بقول بلاول بھٹو میں آخر بے نظیر اور ذوالفقار علی بھٹو کی روح ہے، وہ پوری طرح جھلکتی نظرآئی۔
جو لوگ بے نظیربھٹو سے ملےہیں، وہ کہتے ہیں کہ 36 سال کے بلاول بھٹو کا موازانہ دو بار وزیراعظم اور مؤثر ترین اپوزیشن لیڈر رہنے والی بے نظیر بھٹو سے کرنا قبل ازوقت ہوگا۔ جو شہید ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ رہے ہیں جن کی سفارتکاری کا ڈنکا دنیا میں بجتا تھا اور اقوام متحدہ میں ان کے ادا کیے ہوئے الفاظ آج بھی لوگوں کے ذہنوں میں گونجتے ہیں، وہ کہتےہیں تدبر کی ان منازل تک پہنچنے کے لیے عشق کے امتحان ابھی اوربھی ہیں۔
70 اور 80 کی دہائی میں قدم رکھنے والے یہ جیالےکہتے ہیں کہ بلاول کی سفارتکاری دیکھ کران کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو اور ذہنوں میں یہ شعر آتا ہے کہ
کبھی تو سوچنا تم نے یہ کیا کیا لوگو
یہ تم نے کس کو سر دار کھو دیا لوگو
’’اس بڑھاپے میں ڈانس کروانا ظلم ہے‘‘، ماہرہ خان اور ہمایوں سعید کا ردعمل وائرل
مزید :