پیکاایکٹ پردستخط ، پیپلزپارٹی ،ن لیگ سے پیچھے نہ رہی
اشاعت کی تاریخ: 30th, January 2025 GMT
اسلام آباد(طارق محمودسمیر)صدرمملکت آصف علی زرداری نے متنازع پیکاایکٹ پر فوری طور پر دستخط کرکے یہ ثابت کردیاہے کہ اس ایکٹ کی منظوری میں پیپلزپارٹی
ن لیگ سے ایک قدم پیچھے نہیں ہے،حالانکہ جے یو آئی کے سربراہ مولانافضل الرحمان کے رابطہ کرنے پر صدرمملکت نے یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ اس بل پر دستخط چند دن کے لیے موخرکردیں گے ،بلاول بھٹوزرداری دیگر معاملات اور ایشوز پر تو ن لیگ ،پنجاب حکومت کو تنقیدکانشانہ بناتے رہتے ہیں اس بل پر بلاول بھٹو کی طرف سے پیپلزپارٹی کی سینئررہنماوسابق وزیرسینیٹرشیری رحمان نے یہ یقین دہانی کرائی تھی لیکن اس پر بھی عمل نہ ہوا،سوشل میڈیاکاشتربے مہارہونااور اس کے ذریعے مخالفین کی پگڑیاں اچھالنا،اداروںکے خلاف پروپیگنڈا کرناکسی بھی طورپر درست نہیں ہے اور عامل صحافی اور صحافیوں کی تنظیمیںسوشل میڈیاکوریگولیٹ کرنے کے خلاف نہیں ہیںاختلاف صرف اتناہیکہ بل میں ایسی متنازع چیزیں شامل کی گئی ہیں جن سے شایدسوشل میڈیاکوتو کنٹرول نہ کئے جاسکے لیکن صحافیوں کیلئے شدیدمشکلات ضرورہوں گی کیونکہ تمام الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیانے اپنے سوشل میڈیاسیٹ اپ قائم کرلئے ہیں اوروہاں اخبارنویسوں کو روزگاربھی مل رہاہے ،پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیاکے سوشل میڈیاسیٹ اپ میں ایڈیٹوریل چیک اور ویڈیوزاپ لوڈ کرنے سے پہلے ایڈیٹنگ کانظام موجود ہے لیکن اس بل میں کچھ ایسی متنازع چیزیں شامل کردی گئی ہیں جنہیں بل سے نکالناضروری تھا، مشاورت نہ کرنے کی شکایت صرف صحافتی تنظیمیں ہی نہیں بلکہ حکومت میں شامل اہم شخصیات بھی کررہی ہیں،ن لیگ کے سینئررہنماسینیٹر عرفان صدیقی اور پیپلزپارٹی کی سینئررہنماشیری رحمان بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ اسٹیک ہولڈرزکے ساتھ مشاورت کی جانی چاہئے تھی حالانکہ یہ دونوں ماضی میں سینئرصحافی رہ چکے ہیں اور عرفان صدیقی اب بھی کالم لکھتے ہیں ،صدرمملکت کی طرف سے بل پر دستخط کرنے میں جلدبازی کا مظاہرہ کیوں کیاگیااس کاجواب پیپلزپارٹی کو دیناچاہئے اور مولانا فضل الرحمان سے کیاگیا وعدہ بھی نہیں نبھایاحالانکہ دینی مدارس کے بل کوصدرنے واپس بھجوایادیاتھااور بعدازاں مولانا فضل الرحمان کے شدید ردعمل کے باعث اس بل کی منظوری دی ،ن لیگ اور پیپلزپارٹی جب اپوزیشن میں تھیں اور عمران خان پیکاایکٹ کا آرڈیننس لائے تو دونوں جماعتوں نے شدید مخالفت کی تھی حتیٰ کہ پارلیمنٹ ہاوس کے باہر صحافیوں کا احتجاجی دھرناہوا جس میں وزیراعظم شہبازشریف اور بلاول بھٹو زرداری شریک ہوئے تھے اب ان دونوں جماعتوں کی سوچ میں جو تبدیلی آئی ہے اس پر صحافتی تنظیمیں سراپااحتجاج ہیں،دوسری جانب مذاکرات کا سلسلہ ختم ہونے کے باوجود سپیکر ایاز صادق سے تحریک انصاف کے رابطے جاری ہیں،پی اے سی کے چیئرمین اور پی ٹی آئی خیبرپختونخواکے صدرجنیداکبراور عاطف خان نے بدھ کو سپیکر سے ملاقات کی جس میں سپیکر نے دونوں رہنماوں سے کہاکہ سیاسی ماحول کو بہتربنانے کے لیے اپناکرداراداکریں ،ہرمسئلے کاحل بات چیت سے نکل سکتاہے،مگراس کے باوجود جنیداکبر ہارڈ لائن لے رہے ہیں اور انہوں نے کسی کانام لئے بغیرایک انٹرویومیں یہاں تک کہہ دیاکہ تحریک انصاف کی ہومیوپیتھک قیادت کو ہٹاناپڑے گاکیا ان کا اشارہ چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹرگوہر اور سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجہ ،قائدحز ب اختلاف عمرایوب یاوزیراعلیٰ علی امین گنڈاپورکی طرف ہے اس کی انہیں وضاحت کرنی چاہئے کیونکہ قیادت تو فی الحال یہی لوگ کررہے ہیں ،جنیداکبر8فروری کے احتجاج پروگرام کے حوالے سے یہ تاثر دے رہے ہیں کہ خیبرپختونخواسے پنجاب اور گلگت بلتستان کو ملانے والے راستوں کو بند کردیاجائے گا اور صوابی میں احتجاجی جلسہ ہوگا،احتجاج کرناتحریک انصاف کا آئینی وقانونی حق ہے،8فروری کے الیکشن پر ان کے تحفظات میں وزن بھی ہے لیکن انہیں سوچناچاہئے کہ راستے بندکرنے پر کے پی کے عوام کو کن مشکلات کاسامناکرناپڑے گاکیونکہ حال ہی میں کرم میں افسوسناک واقعات کے بعد جب راستے بند ہوئے تو عوام کو نہ تو ادویات مل رہی تھیں اور نہ ہی کھانے پینے کی اشیاء لہذاراستے بندکرناکوئی اچھافیصلہ نہیں اس پر نظرثانی کی جانی چاہئے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
عیدالاضحیٰ۔۔۔ سر تسلیم خم کرنے کا عہد
اسلام ایک ضابطۂ حیات ہے، ایسا مکمل ضابطۂ حیات جو ہماری زندگی کا نصب العین ہونا چاہیے۔ اس کے احکامات پر عمل پیرا ہونے میں ہی نجات اخروی کے ساتھ دنیوی آسودگی اور اطمینان کا سامان بھی ہے۔ اسلام صرف رسومات کا ہی دین نہیں ہے، بل کہ اس نے انسانی حقوق کی پاسداری پر انتہائی زور دیا ہے، اور یہ کہہ کر انسانی حقوق کی ادائی کو مقدم کیا ہے کہ رب تعالٰی اپنے حقوق تو معاف فرما دے گا لیکن انسانوں کے حقوق کی بازپرس ضرور ہوگی۔
عید قرباں بھی احکامات خداوندی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے حقوق انسانی کی پاس داری کا نام ہے۔ ارشاد باری تعالی کا مفہوم ہے: ’’اﷲ تعالیٰ کو ہرگز ان کے گوشت پہنچتے ہیں نہ خون۔ ہاں تمہاری پرہیزگاری اس تک باریاب ہوتی ہے۔‘‘
ذوالحجہ، حرمت والے مہینوں میں سے ہے۔ سورۂ الفجر میں اﷲ تعالیٰ نے دس راتوں کی قسم کھائی ہے اور ان دس راتوں سے مراد ذوالحجّہ کے ابتدائی دس ایام ہیں۔ ان دنوں میں اﷲ تعالی نے اپنا خاص ذکر کرنے کا حکم دیا ہے ان دنوں میں کیے جانے والے نیک اعمال اﷲ تعالٰی کو بہت زیادہ محبوب ہیں حتٰی کہ جہاد فی سبیل اﷲ جیسا افضل عمل بھی ان دنوں میں کیے گئے اعمال سے بڑھ کر نہیں ہے۔
رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’کسی بھی دن کیا ہوا عمل اﷲ تعالیٰ کو ان دنوں (کے عمل) سے زیادہ محبوب نہیں ہے۔‘‘ صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین نے سوال کیا: اے اﷲ کے رسول ﷺ! کیا جہاد فی سبیل اﷲ بھی نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جہاد فی سبیل اﷲ بھی نہیں، مگر وہ شخص جو اپنی جان و مال کے ساتھ نکلے اور کچھ واپس لے کر نہ آئے۔‘‘ (سنن بی داؤد)
اسلام، دین فطرت اور انسانیت کے لیے پیغام محبت و الفت ہے۔ اسلام کا بنیادی مقصد ہی یہ ہے کہ بنی آدم ایک دوسرے سے جُڑے رہیں اور ملت واحد بن جائیں۔ حضور اکرم ﷺ جب مدینہ طیبہ تشریف لائے تو اہل مدینہ سال میں دو دن خوشی کے بہ طور عید منایا کرتے تھے۔ آپؐ نے فرمایا: یہ کون سے دن ہیں؟ لوگوں نے عرض کیا: جاہلیت میں ہم لوگ ان دنوں میں خوشیاں منایا کرتے تھے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’اﷲ تعالیٰ نے ان کے بدلے ان سے بہتر دو دن تمہیں دیے ہیں، عیدالفطر اور عیدالضحٰی۔‘‘
رسول کریم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’کوئی دن اﷲ تعالی کے ہاں ان دس دنوں سے زیادہ عظمت والا نہیں اور نہ ہی کسی دن کا عمل اﷲ تعالیٰ کو ان دس دنوں کے عمل سے زیادہ محبوب ہے پس تم ان دس دنوں میں کثرت سے تحلیل، تکبیر اور تحمید کہا کرو۔‘‘ (مسند احمد)
اسلامی تہوار لہو و لعب اور ہنگامہ آرائی کے لیے نہیں، بل کہ دوسری اقوام سے اس اعتبار سے منفرد ہیں کہ وہ فرحت و نشاط کا ذریعہ بھی ہیں اور وحدت و اجتماعات اور ایثار، قربانی اور اجتماعی عبادات کا منبع بھی۔ سرور دو عالم ﷺ کے فرمان مبارک کا مفہوم ہے: ’’جس نے عیدین کی رات (شب عیدالفطر اور شب عیدالضحٰی) قیام کیا اس دن اس کا دل نہیں مَرے گا۔ جس دن لوگوں کے دل مَرجائیں گے۔‘‘ (ابن ماجہ)
عید اس کی نہیں جس نے نئے کپڑے پہن لیے، بل کہ حقیقت میں تو عید اس کی ہے جو عذاب الہٰی سے ڈر گیا۔ سیدنا عمر فاروق اعظمؓ کے دورخلافت میں لوگ عید کے روز کاشانۂ خلافت پر حاضر ہوئے تو دیکھا کہ امیرالمؤمنین دروازہ بند کرکے زار و قطار رو رہے ہیں۔ لوگوں نے حیرت زدہ ہوکر دریافت کیا: یاامیرالمؤمنینؓ! آج تو عید کا دن ہے اور آپ خوشی کی جگہ رو رہے ہیں؟ سیدنا فاروق اعظمؓ نے فرمایا: اے لوگو! یہ دن عید کا بھی ہے اور وعید کا بھی۔
رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ’’اﷲ تعالی کے نزدیک سب سے زیادہ فضیلت والے دن یوم النحر اور یوم القر ہیں۔ یہ اہل ایمان کے لیے نیکیاں کرکے اجر و ثواب حاصل کرنے کا بہترین موقع ہے۔ ان دنوں میں کثرت کے ساتھ تحلیل (لاالہ الااﷲ) تکبیر (اﷲ اکبر) تحمید (الحمدﷲ) پڑھنا بہت اجر کا باعث ہے۔‘‘ (صحیح ابن حبان)
قربانی دین اسلام کے شعائر میں سے ہے۔ یہ ایک ایسا فریضہ ہے جو بارگاہِ رب العزت میں انتہائی مقبول ہے کیوں کہ قربانی کے ذریعے اﷲ تعالیٰ کے حضور بندہ اپنی جان و مال کا نذرانہ پیش کرکے درحقیقت اپنے جذبۂ عبودیت کا اظہار کرتا ہے، جو اﷲ تعالیٰ کو بہت پسند ہے کیوں کہ توحید باری تعالیٰ کا سب سے بڑا تقاضا یہی ہے کہ انسان کی محبت کا محور صرف ذات باری تعالیٰ ہو۔
اس کی جان نثاری، اس کی عبادت غرض کہ اس کا ہر فعل اﷲ تعالیٰ کی خوش نُودی کے لیے اسی طرح انسان کے مال و جان کی قربانی بھی صرف اﷲ تعالیٰ کے لیے ہو۔ اسلام کے نظام عبادت میں ہر لحظہ قربانی کا جذبہ پایا جاتا ہے، جیسے نماز اور روزہ انسانی ہمت اور طاقت کی قربانی ہے۔ زکوٰۃ، انسان کے مال و زر کی قربانی ہے۔ حج بیت اﷲ، انسان کی ہمت اور مال و زر کی قربانی ہے۔ حقوق اﷲ اور حقوق العباد میں بہت سے تقاضے ایسے ہیں جو انسانی قربانی کے مترادف ہیں۔
اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جو لاکھوں نعمتیں عطا فرمائی ہیں ان میں سے ایک عظیم نعمت عید قربان بھی ہے۔ مسلمان اس عید کے تین ایام میں مخصوص جانوروں کو ذبح کرکے اﷲ تعالیٰ کے حضور بہ طور ہدیہ پیش کرتے ہیں۔ قربانی کی تاریخ بہت قدیم ہے۔ قرآن مجید کی مختلف آیات مقدسہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قربانی امتِ محمدیؐ سے قبل امتوں پر بھی لازم تھی۔ حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹے ہابیل اور قابیل اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانیوں کا تذکرہ قرآن حکیم میں روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ ’’اﷲ تعالیٰ کو ہرگز ان کے گوشت پہنچتے ہیں نہ ان کے خون۔ ہاں تمہاری پرہیزگاری اس تک باریاب ہوتی ہے۔‘‘
اسلام میں قربانی کی بے پناہ فضیلت ہے کیوں کہ یہ ایک ایسا عمل ہے جو اﷲ کریم کی بارگاہ میں بہت زیادہ قبولیت کا درجہ رکھتا ہے۔ اسی بنا پر قربانی کی ضرورت و اہمیت کتاب و سنت میں بہت تاکید کے ساتھ بیان کی گئی ہے۔ کیوں کہ اسلامی معاشرے میں تعمیری طور پر قربانی کے بے شمار فوائد ہیں۔ قربانی کا سب سے بڑا مقصد یہ ہے کہ انسانی افکار میں جذبۂ ادائے اطاعت پیدا کیا جائے۔ اسی عظیم جذبے کے تحت انسان کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ سال میں ایک مرتبہ اﷲ تعالیٰ کی رضا اور خوش نودی کے لیے جانوروں کو قربان کرے، جس سے اس میں حکم خداوندی پر عمل پیرا رہنے کی قوت برقرار رہے۔
حضرت زید ابن ارقمؓ فرماتے ہیں کہ رسول کریمؐ سے دریافت کیا گیا کہ، یارسول اﷲ ﷺ! یہ قربانیاں کیسی ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنّت ہے۔ آپ ﷺ سے پوچھا گیا ہمارے لیے ان میں کیا اجر ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی ہے۔ آپ ﷺ سے پوچھا گیا اور خون کے بدلے میں ؟ آپؐ نے فرمایا: ہر خون کے قطرے کے بدلے میں ایک نیکی ہے۔
10ذوالحجہ، کو یوم النحر یعنی قربانی کا دن کہتے ہیں۔ اس دن اﷲ تعالی کی رضا و خوش نودی حاصل کرنے کے لیے بہ قدر استطاعت قربانی کرنا اور اس فرض کی ادائی میں ریاکاری اور فخر و تکبّر سے بچنے کا اہتمام کرنے کی بہت قدر و منزلت ہے۔
اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’اﷲ کو قر بانی کا گوشت اور لہو نہیں پہنچتا بل کہ تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔‘‘
سورۂ الانعام میں ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’کہہ دیجیے! میری نماز، اور قربانی، اور میری زندگی اور موت سب کی سب اﷲ رب العالمین کے لیے ہے۔‘‘
تمام نیکیوں کی طرح عید قربان کا بھی ایک خاص مقصد ہے اور وہ یہ ہے کہ اﷲ کی راہ میں مخلص ہوکر جانور کا ذبح کرنا۔ رسول اﷲ ﷺ نے اس حوالے سے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’اﷲ تعالیٰ کو تمہارے جانور کا نہ تو لہو پہنچتا ہے اور نہ ہی گوشت پہنچتا ہے، بل کہ صرف اور صرف تمہارا اخلاص اﷲ تعالیٰ کو پہنچتا ہے۔
حضور اکرم ﷺ نے مدینہ منورہ میں 10 سال قیام کے دوران ایک مرتبہ بھی قربانی ترک نہیں کی۔ باوجود اس کہ آپ ﷺ کے گھر میں بہ وجہ قلت طعام کئی کئی مہینے چولہا نہیں جلتا تھا۔ قربانی کی اہمیت کا اندازہ حضرت ابوہریرہؓ سے مروی اس حدیث مقدس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’جو آدمی قربانی کرنے کی استطاعت رکھتا ہو، پھر بھی قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عیدگاہ میں داخل نہ ہو۔‘‘
عید قرباں کا اصل پیغام اطاعت رب میں اپنی جاں سے بھی گزر جانا ہے۔ عید قرباں کو اس کی اصل روح کو سمجھتے اور اس پر عمل کرتے ہوئے منائیے۔ اسے نمود و نمائش بنانے سے احتراز کیجیے اور اپنے ہر عمل میں صرف رضائے الہی کے حصول کو مدنظر رکھیے۔ عید قرباں پر اپنے ڈیپ فریزر مت بھریے بل کہ نادار اور ضرورت مند مخلوق کے لیے ایثار کیجیے جو ان نعمتوں کے لیے سال بھر ترستے رہتے ہیں۔