ٹرمپ کا 30 ہزار تارکین وطن کو گوانتاناموبے جیل بھیجنے کا اعلان
اشاعت کی تاریخ: 30th, January 2025 GMT
واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ بدنام زمانہ گوانتاناموبے ملٹری جیل میں 30 ہزار غیرقانونی تارکین وطن کو قید کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے کے مطابق یہ جیل 9/11 کے حملوں کے بعد دہشت گردی کے مشتبہ افراد کو رکھنے کے لیے استعمال کی جاتی تھی۔
ٹرمپ نے یہ چونکا دینے والا اعلان اس وقت کیا جب انہوں نے لاکن ریلی بل پر دستخط کیے، جس کے تحت چوری اور پُرتشدد جرائم کے الزام میں دستاویزات نہ رکھنے والے تارکین وطن کو مقدمے سے پہلے حراست میں رکھنے کی اجازت دی گئی ہے۔
اس بل کا نام جارجیا کی نرسنگ کی طالبہ کے نام پر رکھا گیا ہے، جسے گزشتہ سال وینزویلا کے ایک شہری نے قتل کر دیا تھا۔
ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں کہا کہ وہ ایک ایگزیکٹیو آرڈر پر دستخط کر رہے ہیں، جس میں پینٹاگون اور ہوم لینڈ سکیورٹی ڈیپارٹمنٹ کو ہدایت کی گئی ہے کہ گوانتاناموبے میں 30 ہزار تارکین وطن کو رکھنے کے لیے انتظام شروع کریں۔
انہوں نے دوسرے دورِ اقتدار کے آغاز پر تارکین وطن کے خلاف بڑے کریک ڈاؤن کا وعدہ کیا تھا۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے گوانتاناموبے سے نکلنے کو ’ایک مشکل مقام‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اعلان کیے گئے اقدامات ہمیں اپنی کمیونیٹیز میں تارکین وطن کے جرائم کے مسئلے کو ہمیشہ ختم کرنے کے لیے ایک قدم اور قریب لے آئیں گے۔
ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں منعقدہ تقریب میں مقتولہ امریکی طالبہ کے والدین کی میزبانی کی۔
ٹرمپ نے کہا کہ ’ہم لاکن کی یاد کو ہمیشہ زندہ رکھیں گے۔ آج کے اقدام سے، ان کا نام بھی ہمارے ملک کے قوانین میں ہمیشہ زندہ رہے گا، اور یہ ایک بہت اہم قانون ہے۔‘
وائٹ ہاؤس میں واپسی کے بعد یہ پہلا بِل ہے، جس پر ٹرمپ نے دستخط کیے ہیں۔ 20 جنوری کو ٹرمپ کی حلف برداری کے صرف دو دن بعد ریپبلکن کی زیر قیادت امریکی کانگریس نے اسے منظور کیا تھا۔
وینزویلا کے 26 سالہ جوز انتونیو ابارا کو 2024 میں لاکن ریلی کے قتل کا مجرم قرار دیا گیا تھا، جب وہ ایتھنز میں جارجیا یونیورسٹی کے قریب صبح کے وقت لاپتہ ہوگئیں۔
لیکن گوانتانامو کا اعلان ہی وہ چیز ہے جو میڈیا میں سرخیاں بنائے گا۔
القاعدہ کے 9/11 کے حملوں کے بعد امریکہ نے یہ جیل کھولی تھی، جہاں کئی افراد کو غیرمعینہ مدت کے لیے رکھا گیا۔ جن پر کوئی جرم ثابت نہیں ہوا، یہ لوگ افغانستان، عراق اور دیگر آپریشنز کے دوران پکڑے گئے تھے۔
آغاز پر کیوبا کے مشرقی کنارے پر واقع اس جیل میں تقریباً 800 افراد کو رکھا گیا تھا۔ قیدیوں کے بیانات میں امریکی سکیورٹی اہلکاروں کی طرف سے ان کے ساتھ ہونے والے تشدد اور بدسلوکی کا ذکر گیا گیا ہے، جس پر ملکی اور بین الاقوامی سطح پر طویل عرصے سے تنقید کی جا رہی ہے۔
بدھ کے روز کیوبا کے صدر میگل ڈیاز کینل نے ٹرمپ کے منصوبے کو ’ظلم‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ پناہ گزینوں کو ایسے مراکز کے قریب رکھا جائے گا جو امریکہ نے تشدد اور غیرقانونی حراست کے لیے استعمال کیے تھے۔
سابق ڈیمو کریٹک صدور جوبائیڈن اور باراک اوباما نے جیل کو بند کرنے کا وعدہ کیا تھا، لیکن دونوں اپنے دورِ حکومت کے اختتام تک اسے بند نہ کر سکے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: تارکین وطن کو کے لیے کہا کہ
پڑھیں:
لیبیا کے قریب تارکین وطن کی کشتی میں خوفناک آگ بھڑک اُٹھی؛ 50 ہلاکتیں؛ 24 زخمی
لیبیا کے ساحل کے قریب ایک کشتی میں خوفناک آگ لگنے سے کم از کم 50 سوڈانی پناہ گزین ہلاک جبکہ 24 افراد کو زندہ بچا لیا گیا۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق یہ حادثہ اس مہلک راستے پر پیش آیا ہے جسے افریقی ممالک سے تارکین وطن یورپ پہنچنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
تاحال حادثے کی وجہ کا تعین نہیں ہوسکا تاہم تحقیقات کے لیے انکوائری کمیٹی تشکیل دیدی گئی۔ ہلاک اور زخمی ہونے والوں میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارۂ برائے مہاجرین نے واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ زخمیوں کو طبی امداد دی جا رہی ہے تاہم ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارے نے ایک بیان میں کہا کہ ایسے سانحات کو روکنے کے لیے فوری اقدامات ناگزیر ہیں۔
اعداد و شمار کے مطابق صرف گزشتہ سال بحیرۂ روم میں 2,452 افراد ہلاک یا لاپتا ہوئے، جس سے یہ دنیا کا سب سے خطرناک سمندری راستہ قرار دیا جاتا ہے۔
اگست میں، اٹلی کے جزیرے لامپیدوسا کے قریب دو کشتیوں کے ڈوبنے سے کم از کم 27 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
اسی طرح جون میں، لیبیا کے ساحل کے قریب دو کشتیوں کے حادثے میں تقریباً 60 تارکین وطن سمندر میں ڈوب گئے تھے۔
حالیہ برسوں میں یورپی یونین نے لیبیا کے کوسٹ گارڈ کو فنڈز اور سازوسامان فراہم کر کے اس غیر قانونی ہجرت کو روکنے کی کوششیں بڑھا دی ہیں، لیکن انسانی حقوق کی تنظیمیں اسے مزید خطرناک قرار دیتی ہیں۔
حقوقِ انسانی کی تنظیموں نے لیبیا میں تارکین وطن کے ساتھ ہونے والی تشدد، زیادتی اور بھتہ خوری کی بھی نشاندہی کی ہے،جہاں ہزاروں لوگ بدترین حالات میں حراستی مراکز میں پھنسے ہوئے ہیں۔