30 جنوری کو یرغمالیوں کے بدلے اسرائیلی جیل سے آزاد ہونے والے فلسطینی قیدیوں میں ایک شخص ایسا بھی تھا جس نے زندگی میں پہلی مرتبہ اپنی 2 بیٹیوں سے ملاقات کی۔ 21 سالہ رغد نے نمناک آنکھوں سے کہا کہ یہ پہلی مرتبہ تھا کہ میں نے اپنے والد کو گلے لگایا، اس احساس کو الفاظ میں بیان نہیں کرسکتی۔

فلسطینی میڈیا رپورٹ کے مطابق گزشتہ روز 3 اسرائیلی اور 5 تھائی یرغمالیوں کے بدلے اسرائیل نے 110 فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا تھا، جن میں 47 سال کے حسین نصر بھی شامل تھے جنہیں 22 سال اسرائیلی جیلوں میں گزارنے کے بعد آزادی ملی۔

کئی گھنٹوں کی تاخیر کے بعد کل رام اللہ میں خوشی کے مناظر تھے، جہاں قریباً 60 فلسطینی قیدیوں کو اسرائیلی حراست سے آزاد کرکے ان کے خوشی سے بھرے اہلخانہ کے ساتھ ملایا گیا۔ ان میں سے ایک قیدی حسین ناصر تھے، جو 22 سال بعد پہلی بار آزادی کا مزہ چکھ رہے تھے، وہ 2003 میں فلسطینی انتفاضہ کے دوران گرفتار ہوئے تھے۔

مزید پڑھیں: اسرائیل کی طرف سے تاخیر کے بعد 110 فلسطینی قیدیوں کو رہا کر دیا گیا

ان کے استقبال کے لیے ان کی بیٹیاں، 22 سالہ ہدایہ اور 21 سالہ رغد، جو نابلس کی رہائشی ہیں، وہاں موجود تھیں۔ دونوں نے نابلس کے روایتی سرخ اور سیاہ لباس پہنے ہوئے تھے۔ چھوٹی بیٹی نے ملاقات سے پہلے کہا کہ اتنے عرصے تک اپنے والد کے بغیر زندگی گزارنا ناممکن ہے۔ یہ پہلا موقع ہے جب میں انہیں چھُو سکوں گی، انہیں گلے لگاؤں گی، اپنے جذبات کا اظہار نہیں کر سکتی۔

اپنے والد سے ملنے کی خوشی میں لرزتے ہوئے اس نے کہا کہ اسرائیلیوں نے انہیں اس وقت گرفتار کیا جب میری والدہ مجھ سے حاملہ تھیں۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ پہلی بار ہے جب مجھے پتا چلے گا کہ والد ہونا کیا ہوتا ہے۔

Palestinian born after father was jailed hugs him for first time https://t.

co/J0w0xbZwb4

— BBC News (World) (@BBCWorld) January 30, 2025

110 فلسطینی قیدیوں میں سے کئی خواتین اور بچے بھی شامل تھے، جن میں سب سے کم عمر 15 سال کا تھا۔ ان میں سے کچھ پر نسبتاً معمولی جرائم کا الزام تھا، جبکہ کچھ کو الزام عائد نہیں کیا گیا تھا یا مقدمہ نہیں چلایا گیا تھا۔ لیکن 21 قیدیوں کو جن پر سنگین جرائم بشمول قتل کے الزامات تھے، اسرائیل نے فلسطینی علاقوں میں واپس جانے کی اجازت نہیں دی اور انہیں مصر یا پڑوسی ممالک میں جلاوطن کر دیا۔

مزید پڑھیں: اسرائیل نے اپنے قیدیوں کی بازیابی کے بعد فلسطینی سیکیورٹی اہلکاروں کی رہائی روک دی

باپ بیٹیوں کی ملاقات کے موقع پر رام اللہ اور ال بیرہ کی گورنر، ڈاکٹر لیلا ابو غنام نے ملے جلے جذبات کا اظہار کیا کیونکہ اسرائیلی فوجی کارروائیاں مقبوضہ مغربی کنارے کے شمالی حصے میں بڑھ رہی ہیں، اور غزہ میں جنگ بندی ابھی تک کشیدگی کا شکار ہے۔

انہوں نے کہا کہ تمام فلسطینی قیدیوں کی رہائی پر خوش ہیں لیکن ہمیں اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے، اس پر افسوس بھی ہے۔ آج کے دن، اگرچہ وہ اپنے بچوں کی رہائی پر خوش ہوں، وہ ان ماؤں کے لیے غمگین ہیں جنہوں نے اپنے گھر اور بچے کھو دیے ہیں۔

آج وہ بہت کم دنوں میں سے ایک تھا جب میں نے تنازعے کے دوران فلسطینیوں اور اسرائیلیوں دونوں کے چہروں پر اتنی خوشی دیکھی۔ یہ ایک تباہ کن جنگ رہی ہے جس نے بے شمار زندگیاں تباہ کی ہیں۔ گورنر غنام نے اسرائیلی حکومت پر امن کے لیے عدم دلچسپی کا الزام لگایا اور کہا کہ ہم امید نہیں کھوتے (انہوں نے مسکرا کر کہا) اگر ہم نے امید کھو دی ہوتی تو فلسطینی 75 سال پہلے ختم ہو چکے ہوتے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اسرائیل باپ بیٹی رام اللہ غزہ فلسطینی قیدی

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اسرائیل باپ بیٹی رام اللہ فلسطینی قیدی فلسطینی قیدیوں قیدیوں کو کہا کہ کے لیے کے بعد

پڑھیں:

غزہ: اسرائیلی حملوں میں مزید 3 فلسطینی شہید، جنگ بندی خطرے میں

فلسطین کے محکمہ صحت کے مطابق اسرائیلی فوج نے جمعہ کو مسلسل چوتھے روز غزہ کی پٹی پر حملے کیے، جن میں 3 فلسطینی جان کی بازی ہار گئے۔ یہ واقعات امریکی ثالثی سے طے پانے والی جنگ بندی کے لیے ایک اور امتحان ثابت ہوئے ہیں۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق مقامی رہائشیوں نے بتایا کہ شمالی غزہ کے علاقوں میں اسرائیل نے گولہ باری اور فائرنگ کی، جبکہ اسرائیلی حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی سے طے پانے والے جنگ بندی معاہدے پر قائم ہیں۔
فلسطینی خبر رساں ایجنسی وفا کے مطابق گزشتہ روز ہونے والے حملوں میں زخمی ہونے والا ایک اور فلسطینی شہری بھی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہو گیا۔
امریکا کی ثالثی میں طے پانے والی جنگ بندی میں کئی اہم معاملات، جیسے حماس کا غیر مسلح ہونا اور اسرائیلی افواج کے انخلا کا شیڈول، ابھی تک حل طلب ہیں۔ یہ معاہدہ تین ہفتے قبل نافذ ہوا تھا، تاہم وقفے وقفے سے ہونے والے تشدد کے واقعات نے اسے بار بار پرکھا ہے۔
28 اور 29 اکتوبر کو اسرائیلی فورسز نے اپنے ایک فوجی کی ہلاکت کے جواب میں غزہ کے مختلف علاقوں میں شدید بمباری کی، جس کے نتیجے میں غزہ کے محکمہ صحت کے مطابق 104 افراد شہید ہو گئے۔
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق، حماس کی جانب سے اسرائیل کے 2 یرغمالیوں کی لاشیں حکام کے حوالے کرنے کے بعد اسرائیلی حملوں میں شہید ہونے والے 30 فلسطینیوں کی لاشیں ریڈ کراس کے حوالے کر دی گئی ہیں۔
جنگ بندی کے تحت، حماس نے تمام زندہ اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کیا، بدلے میں تقریباً 2 ہزار فلسطینی قیدیوں اور نظر بند شہریوں کو رہا کیا گیا۔ اسرائیل نے بھی اپنی افواج کو پیچھے ہٹانے، حملے روکنے اور امدادی سرگرمیوں میں اضافہ کرنے پر اتفاق کیا۔
حماس نے یہ بھی تسلیم کیا کہ وہ تمام 28 اسرائیلی قیدیوں کی لاشیں واپس کرے گی، جبکہ اسرائیل 360 فلسطینی جانبازوں کی لاشیں واپس کرے گا۔ اب تک حماس نے مجموعی طور پر 17 اسرائیلی لاشیں واپس کی ہیں، جبکہ 225 فلسطینیوں کی لاشیں غزہ منتقل کی گئی ہیں۔ حماس کے مطابق باقی اسرائیلی قیدیوں کی لاشیں تلاش کرنے اور ملبے سے نکالنے میں وقت لگے گا، جبکہ اسرائیل نے الزام عائد کیا ہے کہ حماس تاخیر کر کے جنگ بندی کی خلاف ورزی کر رہی ہے۔
غزہ میں جاری تقریباً دو سالہ جنگ میں اب تک 68 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، اور پورا علاقہ شدید تباہی کا شکار ہے۔

متعلقہ مضامین

  • حماس کیجانب سے 3 اسرائیلی قیدیوں کی لاشیں واپس کرنے پر خوشی ہوئی، ڈونلڈ ٹرمپ
  • حماس نے غزہ امن معاہدے کے تحت مزید 3 قیدیوں کی لاشیں اسرائیل کے حوالے کر دیں
  • اسرائیلی فوج نے فوجی پراسیکیوٹر کو ہٹا دیا
  • غزہ سے موصول لاشیں قیدیوں کی نہیں ہیں، اسرائیل کا دعویٰ اور غزہ پر تازہ حملے
  • اسرائیلی وزیر کی ہاتھ بندھے، اوندھے منہ لیٹے فلسطینی قیدیوں کو قتل کی دھمکی؛ ویڈیو وائرل
  • فلسطینی قیدی پر تشدد کی ویڈیو لیک ہونے پر اسرائیلی خاتون جنرل مستعفی
  • فلسطینی قیدیوں پر تشدد کی ویڈیو کیوں لیک کی؟ اسرائیل نے فوجی افسر کو مستعفی ہونے پر مجبور کردیا
  • اسرائیل نے 30 فلسطینیوں کی لاشیں واپس کردیں، غزہ پر بمباری سے مزید شہادتیں
  • اسرائیل نے 30 فلسطینی قیدیوں کی لاشیں واپس کردیں، بعض پر تشدد کے واضح آثار
  • غزہ: اسرائیلی حملوں میں مزید 3 فلسطینی شہید، جنگ بندی خطرے میں