ڈاکٹر صاحب یہ میرا تیسرا چکر ہے اسپتال کا، آخر آپ میرا علاج کیوں نہیں کرتے؟ مریضہ کا شکوہ۔
کر تو رہے ہیں، ڈاکٹر کا جواب۔
کس قسم کا علاج ہے یہ؟ میں آتی ہوں، خون نکالتے ہیں، الٹرا ساؤنڈ کرتے ہیں اور بس۔
دیکھیے آپ کا حمل ہے ہی ایسا، ڈاکٹر نے جواب دیا۔
کیسا؟ مریضہ چڑ کر بولی۔
ہممم، حمل ہوا ہے آپ کو مگر بچہ نہیں ہے، ڈاکٹر نے کان کھجاتے ہوئے کہا۔
کس طرح کی ڈاکٹر ہیں آپ؟ یہ کیا بات ہوئی؟ حمل ہوا ہے مگر بچہ نہیں ہے … پھر کس چیز کا حمل ہے یہ؟ مریضہ چلائی۔
یہ تھا وہ مرحلہ جب جونیئر ڈاکٹر نے سینئیر کو اپنی مدد کے لیے بلایا۔
سینیئر ڈاکٹر نے اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق مریضہ کو سمجھایا کہ کبھی کبھار ایسا حمل ہو جاتا ہے جس میں انڈا اور اسپرم مل کر ابتدائی نطفہ بناتے ہیں۔ اس ابتدائی نطفے سے حمل کا خاص ہارمون خارج ہونے لگتا ہے جو حاملہ عورت کے پیشاب اور خون میں چیک کیا جاتا ہے اور حمل موجود کی خوشخبری سنائی جاتی ہے۔ ماہواری نہ آنے کے 2 ہفتے بعد الٹراساؤنڈ میں حمل کی چھوٹی سی تھیلی دیکھی جاتی ہے جس میں ابتدائی نطفہ ایک نکتے کی طرح نظر آتا ہے۔
لیکن اب اس لیکن کے آگے بہت سے مراحل ایسے ہیں جو عام لوگ نہیں سمجھ پاتے اور بسا اوقات ڈاکٹر سمجھا نہیں پاتے۔
نامعلوم وجوہات کی بنا پر نطفے کی بڑھوتری رک جاتی ہے اور اب صورت حال میں پیچ وخم آجاتے ہیں۔ صورت حال اتنی گنجلک ہو جاتی ہے کہ کوئی ایک پیٹرن دوسرے سے نہیں ملتا اور ڈاکٹر کو ہر مریض کے متعلق انفرادی سطح پہ فیصلہ کرنا پڑتا ہے کہ اب کیا کیا جائے؟
ہم اسے چھلاوہ حمل کہتے ہیں یعنی یہ ہے بھی اور نہیں بھی۔ اپنی نشانی چھوڑتا ہے اور دکھائی بھی نہیں دیتا۔ یہاں سے پکڑیں یا وہاں سے؟ مریضہ کو انجیکشن لگائیں یا آپریشن کریں یا کچھ بھی نہ کریں؟
ہاتھ پر ہاتھ دھرے تو بیٹھے رہ نہیں سکتے کہ تصور جاناں کا تصور کیا ہی نہیں جا رہا۔
ہم آپ کو اس مرحلے پر لے جاتے ہیں جب اس کیس میں ہماری اینٹری ہوئی۔
شعبہ ایمرجنسی سے ہمارے ڈیپارٹمنٹ کو کال آئی کہ پیٹ درد کے ساتھ ایک مریضہ لائی گئی ہے۔ شبہ ہے کہ اپینڈیکس پھٹ گیا ہے کیوں کہ بلڈ پریشر گر رہا ہے اور پیٹ میں خون جمع ہو رہا ہے لیکن احتیاطاً گائنی والے بھی دیکھ لیں کہ شاید اووری میں کوئی رسولی نہ پھٹ گئی ہو۔
اس دن ڈیوٹی رجسٹرار کافی عقل مند تھیں، پہلا سوال ہی یہ پوچھا کہ آخری ماہواری کب آئی تھی؟ جواب ملا کہ 6، 7 ہفتے پہلے۔
لیجیے جناب ہماری رجسٹرار کے کان کھڑے ہوئے اور وہ دوڑیں ایمرجنسی کی طرف۔ ڈاکٹر نے پیٹ پر ہاتھ رکھا تو اس قدر درد کہ مریضہ ہاتھ لگانے نہ دے … الٹرا ساؤنڈ کیا تو پیٹ خون سے بھرا ہوا۔
پچھلا ریکارڈ دیکھا تو اسپتال میں تو کوئی اینٹری نہیں تھی۔ پولی کلینک کا ریکارڈ کھول کر دیکھا تو پوری بات سمجھ میں آ گئی۔ وہ پولی کلینک آ جا رہی تھیں۔
4 بوتل خون کا بندوبست کیا۔ انیستھیسسٹ کو بلایا اور لے چلیں مریضہ کو آپریشن تھیٹر۔
جلدی جلدی کچھ ٹیسٹ بھی لیب کو بھیج دیے گئے جن میں ہیموگلوبن اور بیٹا ایچ سی جی شامل تھے۔ بیٹا ایچ سی جی وہ ہارمون ہے جس سے نہ صرف حمل کا پتا چلتا ہے بلکہ حمل کیسا ہے؟ کہاں ہے؟ اور کیا ہوگا؟ کے جواب بھی دیتا ہے۔
ہمیں اس مریض کی اطلاع اس لیے دی گئی کہ بلڈپریشر کافی کم تھا اور مریضہ کی رنگت بہت پیلی۔ مطلب یہ کہ خون بہت ضائع ہو چکا تھا۔
ہمارے پہنچنے تک پیٹ کھولا جا چکا تھا۔ پیٹ خون سے بھرا ہوا تھا۔ معائنہ کیا تو بائیں طرف کی ٹیوب سلامت اور اچھی حالت میں جبکہ دائیں طرف کی ٹیوب پھٹی ہوئی نظر آئی جس سے خون رس رہا تھا۔ ٹیوب کا پھٹا ہوا حصہ نکال کر باقی کو ٹانکا لگا دیا۔ بس اب پیٹ بند کرنا باقی تھا جو 4 تہوں میں علیحدہ علیحدہ سیا جانا تھا۔
ختم کرنے کے بعد ہم نے سوچا کہ پرانے نوٹس ہی پڑھ لیے جائیں کہ کب کیا ہوا؟ کچھ بات چیت مریضہ کے شوہر سے ہوئی اور یوں کہانی مکمل ہوئی۔
ماہواری رکنے اور پیشاب میں حمل نظر آنے کے بعد مریضہ جب کلینک آئی تو تقریباً 5 ہفتے کا حمل تھا۔ مریضہ بالکل ٹھیک تھی اور الٹرا ساؤنڈ پر بچے دانی خالی تھی۔ بیٹا ایچ سی جی کروایا گیا تو وہ ساڑھے 3 ہزار تھا جس کا مطلب یہ تھا کہ حمل بچے دانی میں لازمی نظر آنا چاہیے۔ چونکہ بچے دانی میں کچھ نہیں تھا اس لیے یہ تشخیص ہو گئی کہ حمل ایکٹوپک ہے یعنی بچے دانی کے علاوہ کہیں اور، اب کہاں یہ پتا نہیں کیونکہ الٹراساؤنڈ پر کچھ نظر نہیں آیا تھا۔
مریضہ کو اسپتال میں داخل ہونے کا کہا گیا۔ اس داخلے کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ اگر کبھی بھی کچھ ہو تو مریضہ اسپتال میں موجود ہو۔ ٹیسٹ فقط ایک ہی کروایا جاتا ہے یعنی بیٹا ایچ سی جی اور وہ بھی 48 گھنٹے بعد۔
مریضہ نے اسپتال داخلہ قبول نہیں کیا اور گھر چلی گئیں۔ 48 گھنٹے کی بجائے 4 دن بعد آئیں۔ ابھی بھی کوئی تکلیف نہیں تھی۔ الٹراساؤنڈ پر کچھ نہیں تھا اور بیٹا ایچ سی جی 2400 تھا۔ پھر داخل ہونے کا کہا گیا لیکن وہ نہیں مانیں۔ پھر 48 گھنٹے کا کہا گیا۔ وہ پھر اپنی مرضی سے 3 دن کے بعد آئیں۔ الٹراساؤنڈ ویسا کا ویسا اور بیٹا ایچ سی جی 1600۔ اس وزٹ میں وہ اپنی ہٹ پر قائم رہیں اور پھر گھر چلی گئیں۔
ایک دن کے بعد انہیں پیٹ میں درد ہوا۔ وہ قریبی ہیلتھ سینٹر گئیں جہاں کسی بہت ہی جونیئر ڈاکٹر نے انہیں درد کش ٹیکہ لگا کر گھر بھیج دیا۔ شام ہوتے ہوتے درد شدید ہو گیا اور تب گھر والے انہیں اسپتال ایمرجنسی میں لے کر آئے جہاں انہیں پہلے اپنڈیکس کا مریض سمجھا گیا اور آخر کار ہماری ایک سمجھ دار ڈاکٹر نے انہیں پکڑ لیا۔
انہیں ٹیوب میں ایکٹوپک حمل تھا جو الٹراساؤنڈ پر نظر نہیں آیا۔ دو باتیں ہو سکتی ہیں یا تو ڈاکٹر سے غلطی ہوئی ہو یا حمل حجم میں اتنا چھوٹا ہو کہ پکڑا نہ جا سکے۔ مریضہ اسپتال آنے میں بھی ڈھیلی رہیں سو بیٹا ایچ سی جی کو جس طرح ہر 48 گھنٹے کے بعد ٹریک ہونا تھا، نہیں ہو سکا۔
پھر ہیلتھ سینٹر میں شاید مریضہ نے ہسٹری نہیں بتائی کہ پچھلے 6،7 ہفتے سے ماہواری غائب ہے۔
ڈاکٹری ایک ایسا کھیل ہے جس کے ہر مہرے میں جیت یا ہار چھپی ہوتی ہے بس کھلاڑی شاطر ہونا چاہیے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: جھوٹا حمل سوڈوسائسس نفسیاتی حمل
پڑھیں:
حکومت کو ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کی استدعا سے آخر کیا نقصان ہے؟، اسلام آباد ہائیکورٹ
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)اسلام آباد ہائیکورٹ نے امریکا میں قید ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی اور وطن واپسی سے متعلق کیس میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے سوالات کے جوابات طلب کر لیے۔
نجی ٹی وی چینل ایکسپریس نیوز کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے کیس کی سماعت کی، ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کے وکیل عمران شفیق عدالت میں پیش ہوئے۔
عدالت نے سوال کیا کہ کیا حکومتِ پاکستان امریکی عدالت میں عافیہ صدیقی کی رہائی سے متعلق عدالتی معاونت کا جواب جمع کروائے گی؟۔
اداکارہ سعدیہ امام نے روتے ہوئے ویڈیو سوشل میڈیا پر شیئر کردی، مداح پریشان
عدالت نے سوال کیا کہ حکومت عافیہ صدیقی کی اپنی رہائی کے لیے دائر کردہ درخواست میں بطور معاون عدالتی بیان جمع کرانے کے لیے تیار ہے تاکہ انہیں انسانی بنیادوں پر رہا کیا جا سکے؟۔
ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کے وکیل عمران شفیق ایڈووکیٹ نے عدالت سے استدعا کی کہ حکومت کو ہدایت دی جائے کہ وہ امریکہ میں عدالتی معاونت پر رضا مندی ظاہر کرے، اس جواب میں حکومت نے عافیہ صدیقی کی دائر درخواست کے مندرجات کی حمایت یا تصدیق نہیں کرنی۔
وکیل عمران شفیق نے کہا کہ حکومت پاکستان سے محض اتنا مطالبہ ہے کہ وہ عافیہ صدیقی کی درخواست کے مندرجات سے قطع نظر محض مختصر سی استدعا کرے کہ عافیہ صدیقی کو انسانی بنیادوں پر رہا کیا جائے۔
سٹار کرکٹر بابراعظم آسٹریلین ٹی ٹوئنٹی لیگ بیگ بیش کا حصہ بن گئے
جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے کہا کہ اس معمولی سی استدعا سے حکومت پاکستان کو آخر کیا نقصان ہو سکتا ہے؟، پاکستان کے اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان گزشتہ ایک پیشی پر اسی عدالت میں بیان دے چکے ہیں۔
جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے کہا کہ اٹارنی جنرل پہلے کہہ چکے ہی کہ حکومت امریکہ میں عدالتی معاونت کی درخواست دائر کرے گی تو پھر اب کیا مسئلہ ہے؟، اگلی سماعت پر حکومتی موقف سے آگاہ کریں اور عدالت کو دلیل سے مطمئن کریں کہ اس میں حکومت کا نقصان کیا ہے؟۔
جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے کہا کہ جب میاں صاحب اپوزیشن میں تھے تو انہوں نے اس وقت کے وزیر اعظم کو خطوط لکھے کہ عافیہ کی رہائی کے لئے قانونی اقدامات کریں، عدالت نے استفسار کیا کہ حکومت کے بعد حالات میں ایسی کیا تبدیلی ہے کہ حکمران جماعت کا موقف بدل گیا؟۔
شدید گرمی نے لیسکو کے دعووں کی قلعی کھول دی، کئی علاقے بجلی سے محروم
فاضل جج نے مزید کہا کہ ایسی نظیریں موجود ہیں کہ حکومت پاکستان ماضی میں ایسے معاون عدالتی بیان داخل کر چکی ہے۔ جب پہلے معاون عدالتی بیان داخل ہوتے تھے تو اب کیا قانونی پیچیدگی ہے، ایڈیشنل اٹارنی جنرل ہدایات لیکر عدالت کو مطمئن کریں۔ کیس کی سماعت بدھ تک ملتوی کردی گئی۔
مزید :