Daily Mumtaz:
2025-11-03@12:41:55 GMT

ہائیکورٹ ججزکاخط اعلیٰ عدلیہ میں نئے بحران کاعندیہ

اشاعت کی تاریخ: 1st, February 2025 GMT

ہائیکورٹ ججزکاخط اعلیٰ عدلیہ میں نئے بحران کاعندیہ

اسلام آباد(طارق محمودسمیر) اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججوں نے صدرمملکت اور چیف جسٹس جسٹس یحییٰ آفریدی کو خط ارسال کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا ہے کہ کسی دوسری ہائیکورٹ سے جج نہ لایا جائے اور نہ ہی چیف جسٹس بنایا جائے،خط لکھنے والے ججوں میں جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری ، جسٹس ارباب محمد طاہر، جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز شامل ہیں، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کا نام بھی شامل ہے لیکن انہوں نے دستخط نہیں کئے  خط میں کہا گیا ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے 3 سینئر ججوں میں سے ہی کسی کو چیف جسٹس عدالت عالیہ بنایا جائے،یہ پیشرفت ایسے موقع پرسامنے آئی ہیکہ جب لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس سردار سرفراز ڈوگر کواسلام آبادہائیکورٹ میں لانے کی خبریں سامنے آئی ہیں جسے رکوانے کے لیے خط لکھاگیاہے،واضح رہے کہ 26ویں آئینی ترمیم کے تحت کسی ایک ہائیکورٹ میں دوسری ہائیکورٹ کے جج کا تبادلہ کیاجاسکتاہے گوکہ حکومتی موقف ہے کہ آئینی ترمیم کے تحت عدالتی نظام میں اصلاحات کی گئی ہے لیکن بظاہراعلیٰ عدلیہ میں اس آئینی ترمیم کے حوالے سے عدم اطمینان پایاجارہاہے،  اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس محسن اختر کیانی اس سے پہلے ایک تقریب سے خطاب میں کہہ چکے ہیں کہ 26 ویں آئینی ترمیم ایک خط کی بنیاد پر کی گئی میرا خیال ہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم کو بالآخر سپریم کورٹ کا فل کورٹ بینچ ہی سنے گا، یہ ایشو پاکستان کی عوام اور نظام کی بقا کیلئے حل ہوگا،چنانچہ ہائیکورٹ کے ججز کے تبادلوں کی بنیادپرعدلیہ میں نئے بحران کا خدشہ موجود ہے،اعلیٰ عدلیہ میں اختلاف رائے اپنی جگہ لیکن اس طرح کے خطوط کا میڈیاکی زینت بننازیادہ تشویش کاباعث ہے، دیکھاجائے توملکی عدالتی تاریخ میں ججوں کے درمیان اختلافات کی خبریں ہمیشہ ہی سامنے آتی رہی ہیں اور اکثر جج اپنے اختلاف رائے کا اظہار اپنے فیصلوں میں اختلافی نوٹ کے ذریعے کیا کرتے ہیں بعض آئینی، قانونی اور عدالتی انتظامی معاملات ججوں کے مابین اختلاف رائے کی خبریں بھی مقامی میڈیا کی زینت بنتی ہیں، اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز نے 25 مارچ کو سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھے گئے اپنے خط میں عدالتی امور میں آئی ایس آئی اور دیگر انٹیلیجنس اداروں کی طرف سے براہ راست مداخلت اور ججوں کو ہراساں کرنے کے الزامات عائد کیے تھے، جنھیں موجودہ سیاسی تناظر میں غیر معمولی سمجھا جا رہا ہے،ادھر پی ٹی آئی کے مذاکراتی عمل سے باہر نکلنے اور وزیراعظم کی جانب سے دوبارہ بات چیت کی پیشکش کو مسترد کیے جانے پر حکومت نے بھی مذاکراتی عمل ختم کر دیا، حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان مذاکرات کے لیے حکومتی کمیٹی کے ترجمان اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما سینیٹر عرفان صدیقی نے تصدیق کردی،یوں سیاسی جماعتوں کے مذاکرات کے امکانات اب مکمل طور پر معدوم ہوگئے ہیں جب پی ٹی آئی کی طرف سے احتجاجی سیاست پرمشاورت جاری ہے جس سے آنے والے دنوں میں سیاسی درجہ حرارت پھر سے بڑھنے کاامکان ہے۔

 

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: ہائیکورٹ کے جج اسلام ا باد

پڑھیں:

ایشیاء میں بڑھتا معاشی بحران

میری بات/روہیل اکبر

ایشیا میں امیر اور غریب کے درمیان تیزی سے بڑھتے ہوئے فرق کے نتیجے میں 50 کروڑ افراد کو شدید معاشی بوجھ کا سامنا ہے ۔ پاکستان میں سب سے امیر 10فیصد افراد قومی آمدنی کا 42 فیصد رکھتے ہیں، جو بڑی ایشیائی معیشتوں کی اوسط سے کم ہے، لیکن پھر بھی یہ اتنا بڑا فرق پیدا کرتا ہے کہ منصفانہ اور پائیدار معاشرہ قائم کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔یہ آکسفیم کی رپورٹ کا ایک اہم نتیجہ ہے، جو دولت کی غیر مساوات، ماحولیاتی تبدیلی اور ڈیجیٹل فرق کی وجہ سے ہونے والی اقتصادی ترقی کے غیر مساوی پیٹرن کو ظاہر کرتی ہے۔رپورٹ کا عنوان غیر مساوی مستقبل ،ایشیا کی انصاف کیلئے جدوجہد ہے اور یہ ایک مایوس کن حقیقت سامنے لاتی ہے کہ سب سے امیر 10 فیصد لوگ قومی آمدنی کا 60 سے 77 فیصد حاصل کرتے ہیں، جب کہ غریب ترین 50 فیصد صرف 12 سے 15 فیصد کماتے ہیں اور سب سے امیر 1 فیصد کے پاس تقریبا آدھی دولت ہے گزشتہ دہائی میں ایشیائی ارب پتیوں کی دولت دوگنا ہو چکی ہے جب کہ چین، بھارت، انڈونیشیا اور کوریا جیسے ممالک میں غریب ترین نصف آبادی کی آمدنی کا حصہ کم ہو گیا ہے۔ غریب ترین 50 فیصد کی آمدنی کا حصہ تقریبا تمام ممالک میں کم ہوا ہے ۔سوائے بنگلہ دیش، کمبوڈیا، ملائیشیا، میانمار، نیپال، پاکستان، فلپائن، سری لنکا، تھائی لینڈ، تیمور-لیسٹ اور ویتنام کے ان ممالک میں بھی اضافہ کم ہے، تقریبا 1 فیصد، سوائے کمبوڈیا، ملائیشیا، میانمار، فلپائن اور تیمور-لیسٹ کے۔
لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز میں غربت اور عدم مساوات پڑھانے والے ڈاکٹر عابد امان برکی اس رپورٹ کو اس خطے میں آمدنی اور دولت کی عدم مساوات کو اجاگر کرنے کی ایک جرت مندانہ کوشش سمجھتے ہیں آکسفیم انٹرنیشنل کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر امیتابھ بہار کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں پاکستان کے لیے یہ رپورٹ اہمیت رکھتی ہے کیونکہ پاکستان ایشیا کے ان ممالک میں شامل ہے جو سیلاب اور ماحولیاتی اتار چڑھا سے سب سے زیادہ متاثر ہیں پھر بھی سب سے امیر طبقہ دولت اکٹھی کرتا رہتا ہے اور ٹیکسوں سے بچتا ہے جس سے عام لوگ تباہی کا سامنا کرتے ہیں ۔ڈاکٹر عابد امان برکی پاکستان میں بڑھتی ہوئی عدم مساوات کیلئے موجودہ اقتصادی ماڈل کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں ان کے بقول یہ ماڈل طاقتور اشرافیہ کو فائدہ پہنچاتا ہے جب کہ ٹیکس کا نظام غیر مستقیم ٹیکسوں پر انحصار کرتا ہے جو کم اور متوسط آمدنی والے خاندانوں پر غیر متناسب بوجھ ڈالتا ہے ۔عوامی اخراجات زیادہ تر قرضوں کی ادائیگی، دفاع اور اشرافیہ کیلئے سبسڈیوں پر خرچ ہو رہے ہیں۔ صحت، تعلیم اور سماجی تحفظ کے لئے بہت کم بچتا ہے آکسفیم کی تحقیق اس دعوے کی حمایت کرتی ہے کہ 2022 میں بھوٹان اور کرغزستان میں تعلیم میں عوامی سرمایہ کاری جی ڈی پی کا 8 فیصد تھی جب کہ پاپوا نیو گنی، پاکستان، کمبوڈیا، لاس اور سری لنکا میں یہ جی ڈی پی کا 2 فیصد سے بھی کم تھی رپورٹ میں یہ بھی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے کہ کیسے غیر مستقیم ٹیکسوں کا اثر کم آمدنی والے خاندانوں پر غیر متناسب طور پر پڑتا ہے ۔ 2022 میں، جاپان، کوریا اور نیوزی لینڈ میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی کا تناسب 30 فیصد یا اس سے زیادہ تھا ۔لاس اور پاکستان میں یہ تقریبا 10 فیصد تھا اسی طرح نیوزی لینڈ، آسٹریلیا، کوریا اور جاپان جیسے ممالک میں براہ راست ٹیکسوں کی شرح زیادہ ہے۔ متوسط ویلیو ایڈڈ ٹیکسز ہیں اور مضبوط سماجی خرچ کی صلاحیت ہے ۔افغانستان، بنگلہ دیش، بھوٹان، ملائیشیا، انڈونیشیا، پاکستان، فلپائن، تھائی لینڈ اور ویتنام جیسے ممالک میں غیر مستقیم ٹیکسوں پر انحصار جاری ہے۔ لہٰذا بوجھ اب بھی غریب خاندانوں پر غیر متناسب طور پر پڑتا ہے۔ صرف اقتصادی اصلاحات سے امیر اور غریب کے درمیان بڑھتے ہوئے فرق کو ختم نہیں کیا جا سکتا ۔ماحولیاتی بحران اور ڈیجیٹل فرق کو بھی حل کرنا ضروری ہے کیونکہ دونوں خطے میں عدم مساوات کو مزید بڑھاتے ہیں ۔ایشیا میں یہ فرق سب سے زیادہ نمایاں ہے جسے عالمی موسمیاتی تنظیم نے سب سے زیادہ آفات کا شکار خطہ قرار دیا ہے اور گزشتہ دہائی میں یہاں 1 ہزار 800 سے زائد واقعات ہوئے ہیں جن میں 1 لاکھ 50 ہزار سے زائد افراد کی جانیں گئیں اور 120کروڑ سے زائد افراد متاثر ہوئے ۔دنیا کے پانچ سب سے زیادہ خطرے سے دوچار ممالک بنگلہ دیش، نیپال، میانمار، پاکستان اور سری لنکا جو 50 کروڑ سے زائد افراد کا گھر ہیں ۔ماحولیاتی آفات کے باعث سب سے زیادہ بوجھ اٹھاتے ہیں آفات سے نمٹنے اور ان کے مطابق ڈھالنے کے لیے ایشیا کو سالانہ تقریبا 1 کھرب 11 ارب ڈالر کی ضرورت ہے لیکن صرف 333ارب ڈالر ملتے ہیں اور اس کا بیشتر حصہ قرضوں کی شکل میں آتا ہے۔ امیر ممالک اب بھی ان ممالک جیسے پاکستان میں ماحولیاتی نقصان کے لیے اپنے ذمہ داریوں کو نظرانداز کرتے ہیں جو انہوں نے پیدا کیا ہے ۔اس لیے ڈیجیٹل فرق کو ختم کرنا ضروری ہے جو بڑی حد تک جغرافیہ، استطاعت اور سماجی حیثیت کے ذریعے متعین ہوتا ہے ۔ایشیا پیسیفک میں، 83فیصد شہری آبادی کو انٹرنیٹ تک رسائی حاصل ہے جب کہ دیہی علاقوں میں یہ صرف 49فیصد ہے ۔ ایشیا بھر میں خاص طور پر جنوبی ایشیا میں خواتین مردوں کے مقابلے میں بہت کم انٹر نیٹ سے جڑی ہوئی ہیں کم اور درمیانہ آمدنی والے ممالک میں 88کروڑ 50لاکھ خواتین موبائل انٹرنیٹ استعمال نہیں کر رہیں جن میں سے 33کروڑ جنوبی ایشیا میں ہیںجس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان خواتین کو ڈیجیٹل اور ٹیک ڈرائیوڈ نوکریوں سے باہر رکھنے کیلئے سہولت کی کمی، ڈیجیٹل خواندگی کی کمی، حفاظت کے مسائل اور غیر ادائیگی والے دیکھ بھال کے کام جیسے رکاوٹیں ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

متعلقہ مضامین

  • جج کیخلاف سوشل میڈیا مہم کیس: جسٹس راجا انعام امین منہاس کی سماعت سے معذرت
  • وزیراعظم نے 27 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کےلئے حمایت مانگی، بلاول بھٹو نے تفصیلات جاری کردیں
  • جج ہمایوں دلاور کیخلاف سوشل میڈیا مہم کیس؛ جسٹس انعام امین کی سماعت سے معذرت
  • جسٹس ہمایوں دلاور کیخلاف سوشل میڈیا مہم کا معاملہ، جسٹس منہاس نے کیس سننے سے معذرت کرلی
  • آڈیو لیکس کیس میں اہم پیش رفت، مقدمہ دوسری عدالت کو منتقل
  • آڈیو لیک کیس میں اہم پیشرفت، مقدمہ جسٹس اعظم خان کی عدالت کو منتقل
  • غزہ کی جنگ بندی اور انسانی بحران پر استنبول میں اعلیٰ سطح اجلاس، مسلم وزرائے خارجہ کی شرکت متوقع
  • ایشیاء میں بڑھتا معاشی بحران
  • وفاق مقامی حکومتوں کو بااختیار بنانے کیلئے 27ویں آئینی ترمیم کرے: سپیکر پنجاب اسمبلی
  • پنجاب اسمبلی :وفاق سے مقامی حکومتوں کو بااختیار بنانے کیلیے27ویں آئینی ترمیم کا مطالبہ