وزیراعلیٰ پنجاب نے زرعی ٹیوب ویلز کی شمسی توانائی پر منتقلی کے پراجیکٹ کا افتتاح کر دیا
اشاعت کی تاریخ: 1st, February 2025 GMT
لاہور(نیوز ڈیسک)وزیراعلیٰ پنجاب نے ٹیوب ویلزکی شمسی توانائی پر منتقلی کے پراجیکٹ کیلئے قرعہ اندازی کی اور اس میں پہلا نام اٹک کے شہری کا نکلا۔اس موقع پر وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے نارووال کے کاشتکاروں کی فہرست کاجائزہ لیا، پہلے فیز میں پنجاب بھر میں 8 ہزار ٹیوب ویل شمسی توانائی پر منتقل کیے جائیں گے۔حکومت پنجاب زرعی ٹیوب ویل کیلئے 10 کلو واٹ کے سولر سسٹم کیلئے 5 لاکھ سبسڈی دے گی، اس میں کامیاب کاشتکار متعلقہ ضلع کے وینڈرکا انتخاب کر کے سولر سسٹم کی تنصیب کرائیں گے۔
زرعی ٹیوب ویل سولرائزیشن پراجیکٹ کیلئے 5 لاکھ 30 ہزار سے زائد کاشتکاروں نے اپلائی کیا جبکہ 3 لاکھ 85 ہزار کاشتکار زرعی ٹیوب ویل سولرائزیشن پراجیکٹ کی قرعہ اندازی کے اہل قرار پائے۔پہلے فیزمیں زرعی ٹیوب ویل کی سولرائزیشن جون تک مکمل کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے، اس موقع پر وزیراعلیٰ نے کہا کہ زرعی ٹیوب ویلزکی شمسی توانائی پرمنتقلی کا منصوبہ کاشتکاری میں انقلاب لائے گا۔ان کا کہنا تھا کہ زرعی ٹیوب ویلزکی شمسی توانائی پرمنتقلی سے فصل کی پیداواری لاگت میں کمی آئے گی، کسان کارڈ، ایگریکلچر میکائزیشن، ایگری انٹرن شپ سمیت ہر منصوبہ کاشتکار کیلئے بہتری لا رہا ہے۔
خصوصی افراد کیلئے تاحیات میعاد کیساتھ منفرد شناختی کارڈ کے اجراء کی منظوری
.ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: کی شمسی توانائی پر
پڑھیں:
گندم کی قیمت 4700 روپے فی من مقرر کی جائے،سندھ آبادگار بورڈ کا مطالبہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251103-2-14
حیدرآباد(اسٹاف رپورٹر)سندھ آبادگار بورڈ نے مطالبہ کیا ہے کہ گندم کی امدادی قیمت 4700 روپے فی من اور گنے کی قیمت 500 روپے فی من مقرر کی جائے۔ بورڈ نے پیاز کی فصل کی تباہی کی بڑی وجہ زرعی تحقیق کی کمی کو بھی قرار دیا ہے۔اس سلسلے میں سندھ آبادگار بورڈ کا اجلاس صدر محمود نواز شاہ کی زیر صدارت حیدرآباد میں ہوا، جس میں ڈاکٹر محمد بشیر نظامانی، عمران بزدار، محمد اسلم مری، طھ میمن، یار محمد لغاری، ارباب احسن، عبدالجلیل نظامانی، مراد علی شاہ بکیرئی اور دیگر نے شرکت کی۔اجلاس میں کاشتکاروں نے زراعت سے متعلق اہم مسائل پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ مطلوبہ زرعی تحقیق نہیں ہو رہی جس کی وجہ سے نئی اور بہتر ٹیکنالوجیز بھی متعارف نہیں ہو رہی اور مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے۔ زرعی تحقیق کی کمی کے باعث پیاز کی فصل کی تباہی بھی اس کی واضح مثال ہے۔۔اجلاس کو بتایا گیا کہ اکتوبر اور نومبر میں پیدا ہونے والی پیاز نہ صرف سال بھر کی مقامی طلب پوری کر رہی تھی بلکہ برآمد بھی کی جا رہی تھی۔ لیکن گزشتہ تین سالوں سے اکتوبر اور نومبر میں پیاز کی فصل تباھ ہوتی رہی اور اس مسئلے کے حل کے لیے نہ تو تحقیق کی گئی اور نہ ہی اسے بچانے کے لیے کوئی اور موثر اقدامات کیے گئے، جس کی وجہ سے کسانوں کی اکثریت نے پیاز اگانا بند کر دی۔ نتیجتا پاکستان کو اب پیاز برآمد کرنے کی بجائے مزید درآمد کرنا پڑ رہی ہے۔سندھ آبادگار بورڈ نے کہا ہے کہ زراعت میں مسلسل تحقیق اور ترقی ضروری ہے، کیونکہ کم پیداوار، فصل سے پہلے اور بعد میں ہونے والے نقصانات اور موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجز کا مقابلہ مضبوط زرعی تحقیق کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ زراعت کو پائیدار رکھنا بہت ضروری ہے۔سندھ آبادگار بورڈ کا مزید کہنا تھا کہ گزشتہ ڈیڑھ سال سے پیداواری لاگت میں بھی مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ اگر زرعی مصنوعات کی قیمتیں بڑھتی ہوئی پیداواری لاگت کو پورا نہیں کرتیں تو ان کی کاشت معاشی طور پر ناقابل عمل ہو جائے گی۔ اس لیے زرعی معیشت کو بچانے کے لیے زرعی اجناس کی کم از کم امدادی قیمت کا تعین کرنا بہت ضروری ہے۔ اجلاس میں سندھ آبادگار بورڈ نے مطالبہ کیا کہ گندم کی فی من امدادی قیمت 4700 روپے اور گنے کی قیمت 500 روپے فی من مقرر کی جائے یہ امدادی قیمتیں کاشت کی لاگت اور کسانوں کے معقول منافع کو مدنظر رکھتے ہوئے طئے کی گئی ہیں۔ جہاں زرعی مصنوعات کی مفت برآمد کی اجازت نہیں ہے وہاں حکومت سپورٹ پرائس مقرر کرے۔سندھ آبادگار بورڈ نے گندم کی کاشت کے لیے چھوٹے کاشتکاروں کو ڈی اے پی اور یوریا کھاد فراہم کرنے کے حوالے سے سندھ حکومت کے اقدام کو بھی سراہا اور کہا کہ اس پروگرام کی کامیابی کا دارومدار کسانوں کے لیے دیگر متعلقہ امور میں سہولت فراہم کرنے پر ہے۔