اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔یکم فروری ۔2025 )وزارتوں کا سائز کم کرنے اور عہدوں کو کم کرنے کی حکومت کی کوششوں کا مقصد مالیاتی عدم توازن کو دور کرنا ہے لیکن پائیدار نتائج کو یقینی بنانے کے لیے احتیاط سے عملدرآمد، روزگار میں ایڈجسٹمنٹ اور نجکاری جیسی طویل مدتی حکمت عملیوں کی ضرورت ہے.

(جاری ہے)

ویلتھ پاک سے بات کرتے ہوئے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس میں میکرو پالیسی لیب کے سربراہ ڈاکٹر ناصر اقبال نے اس بات پر زور دیا کہ سرکاری اداروں میں نا اہلی اور بے روزگاری ایک بہت گہرا مسئلہ ہے جسے حل کرنا مشکل ہو گا انہوں نے تجویز پیش کی کہ حکومت نئی ملازمتوں پر پابندی لگا کر اضافی نقصانات کو روکنے پر توجہ مرکوز کرے جسے وہ سب سے فوری اور موثر اقدام سمجھتے ہیں.

ڈاکٹر ناصر نے وزارتوں کے بوجھ کو کم کرنے کے لیے موجودہ ملازمین کے لیے ڈائیورژن پلان وضع کرنے کی مزید سفارش کی انہوں نے کہا کہ دیگر وزارتوں میں ایڈجسٹمنٹ روزگار کے بوجھ کو کم کر سکتی ہے اور نقصانات کو کسی حد تک کم کر سکتی ہے یہ آسانی سے کیا جا سکتا ہے. انہوں نے کہا کہ نجکاری ہی حتمی حل ہے لیکن اس کے جلد ہونے کا امکان نہیں ہے اصل حل یہ ہے کہ نجکاری کی طرف جانا اور جیت کی صورتحال پیدا کی جائے لیکن ایسا مستقبل قریب میں ممکن نظر نہیں آتا انہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ قلیل مدتی اقدامات جیسے سرکاری اداروں میں نئی ملازمتوں پر پابندی اور معمولی اصلاحات پر عمل درآمد سے کچھ راحت مل سکتی ہے.

ماہر اقتصادیات شاہد محمود نے پنشن اصلاحات کی اہمیت پر روشنی ڈالی جسے انہوں نے طویل التوا قرار دیا انہوں نے ریمارکس دیئے کہ یکے بعد دیگرے حکومتوں نے بڑھتے ہوئے مالی دبا ﺅکے باوجود اصلاحات کو برسوں تک موخر کیا انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ کم از کم ایک دہائی سے پنشن اصلاحات کی بہت ضرورت تھی لیکن یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتیں کسی نہ کسی وجہ سے ان میں تاخیر کرتی رہیں.

انہوںنے کہا کہ مالیاتی بل جو کہ غیر پائیدار ہو گیا تھا بالآخر پالیسی سازوں کو کام کرنے پر مجبور کر دیا تاہم انہوں نے کہا کہ اصلاحات بنیادی طور پر سول سروس میں حالیہ داخلے پر اثر انداز ہوں گی اور اس کے فوری نتائج برآمد نہیں ہو سکتے انہوں نے اس عبوری مرحلے کے دوران ملازمین کے مفادات کے تحفظ کے لیے حکومت کی جانب سے جامع حکمت عملی کے فقدان پر تشویش کا اظہار کیا.

انہوں نے افرادی قوت کے تحفظ کے لیے غیر یقینی اور پرخطر ماحول میں دانشمندانہ سرمایہ کاری کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہاکہ یہ بھی ضروری ہو گا کہ ملازمین کے مفادات کا محتاط سرمایہ کاری کے ذریعے تحفظ کیا جائے ایسا لگتا ہے کہ حکومت کے پاس کوئی منصوبہ نہیں ہے تنظیم نو کی کوششوں کا مقصد دیرینہ نااہلیوں اور مالیاتی بوجھ کو دور کرنا ہے لیکن دونوں ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ مزید جامع اصلاحات اور اسٹریٹجک منصوبہ بندی ضروری ہے اگرچہ قلیل مدتی اقدامات جیسے کہ نئی ملازمت پر پابندی اور موجودہ عملے کو ری ڈائریکٹ کرنے سے کچھ راحت مل سکتی ہے لیکن واضح طویل مدتی وژن کی عدم موجودگی پہل کے مجموعی اثرات کو نقصان پہنچا سکتی ہے.

انہوں نے کہاکہحکومت کی تنظیم نو کی کوششیں مالیاتی عدم توازن کو دور کرنے کی فوری ضرورت کی عکاسی کرتی ہیںلیکن ان کی کامیابی کا انحصار ملازمین کے مفادات کے موثر نفاذ اور تحفظ پر ہے جب کہ فوری ایڈجسٹمنٹ قلیل مدتی ریلیف فراہم کرتی ہیں، طویل مدتی مالی استحکام حاصل کرنے کے لیے نجکاری اور اسٹریٹجک سرمایہ کاری جیسے پائیدار حل ضروری ہیں.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے انہوں نے کہا ملازمین کے نے کہا کہ سکتی ہے ہے لیکن کے لیے

پڑھیں:

نیا موبائل لیتے وقت لوگ 5 بڑی غلطیاں کر جاتے ہیں، ماہرین نے بتادیا

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

ہر سال مختلف کمپنیوں کی جانب سے درجنوں نئے اینڈرائیڈ فونز متعارف کرائے جاتے ہیں جن میں قیمت اور خصوصیات کی بنیاد پر نمایاں فرق موجود ہوتا ہے، تاہم ایک عام صارف جب نیا فون خریدنے جاتا ہے تو اکثر چند بنیادی غلطیاں کر بیٹھتا ہے جو آگے چل کر پریشانی کا باعث بنتی ہیں۔

ماہرین کے مطابق صارفین کی بڑی تعداد اپنے فون کی اسٹوریج کی ضرورت کا درست اندازہ نہیں لگاتی۔ آج کل ایپس، تصاویر اور ویڈیوز کے بڑھتے ہوئے استعمال کے باعث زیادہ اسٹوریج کی اہمیت واضح ہے۔ بہت سے افراد کم اسٹوریج والے فون خرید لیتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کچھ عرصے بعد بار بار ڈیٹا اور ایپس کو ڈیلیٹ کرنا پڑتا ہے۔

اسی طرح صارفین سافٹ ویئر سپورٹ کے معاملے کو بھی عموماً نظر انداز کر دیتے ہیں۔ متعدد اینڈرائیڈ فونز ایسے ہوتے ہیں جنہیں آپریٹنگ سسٹم کے نئے ورژنز بہت محدود عرصے تک یا پھر بالکل نہیں ملتے۔ اس وجہ سے نہ صرف سیکیورٹی خدشات بڑھ جاتے ہیں بلکہ جدید ایپس کے اہم فیچرز بھی استعمال کرنے میں رکاوٹ آتی ہے۔ مارکیٹ میں موجود چند معروف برانڈز 4 سے 7 سال تک اپ ڈیٹس فراہم کرتی ہیں، جبکہ بعض کمپنیاں صرف ایک سے دو سال تک اپ ڈیٹ دیتی ہیں، اس لیے ماہرین کے مطابق نئے فون کا انتخاب کرنے سے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ کمپنی کی اپ ڈیٹ پالیسی کتنی مضبوط ہے۔

دوسری جانب بہت سے صارفین فون کی خصوصیات کے نمبرز کو دیکھ کر فیصلہ کر لیتے ہیں اور کمپنی کے بتائے گئے اعداد و شمار پر آنکھیں بند کر کے اعتبار کر بیٹھتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق 108 میگا پکسل کیمرا ضروری نہیں کہ 48 میگا پکسل یا 12 میگا پکسل سے بہتر ہو، اسی طرح زیادہ mAh والی بیٹری لازمی نہیں کہ زیادہ دیر تک ہی چلے۔ اصل فرق سافٹ ویئر آپٹمائزیشن اور برانڈ کی انجینئرنگ میں ہوتا ہے، اس لیے بہتر ہے کہ فون خریدنے سے پہلے ریویوز کو دیکھا جائے اور ممکن ہو تو کسی ایسے شخص کی رائے ضرور لی جائے جو وہ فون پہلے سے استعمال کر رہا ہو۔

ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ صارفین اکثر اپنی حقیقی ضرورت اور بجٹ کے بجائے مارکیٹ میں مقبولیت کی بنیاد پر فون منتخب کرتے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بہت سے کام درمیانی قیمت والے فون بھی بخوبی انجام دے سکتے ہیں، اس لیے پہلے یہ سوچنا ضروری ہے کہ فون کا بنیادی استعمال کیا ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق بہت سے افراد جلد بازی کا مظاہرہ بھی کرتے ہیں اور فون کے لانچ ہوتے ہی فوراً خریداری کر لیتے ہیں، حالانکہ زیادہ تر اینڈرائیڈ فونز چند ہفتوں بعد ہی رعایتی قیمت پر دستیاب ہو جاتے ہیں۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ خریدار کچھ وقت انتظار کرے تاکہ بہتر قیمت میں بہتر فون حاصل کر سکے۔

متعلقہ مضامین

  • آئی ایم ایف سے چھٹکارا حاصل کرنے کیلیے اسٹرکچرل اصلاحات مکمل کرنا ہوں گی، وزیر خزانہ
  • نیا موبائل لیتے وقت لوگ 5 بڑی غلطیاں کر جاتے ہیں، ماہرین نے بتادیا
  • کمپیٹیشن کمیشن کی چین و بھارت کی طرز پر اسٹیل کی علیحدہ وزارت کے قیام کی سفارش
  • فیکٹری کے ایک ملازم کے اکاؤنٹ میں تمام ملازمین کی تنخواہ ٹرانسفر
  • ماہرین نے فضائی آلودگی اور اسموگ میں کمی کا حل بتا دیا
  • روس میں فیکٹری ملازم کو تمام ملازمین کی تنخواہیں غلطی سے وصول، واپس کرنے سے انکار
  • ٹیکس نظام میں اصلاحات سے مثبت نتائج وصول ہو رہے ہیں؛ وزیر اعظم
  • سندھ جاب پورٹل پر جونیئر کلرکس کی آسامیوں کا پہلا اشتہار جاری
  • سندھ جاب پورٹل ایک خودکار اور جدید نظام ہے‘ شرجیل
  • پاکستان چین کے تعاون سے پی اے آر سی میں جامع اصلاحات کرے گا: رانا تنویر