قومی ترانے کے خالق معروف شاعر، ادیب اور دانشور حفیظ جالندھری کا یہ مصرعہ’’نصف صدی کا قصہ ہے، دو چار برس کی بات نہیں ‘‘ اتنی کثرت سے استعمال ہوا ہے کہ اس پر ایک کتاب لکھی جا سکتی ہے۔آج میں ایک کتاب ہی کا ذکر کر رہا ہوں، اس کا عنوان ہے ’’ نصف صدی کا قصہ‘‘ یہ کتاب دشت صحافت کی ایک ایسی کلیدی شخصیت کے گرد گھومتی ہے جس کا نام شکور طاہر ہے۔
یہ تحقیقی کتاب پاکستان کی ایک ممتاز یونیورسٹی رفاہ انٹرنیشنل کے اسکالر محمد رضوان تبسم نے تحریر کی ہے۔ بظاہر یہ کتاب ایک شخصیت کے گرد گھومتی ہوئی ہے لیکن فی الحقیقت یہ کتاب پاکستان کی الیکٹرانک صحافت کہ 50 سال کا احاطہ کرتی ہے۔کتاب معلومات کا ایک خزانہ لیے ہوئے ہے اور مستقبل میں پاکستان کی الیکٹرانک صحافت پر تحقیق کرنے والوں کے لیے ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔
شکور طاہر پاکستان کے ان چنیدہ افراد میں ہیں جن کے کام کو ان کی زندگی ہی میں نہ صرف یہ کہ سراہا گیا بلکہ اہل قلم اور ابلاغیات کے معروف افراد نے بھی داد تحسین پیش کی ہے۔بلا شبہ شکور طاہر الیکٹرانک میڈیا اور صحافت کے حوالے سے ملک کا ایک معتبر نام ہے۔انھیں اردو اور انگریزی دونوں زبانوں پر دسترس ہے۔
ان کی تحریریں نایاب تاریخی معلومات کے ساتھ ساتھ ادبی چاشنی سے مزین ہوتی ہیں۔ حسن اتفاق یہ بھی ہے کہ میری ان کے ساتھ رفاقت کو بھی 50 سال یعنی نصف صدی ہو چکی ہے۔ میں نے جب بطور نیوز پروڈیوسر رپورٹر 1975 میں پی ٹی وی جوائن کیا تو وہ وہاں نیوز ایڈیٹر تھے۔
شکور طاہر صاحب نے بی اے میں پنجاب یونیورسٹی سے گولڈ میڈل لیا، یہی نہیں بلکہ انھوں نے ایم اے صحافت میں بھی گولڈ میڈل حاصل کیا ۔ شکور طاہر پاکستان کی جیتی جاگتی تاریخ ہیں وہ پاکستان کی سیاست کے بہت سے رازوں کے امین ہیں۔وہ اس فن سے بھی خوب شناسا ہیں کہ سچ کا اظہار کیسے اور کن الفاظ میں کیا جانا چاہیے۔
رب کریم نے انھیں بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ایک منجھے ہوئے براڈکاسٹر کی طرح انھیں الفاظ اور جملوں کی تراش خراش، ان کی باریک بینی اور ادائیگی کے فن میں مہارت حاصل ہے۔وہ زبان و بیان، لہجے اور تلفظ کی نزاکتوں کو خوب سمجھتے ہیں۔وہ صاحب مطالعہ ہونے کے ساتھ ساتھ زبان و بیان پر پورا عبور رکھتے ہیں۔
پنجاب یونیورسٹی شعبہ صحافت میں تعلیم کے دوران انھوں نے جو نوٹس تحریر کیے وہ ابلاغ عامہ کے موضوع پر اردو کی پہلی کتاب کی بنیاد بنے۔ انھیں یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انھوں نے ڈاکٹر عبدالسلام خورشید، پروفیسر مسکین علی حجازی، پروفیسر سید وقار عظیم اور پروفیسر وارث میر کی رہنمائی میں ابلاغ عامہ کی انگریزی اصطلاحات کا اردو میں ترجمہ بھی کیا۔
شکور طاہر 1976 میں جیفرسن فیلو شپ پر امریکی ریاست ہوائی گئے تو انھیں ابلاغ عامہ کے ممتاز اساتذہ سے مستفید ہونے کا موقع ملا۔شکور طاہر پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات کے بورڈ آف اسٹڈی کے رکن اور ایم اے صحافت اور CSS کے لیے ابلاغیات کے ممتحن بھی رہے۔انھیں یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ پی ٹی وی کے معروف نیوز بلٹن ’’خبرنامہ‘‘ کو تخلیق دینے والوں میں بھی شامل ہیں۔
یہ کتاب’’نصف صدی کا قصہ‘‘ پی ٹی وی کے آغاز سے عروج تک کے سفر کا خلاصہ بھی ہے۔ شکور طاہر کی شخصیت کے حوالے سے صاحب کتاب نے 70 کے قریب اہم شخصیات کے انٹرویوز اور تاثرات کو تحقیق کا حصہ بنایا ہے۔
سب ماہرین ابلاغیات اور دانشوروں نے شکور طاہر کی شخصیت اور ان کے فن پر جس طرح اظہار خیال کیا ہے وہ بذات خود ایک الگ کتاب کا موضوع ہے۔صاحب کتاب نے نصف صدی کے اس قصے کو پونے چار سو صفحات پر پھیلاتے ہوئے تین حصوں اور تیرہ ابواب میں تقسیم کیا ہے۔
شکور طاہر میڈیا کے شعبے سے منسلک طالب علموں اور صحافیوں کے لیے ایک اکیڈمی کی حیثیت رکھتے ہیں، انھوں نے برقیاتی صحافت کو نئے زاویوں اور خبر نگاری کے فن کو نئی جہتوں سے روشناس کرایا ہے۔فی الحقیقت شکور طاہر جیسے صحافی ہماری صحافت کا مان ہے اور وہ صحافت میں انے والی نئی نسل کے لیے رول ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس کتاب کو پڑھ کر شدت سے یہ احساس ہوتا ہے کہ ’’ایسی چنگاری بھی یارب اپنی خاکستر میں تھی‘‘۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: نصف صدی کا قصہ پاکستان کی شکور طاہر انھوں نے یہ کتاب
پڑھیں:
زرداری دور میں مشرف کی معزولی کی بات پر کیانی نے کیا ردعمل دیا؟ فرحت اللہ بابر کا کتاب میں انکشاف
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن ) فرحت اللہ بابر کی جانب سے لکھی گئی کتاب ’دی زرداری پریذیڈنسی‘میں انکشاف کیا گیا ہے کہ صدر آصف علی زرداری نے جنرل اشفاق پرویز کیانی کی رضا مندی حاصل کرنے کے بعد جنرل پرویز مشرف کو مستعفی ہونے پر مجبور کیا۔
نجی ٹی وی جیو نیوز کے مطابق اپنی یادداشت میں فرحت اللہ بابر نے یہ انکشاف بھی کیا کہ کس طرح ایوان صدر کے باہر ٹرپل ون بریگیڈ تعینات کرکے دباﺅ ڈالا گیا تاکہ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو بحال کیا جا سکے۔یہ کتاب انہوں نے صدر زرداری کی پہلی مدت (2008 تا 2013) کے دوران بحیثیت صدارتی ترجمان حالات و واقعات کا مشاہدہ کرنے کے بعد لکھی ہے۔
کتاب میں بتایا گیا ہے کہ آصف علی زرداری نے پرویز مشرف کو معزول کرنے کے حوالے سے پہلے تو جنرل کیانی کے ممکنہ رد عمل کا اندازہ لگایا، اس صورتحال پر جنرل کیانی نے کوئی اعتراض نہ کیا، حتیٰ کہ آفتاب شعبان میرانی کو اگلا صدر بنانے کی تجویز تک دیدی۔
اس کے بعد زرداری نے اپنے بااعتماد پارٹی ارکان کو صوبائی اسمبلیوں میں پرویز مشرف کے مواخذے کا مطالبہ کرنے کی قراردادیں پیش کرنے کی ہدایت کی اور میجر جنرل (ر) محمود علی درانی کے ذریعے ایک پیغام پہنچایا جس میں پرویز مشرف پر زور دیا گیا کہ وہ مستعفی ہو جائیں یا مواخذے کا سامنا کریں، پہلے تو پرویز مشرف رضامند نہ ہوئے لیکن آخرکار چند ہفتوں بعد مستعفی ہوگئے۔
کتاب میں انکشاف کیا گیا ہے کہ نواز شریف ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے اتحاد کے دوران بھی صدارت کے خواہش مند تھے۔ایک غیر رسمی گفتگو میں نواز شریف نے آصف زرداری سے کہا کہ میری پارٹی سمجھتی ہے کہ مجھے صدر بننا چاہئے، اس پر آصف زرداری نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ میری پارٹی بھی سمجھتی ہے کہ مجھے صدر بننا چاہئے، اس کے بعد یہ بحث وہیں ختم ہوگئی۔یہ کتاب 8 حصوں پر مشتمل ہے جن میں سے چوتھا حصہ عدلیہ کے متعلق ہے اور اس میں زرداری کے عدلیہ کے ساتھ تصادم کا احاطہ کیا گیا ہے۔
فرحت اللہ بابر کے مطابق بینظیر بھٹو اور نہ ہی آصف زرداری نے جسٹس افتخار چودھری کی حمایت میں کسی طرح کا اظہار خیال کیا، زرداری کی رائے تھی کہ جسٹس چو دھری آزادی کی آڑ میں دیگر مفادات کی تکمیل کیلئے بھی کام کرتے تھے۔
چو دھری کی بحالی کی وکالت کرتے ہوئے لاہور سے لانگ مارچ کے دوران زرداری کو اپنے وزراء حتیٰ کہ وزیراعظم کے دباﺅ کا سامنا کرنا پڑا تاہم زرداری شروع میں ثابت قدم رہے۔ٹرپل ون بریگیڈ کی تعیناتی ایوان صدر کے اندر اس رات ہوئی جس رات مارچ اسلام آباد کے قریب پہنچا۔فرحت اللہ بابر نے لکھا کہ اس ممکنہ چال کی وجہ سے شاید فوجی قبضے کا تاثر پیدا کیا ہو لیکن ایسا بالکل نہیں تھا۔
پنجاب حکومت کا ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر جرمانے 10گنا بڑھانے کا فیصلہ
مزید :