یمن میں بھارتی نرس نمیشا پریا کی پھانسی مؤخر، سزا برقرار
اشاعت کی تاریخ: 30th, July 2025 GMT
یمن میں سزائے موت کی منتظر بھارتی نرس نمیشا پریا کی پھانسی پر فی الحال عمل درآمد روک دیا گیا ہے، تاہم بھارتی وزارت خارجہ نے واضح کیا ہے کہ ان کی سزا کو مکمل طور پر ختم نہیں کیا گیا۔
بھارتی وزارت خارجہ نے میڈیا میں شائع ہونے والی ان خبروں کی تردید کی ہے جن میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ نمیشا پریا کی سزائے موت منسوخ کر دی گئی ہے۔ ترجمان نے کہا کہ اس حوالے سے کوئی مستند نوٹیفکیشن جاری نہیں ہوا۔
اس سے قبل بعض بھارتی میڈیا رپورٹس میں بھارت کے مفتی اعظم شیخ ابوبکر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ان کی مداخلت کے بعد یمن نے نمیشا پریا کی سزا کو منسوخ کر دیا ہے۔ ان کے ادارے کی ایک ٹوئٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ سزا ختم ہو چکی ہے، تاہم نوٹیفکیشن آنا باقی ہے۔
شیخ ابوبکر نے یمن میں بااثر مذہبی رہنماؤں اور حکومتی اہلکاروں سے رابطے کر کے پھانسی پر عمل درآمد رکوانے کی کوشش کی تھی۔ نمیشا کو 16 جولائی 2025 کو سزائے موت دی جانی تھی۔
نمیشا پریا پر 2018 میں اپنے یمنی کاروباری شراکت دار طلال عبدو مہدی کے قتل اور لاش کے ٹکڑے کرنے کا الزام تھا۔ عدالت نے 2020 میں انہیں سزائے موت سنائی تھی جسے بعد ازاں یمنی صدر اور حوثی رہنماؤں نے بھی منظور کیا۔
نمیشا کا تعلق بھارتی ریاست کیرالہ سے ہے۔ وہ 2008 میں روزگار کے سلسلے میں یمن گئی تھیں جہاں انہوں نے ایک مقامی شہری کے ساتھ مل کر اسپتال قائم کیا تھا۔ اختلافات کے بعد 2017 میں یہ قتل واقعہ پیش آیا۔
ان کی حمایت میں سرگرم مفتی اعظم شیخ ابوبکر بھی ریاست کیرالہ سے تعلق رکھتے ہیں اور انہیں بھارت کے بااثر مذہبی رہنماؤں میں شمار کیا جاتا ہے۔ وہ اس وقت 94 سال کے ہیں۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: نمیشا پریا کی سزائے موت
پڑھیں:
صنعتکاروں کی پالیسی ریٹ 11فیصد برقرار رکھنے پر کڑی تنقید
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250916-06-2
کراچی (کامرس رپورٹر)سائٹ ایسوسی ایشن آف انڈسٹری کراچی کے صدر احمد عظیم علوی نے بزنس کمیونٹی کے مسلسل مطالبے کے باوجود اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے پالیسی ریٹ میں کمی نہ کرنے اور 11فیصد پر برقرار رکھنے کے فیصلے پر کڑی تنقید کرتے ہوئے ایک بار پھر پالیسی ریٹ کو سنگل ڈیجٹ پر لانے کا مطالبہ دہرایا ہے۔ ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ مرکزی بینک کے اس فیصلے کے نتیجے میں حکومت کی معاشی شرگرمیوں میں تیزی لانے کی تمام حکمت عملی پر پانی پھر جائے گا اور سرمایہ کاری بھی متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ایک بیان میں احمد عظیم علوی کا مزید کہنا تھا کہ اگر اسٹیٹ بینک پالیسی ریٹ میں یکدم نمایاں کمی کرنے سے قاصر ہے تو مرحلے وار کچھ نہ کچھ کمی کرکے اسے نیچے لایا جاسکتا ہے جس کے ملکی معیشت پر یقینی طور پر خوشگوار اثرات مرتب ہوں گے اور کاروبار وصنعتوں کی توسیع اور سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی ہوگی تاہم حالیہ اقدامات نے بزنس کمیونٹی شدید مایوس کیا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ پالیسی ریٹ کی زائد شرح کا سب سے زیادہ نقصان چھوٹی اور درمیانے درجے کی صنعتوں ( ایس ایم ایز) کو ہو گا جو زائد پیداواری لاگت کی وجہ سے اپنی بقا قائم رکھنے کی سخت جدوجہد کررہی ہیں۔انہوں نے مزید کہاکہ مہنگائی کو جواز بنا کر پالیسی ریٹ میں کمی نہ کرنا ہر گز دانشمندی نہیں حالانکہ گذشتہ کئی ماہ کا جائزہ لیا جائے تو مہنگائی شرح میں کمی دیکھنے میں آئی ہے مگر اسٹیٹ بینک نے اپنی مانیٹری پالیسی کو نرم کرنے کے بجائے مزید سخت کردیا ہے جو سمجھ سے بالا تر ہے۔مرکزی بینک کو پاکستان کے حریف ممالک میں پالیسی ریٹ کا جائزہ لینا چاہیے جہاں آسان شرائط اور مناسب شرح پر قرضوں کی فراہمی معمول کی بات ہے۔ انہوں نے مانیٹری پالیسی کمیٹی سے مطالبہ کیا کہ وہ زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلے کرے اور ملک کے بہتر مفاد میں پالیسی ریٹ کو بتدریج نیچے لائے تاکہ کاروبار و صنعتی سرگرمیوں کو فروغ حاصل ہو اور پاکستان کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کیا جاسکے۔