غیرقانونی طور پر اسپین جانے کی کوشش کرنے والے 3 مسافر واپس پاکستان پہنچ گئے
اشاعت کی تاریخ: 2nd, February 2025 GMT
ایف آئی اے امیگریشن نے کراچی ایئرپورٹ پر بڑی کاروائی کرتے ہوئے بیرون ملک سے آنے والے 4 مسافروں کو حراست میں لے کر پوچھ گچھ شروع کردی ہے اور ان سے ایجنٹوں اور سہولتکاروں کے حوالے سے معلومات لے جارہی ہیں۔
وطن واپس آنے والے مسافروں کی شناخت احسن شبیر، محمد بشیر، عون محمد اور حسیب خلیق کے نام سے ہوئی ہے۔
ایف آئی اے کے مطابق مسافروں کا تعلق گجرانوالہ اور گجرات کے مختلف علاقوں سے ہے اور ان کے نام پی این آئی ایل لسٹ میں شامل تھے۔
ایف آئی اے کا کہنا ہے کہ مسافر بین الاقوامی پروازوں کے ذریعے کراچی ایئرپورٹ پہنچے، مسافروں نے عمرے اور وزٹ ویزے پر پاکستان سے سعودی عرب، دبئی اور آذربائیجان کے لیے سفر کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیے: مراکش کشتی حادثہ: بچ جانے والے مزید 8 پاکستانی وطن واپس پہنچ گئے
مسافروں نے بتایا ہے کہ ایجنٹوں نے ان کو مذکورہ ممالک سے سینیگال اور وہاں سے ماریطانیہ بھجوایا۔
ابتائی تفتیش کے مطابق مسافروں کو سمندر کے راستے اسپین بھجوانے کی کوشش کی گئی تاہم حالیہ تشدد کے واقعات اور کشتی حادثے کی بنیاد پر مسافروں نے سمندر کے راستے جانے سے انکار کیا اور پاکستان واپس آگئے۔
پوچھ گچھ کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ مسافروں نے ایجنٹوں سے اسپین جانے کے لئے لاکھوں روپے فی کس میں معاملات طے کیے۔
ابتدائی تفتیش کے مطابق ایجنٹوں کا تعلق پشاور، بہاولپور اور گجرانوالہ کے مختلف علاقوں سے ہے۔
یہ بھی پڑھیے:جہاں تارکین وطن کی کشتی ڈوبتی ہے، اس میں پاکستانی سوار ہوتے ہیں، گورنر پنجاب
مسافروں کے نشاندہی پر ایجنٹوں کے خلاف قانونی کاروائی کا آغاز کر دیا گیا ہے۔
ایف آئی اے نے شہریوں سے گزارش کی ہے کہ بیرون ملک جانے کے لئے ہمیشہ متعلقہ ملک کی ایمبیسی سے رابطہ کریں اور اپنے ذاتی دستاویزات غیر متعلقہ شخص کے حوالے نہ کریں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
FIA انسانی سمگلنگ ایف آئی اے.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: انسانی سمگلنگ ایف ا ئی اے ایف ا ئی اے مسافروں نے نے والے
پڑھیں:
شوگر ملز کی جانب سے 15 ارب روپے سے زائد قرضے واپس نہ کیے جانے کا انکشاف
اسلام آباد:شوگر ملز کی جانب سے 15 ارب روپے سے زائد کے قرضے واپس نہ کیے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس جنید اکبر کی صارت میں ہوا، جس میں فنانس ڈویژن سے متعلق آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا گیا۔ اجلاس میں نیشنل بینک کی جانب سے 190 ارب روپے کی ریکوریاں نہ کرنے سے متعلق آڈٹ اعتراض پر بحث کی گئی۔
سیکرٹری خزانہ نے بریفنگ میں بتایا کہ ریکوری کی کوششیں کی جارہی ہیں،28.7 ارب روپے ریکور ہوئے ہیں۔
جنید اکبر نے استفسار کیا کہ قرضہ لیتے ہیں تو کوئی چیز گروی نہیں رکھتے؟ ، جس پر نیشنل بینک کے صدر نے بتایا کہ بالکل رکھتے ہیں۔ 10 ہزار 400 کیس ریکوری کے پینڈنگ ہیں۔ جس پر کمیٹی نے آئندہ اجلاس میں تفصیلی رپورٹ طلب کرلی۔
کمیٹی میں بریفنگ کے دوران آڈٹ حکام نے انکشاف کیا کہ نیشنل بینک انتظامیہ نے شوگر ملز کو 15.2 ارب روپے کے قرضے جاری کیے جو شوگر ملز واپس کرنے میں ناکام رہیں، جس پر نیشنل بینک کے صدر نے بتایا کہ 25 قرضے ہیں۔ ایک قرضہ مکمل ایڈجسٹ ہو چکا ہے اور 3 ری اسٹرکچر ہو گئے ہیں۔ 17 قرضے ریکوری میں ہیں۔
کمیٹی نے ریکوری کی ہدایت کرتے ہوئے معاملہ آئندہ کے لیے مؤخر کردیا۔
علاوہ ازیں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں نیشنل بینک کے بورڈ آف ڈاریکٹرز کا عشائیہ ڈیڑھ لاکھ سے بڑھا کر 4 لاکھ کرنے کا انکشاف ہوا۔ ندیم عباس نے کہا کہ بورڈ کے پاس اپنی مراعات بڑھانے کا اختیار نہیں ہونا چاہیے، جس پر سیکرٹری خزانہ نے کہا کہ اس کیس میں ایسے کیا جاسکتا ہے کہ اس طرح کی منظوری پہلے وزارت خزانہ سے کی جائے۔
نوید قمر نے کہا کہ ہم نے بینک کو وزارت خزانہ سے نکالا ہے، واپس نہ دھکیلا جائے۔ جنید اکبر نے کہا کہ آئندہ بورڈ میں وزارت خزانہ کے نمائندے کی شرکت یقینی بنائی جائے۔