رواں مالی سال کے پہلے7 ماہ میں برآمدات، درآمدات اور تجارتی خسارے میں اضافہ
اشاعت کی تاریخ: 3rd, February 2025 GMT
اسلام آباد: رواں مالی سال کے پہلے7 ماہ (جولائی 2024 تا جنوری 2025) کے دوران برآمدات، درآمدات اور تجارتی خسارے میں اضافہ ہو گیا۔
میڈیا ذرائع کے مطابق ادارہ شماریات کے مطابق جنوری میں سالانہ بنیادوں پر برآمدات 4.59 فیصد اور ماہانہ بنیادوں پر 0.31 فیصد اضافہ ہوا، جس کے بعد جنوری میں برآمدات 2 ارب 92کروڑ ڈالرز رہیں۔ پاکستان ادارہ شماریات کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے7 ماہ میں برآمدات 9.
رپورٹ میں بتایا گیا کہ جنوری میں سالانہ بنیادوں پر درآمدات میں اضافہ ہوا، تاہم دسمبر 2024 کے مقابلے میں جنوری 2025 میں درآمدات میں کمی ہوئی، جنوری میں درآمدات کا حجم 5 ارب 23 کروڑ 30 لاکھ ڈالرز رہا۔ رواں مالی سال کے پہلے 7 ماہ میں درآمدات 6.95 فیصد بڑھیں اور اس کا حجم 33 ارب ڈالرز سے تجاوز کر گیا۔
پاکستان ادارہ شماریات نے بتایا کہ جنوری 2025 میں سالانہ بنیادوں پر تجارتی خسارہ 17.78 فیصد بڑھا جبکہ ماہانہ بنیادوں پر تجارتی خسارہ 5.47 فیصدکم ہوا، جس کے بعد اس کا حجم 2 ارب 31 کروڑ 30 لاکھ ڈالرز ریکارڈ کیا گیا۔
ادارہ شماریات کے مطابق رواں مالی سال کے ابتدائی 7 ماہ (جولائی 2024 تا جنوری 2025) کے دوران تجارتی خسارہ 2.84 فیصد اضافے سے 13 ارب 48 کروڑ 80 لاکھ ڈالرز رہا۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: رواں مالی سال کے ادارہ شماریات بنیادوں پر لاکھ ڈالرز درا مدات برا مدات کے مطابق
پڑھیں:
پاکستان نے گزشتہ مالی سال 26.7 ارب ڈالرکا ریکارڈ غیر ملکی قرضہ لیا
اسلام آباد:پاکستان نے مالی سال 2024-25 کے دوران ریکارڈ 26.7 ارب ڈالرکے غیر ملکی قرضے حاصل کیے، جن میں سے تقریباً نصف حصہ پرانے قرضوں کی مدت میں توسیع (رول اوور) پر مشتمل ہے۔
وزارتِ اقتصادی امور، وزارتِ خزانہ اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مرتب کردہ اعداد و شمار کے مطابق یہ قرضے گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں معمولی طور پر زیادہ ہیں۔ رپورٹ کے مطابق صرف 3.4 ارب ڈالر (یعنی کل قرضوں کا 13 فیصد) ترقیاتی منصوبوں کیلیے وصول ہوئے جبکہ باقی قرضے بجٹ خسارے کو پورا کرنے اور زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کیلیے لیے گئے۔
یہ صورتحال قرضوں کی واپسی کو مزید مشکل بنا رہی ہے کیونکہ ان میں سے بیشتر قرضے آمدنی پیدا نہیں کرتے۔ اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر جون کے اختتام پر 14.5 ارب ڈالر تھے، جو کہ بنیادی طور پر انہی قرضوں کے رول اوور اور نئی ادائیگیوں کا نتیجہ ہیں، جو ملک کی بیرونی مالیاتی خودمختاری کو مزیدکمزورکرتے ہیں۔
حکومت کو 11.9 ارب ڈالر براہِ راست قرض کی صورت میں ملے، جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 1.2 ارب ڈالر زیادہ ہیں۔ آئی ایم ایف کی جانب سے 2.1 ارب ڈالر اداکیے گئے جبکہ سعودی عرب، چین، متحدہ عرب امارات اور کویت کی جانب سے مجموعی طور پر 12.7 ارب ڈالر کے رول اوور کیے گئے۔
سعودی عرب نے 5 ارب ڈالر کے ڈپازٹس 4 فیصد شرح سود پر دیے جبکہ چین نے 6 فیصد سے زائد شرح سود پر 4 ارب ڈالر رکھوائے۔ یو اے ای نے بھی 3 ارب ڈالر کے ذخائر اسٹیٹ بینک میں رکھوائے۔
چین نے 484 ملین ڈالر کی گارنٹی شدہ رقم اثاثے خریدنے کیلیے دی جبکہ حکومت 1 ارب ڈالر کے یوروبانڈز اور پانڈا بانڈز جاری کرنے میں ناکام رہی۔ حکومت نے مہنگے تجارتی قرضے حاصل کرکے اس کمی کو پورا کیا، جن میں ایشیائی ترقیاتی بینک کی گارنٹی بھی شامل تھی۔
اے ڈی بی نے 2.1 ارب ڈالر، آئی ایم ایف نے 2.1 ارب، ورلڈ بینک نے 1.7 ارب اور اسلامی ترقیاتی بینک نے 716 ملین ڈالر کے قرضے دیے۔ سعودی عرب نے 6 فیصد سود پر 200 ملین ڈالر کا تیل فنانسنگ معاہدہ بھی دیا۔ وزارتِ خزانہ کے مطابق پاکستان کا قرضہ برائے جی ڈی پی تناسب اور مجموعی مالیاتی ضروریات اب ناقابل برداشت سطح سے تجاوز کر چکی ہیں۔ آئی ایم ایف نے خبردار کیا ہے کہ آئندہ تین مالی سالوں (2026-2028) کے دوران پاکستان کو 70.5 ارب ڈالر کی بیرونی مالیاتی ضرورت ہوگی جبکہ قرض واپسی کی صلاحیت پر مسلسل خطرات منڈلا رہے ہیں۔