سندھ حکومت نے تاجروں کے مسائل حل کرنے کیلیے وزرا کی سربراہی میں 8 کمیٹیاں تشکیل دے دیں
اشاعت کی تاریخ: 3rd, February 2025 GMT
کراچی:
سندھ حکومت نے تاجروں اور شہر میں گیس بجلی پانی کے مسائل حل کرنے کیلیے وزرا کی سربراہی میں 8 کمیٹیاں جبکہ کمشنر آفس میں خصوصی ڈیسک تشکیل دے دیا۔
تفصیلات کے مطابق وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی سربراہی میں کاروباری سہولت کاری رابطہ کمیٹی کا پہلا اجلاس ہوا جس میں تاجروں کے مسائل حل کرنے کےلیے وزرا کی قیادت میں 8 ذیلی کمیٹیاں تشکیل، کمشنر آفس میں خصوصی ڈیسک بھی بنادیا گیا۔ یہ کمیٹی چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کی ہدایت پر صنعتکاروں کے مسائل کے حل کے لیے تشکیل دی گئی تھی۔
اجلاس میں صوبائی وزراء سعید غنی، جام اکرام، ضیا لنجار، شاہد تھہیم، چیف سیکریٹری آصف حیدر شاہ، پرنسپل سیکریٹری وزیراعلیٰ آغا واصف، آئی جی پولیس غلام نبی میمن، کمشنر کراچی حسن نقوی، اور سینر ممبر بورڈ آف ریوینیو بقا اللہ انڑ سمیت مقامی حکومت، محنت اور دیگر محکموں کے مختلف صوبائی سیکریٹریز نے شرکت کی۔
تاجر برادری کے نمائندوں میں ایم این اے اختیار بیگ، عارف حبیب، زبیر موتی والا، اور چیئرمین پاکستان بزنس کونسل شبیر دیوان شامل تھے۔
اس کے علاوہ صدر ایف پی سی سی آئی عاطف اکرام شیخ، صدر کے سی سی آئی جاوید بلوانی، چیئرمین آباد حسن بخشی، صدر سائٹ ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری احمد عظیم علوی، صدر کاٹی جنید نقی، چیئرمین آپٹما انور عظیم اور دیگر نے بھی اجلاس میں شرکت کی۔
وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے صنعت کاروں کا وزیر اعلیٰ ہاؤس میں خیرمقدم کیا اور انہیں یقین دلایا کہ ان کے مسائل کو ترجیح دی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ جو امور صوبائی حکومت کے دائرہ کار میں آتے ہیں، انہیں مقامی سطح پر حل کیا جائے گا جبکہ وہ مسائل جو وفاقی مداخلت کے متقاضی ہیں، انہیں مشترکہ طور پر اٹھایا جائے گا۔
وزیر اعلیٰ نے زور دیا کہ اس اجلاس کا مقصد کاروباری برادری کے مسائل سننا اور ان کی تجاویز کو پالیسی سازی میں شامل کرنا ہے۔
کمشنر آفس ڈیسک
وزیر اعلیٰ نے پانی، نکاسی آب اور تجاوزات سے متعلق مسائل کے حل کے لیے کمشنر آفس میں ایک خصوصی ڈیسک کے قیام کا اعلان کیا۔
صنعتکاروں نے بجلی کی آنکھ مچولی، پانی کی قلت اور گیس کی فراہمی کے مسائل پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جب تک یہ مسائل حل نہیں ہوتے صنعتی پیداوار میں اضافہ ممکن نہیں۔
جواب میں وزیر اعلیٰ نے انہیں یقین دلایا کہ وہ بجلی اور گیس کے مسائل حل کرنے کے لیے بھرپور کوششیں کر رہے ہیں۔ محکمہ توانائی، صنعتی علاقوں کے لیے خصوصی انتظامات کرنے کے سلسلے میں کے الیکٹرک سے رابطہ کرے گا۔
مقامی محصولات میں کمی
صنعتکاروں نے 29 مقامی محصولات میں کمی کی سفارش کی جس پر وزیر اعلیٰ نے انہیں یقین دلایا کہ چیف سیکریٹری اس معاملے کا جائزہ لیں گے۔انہوں نے کہا کہ اس مسئلے کا حل نکالنے کےلیے چیف سیکریٹری اور میئر کراچی صنعتی اداروں کے رہنماؤں کے ساتھ علیحدہ اجلاس منعقد کریں گے۔
تاجر رہنماؤں نے صنعتی مسائل کے حل میں دلچسپی لینے پر چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا شکریہ ادا کیا۔ تاجر برادری کے رہنماؤں کی باتیں سننے کے بعد وزیر اعلیٰ نے کئی اہم کمیٹیاں تشکیل دینے کا فیصلہ کیا۔
صنعتی پالیسی کمیٹی
صوبائی وزیر جام اکرام کی سربراہی میں صنعتی پالیسی کمیٹی قائم کی گئی ہے جس میں صنعتکار بھی شامل ہوں گے۔ اس کمیٹی کا مقصد سرمایہ کاری کے فروغ اور موجودہ صنعتوں کو سہولت فراہم کرنے کےلیے ایک صوبائی صنعتی پالیسی تشکیل دینا ہے۔
توانائی کمیٹی
توانائی کے مسائل حل کرنے کے لیے توانائی کے وزیر ناصر شاہ کی سربراہی میں توانائی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جس میں صنعتی اداروں کے نمائندے بھی شامل ہوں گے۔ یہ کمیٹی گیس اور بجلی کے مسائل کا حل نکالنے کےلیے وفاقی حکومت سے رابطہ کرے گی۔
سیکیورٹی کمیٹی
وزیرداخلہ ضیاء الحسن لنجار کی سربراہی میں سیکیورٹی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جس میں صنعتی ایسوسی ایشنز کے نمائندے شامل ہوں گے۔ یہ کمیٹی صنعتی علاقوں میں سیکیورٹی کے مسائل کو حل کرے گی۔
انفراسٹرکچر کمیٹی
انفراسٹرکچر کمیٹی کی سربراہی وزیر بلدیات سعید غنی کریں گے، اس میں کراچی کے میئر اور صنعتکار شامل ہوں گے۔ یہ کمیٹی صنعتی علاقوں میں بنیادی ڈھانچے کا جائزہ لے گی اور بہتری کے اقدامات کرے گی۔
ٹرانسپورٹ اور ٹریفک کمیٹی
صنعتکاروں کی جانب سے ٹریفک جام اور ٹرانسپورٹ کے مسائل کے حوالے سے شکایات کے پیش نظر وزیر ٹرانسپورٹ شرجیل انعام میمن کی سربراہی میں ٹرانسپورٹ اور ٹریفک کمیٹی قائم کی گئی ہے جو ان مسائل کے حل کے لیے کام کرے گی۔
پی پی پی موڈ پروجیکٹس کمیٹی
وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے صنعتی شخصیات کو حکومت کے منصوبوں میں عوامی نجی شراکت داری کے ذریعے شرکت کی دعوت دی۔ صنعتکاروں نے تعاون کی خواہش ظاہر کی جس کے نتیجے میں وزیر اعلیٰ نے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جو براہ راست ان کی نگرانی میں کام کرے گی اور انفراسٹرکچر، صحت اور تعلیم کے شعبوں میں منصوبوں کو دیکھے گی۔
ہاؤسنگ کمیٹی
ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈویلپرز (آباد) اور اس کے ارکان کے مسائل کے حل کے لیے وزیر اعلیٰ نے وزیر بلدیات سعید غنی کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جو ہاؤسنگ کے شعبے کی سہولتوں کا جائزہ لے گی اور بہتری کے اقدامات کرے گی۔
میڈیا کمیٹی
صنعتکاروں کی درخواست پر اس کمیٹی کا قیام عمل میں آیا ہے جس کا مقصد کراچی کی شہرت کو بہتر بنانا اور زیادہ سرمایہ کاری کو متوجہ کرنا ہے۔
وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے اس بات پر زور دیا کہ انہوں نے ان کمیٹیوں کو صوبائی وزیروں کی زیر نگرانی تشکیل دیا ہے تاکہ محکموں کی سطح پر مسائل کا حل نکالا جا سکے جبکہ وہ خود پیچیدہ اور اہم معاملات کو دیکھیں گے۔ اس کے علاوہ، سندھ انویسٹمنٹ ڈپارٹمنٹ کاروباری عمل کو آسان بنانے اور سرمایہ کاری کو متوجہ کرنے کے لیے ایک ون ونڈو انویسٹمنٹ فسیلیٹیشن سسٹم قائم کرنے پر کام کر رہا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: مسائل کے حل کے لیے کے مسائل حل کرنے کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دی مراد علی شاہ شامل ہوں گے وزیر اعلی یہ کمیٹی کرنے کے کرے گی گئی ہے
پڑھیں:
محصولات کا ہدف پورا کرنے کیلیے نئے ٹیکس کا ارادہ نہیں،حکومت
اسلام آباد:وفاقی حکومت کا کہنا ہے کہ محصولات کے ہدف میں ایک کھرب 56 ارب روپے کی کمی کو پورا کرنے کے لیے اس کا کوئی نیا ٹیکس لگانے کا ارادہ نہیں ہے۔
یہ بات گزشتہ روز ایک عوامی سماعت کے دوران کہی گئی، سماعت کے دوران پاور ڈویژن افسران کی جانب سے بتایا گیا کہ سرکاری بجلی کی ترسیل کرنے والے اداروں کے ساتھ ٹیرف پر نظر ثانی کے بعد صارفین کو ایک کھرب 50 ارب روپے تک کی بچت ہوگی جس کے معنیٰ یہ ہیں کہ وفاقی حکومت کو محصولات میں اتنی ہی کمی واقع ہوگی اور اس کمی کو پورا کرنے کے لیے حکومت کا کوئی نیا ٹیکس نافذ کرنے کا ارادہ نہیں ہے۔
تاہم افسران نے عندیہ دیا کہ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے بجلی صارفین کو بلوں میں حکومت کی جانب سے دی جانے والی زر اعانت (سبسڈی) میں کمی کی جاسکتی ہے۔
مزید پڑھیں: ٹیکس وصولیوں کا ہدف پورا کرنے کیلیے ایف بی آر نے ہفتے کی چھٹی ختم کردی
سماعت کے دوران حاضرین نے حکومتی کاوشوں کو سراہا جس کے تحت پاور پلانٹس سے دوبارہ معاہدے کیے گئے تاکہ استعدادی صلاحیت کی مد میں ادائیگیوں میں کمی لائی جاسکے، واضح رہے کہ وفاقی حکومت نے حال ہی میں پاور پلانٹس سے دوبارہ معاہدے کیے ہیں جن کے تحت اب وفاقی حکومت ان پلانٹس کو اتنی ہی ادائیگی کرے گی جتنی بجلی وہ ان پلانٹس سے اپنی ضرورت کی بنیاد پر خریدے گی۔
اس کے علاوہ استعدادی پیداواری صلاحیت کی مد میں ایک مخصوص رقم ادا کی جائے گی، سماعت میں شریک افراد کا کہنا تھا کہ حکومت نے سوئی سدرن گیس سے 220 ایم ایم سی ایف ڈی جبکہ سوئی ناردن سے 150 ایم ایم سی ایف ڈی گیس کٹوتی کی ہے جبکہ حکومت کو چاہئے کہ وہ ان پاور پلانٹس کو مائع قدرتی گیس کے ساتھ ملا کر فراہم کرے گی بجلی کے نرخوں میں مزید کمی لائی جاسکے۔
سماعت کے دوران حاضرین کو بتایا گیا کہ سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی نے جن سرکاری پاور پلانٹس کے ساتھ دوبارہ معاہدے کیے ہیں تاکہ صارفین پر بجلی کے بلوں کے بوجھ میں کمی لائی جاسکے ان میں نیشنل پاور پارکس منیجمنٹ کمپنی بلوکی، نیشنل پاور پارکس منیجمنٹ کمپنی حویلی بہادر شاہ، سینٹرل پاور جنریشن کمپنی لمیٹڈ گدو اور نیشنل پاور جنریشن کمپنی لمیٹڈ نندی پاور شامل ہیں۔