آج (4 فروری) عالمی یومِ سرطان ہے۔ 150 سے زائد ممالک میں سینکڑوں چھوٹی بڑی تقاریب، کتابچوں کی تقسیم اور کینسر مریضوں سے یکجہتی کے لیے واکس ہو رہی ہیں۔
جاننے کی بات یہ ہے کہ کینسر بذاتِ خود بیماری نہیں بلکہ انسانی جسم کے اندر خلیوں کی بغاوت اور گروہ بندی کے عمل کو کینسر کہتے ہیں۔ جسم میں کسی ایک حصے کے خلیے کسی بھی دن کسی بھی وجہ سے پگلا کے تیزی سے اپنی تعداد ازخود بڑھانا شروع کر دیتے ہیں اور ٹیومر نامی گروہی شکل میں آس پاس کی حساس جسمانی تنصیبات میں توڑ پھوڑ شروع کر دیتے ہیں اور اگر صحت مند خلیے مزاحمت نہ کریں تو دہشتگرد سرطانی خلیے مقبوضہ علاقہ بڑھاتے ہی چلے جاتے ہیں اور آزاد جسمانی مملکت کا وجود مٹا کے ہی دم لیتے ہیں۔
اگر آپ تھوڑے سے بھی زہین اور محتاط ہیں تو ان دہشتگرد خلیوں کو سازش کے ابتدائی مرحلے میں ہی پکڑ کے ان کا جزوی یا کلی قلع قمع کر سکتے ہیں۔ مگر تدارک کے لیے سرطانی سازش کی موٹی موٹی نشانیاں جاننا بھی ضروری ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: گرین پاسپورٹ کا رنگ پیلا کیوں پڑ گیا؟
مثلاً جسم کے مختلف حصوں پر مسوں یا تلوں میں اچانک سے اضافہ اور انکے حجم و رنگت میں بارہا تبدیلی محسوس کرنا، کھانسی کے دوروں میں اضافہ، اکثر سانس اٹکنا اور خوراک نگلنے میں تکلیف ہونا، آئے دن قبض یا دست کی شکایت، پیشاب اور بلغم میں خون محسوس کرنا یا جنسی مقامات سے وقتاً فوقتاً خون رسنے کا غیر متوقع عمل، بلاوجہ وزن میں کمی ، اچانک سے بکثرت تھکن کا احساس، نئے نئے عارضی یا مستقل درد کا تجربہ جو پہلے کبھی نہیں ہوا، پیشاب کی بار بار آمد میں اضافہ یا پیشاب کے دوران تکلیف محسوس کرنا یا ایسا لگے کہ زور سے آ رہا ہے مگر نہ آنا یا بہت کم آنا۔
خواتین کا چھاتیوں کی کھال یا حجم میں تبدیلی اور ان میں تھوڑا بہت درد محسوس کرتے رہنا، بھوک کا اکثر اڑ جانا، معدے کے السر میں شدت، بدہضمی یا سینے کی جلن جیسی کیفیات میں اضافہ، سوتے میں اچانک پسینے سے شرابور ہو جانے کی کیفیت وغیرہ۔
ضروری نہیں کہ ان تمام علامات کا مطلب کینسر کی ابتدا ہی ہو۔ کئی دیگر بیماریوں میں بھی ایسی یا ان سے ملتی جلتی علامات مشترک ہوتی ہیں۔ مگر احتیاط کا تقاضا ہے کہ جب ان میں سے کچھ یا بہت سی علامات محسوس کریں تو خود بقراط بننے یا اپنے جیسے دیگر نیم حکیموں کے مجرب نسخوں اور ٹوٹکوں پر کان دھرنے کے بجائے کسی ڈھنگ کے ڈاکٹر سے رابطہ کریں اور اگر وہ مختلف ٹیسٹ کروانے کو کہے تو کج بحثی کے بجائے مشورہ دھیان سے سنیں۔
ہو سکتا ہے کہ معائنے اور تشخیص کے نتیجے میں تصدیق ہو جائے کہ یہ کینسر نہیں بلکہ کچھ اور ہے۔ لیکن یہ خدانخواستہ کینسر کی علامات نکلیں تب آپ کیا کریں گے۔ لہٰذا عافیت اسی میں ہے کہ جب بھی آپ جسمانی طور پر کچھ الٹا سیدھا یا غیرمعمولی محسوس کریں تو اپنے اور کنبے کے ذہنی سکون کے لیے معائنہ ضرور کروا لیں۔
کینسر کسی ایک مسئلے کا نام نہیں بلکہ ہمیں کینسر کی 200 سے زائد اقسام میں سے کوئی بھی لاحق ہو سکتا ہے۔ البتہ 5 بڑے جانے پہچانے کینسر ہیں۔
مثلاً کارسینوما ( چھاتی، پھپپھڑوں، مثانے اور فوطوں کا کینسر)۔
سرکوما (ہڈیوں اور پٹھوں کا کینسر)۔
دماغ اور ریڑھ کی ہڈی یعنی مرکزی اعصابی نظام پر حملہ آور ہونے والا کینسر۔
لوکیمیا (یہ خون کے سفید جسیموں اور ہڈیوں کے گودے کا دشمن ہے)۔
لمپفوما اور مائلوما (یہ آپ کے جسمانی مدافعتی نظام کے پیچھے پڑ جاتا ہے) ۔
کینسر ٹی بی یا کوڑھ کے برعکس چھوت چھات والا معاملہ نہیں۔ چنانچہ آپ بے فکری سے متاثرہ شخص کا خیال رکھ سکتے ہیں۔ اس سے ایسی گفتگو کر سکتے ہیں جس سے اس کا حوصلہ نہ ٹوٹے اور وہ خود کو تنہا یا الگ تھلگ محسوس نہ کرے۔ آدھی لڑائی دوا لڑتی ہے اور آدھی جنگ حوصلہ جیتتا ہے۔
مزید پڑھیے: اگلے 5 برس اور اڑتا پاکستان
دواؤں اور علاج کے طریقوں میں دن بہ دن بہتری آ رہی ہے۔ لہٰذا کینسر سے کامیابی سے لڑنے کی شرح پہلے کے مقابلے میں مسلسل بڑھ رہی ہے ۔ کہنے کا مطلب ہے کہ کینسر سزائے موت نہیں ہے بلکہ اس کے چنگل سے فرار ممکن ہے۔
بہت سے لوگ بد احتیاطی سے زندگی بھر پرہیز کرتے ہیں پھر بھی کوئی نہ کوئی کینسر ہو جاتا ہے۔ اس کا سبب خاندانی جینیاتی ورثہ ہوسکتا ہے۔ البتہ جینیاتی وجوہات کے سبب کینسر میں مبتلا ہونے والوں کی تعداد زیادہ نہیں ہوتی۔ ہم تمام احتیاطیں کرلیں مگر فضائی و ماحولیاتی آلودگی کے اثرات سے شاید نہ بچ سکیں۔ چنانچہ ایسی فضا میں زندہ رہنے سے کئی اقسام کے کینسرز کو پھلنے پھولنے کا موقع مل جاتا ہے۔
کینسر کے تباہ کن اثرات سے نمٹا جا سکتا ہے، انہیں پسپا کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ ہم غیر معمولی علامات محسوس کرتے ہی یا پھر احتیاطاً بنا کسی علامت ہر برس 2 برس میں تفصیلی طبی معائنہ کروانے کی علت پال لیں۔ یقیناً کوئی بھی جانچ مفت میں نہیں پڑتی مگر اس کا خرچہ کینسر کے علاج کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔
اگر آپ ماشاءاللہ صحت مند ہیں پھر بھی اوپر والے کا شکر اور احتیاط کے بجائے خطروں سے خوامخواہ کھیلنے والی طبیعت پائی ہے اور یہ بھی زعم ہے کہ مجھے کچھ نہیں ہو سکتا تو پھر آزمائش شرط ہے۔
دبا کے مے نوشی، منشیات کا استعمال، پان خوری یا تمباکو نوشی کیجیے اور اس انتباہ کو نظرانداز کر دیجیے کہ یہ تمام شوق آپ کو انگلی تھام کے معدے، آنت، جگر، سینے اور منہ کے کینسروں تک بآسانی پہنچا سکتے ہیں۔
مزید پڑھیں: شاید افغانوں میں ہی کوئی خامی ہے
اگر آپ شکم کے پجاری ہیں تو وزن اور توند بھلے بڑھتے رہیں مگر آپ ٹینشن نہ لیں اور 3،3 منزلہ برگر ڈکارتے رہیں، سبزیوں اور پھلوں سے منہ موڑ کے ریڈ میٹ، پروسیسڈ میٹ، نمکین اشیا اور میٹھے سے رغبت کم نہ کریں۔ یہ بھی ہرگز نہ سوچیں کہ ان اسباب کے ہوتے آپ کسی بھی دن آنت اور پتے سمیت 12 طرح کے کینسرز میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔
ورزش یا چہل قدمی سے جتنا بچ سکتے ہیں بچیے اور اس سوچ کا دامن تھامے رہیں کہ بدپرہیزی اور تساہل کے جان لیوا نقصانات محض لالچی ڈاکٹروں کی پھیلائی ہوئی افواہیں ہیں۔ کون سا دوبارہ جنم لینا ہے۔ کھا لو پی لو موج اڑا لو۔ ایک دن تو سب ہی کو جانا ہے۔عزت اور صحت آنی جانی ہے۔ اللہ مالک ہے۔
لانا بھئی ایک اور نمکین بیف کڑاہی اور سامنے والے کھوکھے سے سگریٹ کا ایک پیکٹ بھی پکڑ لو، شاباش۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
وسعت اللہ خان معروف پاکستانی صحافی، کالم نگار اور تجزیہ کار ہیں
تمباکو نوشی عالمی یوم سرطان کینسر کینسر سے بچاؤ کینسر کی اقسام.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: تمباکو نوشی عالمی یوم سرطان کینسر کینسر سے بچاؤ کینسر کی اقسام سکتے ہیں کینسر کی سکتا ہے کے لیے
پڑھیں:
ضرورت ہوئی تو مزید قانون سازی کریں گے ،وزیر قانون
ضرورت کے تحت کل اگر کوئی چیز کرنا پڑی تو تمام اتحادی جماعتیں و پارلیمنٹ بیٹھ کر سوچیں گی
فوجی تنصیبات پر حملہ آور ہوں گے تو آپ کو پھولوں کے ہار تو نہیں پہنائے جائیں گے، گفتگو
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ 26ویں ترمیم اسٹرکچرل ریفارم ہے جو نظام کی بہتری کے لیے کی گئی،علم غیب کسی کے پاس نہیں ہے ، ضرورت کے تحت کل کو اگر کوئی چیز کرنا پڑی تو تمام اتحادی جماعتیں و پارلیمنٹ بیٹھ کر سوچیں گی۔پنجاب بار کونسل میں دو روزہ بین الاقوامی مصالحت و ثالثی ٹریننگ کا آغاز ہوگیا، تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ 15سال پہلے محمد احمد نعیم صاحب سے گزارش کی تھی کہ سیکھنے کے عمل میں ہمارا ساتھ دیں۔ان کا کہنا تھا کہ لاہور کا شکریہ کہ جو رسپانس ہے وہ خوش آئند ہے ، اے ڈے آر کی مصالحت کی بات ہو، کہا جائے کہ یہ جوڈیشل سسٹم کا حصہ نہیں یہ غلط ہے ۔انہوں نے کہا کہ یہ ایڈووکیسی کی ایک نئی شکل ہے ، حکومت پاکستان نے وقت کی اس ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے آئی میک کا سنگ بنیاد رکھا، میرے پاس بہت وائبرنٹ ٹیم ہے ، بنیادی پلیٹ فارم فراہم کرنا ہمارا کام ہے باقی آپ کا کام ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے اپنے آپ کو عالمی کمیونٹی میں رہنے کے لیے اور اپنا رول پلے کرنے کے لیے بل تیار کر لیا ہے ، صوبائی اسمبلیوں کا شکرگزار ہوں جنہوں نے قراردادیں پیش کیں، 3 لاکھ مقدمات ہائیکورٹس میں پینڈنگ ہیں، سپریم کورٹ میں بھی ایسے ہزارہا کیس ہیں۔وزیر قانون نے کہا کہ جو مقدمات سپریم کورٹ میں نہیں آنے چاہئیں، ان کے لیے الگ سے بینچ اور ٹائم مختص کر دیا گیا ہے ، جو نئے قانون میں شقیں ہیں، اس میں آپ کو زیادہ روم ملے گا، وکلا کا رول کم ہونے کے بجائے بڑھا ہے ، مستقبل کی وکالت کا آپ کو حصہ ہونا ہے ۔اعظم نذیر نے کہا کہ نئی چیزوں کو نئے آئیڈیا کو لے کر چلیں گے تو بلندیوں تک جائیں گے ، علم کا قانون کا یہ ایک اور آسمان ہے جس پر ہمیں پرواز کرنا ہے ، امید کرتا ہوں کہ اگلے دو روز پوری دلچسپی کے ساتھ ہماری ٹیم کے ساتھ کام کریں گے ۔انہوں نے کہا کہ اس طرح کی کاوشیں پاکستان کی عوام کے لیے ہیں، ہمیں سب سے زیادہ عوام کی آسانی کرنی ہے ۔بعد ازاں اعظم نذیر تارڑ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میری خواہش ہے کہ کراچی کی طرح لاہور میں بھی ایک ہی جگہ عدالتیں ہوں، اس کا سب سے زیادہ فائدہ بار اور پھر سائلین کو ہے ، جوڈیشل افسران کے لیے بھی اس میں سہولت ہے ۔انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے یہ پلان حکومت پنجاب کو بھیجا ہے ، وزیر اعلی پنجاب مریم نواز اس کے لیئے بالکل تیار ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ چھبسویں ترمیم ایک اسٹرکچرل ریفارم ہے جو کہ نظام کی بہتری کے لیے کی گئی ہے ، میرا نہیں خیال کہ چھبسویں ترمیم کے بعد کسی ترمیم کی ضرورت ہے ۔وزیر قانون نے کہا کہ علم غیب کسی کے پاس نہیں، ضرورت کے تحت کل کو اگر کوئی چیز کرنا پڑی تو تمام اتحادی جماعتیں و پارلیمنٹ بیٹھ کر سوچیں گی۔اعظم نذیر کا کہنا تھا کہ بار کونسلز کے انتخابات کو صاف شفاف رکھنے کے لیئے ووٹرز کی ڈیجیٹلائزیشن کریں گے ، سٹیمرز، بینرز، کھانوں اور زائد خرچہ پر پہلے بھی پابندی ہے لیکن اب یہ قانون کا حصہ ہو گا۔انہوں نے کہا کہ آپ اگر فوجی تنصیبات پر حملہ آور ہوں گے ، آپ اگر سرکاری پراپرٹی اور پولیس وینز جلائیں گے تو آپ کو پھولوں کے ہار تو نہیں پہنائے جائیں گے ۔ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت جو پیسے ہائیکورٹ بارز کو دیتی ہے وہ پیسے ہم نے پچھلے اور اس سے پچھلے سال لاہور ہائیکورٹ بار کو دیے تھے ، اگر خیبر پختونخواہ حکومت اپنے صوبے پر خرچ کرے اور وہاں کے عدالتی نظام کو بہتر کرے تو زیادہ خوشی ہو گی۔