پرویزمشرف سے ڈونلڈ ٹرمپ تک!
اشاعت کی تاریخ: 4th, February 2025 GMT
تحریکِ انصاف جس بے تابی کے ساتھ مذاکرات کی میز پر آئی تھی، اُسی شتابی کے ساتھ رُخصت ہوگئی۔ 23 دسمبر کو شروع ہونے والا سلسلۂِ مذاکرات، تین نشتوں کے بعد 23 جنوری کو ختم ہوگیا۔ کبھی کرکٹ کے ایک بے ہُنر کھلاڑی کے بارے میں لطیفہ نما سی حکایت سُنا کرتے تھے۔ وہ اپنی باری آنے پر بلّا اٹھائے میدان میں اُترنے لگتا تو سُلگتا ہوا سگریٹ منہ سے نکال کر کسی دوسرے کھلاڑی کو تھماتے ہوئے کہتا ’’ذرا پکڑ، میں ابھی آیا۔‘‘ بالعموم وہ پہلی یا دوسری گینڈ پر آئوٹ ہوکر پویلین کو لوٹتا اور دوست سے اپنا اَدھ جَلا سگریٹ واپس لے کر کش لگانے لگتا۔ پی۔ٹی۔آئی کا بھی پارلیمنٹ کے ’’کانسٹی ٹیوشن روم‘‘ میں مذاکرات کی میز پر آنے اور جانے کا عالم کچھ ایسا ہی تھا۔
بلاشبہ پی۔ٹی۔آئی کے لئے برسوں پر محیط اپنے بیانیے سے انحراف کرتے ہوئے ’’چوروں، ڈاکوئوں، لٹیروں اور ناپاک‘‘ لوگوں سے ہاتھ ملانا اور سلام دُعا کرنا کوئی آسان مرحلہ نہ تھا۔ وہ یہ کڑوا گھونٹ پینے پہ کیوں مجبور ہوئی؟ عمران خان نے دِل پر بھاری پتھر رکھ کر کوچۂِ رقیب میں سَر کے بل جانے کا فیصلہ کیوں کیا؟ یہ بات کوئی معمّہ نہیں رہی۔ مارچ 2022ء میں امریکی سائفر لہرانے سے، نومبر2024ء میں اسلام آباد پر لشکر کشی کی’’ فائنل کال‘‘ تک، پونے تین برس پر محیط بے سمت مہم جُوئی کا نتیجہ صرف یہ نکلا کہ پی۔ٹی۔آئی مشکلات کی دلدل میں دھنستی چلی گئی اور اُسے درپیش مسائل کا جنگل گھنا ہوتا گیا۔
’’فائنل کال‘‘ کی شرمناک ہزیمت کے بعد، بے حکمتی، بے تدبیری اور بے ہنری کی بے ثمری سے جنم لیتی اعصاب زَدگی کے کسی اذیت ناک لمحے میں عمران خان نے اڈیالہ جیل سے حکم جاری کیاکہ ’’جائو، حکومت سے مذاکرات کرکے کوئی دروازہ کھولنے کی کوشش کرو۔‘‘ زبان وبیان کے ہُنر میں طاق پی۔ٹی۔آئی راہنمائوں میں سے کسی نے نہ کہا کہ ’’سَر! اِس سے ساتھ تو ہمارا چوتھائی صدی پر محیط بیانیہ فنا ہوجائے گا۔ ہم کہیں کے نہ رہیں گے۔‘‘دست بستہ مریدانِ خاص نے لب بَستگی شعار کی اور گردنیں جھکا دیں۔ اڈیالہ جیل سے جاری اعلان کے مطابق ایک مذاکراتی کمیٹی تشکیل پاگئی۔ کمیٹی نے سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق سے پے درپے رابطے کئے۔ سپیکر نے وزیراعظم سے بات کی۔ حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں پر مشتمل 10 رُکنی کمیٹی تشکیل پا گئی۔ پی۔ ٹی۔ آئی نے صرف صاحبزادہ حامد رضا اور علامہ ناصر عباس کو اپنی کمیٹی کی زینت بنایا ۔اپوزیشن کی دیگر تمام چھوٹی بڑی جماعتوں کو نظر انداز کر دیا گیا۔ یہ وہی جماعتیں ہیں ، پی۔ٹی۔آئی جن کی دہلیز پر کھڑی ’’کوئی ہے؟‘‘ کی آوازیں لگا رہی ہے۔ مذاکرات کی پہلی نشست 23 دسمبر کو ہوئی جس میں طے پایا کہ پی۔ ٹی۔ آئی اپنے تحریری مطالبات اگلی نشست میں پیش کر دے گی۔2 جنوری کو ہونے والی دوسری نشست میں یہ وعدہ وفا نہ ہوا۔ 16 جنوری کو، تیسری نشست میں(آغازِ مذاکرات سے 24 دن بعد) فردِ مطالبات حکومتی کمیٹی کے سامنے رکھی گئی۔ طے پایا کہ سات ایّامِ کار (Seven Working Days) میں ’’چارٹر آف ڈیمانڈز ‘‘کا باضابطہ تحریری جواب دیا جائے گا۔ حکومتی کمیٹی نے سنجیدگی سے کام شروع کیا۔ تین اجلاس کیے۔ وکلاء سے مشاورت کی ۔ اپنے موقف کے خد و خال تراشے۔ ’سات ایام کار‘ میں ابھی پانچ دن باقی تھے کہ 23 جنوری کو اڈیالہ جیل کے پھاٹک سے باہر آتے ہوئے قائم مقام چیئرمین پی۔ ٹی۔ آئی بیرسٹر علی گوہر نے فرمانِ امروز جاری کردیا کہ ’’بانی نے مذاکرات کا سلسلہ ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے ۔آج سے مذاکرات ختم۔‘‘
کسی مجبوری کے سبب مذاکراتی میز پر آ بیٹھنے کے باوجود عمران خان نے سول نافرمانی کی تحریک جاری رکھی ۔اُن کی بہن علیمہ خان تواتر کے ساتھ یہ پیغام دہراتی اور سمندر پار پاکستانیوں کو اپنی رقوم پاکستان نہ بھیجنے پر اُکساتی رہیں۔ عمران خان کا’ ایکس ‘اکاؤنٹ بدستور بارود پاشی کرتا رہا۔ ایک ٹویٹ میں وزیراعظم کو منہ بھر کے گالی دی۔اکتیس روزہ مذاکرات کے دوران میں نا تراشیدہ ، اَن گڑھ اور زہر ناک ٹویٹس کا سلسلہ مسلسل جاری رہا۔ حکومتی کمیٹی ایک بار بھی کوئی حرفِ شکایت زبان پر نہ لائی ۔صرف اس لیے کہ کوئی بات پی۔ ٹی۔ آئی کی نازک مزاجی پر گراں نہ گزرے اور اس جمہوری مشق کو کوئی نقصان نہ پہنچے لیکن پی۔ ٹی۔ آئی پادَرر کاب ہی رہی۔ جسے پنجابی میں ’’پبّاں بھار‘‘ کہتے ہیں۔ سو بانی کا حکم آتے ہی اِس برق رفتاری کے ساتھ مذاکراتی کمرے سے نکلی جیسے اُس کا دم گھٹنے لگا ہو۔ اب جب کہ’’ سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے ،‘‘ کوئی کمیٹی رہے نہ رہے، کھیل ختم ہو چکا ہے۔ پی۔ ٹی۔ آئی مکالمے ،مباحثے، مذاکرے اور افہام و تفہیم کے بازیچۂِ بے آب ورنگ سے الجہاد ،الجہاد، مارو یا مر جاؤ، آتشیں اسلحہ ،غلیلوں ، کیلوں والے ڈنڈوں اور پٹرول بموں والے’’ ہوم گراؤنڈ‘‘ کی طرف واپس جا رہی ہے۔’ پانی پت‘ کے تمام معرکوں میں ناکام رہنے والے علی امین گنڈاپور سے ’’عَلَمِ جہاد‘‘ چھین کر جنید اکبر کے حوالے کر دیا گیا ہے جنہوں نے ’’ہومیوپیتھک ‘‘حکمت کار کو مسترد کرتے ہوئے ’’ہر چہ بادا باد‘‘ کے جنگی منشور کا اعلان کر دیا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے اکتیس روزہ مذاکراتی وقفہ صرف نئی صف بندی کے لیے تھا یعنی ’’آگے چلیں گے دَم لے کر ۔‘‘
پی۔ ٹی۔ آئی دو خصوصیات کے حوالے سے اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ پہلی خصوصیت یہ کہ وہ دنیا بھر کی روایتی سیاسی جماعتوں کے برعکس مذاکرات ،مکالمے اور سنجیدہ گفتاری کے لیے بنی ہی نہیں۔ بحث و تمحیص، افہام و تفہیم اور جمہوری اقدار و روایات جیسے اجزائے ترکیبی سرے سے اُس کے مادۂِ تولید اور جوہر تخلیق (GENES/DNA) میں ہیں ہی نہیں۔ وہ پارلیمنٹ میں بیٹھتی ہے تو بھی یوں جیسے انگاروں پر لوٹ رہی ہو۔ لگی بندھی مذاکراتی کمرے میں آتی ہے تو اِس قدر ہراساں جیسے کسی عقوبت خانے میں دھکیل دی گئی ہو۔ ہنگامہ وپیکار اور فتنہ وفساد اُس کا خصوصی ہُنر ہے۔ وہ اسی جو لاں گاہ میں آسودہ رہتی ہے چاہے نتائج کچھ بھی ہوں۔
پی۔ ٹی۔ آئی کی دوسری منفرد خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنے’’ نظریے‘‘ یا’’ عوامی مقبولیت‘‘ کے بجائے تکمیلِ آرزو کے لئے ہمیشہ کسی مقتدر شخصیت کی طرف دیکھتی اور اُس کے دست ِشفقت کی محتاج رہتی ہے۔ یہ کہانی 26 برس قبل پرویز مشرف سے شروع ہوئی ۔شجا ع پاشا،ظہیر الاسلام، فیض حمید، قمر جاوید باجوہ، آصف سعید کھوسہ اور ثاقب نثار سے ہوتی ہوئی عمر عطا بندیال پہ آ ٹھہری۔ وردی اُتر جانے کے باوجود فیض حمید کا فیضان جاری رہا یہاں تک کہ وہ خود اپنے کارہائے نمایاں کے آہنی جال میں پھنس گئے۔ پھر اپنے پیروکاروں اور خود اپنے لیے یہ سراب تخلیق کیا گیا کہ جلد جسٹس منصور علی شاہ چیف جسٹس بننے جا رہے ہیں۔ اُس کے فوراً بعد یہ’’ جعلی نظام‘‘ تحلیل ہو جائے گا اور عمران خان اڈیالہ جیل سے براہ راست وزیراعظم ہاؤس آ بیٹھیں گے۔ ایسا نہ ہوا۔ پبلک ریلیشننگ کی کمپنی چلانے والے ایک بے سروپا امریکی اہلکار، رچرڈ گرینل نے جانے کس ترنگ میں ا ٓکر دو تین ٹویٹ کیے تو پی۔ ٹی۔ آئی کا چہرہ نئی نویلی دلہن کی طرح دمکنے لگا۔ وہ آس تو ٹوٹ گئی لیکن طاقِ آرزو میں آج بھی ’ڈونلڈ ٹرمپ‘ نامی ایک چراغ ٹمٹا رہا ہے۔
مشرف سے ٹرمپ تک، ہمیشہ کسی ایمپائر کی اُنگلی کی متلاشی پی۔ ٹی۔ آئی پر کسی بیوہ جیسی بے سروسامانی کا ایسا بے برگ و بار موسم اُس کی چھبیس سالہ زندگی میں کبھی نہ آیا تھا۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: اڈیالہ جیل پی ٹی ا ئی جنوری کو کے ساتھ
پڑھیں:
ارطغرل غازی کے مرکزی کردار نے دورہ پاکستان میں پیش آنیوالے دلچسپ واقعات بتا دیے
پاکستان میں ترک ڈرامہ سیریز ارطغرل غازی سے مشہور ہونے والے اداکار آنگین آلتان نے اپنے دورہ پاکستان کو دلچسپ قرار دیا ہے۔آنگین آلتان دزیاتن ایک معروف ترک فلم اور ٹی وی اداکار ہیں جنہوں نے اپنی مشہور تاریخی سیریز اطغرل غازی کے باعث پاکستان میں نام کمایا جسے 2020 میں اردو ڈبنگ میں ریلیز کیا گیا تھا۔ترک اداکار کو پاکستان میں بہت پسند کیا گیا، یہی وجہ ہے کہ اپنے مداحوں کی محبت کی خاطر کورونا وبا کے دوران انہوں نے پاکستان کا دورہ بھی کیا تھا۔حالیہ انٹرویو میں آنگین آلتان نے پاکستان کے دورے کو یاد کرتے ہوئے دورہ پاکستان کو دلچسپ قرار دیا۔انہوں نے کراچی میں اپنے دورے کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ میرا پاکستان کا دورہ واقعی حیرت انگیز تھا، پاکستانی لوگ ارطغرل سیریز کو پسند کرتے ہیں، میں ایک بار کوویڈ کے دوران کراچی گیا تھا، دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان میں کوئی بھی اس وائرس پر یقین نہیں کرتا تھا، وہ کہتے رہے کہ یہ جھوٹ ہے اور اس سے کوئی نہیں مرتا اور حیرت کی بات ہے کہ وہاں کوئی مر بھی نہیں رہا تھا۔اداکار نے ایک قصہ سناتے ہوئے کہا کہ میں ابھی پاکستان پہنچا تھا اور اپنے کمرے میں اپنا سامان کھول رہا تھا کہ اچانک 20کے قریب لوگ کمرے میں داخل ہوگئے، میں نے کہا یہ میرا کمرہ ہے لیکن انہوں نے جواب دیا کہ ہاں، آؤ ہم یہاں تصاویر کے لیے آئے ہیں۔ایک اور قصہ سناتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں کراچی کی ایک مشہور مسجد میں گیا اور امام سے ملاقات کر رہا تھا کہ اچانک مسجد لوگوں سے بھر گئی، تقریباً 4ہزار کے قریب لوگ امڈ آئے، وہاں کوئی سکیورٹی نہیں تھی اور ہجوم اتنا زیادہ ہو گیا کہ نیشنل گارڈز کو اندر آ کر مجھے بچانا پڑا، میں حیران تھا لیکن سچ پوچھیں تو یہ ایک حیرت انگیز تجربہ تھا۔