نیب اور پی پی آر اے(PPRA) کے مابین مفاہمتی یادداشت پر دستخط
اشاعت کی تاریخ: 4th, February 2025 GMT
اسلام آباد(نیوز ڈیسک) نیب ہیڈ کوارٹراسلام آباد میں قومی احتساب بیورو اور پبلک پروکیورمنٹ ریگولیرٹی اتھارٹی کے درمیان مفا ہمتی سمجھوتے پر دستخط کئے گئے۔
مفاہمتی سمجھوتے کی تقریب میں چیئرمین نیب لفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ نذیر احمد، ڈپٹی چیئرمین نیب سہیل ناصر، پراسیکیوٹر جنرل احتساب سید احتشام قادرشاہ،اور منیجنگ ڈائریکٹرپی پی آر اے(PPRA) حسنات احمد قریشی نے شرکت کی۔
سمجھوتے پر ڈائریکٹر جنرل نیب(اے اینڈ پی) اظہار احمد اعوان اور پروجیکٹ ڈائریکٹر ای- پیڈز (e-PADS)شیخ افضال رضا نے دستخط کئے
سمجھوتے کا مقصد ای- پیڈز (e-PADS)کے حوالے سے دونوں اداروں کے باہمی تعاون پر مبنی معلومات کے تبادلے، منصفانہ شفاف مقابلے، پبلک پروکیورمنٹ کے عمل کا ایسا نظام وضع کرنا ہے جس سے دونوں اداروں کی مشترکہ کاوشوں سے شفافیت اور احتساب میں اضافہ کیا جا سکے اور یہ وضع کردہ نظام و طریقہ کار بدعنوان اور جعلساز عناصر کے لیے خوف کی علامت ہو۔ مفاہمتی سمجھوتے کے مطابق دونوں ادارے اس بات پر متفق ہوئے ہیں کہ وہ پبلک پریکیورمنٹ سے متعلقہ دیگر اداروں کی استعداد کار میں اضافہ کریں گے، بدعنوانی اور جعل سازی کی روک تھام کے لیے رہنما اصول تیار کرنے میں مدد دیں گے اور ماضی کے مقدمات کے کامیاب تجربات کو مد نظر رکھتے ہوئے پروکیورمنٹ سے متعلق پالیسیز اور پروکیورمنٹ کے طریقہ کار کے حوالے سے معاونت کریں گے۔
پرو کیورمنٹ کے حوالے سے کسی قسم کی شکایات پر پی پی آر اے اس شکایت کو متعلقہ ٹینڈر اور معہ بولی دہندگان کی تفصیلات سمیت اپنے تجزیہ کے ساتھ ضروری کاروائی کے لیے نیب کو بھیجے گا۔اس مفاہمتی سمجھوتے کے مطابق نیب افسران کی پبلک پروکیورمنٹ کے بارے میں پی پی آر اے مفت تربیتی سیشن منعقد کرے گا۔اسی طرح نیب کی طرف سے بھی پی پی آر اے کے افسران کی بھی پبلک پروکیورمنٹ میں بدعنوانی کی روک تھام کے لیے مفت تربیت فراہم کی جائے گی۔ پرو کیور منٹ سے متعلق بولی میں حصہ لینے والوں اور پبلک پریکیورمنٹ سے متعلق اداروں کے قانونی ضوابط کار مستحکم کرنے کے لیے بھی دونوں ادارے باہمی تعاون سے اصول وضح کریں گے تاکہ بد عنوانی کی روک تھام ہو سکے – ایسی اصلاحات کو بھی فروغ دیا جائے گا جس سے پرو کیورمنٹ کے عمل میں احتساب کا انتظام مضبوط تر ہو سکے۔
مفاہمتی سمجھوتے کے مطابق دونوں ادارے نیشنل الیکٹرانک پروکیورمنٹ ڈیٹا بیس کے قیام کے لیے ایک دوسرے سے تعاون کریں گے- اس مقصد کے لیے پی پی ار اے مرکزی ڈیٹا بیس تیار کرے گا جس میں پروکیورمنٹ سے متعلق اعداد و شمار ٹینڈرز اور بولی کے حوالے سے بھی معلومات شامل ہوں گی۔مفاہمتی سمجھوتے سے پبلک پروکیورمنٹ کے تمام متعلقہ اداروں میں پروکیورمنٹ قوانین و ریگولیشنز اور اخلاقی معیار سے متعلق آگاہی عام کی جائے گی۔
قبل اذیں پی پی آر اے کی ٹیم نے ای پیڈز (e-PADS)اور پی پی آر اے سسٹم (PPRA)کے بارے میں ایک تفصیلی برفینگ دی۔
چیئرمین نیب نے اس موقع پرسرکاری خریداری کے روائتی نظام کو خودکار نظام پر منتقل کرنے کی کاوش کو سراہتے ہوئے کہا کہ اس سے پبلک پروکیورمنٹ کے پورے عمل میں شفافیت آئے گی اور احتساب ممکن ہو سکے گا۔انہوں نے کہا کہ مفاہمت کے سمجھوتے کا مقصد پبلک پروکیورمنٹ کے عمل کو ہر ممکن حد تک بد عنوانی کے اثرات سے محفوظ رکھنا ہے اور اس مقصد کے حصول کے لئے جو طریقہ کار اور قواعد وضوابط وضع کئے جائیں گے ان سے بدعنوانی کے سد باب میں مدد ملے گی۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: کے حوالے سے پی پی آر اے کریں گے کے لیے
پڑھیں:
چیئرمین جنید اکبر خان کی زیر صدارت پبلک اکائونٹس کمیٹی کا اجلاس، پاکستان ریلوے کے آڈٹ اعتراضات کے جائزہ لیا گیا
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 22 اپریل2025ء) پبلک اکائونٹس کمیٹی کا اجلاس منگل کو پی اے سی کے چیئرمین جنید اکبر خان کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہائوس میں ہوا ۔ اجلاس میں کمیٹی کے ارکان سمیت متعلقہ سرکاری اداروں کے اعلی افسران نے شرکت کی ۔ اجلاس میں پاکستان ریلوے کے آڈٹ اعتراضات کے جائزہ کے دوران سیکرٹری ریلوے نے کہا کہ ریلوے کی پنشن کا بجٹ ابھی بھی کافی نہیں ہے، لوگوں کو دو سال سے پنشن کے فوائد نہیں ملے۔ ابھی 64 ارب کی رقم مختص کی گئی ہے، 13 ارب سے زائد کی لائبلٹی پڑی ہے۔ریلوے کا آپریٹنگ منافع ایک ارب کے قریب ہے۔ایم ایل ون سٹرٹیجک پراجیکٹ ہے۔ایم ایل فور کے تحت گوادر کو مین لائن سے جوڑنا ہے۔تھر کو ریلوے سسٹم سے جوڑ رہے ہیں۔ ایم ایل ون کا کراچی سے ملتان تک فیز ون رکھا ہے۔(جاری ہے)
ایم ایل ون کا ملتان سے پشاور فیز ٹو ہے۔ایم ایل ون اب تک بن جانا چاہیے تھا۔
انہوں نے کہا کہ اب تک ایم ایل ون کے ثمرات بھی آنے چاہئیں تھے۔ایم ایل ون کے اب تک نہ بننے کی کئی وجوہات ہیں۔ ہماری طرف سے کوئی رکاوٹ یا مسئلہ نہیں ہے۔ کراچی سرکلر ریلوے اب سی پیک میں شامل ہے ۔ایم ایل ون پر ایک سو ساٹھ کلو میٹر فی گھنٹہ سے ریل گاڑی جاسکے گی۔لاہور سے اسلام آباد تک کا سفر اڑھائی گھنٹے کا ہو جائے گا ۔پبلک اکائونٹس کمیٹی کو بتایا گیا کہ تین ارب سے زائد کا مٹیریل خریدنے میں پیپرا رولز کی خلاف ورزی کی گئی ہے جس پر سیکرٹری ریلوے نے کہا کہ یہ 100 لوکو موٹو کی مرمت کا پراجیکٹ تھا ۔ پی اے سی نے اس پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے ابھی تک یہ معاملہ حل کیوں نہیں کیا ۔ آڈٹ حکام نے کہا کہ ریلوے اور پیپرا کے درمیان تعاون نہ ہونے کی وجہ سے مسئلہ حل نہیں ہوا۔ چیئرمین پی اے سی نے کہا کہ ہمارا ٹائم ضائع ہورہا ہے یہ کس کی ذمہ داری ہے ۔سیکرٹری ریلوے نے پی اے سی کو کارروائی کرنے کی یقین دہانی کرادی۔ پبلک اکائونٹس کمیٹی کو آڈٹ حکام نے بتایا کہ 506 ملین کا ایچ ایس ڈی آئل استعمال کرنے سے متعلق غلط بیانی کی گئی ہے۔ سیکرٹری ریلوے نے کہا کہ میں نے اس ہفتے انکوائری کی رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کی ہے ۔دس دنوں میں رپورٹ پی اے سی کو فراہم کردیں گے۔ رکن کمیٹی سید حسین طارق نے کہا کہ اس مسئلے کی نشاندہی 2007 میں ہوئی تھی ، ڈیڑھ سال پہلے کمیٹی کیوں بنائی گئی۔ کمیٹی نے اس معاملے پر دس دن میں رپورٹ طلب کرلی۔ ریلوے ملازمین کو 482 ارب روپے کا خلاف ضابطہ ڈیلی الائونس دینے کے معاملہ پر سیکرٹری ریلوے نے کہا کہ فکس ڈیلی الائونس کو میں نے ہی بند کیا ہے۔ اس معاملے میں ضابطے پر عمل نہیں کیا گیا تھا۔ہمیں اس رقم کو ریگولرائز کرنے کی ضرورت ہے۔ فنانس ڈویژن حکام نے کہا کہ فنانس ڈویژن اس کو خلاف ضابطہ سمجھتا ہے۔ اس معاملے کو ای سی سی میں لے جایا جائے۔ پی اے سی نےفنانس ڈویژن کو یہ معاملہ دیکھنے کی ہدایت کی ۔پی اے سی کو سیکرٹری ریلوے نے بریفنگ میں بتایا کہ ریلوے پبلک گڈز سروس اور بزنس کو سپورٹ فراہم کرتی ہے۔ آئل امپورٹ بل میں 500 ملین کی کمی لائے ہیں۔ریلوے کالونیوں میں ملازمین افسران کو سبسڈائزڈ بجلی کی فراہمی بند کردی ہے۔ بجلی کے فری یونٹس کو 155 ملین یونٹس سے 85 ملین یونٹس تک لے آئے ہیں۔تمام ریلوے کالونیوں میں میٹرنگ انفراسٹرکچر کو فروغ دے رہے ہیں۔ایم ایل این پر گاڑیوں کی سپیڈ زیادہ سے زیادہ 160 کلومیٹر فی گھنٹہ ہوگی۔ ماضی میں ریلوے سے 100روپے کمانے کیلئے 180روپے کا خرچہ کرتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ریلوے کی پنشن کا بجٹ ابھی بھی کافی نہیں ہے۔لوگوں کو دو سال سے پنشن کے فوائد نہیں ملے، ابھی 64 ارب کی رقم مختص کی گئی ہے تیرہ چودہ ارب کی لائبلٹی پڑی ہے۔پنشن کی مد میں 77 ارب روپے سے زائد کے بقایاجات ہیں۔وفاق کو سمری بھیجی ہے پنشن کو قومی بجٹ میں شامل کرنا چاہتے ہیں۔ گزشتہ ستر سال سے ریلوے کے انفراسٹرکچر پر سرمایہ کاری نہیں کی گئی ۔ریلوے کا زیادہ تر انفراسٹریکچر بوسیدہ اور پرانا ہوچکا ہے۔ گزشتہ سیلاب کی وجہ سے بھی ریلوے انفراسٹریکچر کو نقصان پہنچا ۔