Express News:
2025-11-03@01:30:04 GMT

ملتان کا ’’تھانیدار‘‘ اور کیا کرتا!

اشاعت کی تاریخ: 5th, February 2025 GMT

ملتان میں ہوا یہ ایک معمولی واقعہ تھا۔ ’’پروٹوکول‘‘ کے لیے پولیس نے روٹ لگایا ہوا تھا تاکہ کوئی غیر متعلقہ یا ممکنہ فسادی نہ گھس آئے اور شاہی سواری سیکیورٹی رسک بنے۔ اس دوران میں ایک 60 سالہ شخص موٹر سائیکل پر پروٹوکول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دکھائی دیا۔ موقع پر موجود ایس ایچ او شفیق نے روایتی طاقت کے ساتھ چلتے موٹر سائیکل پر اس کا گریبان پکڑا اورا سے زمین پر گرا دیا۔اس پر ہی بس نہیں کیا بلکہ مناسب ’’خاطرداری‘‘ کر کے پروٹوکول کی خلاف ورزی کا فوری سبق بھی سکھایا.

یہاں تک واقعہ بالکل ’’معمولی ‘‘اور’’ معمول‘‘ کے مطابق تھا لیکن ہوا کچھ یوں کہ کسی نے اس پورے واقعے کی وڈیو بنائی اور سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر دی۔ دیکھتے ہی دیکھتے وڈیو تمام سوشل میڈیا پر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔

میں ایسی وڈیوز دیکھنے سے عموما گریز کرتا ہوں۔ تاہم اس پر نظر پڑ گئی، وڈیو دیکھ کر طبیعت انتہائی مکدر ہوئی لیکن اس کے ساتھ ہی ذہن میں یہ سوال بھی ابھرا کہ تھانیدار کے اس رویے کی تشکیل اور پرورش بھی تو کسی نے کی ہوگی؟ متعلقہ تھانیدار پولیس میں بھرتی ہوتے وقت یہ ذہن اور سوچ لے کر تو بھرتی نہیں ہوا ہوگا۔ ’’فرائض‘‘کی بجاآوری کے دوران سینیئرز اور حکمرانوں کی توقعات نے بھی تو اس رویے کی پرورش میں کردار ادا کیا ہوگا!

ہم نے بارہا پروٹوکول کا شاہانہ کروفر تمام بڑے شہروں میں دیکھا ہے۔ سیکیورٹی کے نام پر پروٹوکول کی ہیبت بٹھانے کے لیے مصروف شاہراؤں کو بند کر کے ہزاروں لوگوں کو بعض اوقات گھنٹوں زبردستی انتظار پر مجبور دیکھا۔ دہائیوں سے ہر چھوٹے بڑے حکمران اور انتظامی بابووں کی گاڑیوں پر پاکستانی پرچم اور آگے پیچھے ہوٹر بجاتی پروٹوکول کی گاڑیاں معمول رہا۔ ان کے گارڈز سڑکیں چیرتے اور لوگوں کو ان کی اوقات یاد دلاتے گزرتے دیکھے۔ ہمارے حکمران اور آئینی عہدوں کے سربراہوں کو پروٹوکول ایک استحقاق کے طور پر دستیاب رہا ہے۔

صاحبان اقتدار تو کیا وطن عزیز میں ہم نے یہ بھی دیکھا کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت کے سربراہ نجی دورے پر تشریف لے جاتے تو صوبے کے وزیر اعلیٰ اور ان کی انتظامیہ کو ہدایت کرتے کہ ان کے پروٹوکول کا اہتمام کیا جائے، بلکہ تاکید مزید کے طور پر مرسیڈیز گاڑی کا بھی اصرار ہوتا۔ ان صاحب کے ہم آج تک بحالی تحریک کے مقروض ہیں۔ایک ان پر ہی کیا موقوف ہم نے کئی چھوٹے بڑے صوبائی اور وفاقی حکمرانوں کو سرکاری پروٹوکول کے لیے تڑپتے، الجھتے اور اہل اختیار سے درخواستیں کرتے دیکھا۔

سیاسی حکمرانوں، مضبوط آئینی اور انتظامی عہدوں پر متمکن لوگوں کے شاہانہ پروٹوکول کی ٹھاٹھ باٹھ دیکھ کر جہاں جہاں ممکن ہوا نجی شعبے کے لوگ بھی اس رنگ میں رنگے گئے۔ کئی نودولتئے کو وقت کے حکمرانوں کا قریب نصیب رہا ہے۔ انھیں سرکاری پروٹوکول بھی ملا کرتا تھا۔ ایک کے بارے میں تو کہا جاتا ہے کہ موصوف عام مسافر کی طرف طرح ائر پورٹ جانے کو ہتک سمجھا کرتے تھے، ان سے پہلے پروٹوکول آفیسر ایئرپورٹ پہنچتا،سارے معاملات اوکے کرتھا، وہ فلائٹ سے چند منٹ پہلے پورے کروفر کے ساتھ ایئرپورٹ وارد ہوتے۔

پروٹوکول کے مظاہر لاہور، اسلام آباد اور کراچی انٹرنیشنل فلائٹس کے آتے اور جاتے وقت ایئرپورٹس پر دیکھے جا سکتے ہیں۔بڑے بڑے سرکاری و کاروباری اداروں کے سربراہان ،ان کی فیملیز اور دوست رشتہ دار، عام مسافروں کی لائن میں کھڑے ہونے کو توہین سمجھتے ہیں۔ سرکاری کارندوں کے ذریعے یا چند ہزار روپے سے خریدے ہوئے پروٹوکول کی مدد سے ایئرپورٹ پہنچتے ہی ان کا وی آئی پی سفر شروع ہو جاتا ہے۔ اب تو میڈیا رپورٹرز،ایڈیٹرز اور اینکر حضرات بھی پروٹول انجوائے کرتے ہیں۔ انٹرنیشنل فلائٹس کی آمد کے وقت پروٹوکول افسران اپنے اپنے مہمانوں کی تلاش میں ہانکے لگاتے یا پلے کارڈ لے کر کھڑے ہوئے اکثر دیکھے جا سکتے ہیں۔

جہاں دوسرے مسافر امیگریشن اور سامان حاصل کرنے کے لیے خود تردد کرتے ہیں، شاہانہ پروٹوکول حاصل کرنے والے اس دوران اپنا بریف کیس تک اٹھانا بھی گوارا نہیں کرتے۔ یہ تمام مناظر ہزاروں دیگر مسافر بھی دیکھ رہے ہوتے ہیں، لیکن انھیں ذرہ بھر شرم یا احساس ندامت کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔ لوگوں کی چھبتی ہوئی نظروں کے مقابل پروٹوکول زدہ ان لوگوں کو سینہ تان کر اور فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ ہی دیکھا۔

ہم نے ایک بار ہانگ کانگ سے لاہور کی سفر میں ایک چشم کشا دو عملی کا مظاہرہ دیکھا۔ ہانگ کانگ بزنس لاونج میں دو پاکستانی مسافر داخل ہوئے ہاتھوں میں اپنے بریف کیس اور شاپنگ بیگ تھامے ہوئے۔ انھی مسافروں کو ہم نے بنکاک ایئرپورٹ پر بھی دیکھا، اپنا سامان اٹھاتے، جہاز میں رکھتے دیکھا۔تاہم جب لاہور ایئرپورٹ پر جہاز لینڈ کیا تو ان دونوں مسافروں میں یکایک انقلابی تبدیلی آئی۔جہاز کے دروازے کھلے تو سب سے پہلے وہ اپنی نشستوں سے کھڑے ہو گئے۔وہی سامان جو انھوں نے خود بنکاک ایئرپورٹ پر رکھا، اسے اٹھانے کے بجائے ساکت کھڑے رہے۔

چند ہی سیکنڈ میں دروازہ کھلنے کے بعد تین چار پروٹوکول افسران تیزی سے داخل ہوئے اور کھٹاک سے انھیں سلام کیا۔ انھوں نے اشارے سے سلام کا جواب دیا اور اسی اشارے سے سامان کی نشاندہی کی۔ آنے والوں نے تندہی سے ان کا سامان اٹھایا اور آئیں سر آئیں سر کی گردان کرتے ہوئے انھیں لے کر تیزی سے نیچے اتر گئے۔ لاہور ایئرپورٹ اترتے ہی ان کا سینہ پھول کر کم از کم چار انچ بڑھ گیا۔ پورے سفر میں جس سامان کو عام مسافر کی طرح انھوں نے اٹھایا اور رکھا، سرزمین وطن پر پاؤں پڑتے ہی پروٹوکول کا خناس ان کی نس نس میں داخل ہو گیا۔

سوشل میڈیا کی آگ بجھانے کے لیے فورا’’ ایس ایچ او شفیق‘‘ کی گرفتاری کا حکم جاری کیا گیا، حوالات میں بند اس کی فوٹیج کو اہمتام سے میڈیا پر دکھایا گیا۔ تاہم یہ سوال اپنی جگہ پر ہے کہ اگر وڈیو وائرل نہ ہوتی تو تھانیدار حوالات میں نہیں بلکہ شاید اپنے سینئیر سے شاباش وصول کر رہا ہوتا اور 60 سالہ موٹر سائیکل اپنے زخم سہلا رہا ہوتا۔ اصل مسئلہ یہی ہے کہ حکمرانوں اور اشرافیہ نے پروٹوکول کے حصول میں آج تک جو پولیس اہلکاروں سے توقع کیا، انھیں استعمال کیا، وہ پروٹوکول توڑنے والوں سے یہی سلوک روا رکھنے کو ڈیوٹی سمجھتے ہیں۔ اگر پروٹوکول واقعی ’’ ٹوٹ‘‘ جاتا تو بھی ایس ایچ او شفیق کی ہی شامت آنی تھی۔ وہ بے چارہ کرتا بھی تو کیا کرتا!

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پروٹوکول ا کے ساتھ کے لیے

پڑھیں:

پاکستان کی سوڈان میں مظالم کی شدید مذمت، فوری جنگ بندی، سیاسی حل پر زور

 سلامتی کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب، سفیر عاصم افتخار احمد نے کہا کہ مظالم پر خاموشی دراصل شریکِ جرم ہونے کے مترادف ہے۔ انہوں نے سوڈان کی صورتحال کو بین الاقوامی برادری کے لیے ایک اخلاقی اور سیاسی آزمائش قرار دیتے ہوئے افسوس ظاہر کیا کہ بارہا انتباہات کے باوجود سلامتی کونسل ظلم و ستم کو روکنے میں ناکام رہی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ پاکستان نے سوڈان میں جاری مظالم کی شدید مذمت کرتے ہوئے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل پر زور دیا ہے کہ وہ اپنی بے عملی ترک کرے اور فوری جنگ بندی اور سوڈانی قیادت میں سیاسی حل کے لیے موثر اقدامات کرے۔ پی ٹی وی نیوز کے مطابق سلامتی کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب، سفیر عاصم افتخار احمد نے کہا کہ مظالم پر خاموشی دراصل شریکِ جرم ہونے کے مترادف ہے۔ انہوں نے سوڈان کی صورتحال کو بین الاقوامی برادری کے لیے ایک اخلاقی اور سیاسی آزمائش قرار دیتے ہوئے افسوس ظاہر کیا کہ بارہا انتباہات کے باوجود سلامتی کونسل ظلم و ستم کو روکنے میں ناکام رہی ہے۔ سفیر عاصم نے زور دیا کہ کونسل کو ایک واضح پیغام دینا چاہیے کہ وہ شہریوں کے قتل عام، اسپتالوں پر بمباری اور انسانی کارکنوں کو نشانہ بنانے جیسے مظالم پر مزید خاموش تماشائی نہیں رہے گی۔

انہوں نے ریپڈ سپورٹ فورسز (RSF) کی جانب سے الفاشر پر قبضے اور ان کی دہشت گردانہ کارروائیوں کی سخت الفاظ میں مذمت کی، اور اسپتالوں و انسانی کارکنوں پر حملوں کو بین الاقوامی انسانی اور انسانی حقوق کے قوانین کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا۔ انہوں نے سعودی زچگی اسپتال میں مریضوں اور طبی عملے کے قتلِ عام کو ناقابلِ بیان ظلم قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان بہیمانہ اقدامات کے ذمہ داروں اور معاونین کو فوری طور پر انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ پاکستانی مندوب نے کہا کہ سلامتی کونسل کی غیر واضح پالیسی نے RSF کو مزید شہہ دی ہے جبکہ سوڈان کے قانونی اداروں کو کمزور کیا ہے۔ انہوں نے رکن ممالک پر زور دیا کہ وہ اپنی پوزیشن پر نظرِ ثانی کریں کیونکہ سوڈانی ریاست کو کمزور کرنا ایسے خلا کو جنم دیتا ہے جسے مسلح گروہ مزید ظلم و جبر اور عدم استحکام کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ سفیر عاصم افتخار نے سوڈان میں نئے وزیرِ اعظم اور ٹیکنوکریٹ کابینہ کی تقرری کا خیرمقدم کیا اور اسے ایک مثبت پیش رفت قرار دیا جو سلامتی کونسل کی حمایت کی مستحق ہے۔

متعلقہ مضامین

  • نیویارک میئر شپ کے امیدوار زہران ممدانی کی حمایت میں سابق امریکی صدر سامنے آ گئے
  • حیدرآباد: ایک مزدور کسان کھیتوں میں کیڑے مار دوا کاچھڑکائو کرتے ہوئے
  • الریاض میں مشتاق بلوچ کی جانب سے صحافیوں کے اعزاز میں عشائیہ
  • تنزانیا: انتخابات میں خاتون صدر کامیاب‘ملک گیر پرتشدد مظاہرے
  • ملتان میں طلبا کا گیریژن کا دورہ، فوجی شہدا کو خراجِ عقیدت پیش
  • تنزانیہ میں اپوزیشن کا انتخابات کیخلاف ماننے سے انکار؛ مظاہروں میں 700 ہلاکتیں
  • ہم نے مختصر دور حکومت میں وسائل کی منصفانہ تقسیم پر توجہ دی، گلبر خان
  • ٹکٹ ہولڈرز کا کالعدم ٹی ایل پی سے لاتعلقی کا اعلان
  • حکومت پنجاب نے وزیر اعظم کے پروٹوکول کیلئے گاڑیاں فراہم کر دیں
  • پاکستان کی سوڈان میں مظالم کی شدید مذمت، فوری جنگ بندی، سیاسی حل پر زور