Nai Baat:
2025-09-18@16:25:19 GMT

تجارتی جنگ اور چین

اشاعت کی تاریخ: 5th, February 2025 GMT

تجارتی جنگ اور چین

تین ممالک کی درآمدات پر محصولات عائدکرنے کے ٹرمپ حکم نامے دنیابھرمیں زیرِ بحث ہیں جن کی روسے رواں ماہ چارفروری سے میکسیکو اور کینیڈا سے امریکی کو بیچی جانے والی بیشتر اشیا پر پچیس جبکہ چین کے مال پر دس فیصد محصولات لگانے کافیصلہ کیا گیا مذکورہ حکم ناموں کو ایک بڑی تجارتی جنگ کا پیش خیمہ قرار دیا جا رہا ہے میکسیکو اور کینیڈا نے تو امریکی اشیاپر پچیس فیصد محصولات لگاکرسخت جواب دیدیا جبکہ چین نے عالمی اِدارہ تجارت سے رجوع کرنے ،جامع بات چیت پر آمادگی کے ساتھ جوابی اقدامات کا اعلان کیا یہ جوابی نرمی افہام و تفہیم کی طرف اِشارہ ہے مغربی ممالک ابھی تک ایسے کسی حکم نامے سے محفوظ ہیں البتہ ایساامکان موجود ہے کہ جلدہی رگڑے میں آجائیں شاید اسی لیے حفظ ِماتقدم کے طورپر یورپی کمیشن کے ترجمان نے امریکہ کو متنبہ کر دیا ہے کہ اتحاد میں شامل ممالک پراگر امریکہ نے محصولات عائدکیے تو جوابی اقدامات کریں گے ماہرین کا کہناہے کہ ٹرمپ نے بغیر کسی تیاری اور مشاورت کے محصولات میں اضافہ کیا ہے اسی بناپر میکسیکو پرعائد محصولات کو ایک ماہ کے لیے موخر کرنے کی نوبت آئی جبکہ کینیڈاکے وزیرِ اعظم اور میکسیکو کے صدر سے کسی معاہدے تک پہنچنے کے لیے مذاکرات کا سلسلہ بھی جاری ہے چین اور ہمسایہ ممالک کامحصولات سے متاثر ہونے کا امکان ہے مگر امریکی تجارت کا متاثر ہونابھی یقینی ہے اور پہلے امریکہ کاخواب شایدتشنہ رہے لیکن دنیا سے الگ تھلگ ہوسکتا ہے معاشی ،سیاسی اور تجارتی تنہائی امریکی معیشت کے لیے کسی طور سودمند ثابت نہیں ہو سکتی۔

بھاری بھرکم محصولات دنیاکو نئی سرد جنگ کی طرف لیجا سکتے ہیں مگر امریکی پالیسی سازدنیا کی دولت بٹورنے کی روش پر چلنے پر بضدہیں حالانکہ اب صرف روس ہی مدِ مقابل نہیں بلکہ کئی طاقتور معیشتیں ہیں اِس لیے ماضی کی نسبت چیلنجزبھی زیادہ ہیں ٹرمپ کے خیال میں اگرکینیڈا امریکہ کی 51 ویں ریاست بن جائے تو محصولات کا مسئلہ ختم ہوسکتاہے ظاہر ہے کوئی ملک اپنی قومی سلامتی پرسمجھوتہ نہیں کرسکتا سرحد پر کڑی پابندیوں کے باوجودمیکسیکو کی طرف سے بھی جواب میں نرمی کے کوئی آثارنہیں بلکہ دونوں ملک محصولات کے خلاف مل کر کام کرنے پر متفق نظرآتے ہیں وزیرِ اعظم جسٹن ٹروڈو نے عوام سے امریکہ کے سفر سے گریز اور اُس کی اشیا کے بائیکاٹ کی اپیل کرتے ہوئے بیئر،وائن ،لکڑی سمیت برقی آلات پر محصولات بڑھائے ہیں سب سے زیادہ آبادی والے صوبے انٹاریومیں امریکی شراب پر پابندی لگا ئی جا چکی ہے جس کی وجہ سے 155 ارب ڈالر کی مصنوعات براہ راست متاثر ہوسکتی ہیں میکسیکوکی صدر کلاڈیا شین بام نے بھی وزیرِ خزانہ کو جوابی اقدامات کاحکم دیا ہے تین ممالک پر بھاری محصولات عائد کرنے پر جو سب سے پہلا مذمتی بیان آیا ہے وہ یورپی یونین کا ہے جس نے نئے محصولات کی مذمت کی ہے جبکہ جاپان جیسے امریکہ کے قریبی اتحادی نے بھی تحفظات کااظہار کیا ہے یادرہے کہ دنیا کی سب سے بڑی دفاعی تنظیم نیٹو جس میں امریکی سمیت تمام یورپی ممالک شامل ہیں اِس تنظیم کے تین ارکان امریکہ ،فرانس اور برطانیہ کواقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں ویٹو کا حق حاصل ہے ٹرمپ اگراپنے حالیہ احکامات پربضدرہتے ہیں تو نہ صرف نیٹو کا مستقبل مخدوش ہو سکتا ہے بلکہ فرانس اور برطانیہ بھی امریکہ سے دورہوسکتے ہیں اِسی بناپر یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ٹرمپ حکمتِ عملی سے سب سے پہلے امریکہ متاثر ہوتا نظرآتاہے ۔

امریکہ اور چین کے مابین تجارتی و معاشی جنگ نئی نہیں بلکہ ایک عشرے سے جاری ہے امریکہ چینی تجارت و معیشت کومحدودکرناچاہتا ہے اِس حوالے سے ہر امریکی صدرکوشاں رہتاہے مگر کامیابی نہیں ہورہی لیکن ٹرمپ نے ضرورت سے کچھ زیادہ ہی سخت فیصلے کر دیئے ہیں ٹرمپ کی حکمتِ عملی سعودی عرب کی حد تک کارگر ثابت ہوئی ہے کہ وہ امریکہ میں چھ سو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کامنصوبہ بنارہا ہے جبکہ زیادہ دفاعی سازو سامان خریدنے کے مطالبے پربھارت سے بھی بہتر ردِ عمل آیا ہے جس نے نہ صرف امریکی موٹر سائیکلوں اور کاروں ہارلے،ڈیوڈسن ،ٹیسلا اورایپل سمارٹ فون پر محصولات کم کیے ہیں جس سے امریکی کمپنیوں کوفروغ ملے گابلکہ مالی سال 2025-26 کے بجٹ میں 6.

81ٹریلین روپے کے دفاعی اخراجات، جو گزشتہ مالی سال سے زیادہ ہیں سے ظاہرہوتاہے کہ وہ ٹرمپ کی ہدایت پراگلے سالانہ میزانیے میں ہتھیاروں کی بڑے پیمانے پر خریداری کے لیے اٹھارہ کھرب کی خطیر رقم وقف کرنے کے منصوبے کو حتمی شکل دے رہاہے مگر یہ رقم چین ،کینیڈا اور میکسیکو سے تجارت کاہرگز نعم البدل نہیں بھارت جیسی ایک منڈی میں تینوں ممالک کے مساوی مال کی کھپت نا ممکن ہے اسی بناپر قیافہ ہے کہ صدرٹرمپ کے حکم ناموں سے توقع کے مطابق نتائج ملنا مشکل ہے ۔

کینیڈاہمسایہ ہونے کے ساتھ گزشتہ کئی عشروں سے امریکہ کاقریبی تجارتی شراکت دار ہے جو اپنی کُل برآمدات کا اسی فیصد امریکہ کوبیچتاہے جس کی مالیت 410ارب ہوچکی ہے جبکہ میکسیکو نے گزشتہ برس دنیا کو کُل برآمد کیے سامان کا چوراسی فیصد امریکہ کو فروخت کیا جس کی مالیت 510 ارب ڈالر رہی 2023میں امریکہ نے تریسٹھ فیصد سبزیاں جبکہ پھلوں اور گری دار میوے کا نصف اور ایواکاڈوکی اسی فیصدضرورت میکسیکو سے پوری کی بھلے میکسیکو اور کینیڈا کے حق میں تجارتی توازن رہا لیکن امریکی شہریوں کو اشیا سستے داموں میسر رہیں جس کی وجہ سے ملک میں سیاسی استحکام دیکھنے میں آیا 920ارب ڈالر کی برآمدات کے باوجودیہ دونوں ممالک امریکی زرعی وصنعتی اشیا کے بڑے خریدار ہیں ہمسایہ ممالک سمیت چین جیسے دنیا کے سب سے بڑے تجارت کنندہ پر محصولات کے ذریعے امریکہ نے دبائو بڑھایا ہے لیکن جواب میں محصولات لگنے سے امریکہ میں مہنگائی بڑھے گی جو نہ صرف سیاسی عدمِ استحکام کوجنم دے گی بلکہ عالمی سطح پر معاشی وسیاسی نقصان بھی یقینی ہے۔ دوسری طرف چین وہ دنیا کے تنازعات میں براہ راست ملوث ہونے سے گریز کرتا ہے مصنوعی زہانت میں امریکی بالادستی کوہزیمت دے چکا ہے ایران اور سعودی عرب میں تعلقات کی بحالی کے کردارسے مشرقِ وسطیٰ کابھی ایک اہم فریق بن چکا اِس لیے امریکی منڈی کا متبادل اُس کے لیے کوئی مشکل نہیں اِس بناپر کہا جا سکتا ہے کہ امریکہ کی طرف سے چھیڑی گئی تجارتی جنگ سے چین توشاید متاثرنہ ہوبلکہ عین ممکن ہے ٹرمپ محصولات سے دنیا میں ایک بار پھر سرد جنگ کا ماحول تو بن جائے لیکن امریکی بالادستی کا خواب مکمل نہ ہو سکے۔

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: پر محصولات سے امریکہ ہیں ا س کے لیے کی طرف

پڑھیں:

امریکہ کی ایماء پر غزہ شہر پر اسرائیل کے زمینی حملے کا آغاز

امریکی صدر کی جانب سے ایک بار پھر غزہ پر صیہونی فوجی جارحیت کی حمایت کے بعد صیہونی فوج نے غزہ شہر پر حملے شدید کر دیے ہیں اور کل رات شدید فضائی حملوں کے بعد آج زمینی پیش قدمی کا آغاز کر دیا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی پر مبنی جنگ کو شروع ہوئے 711 دن ہو چکے ہیں اور کل رات سے غاصب صیہونی فوج نے غزہ شہر پر شدید ترین بمباری کی ہے جبکہ آج سے زمینی حملے اور پیش قدمی کی خبریں آ رہی ہیں۔ غزہ شہر پر صیہونی فوج کے حملوں میں شدت ایسے وقت آئی ہے جب امریکہ کے وزیر خارجہ مارک روبیو مقبوضہ فلسطین کے دورے پر ہے۔ کل رات کی شدید بمباری میں صبح تک دسیوں فلسطینی شہید ہو جانے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ یہ حملے پوری طرح امریکہ کی حمایت سے کیے جا رہے ہیں۔ صیہونی جنگی طیاروں، ہیلی کاپٹرز اور توپ خانے نے غزہ شہر کے کئی حصوں جیسے الدرج محلے میں واقع الزہرا اسکول اور رہائشی عمارتوں، النصیرات مہاجر کیمپ کے شمالی حصے، شہر کے مرکز میں شیخ رضوان محلے، مغرب میں الشاطی مہاجر کیمپ، جنوب میں تل الہوا، دیر البلح شہر میں السوق روڈ اور غزہ شہر کے شمال میں الامن العام علاقے میں رہائشی عمارات، البریج مہاجر کیمپ اور کئی دیگر علاقوں کو نشانہ بنایا ہے۔ غزہ شہر کے الشوای چوک سے ملبے کے نیچے سے دو بچوں کی لاشیں نکالی گئی ہیں جبکہ 30 افراد اب تک ملبے نیچے دبے ہوئے ہیں۔
 
اسی طرح غزہ شہر کے جنوب میں الخضریہ محلے میں 4 فلسطینی شہید ہوئے ہیں۔ غزہ شہر کے شمال میں الامن العام محلے میں ملبے کے نیچے سے 8 فلسطینیوں کی لاشیں نکالی گئی ہیں جبکہ 40 فلسطینی اب بھی ملبے کے نیچے دبے ہوئے ہیں۔ عوامی محاذ برائے آزادی فلسطین نے اپنے بیانیے میں صیہونی وزیر جنگ یسرائیل کاتس کے گستاخانہ بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: "غزہ کا شہر امریکہ کے دیے گئے میزائلوں کی وجہ سے آگ میں جل رہا ہے لیکن ہماری عوام استقامت اور مزاحمت کے ذریعے دشمن کے اوہام کو جلا کر راکھ کر دے گی۔" یاد رہے صیہونی رژیم کے وزیر جنگ نے غزہ شہر پر شدید فضائی حملوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے تمسخر آمیز لہجے میں کہا تھا کہ "غزہ آگ میں جل رہا ہے۔" اخبار ایگسیوس نے صیہونی حکام کے بقول دعوی کیا ہے کہ صیہونی فوج پیر کے دن غزہ شہر پر فوجی قبضہ جمانے کے لیے زمینی حملے کا آغاز کر دے گی۔ اس اخبار نے مزید لکھا تھا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ شہر پر زمینی کاروائی کی مکمل حمایت کا اعلان کیا ہے۔
 
اس امریکی اخبار کے بقول امریکی وزیر خارجہ مارک روبیو نے صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کو بتایا ہے کہ ٹرمپ حکومت غزہ پر زمینی حملے کی حمایت کرتی ہے اور تاکید کی ہے کہ صیہونی فوج کم ترین وقت میں غزہ شہر پر قبضہ مکمل کرے۔ اخبار ایگسیوس نے اسی طرح ایک اعلی سطحی اسرائیلی حکومتی عہدیدار کے بقول فاش کیا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ مارک روبیو نے اسرائیلی حکام سے غزہ پر زمینی حملہ روک دینے کی درخواست نہیں کی ہے۔ ایک امریکی حکومتی عہدیدار نے اخبار ایگسیوس کو بتایا تھا کہ: "ٹرمپ حکومت اسرائیل کو نہیں روکے گی اور اسے غزہ جنگ سے متعلق اپنے فیصلوں پر عملدرآمد کی اجازت دے گی۔" ایگسیوس نے ایک امریکی حکومتی عہدیدار کے بقول لکھا: "غزہ کی جنگ ٹرمپ کی جنگ نہیں ہے بلکہ نیتن یاہو کی جنگ ہے اور مستقبل میں جو کچھ بھی ہو گا اس کی ذمہ داری نیتن یاہو پر ہو گی۔"

متعلقہ مضامین

  • ٹرمپ کا دورۂ لندن؛ برطانیہ اور امریکا کا کاروباری شعبوں میں تعاون جاری رکھنے پر اتفاق
  • چین اور امریکہ کے اقتصادی اور تجارتی مذاکرات کے نتائج مشکل سے حاصل ہوئے ہیں، چینی میڈیا
  • ترکی کا اسرائیلی سے تجارتی بندھن
  • بھارت اور امریکا کے درمیان تجارتی مذاکرات کا پہلا مرحلہ ناکام
  • اسامہ بن لادن امریکی پروڈکٹ تھا، خواجہ آصف
  • بھارت اور امریکا کے درمیان تجارت کے حوالے سے اہم مذاکرات ناکام
  • امریکہ کی ایماء پر غزہ شہر پر اسرائیل کے زمینی حملے کا آغاز
  • دوحہ پر حملے سے 50 منٹ پہلے صدر ٹرمپ کو خبر تھی، امریکی میڈیا کا دھماکہ خیز انکشاف
  • عرب جذبے کے انتظار میں
  • یورپ میں امریکا چین تجارتی ملاقات بہت کامیاب رہی، ڈونلڈ ٹرمپ