Islam Times:
2025-09-19@01:44:04 GMT

ٹرمپ چاہے، غزہ کی بندر بانٹ

اشاعت کی تاریخ: 5th, February 2025 GMT

ٹرمپ چاہے، غزہ کی بندر بانٹ

اسلام ٹائمز: ٹرمپ کے اس اعلان پر یہ لطیفہ یاد آیا، پاگل خانہ میں ایک سینیئر پاگل، پاگلوں کے ایک گروپ سے خطاب کرکے کہہ رہا تھا کہ میں نے سارا پاکستان خرید لیا ہے۔ سب پاگل واہ واہ کر رہے تھے، ہر کوئی اس چکر میں تھا کہ اسکی خوشامد کرکے اپنے لیے کچھ حاصل کر لے۔ دور بیٹھا ایک پاگل زور زور سے ہنسنے لگا۔ ان پاگلوں نے پوچھا تم کیوں ہنس رہے ہو۔؟ اس نے کہا میں نے پاکستان بیچا ہی نہیں ہے، اس نے کہاں سے خرید لیا۔؟ یہ سن کر ان پاگلوں کو کافی مایوسی ہوئی کہ انکی خوشامد فضول میں گئی۔ آج ڈونلڈ ٹرمپ اور اسکی ہاں میں ہاں ملانے والے اسرائیلی وزیراعظم کی حیثیت بھی ایسی ہی ہے۔ ایک ملک خرید رہا ہے اور دوسرا خریدنے پر چاپلوسی کر رہا ہے۔ تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

ایک بار دو کووّں کو ایک روٹی مل گئی اور اس کی تقسیم میں ان میں جھگڑا ہونے لگا۔ وہ دونوں ایک بندر کے پاس روٹی کی تقسیم کے لئے گئے۔ بندر نے روٹی کے دو ٹکڑے کئے، لیکن ایک کوّے نے کہا کہ اُس کا ٹکڑا دوسرے کے ٹکڑے سے چھوٹا تھا۔ اس پر بندر نے دوسرے ٹکڑے سے ایک نوالہ کاٹ کر کھا لیا۔ لیکن ایسا کرنے سے اب وہ ٹکڑا پہلے ٹکڑے سے چھوٹا ہوگیا۔ کوّوں نے پھر شکایت کی تو بندر نے پھر بڑے ٹکڑے میں سے ایک نوالہ کتر کر کھا لیا، جس سے پہلا ٹکڑا چھوٹا ہوگیا۔ کوّے شکایت کرتے رہے اور بندر روٹی کھاتا رہا، یہاں تک کہ آخر میں بندر کے پاس روٹی کا نہایت چھوٹا سا ٹکڑا رہ گیا۔ اس نے کہا کہ ’’اب یہ تو اتنا چھوٹا ہوگیا ہے کہ اس کے دو ٹکڑے ہو ہی نہیں سکتے۔‘‘ یہ کہہ کر اُس نے وہ آخری ٹکڑا بھی منہ میں رکھ لیا اور کوّے ایک دوسرے کا منہ دیکھتے رہ گئے۔ یوں روٹی کی بندر بانٹ مکمل ہوگئی۔

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں نے یہ کہانی کیوں سنائی تو جناب امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیلی وزیراعظم کے ساتھ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ غزہ پر "قبضہ" کرکے اس کی تعمیرِ نو کرسکتا ہے۔ منگل کے روز اسرائیل کے وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو سے ملاقات کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے امریکی صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ وہ غزہ پر طویل مدتی قبضے کی سوچ رکھتے ہیں، جس کی قیادت امریکہ کرے گا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ غزہ کی پٹی کا انتظام سنبھال کر "اس پر حقیقی معنوں میں کام" کرسکتا ہے، جیسے کہ ایسے بموں کو ہٹانا جو پھٹے نہیں ہیں، غزہ کی تعمیر نو اور اس کی معیشت کو دوبارہ متحرک کرنا۔ امریکی صدر نے بنا کسی ثبوت کے دعویٰ کیا کہ فلسطینی صرف اسی لیے غزہ واپس جانا چاہتے ہیں، کیونکہ ان کے پاس کوئی اور آپشن نہیں ہے۔

انھوں نے غزہ کو کسی تباہ شدہ علاقے سے تشبیہ دی۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم پہلے جیسے حالات کی طرف واپس نہیں جا سکتے، ورنہ تاریخ اپنے آپ کو دہرائے گی۔ جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا وہ ایک خود مختار علاقے کا انتظام سنبھالنے کی بات کر رہے ہیں تو صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ وہ غزہ پر طویل مدتی قبضے کی سوچ رکھتے ہیں، جس کی قیادت امریکہ کرے گا۔ سبحان اللہ، کیا عالی شان انصاف فرمایا ہے۔ اصل میں امریکہ کی موجودہ قیادت اور فیصلہ کرنے والے انہی کی اولادیں ہیں، جنہوں نے امریکہ کے اصل باشندوں کا قتل عام کرکے اس ساری زمین پر قبضہ کر لیا۔ ٹرمپ اور امریکی قیادت کی غزہ کے بارے میں بھی یہی رائے ہے۔ یہ لوگ غزہ کی زمین میں دلچسپی رکھتے ہیں، انہیں وہاں کی عوام سے کسی قسم کی دلچسپی نہیں ہے۔ یہ لوگ کسی صورت میں فلسطینیوں کو زندگی کا حق دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

ٹرمپ اور دوسرے لوگوں میں یہ فرق ہے کہ یہ اپنے خیالات کا اظہار کر دیتا ہے اور انہیں چھپاتا نہیں ہے، ورنہ اسّی سال سے امریکہ کی ریاستی پالیسی یہی رہی ہے۔ ٹرمپ کو معلوم ہونا چاہیئے کہ امریکہ کو یہاں تاریخ کی شدید ترین مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ شام کو ترکی اور چند ایجنٹوں کے ذریعے کنٹرول کرنے کی پالیسی زیادہ دیر نہیں چلے گی۔ ٹرمپ کے اس اعلان پر یہ لطیفہ یاد آیا، پاگل خانہ میں ایک سینیئر پاگل، پاگلوں کے ایک گروپ سے خطاب کرکے کہہ رہا تھا کہ میں نے سارا پاکستان خرید لیا ہے۔ سب پاگل واہ واہ کر رہے تھے، ہر کوئی اس چکر میں تھا کہ اس کی خوشامد کرکے اپنے لیے کچھ حاصل کر لے۔ دور بیٹھا ایک پاگل زور زور سے ہنسنے لگا۔ ان پاگلوں نے پوچھا تم کیوں ہنس رہے ہو۔؟ اس نے کہا میں نے پاکستان بیچا ہی نہیں ہے، اس نے کہاں سے خرید لیا۔؟ یہ سن کر ان پاگلوں کو کافی مایوسی ہوئی کہ ان کی خوشامد فضول میں گئی۔

آج ڈونلڈ ٹرمپ اور اس کی ہاں میں ہاں ملانے والے اسرائیلی وزیراعظم کی حیثیت بھی ایسی ہی ہے۔ ایک ملک خرید رہا ہے اور دوسرا خریدنے پر چاپلوسی کر رہا ہے۔ دنیا کو بھی ٹرمپ کی یہ بات کسی صورت قبول نہیں ہے۔ جرمن چانسلر اولاف شولر نے ٹرمپ کے غزہ کے فلسطینیوں کو اردن اور مصر سمیت عرب ممالک میں منتقل کرنے سے متعلقہ بیان کے بارے میں کہا ہے کہ "کسی بھی قسم کی نو آبادیاتی  منصوبہ بندیاں یا پھر غزہ کے لوگوں کو مصر یا اردن میں منتقل کرنے کا خیال ناقابل قبول ہے۔" پانچ عرب وزرائے خارجہ اور ایک سینیئر فلسطینی عہدیدار نے امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کو ایک مشترکہ خط بھیجا ہے، جس میں فلسطینیوں کو غزہ سے بے دخل کرنے کے منصوبے کی مخالفت کی گئی ہے۔ یہ خط پیر کے روز بھیجا گیا اور اس پر اردن، مصر، سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات کے وزرائے خارجہ کے دستخط تھے، جبکہ فلسطینی صدارتی مشیر حسین الشیخ نے بھی اس پر دستخط کیے ہیں۔ خط لکھنے والوں عربوں سے کہوں گا، کیا خوب دانش پائی ہے۔ آپ کے متعلق حضرت میر صدیوں پہلے کہہ گئے ہیں:
میرؔ کیا سادے ہیں، بیمار ہوئے جس کے سبب​
اُسی عطّار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں​

تمہیں علم ہونا چاہیئے کہ تمہاری کوئی حیثیت نہیں ہے، تم اپنی تنخواہ بڑھانے کے لیے یا پرانی تنخواہ میں کٹوتی سے بچنے کے لیے ایک بار پھر فلسطینیوں کے خون کا سودا کرنا چاہتے ہو۔ فلسطینی خود موجود ہیں اور خود بات کریں گے۔ زمین کے اصل وارث موجود ہیں، جنہوں نے اپنے سینے پر گولیاں کھا کر فلسطین کا دفاع کیا ہے۔ امریکہ اور اسرائیل کے نزدیک تمہاری اتنی حیثیت بھی نہیں ہے کہ تمہاری بات سنی جائے۔ ٹرمپ کے اقدامات بتا رہے ہیں کہ دنیا میں کوئی بین الاقوامی قانون نہیں ہے اور دنیا میں کوئی انسانی حقوق نہیں ہیں۔ دنیا میں صرف ایک ہی قانون ہے اور وہ طاقت کا قانون ہے۔ ویسے آج ہی امریکہ کے صدر نے صدارتی حکم جاری کیا ہے کہ امریکہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل سے نکل گیا ہے۔ نام نہاد عرب ممالک کے لیے بھی سبق ہے کہ اپنے شیر نہ مارو اور اپنے دوستوں کو پہچانو، اگر ایسا نہیں کرو گے تو مزید ذلیل ہوتے رہو گے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: ڈونلڈ ٹرمپ کہ امریکہ کی خوشامد اس نے کہا خرید لیا ٹرمپ اور نہیں ہے ٹرمپ کے اور اس کے لیے بات کر تھا کہ غزہ کی کہا کہ ہے اور رہا ہے

پڑھیں:

امریکہ کو "انسانی حقوق" پر تبصرہ کرنیکا کو حق نہیں، ایران

امریکہ کی مداخلت پسندانہ و فریبکارانہ پالیسیوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے ایرانی وزارت خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ انتہاء پسند امریکی حکومت کو انسانی حقوق کے بلند و بالا تصورات پر تبصرہ کرنیکا کوئی حق حاصل نہیں جبکہ کوئی بھی سمجھدار و محب وطن ایرانی، ایسی کسی بھی حکومت کے "دوستی و ہمدردی" پر مبنی بے بنیاد دعووں پر کبھی یقین نہیں کرتا کہ جو ایران کے اندرونی معاملات میں کھلی مداخلت اور ایرانی عوام کیخلاف گھناؤنے جرائم کی ایک طویل تاریخ رکھتا ہو! اسلام ٹائمز۔ ایرانی وزارت خارجہ نے ملک میں بڑھتی امریکی مداخلت کے خلاف جاری ہونے والے اپنے مذمتی بیان میں انسانی حقوق کی تذلیل کے حوالے سے امریکہ کے طویل سیاہ ریکارڈ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ امریکی حکومت کو انسانی حقوق کے اعلی و ارفع تصورات کے بارے تبصرہ کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں۔ اس حوالے سے جاری ہونے والے اپنے بیان میں تہران نے تاکید کی کہ ایرانی وزارت خارجہ، (16) ستمبر 2022ء کے "ہنگاموں" کی برسی کے بہانے جاری ہونے والے منافقت، فریبکاری اور بے حیائی پر مبنی امریکی بیان کو ایران کے اندرونی معاملات میں امریکہ کی جارحانہ و مجرمانہ مداخلت کی واضح مثال گردانتے ہوئے اس کی شدید الفاظ میں مذمت کرتا ہے۔ 

ایرانی وزارت خارجہ نے کہا کہ کوئی بھی سمجھدار اور محب وطن ایرانی، ایسی کسی بھی حکومت کے "دوستی و ہمدردی" پر مبنی بے بنیاد دعووں پر کسی صورت یقین نہیں کر سکتا کہ جس کی پوری سیاہ تاریخ؛ ایرانی اندرونی معاملات میں کھلی مداخلت اور ایرانی عوام کے خلاف؛ 19 اگست 1953 کی شرمناک بغاوت سے لے کر 1980 تا 1988 تک جاری رہنے والی صدام حسین کی جانب نسے مسلط کردہ جنگ.. و ایرانی سپوتوں کے خلاف کیمیکل ہتھیاروں کے بے دریغ استعمال اور 1988 میں ایرانی مسافر بردار طیارے کو مار گرانے سے لے کر ایرانی عوام کے خلاف ظالمانہ پابندیاں عائد کرنے اور ایرانی جوہری تنصیبات پر حملے میں غاصب صیہونی رژیم کے ساتھ ملی بھگت.. نیز گذشتہ جون میں انجام پانے والے مجرمانہ حملوں کے دوران ایرانی سائنسدانوں، اعلی فوجی افسروں، نہتی ایرانی خواتین اور کمسن ایرانی بچوں کے قتل عام تک.. کے گھناؤنے جرائم سے بھری پڑی ہو!!

اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ غیور ایرانی قوم، اپنے خلاف امریکہ کے کھلے جرائم اور سرعام مداخلتوں کو کبھی نہ بھولیں گے، ایرانی وزارت خارجہ نے کہا کہ امریکہ؛ نسل کشی کی مرتکب ہونے والی اُس غاصب صیہونی رژیم کا سب سے بڑا حامی ہونے کے ناطے کہ جس نے صرف 2 سال سے بھی کم عرصے میں 65 ہزار سے زائد بے گناہ فلسطینی شہریوں کو قتل عام کا نشانہ بنایا ہے کہ جن میں زیادہ تر خواتین و بچے شامل ہیں، اور ایک ایسی انتہاء پسند حکومت ہونے کے ناطے کہ جس کی نسل پرستی و نسلی امتیاز، حکمرانی و سیاسی ثقافت سے متعلق اس کی پوری تاریخ کا "اصلی جزو" رہے ہیں؛ انسانی حقوق کے اعلی و ارفع تصورات پر ذرہ برابر تبصرہ کرنے کا حق نہیں رکھتا!

تہران نے اپنے بیان میں مزید تاکید کی کہ ایران کے باخبر و با بصیرت عوام؛ انسانی حقوق پر مبنی امریکی سیاستدانوں کے بے بنیاد دعووں کو دنیا بھر کے کونے کونے بالخصوص مغربی ایشیائی خطے میں فریبکاری پر مبنی ان کے مجرمانہ اقدامات کی روشنی میں پرکھیں گے اور ملک عزیز کے خلاف جاری امریکی حکمراں ادارے کے وحشیانہ جرائم و غیر قانونی مداخلتوں کو کبھی فراموش یا معاف نہیں کریں گے!!

متعلقہ مضامین

  • حکومت! فوج کو عوام کے سامنے نہ کھڑا کرے، حزب‌ الله لبنان
  • غزہ میں کسی معاہدے کا امکان نہیں، کارروائی میں توسیع کریں گے: اسرائیل نے امریکہ کو بتا دیا
  • امریکہ کی طرف جھکاؤ پاکستان کو چین جیسے دوست سے محروم کر دے گا،علامہ جواد نقوی
  • اسامہ بن لادن امریکی پروڈکٹ تھا، خواجہ آصف
  • امریکہ اور برطانیہ کی بحیرہ احمر میں موجودگی کا کوئی جواز نہیں، یمن
  • امریکہ کو "انسانی حقوق" پر تبصرہ کرنیکا کو حق نہیں، ایران
  • قطرمیں اسرائیلی حملہ امریکہ کی مرضی سے ہوا،خواجہ آصف
  • فیفا کا بڑا اعلان: 2026 ورلڈ کپ میں کلبز کو 99 ارب روپے ملیں گے
  • پاکستان جوہری طاقت ہے، خودمختاری پر حملہ ہوا تو ہر قیمت پر دفاع کریں گے، چاہے کوئی بھی ملک ہو، اسحاق ڈار
  • امریکی انخلا ایک دھوکہ