ٹرمپ چاہے، غزہ کی بندر بانٹ
اشاعت کی تاریخ: 5th, February 2025 GMT
اسلام ٹائمز: ٹرمپ کے اس اعلان پر یہ لطیفہ یاد آیا، پاگل خانہ میں ایک سینیئر پاگل، پاگلوں کے ایک گروپ سے خطاب کرکے کہہ رہا تھا کہ میں نے سارا پاکستان خرید لیا ہے۔ سب پاگل واہ واہ کر رہے تھے، ہر کوئی اس چکر میں تھا کہ اسکی خوشامد کرکے اپنے لیے کچھ حاصل کر لے۔ دور بیٹھا ایک پاگل زور زور سے ہنسنے لگا۔ ان پاگلوں نے پوچھا تم کیوں ہنس رہے ہو۔؟ اس نے کہا میں نے پاکستان بیچا ہی نہیں ہے، اس نے کہاں سے خرید لیا۔؟ یہ سن کر ان پاگلوں کو کافی مایوسی ہوئی کہ انکی خوشامد فضول میں گئی۔ آج ڈونلڈ ٹرمپ اور اسکی ہاں میں ہاں ملانے والے اسرائیلی وزیراعظم کی حیثیت بھی ایسی ہی ہے۔ ایک ملک خرید رہا ہے اور دوسرا خریدنے پر چاپلوسی کر رہا ہے۔ تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس
ایک بار دو کووّں کو ایک روٹی مل گئی اور اس کی تقسیم میں ان میں جھگڑا ہونے لگا۔ وہ دونوں ایک بندر کے پاس روٹی کی تقسیم کے لئے گئے۔ بندر نے روٹی کے دو ٹکڑے کئے، لیکن ایک کوّے نے کہا کہ اُس کا ٹکڑا دوسرے کے ٹکڑے سے چھوٹا تھا۔ اس پر بندر نے دوسرے ٹکڑے سے ایک نوالہ کاٹ کر کھا لیا۔ لیکن ایسا کرنے سے اب وہ ٹکڑا پہلے ٹکڑے سے چھوٹا ہوگیا۔ کوّوں نے پھر شکایت کی تو بندر نے پھر بڑے ٹکڑے میں سے ایک نوالہ کتر کر کھا لیا، جس سے پہلا ٹکڑا چھوٹا ہوگیا۔ کوّے شکایت کرتے رہے اور بندر روٹی کھاتا رہا، یہاں تک کہ آخر میں بندر کے پاس روٹی کا نہایت چھوٹا سا ٹکڑا رہ گیا۔ اس نے کہا کہ ’’اب یہ تو اتنا چھوٹا ہوگیا ہے کہ اس کے دو ٹکڑے ہو ہی نہیں سکتے۔‘‘ یہ کہہ کر اُس نے وہ آخری ٹکڑا بھی منہ میں رکھ لیا اور کوّے ایک دوسرے کا منہ دیکھتے رہ گئے۔ یوں روٹی کی بندر بانٹ مکمل ہوگئی۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں نے یہ کہانی کیوں سنائی تو جناب امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیلی وزیراعظم کے ساتھ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ غزہ پر "قبضہ" کرکے اس کی تعمیرِ نو کرسکتا ہے۔ منگل کے روز اسرائیل کے وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو سے ملاقات کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے امریکی صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ وہ غزہ پر طویل مدتی قبضے کی سوچ رکھتے ہیں، جس کی قیادت امریکہ کرے گا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ غزہ کی پٹی کا انتظام سنبھال کر "اس پر حقیقی معنوں میں کام" کرسکتا ہے، جیسے کہ ایسے بموں کو ہٹانا جو پھٹے نہیں ہیں، غزہ کی تعمیر نو اور اس کی معیشت کو دوبارہ متحرک کرنا۔ امریکی صدر نے بنا کسی ثبوت کے دعویٰ کیا کہ فلسطینی صرف اسی لیے غزہ واپس جانا چاہتے ہیں، کیونکہ ان کے پاس کوئی اور آپشن نہیں ہے۔
انھوں نے غزہ کو کسی تباہ شدہ علاقے سے تشبیہ دی۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم پہلے جیسے حالات کی طرف واپس نہیں جا سکتے، ورنہ تاریخ اپنے آپ کو دہرائے گی۔ جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا وہ ایک خود مختار علاقے کا انتظام سنبھالنے کی بات کر رہے ہیں تو صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ وہ غزہ پر طویل مدتی قبضے کی سوچ رکھتے ہیں، جس کی قیادت امریکہ کرے گا۔ سبحان اللہ، کیا عالی شان انصاف فرمایا ہے۔ اصل میں امریکہ کی موجودہ قیادت اور فیصلہ کرنے والے انہی کی اولادیں ہیں، جنہوں نے امریکہ کے اصل باشندوں کا قتل عام کرکے اس ساری زمین پر قبضہ کر لیا۔ ٹرمپ اور امریکی قیادت کی غزہ کے بارے میں بھی یہی رائے ہے۔ یہ لوگ غزہ کی زمین میں دلچسپی رکھتے ہیں، انہیں وہاں کی عوام سے کسی قسم کی دلچسپی نہیں ہے۔ یہ لوگ کسی صورت میں فلسطینیوں کو زندگی کا حق دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
ٹرمپ اور دوسرے لوگوں میں یہ فرق ہے کہ یہ اپنے خیالات کا اظہار کر دیتا ہے اور انہیں چھپاتا نہیں ہے، ورنہ اسّی سال سے امریکہ کی ریاستی پالیسی یہی رہی ہے۔ ٹرمپ کو معلوم ہونا چاہیئے کہ امریکہ کو یہاں تاریخ کی شدید ترین مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ شام کو ترکی اور چند ایجنٹوں کے ذریعے کنٹرول کرنے کی پالیسی زیادہ دیر نہیں چلے گی۔ ٹرمپ کے اس اعلان پر یہ لطیفہ یاد آیا، پاگل خانہ میں ایک سینیئر پاگل، پاگلوں کے ایک گروپ سے خطاب کرکے کہہ رہا تھا کہ میں نے سارا پاکستان خرید لیا ہے۔ سب پاگل واہ واہ کر رہے تھے، ہر کوئی اس چکر میں تھا کہ اس کی خوشامد کرکے اپنے لیے کچھ حاصل کر لے۔ دور بیٹھا ایک پاگل زور زور سے ہنسنے لگا۔ ان پاگلوں نے پوچھا تم کیوں ہنس رہے ہو۔؟ اس نے کہا میں نے پاکستان بیچا ہی نہیں ہے، اس نے کہاں سے خرید لیا۔؟ یہ سن کر ان پاگلوں کو کافی مایوسی ہوئی کہ ان کی خوشامد فضول میں گئی۔
آج ڈونلڈ ٹرمپ اور اس کی ہاں میں ہاں ملانے والے اسرائیلی وزیراعظم کی حیثیت بھی ایسی ہی ہے۔ ایک ملک خرید رہا ہے اور دوسرا خریدنے پر چاپلوسی کر رہا ہے۔ دنیا کو بھی ٹرمپ کی یہ بات کسی صورت قبول نہیں ہے۔ جرمن چانسلر اولاف شولر نے ٹرمپ کے غزہ کے فلسطینیوں کو اردن اور مصر سمیت عرب ممالک میں منتقل کرنے سے متعلقہ بیان کے بارے میں کہا ہے کہ "کسی بھی قسم کی نو آبادیاتی منصوبہ بندیاں یا پھر غزہ کے لوگوں کو مصر یا اردن میں منتقل کرنے کا خیال ناقابل قبول ہے۔" پانچ عرب وزرائے خارجہ اور ایک سینیئر فلسطینی عہدیدار نے امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کو ایک مشترکہ خط بھیجا ہے، جس میں فلسطینیوں کو غزہ سے بے دخل کرنے کے منصوبے کی مخالفت کی گئی ہے۔ یہ خط پیر کے روز بھیجا گیا اور اس پر اردن، مصر، سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات کے وزرائے خارجہ کے دستخط تھے، جبکہ فلسطینی صدارتی مشیر حسین الشیخ نے بھی اس پر دستخط کیے ہیں۔ خط لکھنے والوں عربوں سے کہوں گا، کیا خوب دانش پائی ہے۔ آپ کے متعلق حضرت میر صدیوں پہلے کہہ گئے ہیں:
میرؔ کیا سادے ہیں، بیمار ہوئے جس کے سبب
اُسی عطّار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
تمہیں علم ہونا چاہیئے کہ تمہاری کوئی حیثیت نہیں ہے، تم اپنی تنخواہ بڑھانے کے لیے یا پرانی تنخواہ میں کٹوتی سے بچنے کے لیے ایک بار پھر فلسطینیوں کے خون کا سودا کرنا چاہتے ہو۔ فلسطینی خود موجود ہیں اور خود بات کریں گے۔ زمین کے اصل وارث موجود ہیں، جنہوں نے اپنے سینے پر گولیاں کھا کر فلسطین کا دفاع کیا ہے۔ امریکہ اور اسرائیل کے نزدیک تمہاری اتنی حیثیت بھی نہیں ہے کہ تمہاری بات سنی جائے۔ ٹرمپ کے اقدامات بتا رہے ہیں کہ دنیا میں کوئی بین الاقوامی قانون نہیں ہے اور دنیا میں کوئی انسانی حقوق نہیں ہیں۔ دنیا میں صرف ایک ہی قانون ہے اور وہ طاقت کا قانون ہے۔ ویسے آج ہی امریکہ کے صدر نے صدارتی حکم جاری کیا ہے کہ امریکہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل سے نکل گیا ہے۔ نام نہاد عرب ممالک کے لیے بھی سبق ہے کہ اپنے شیر نہ مارو اور اپنے دوستوں کو پہچانو، اگر ایسا نہیں کرو گے تو مزید ذلیل ہوتے رہو گے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ڈونلڈ ٹرمپ کہ امریکہ کی خوشامد اس نے کہا خرید لیا ٹرمپ اور نہیں ہے ٹرمپ کے اور اس کے لیے بات کر تھا کہ غزہ کی کہا کہ ہے اور رہا ہے
پڑھیں:
وائس آف امریکا کی بحالی کا عدالتی حکم، ٹرمپ انتظامیہ کا اقدام ’من مانا اور غیر آئینی‘ قرار
امریکا کی وفاقی عدالت نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈر کے تحت وائس آف امریکا (VOA) اور اس کی ماتحت ایجنسیوں کی بندش کو غیر آئینی اور غیر سنجیدہ قرار دیتے ہوئے ادارے کے سینکڑوں معطل صحافیوں کو فوری طور پر بحال کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔
امریکی خبر رساں ادارے واشنگٹن پوسٹ کے مطابق ڈی سی کی ضلعی عدالت کے جج رائس لیمبرتھ نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ حکومت نے یو ایس ایجنسی فار گلوبل میڈیا (USAGM) جو وائس آف امریکا سمیت کئی بین الاقوامی نشریاتی اداروں کو چلاتی ہے، کو بند کرتے وقت کوئی ’معقول تجزیہ یا جواز‘ پیش نہیں کیا۔ یہ حکومتی اقدام من مانا، غیر شفاف اور آئینی حدود سے متجاوز ہے۔
واضح رہے کہ صدر ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈر کے بعد VOA کے قریباً 1,200 ملازمین کو بغیر کسی وضاحت کے انتظامی رخصت پر بھیج دیا گیا تھا، جن میں قریباً ایک ہزار صحافی شامل تھے۔ اس اقدام کے نتیجے میں ادارہ اپنی 80 سالہ تاریخ میں پہلی بار مکمل طور پر خاموش ہوگیا تھا۔
مزید پڑھیں: ڈونلڈ ٹرمپ نے وائس آف امریکا (VOA) کے ملازمین کو تنخواہ کے ساتھ چھٹی پر کیوں بھیجا؟
VOA کی ڈائریکٹر مائیکل ابرامووٹز اور وائٹ ہاؤس بیورو چیف پیٹسی وڈاکوسوارا نے دیگر متاثرہ ملازمین کے ساتھ مل کر عدالت سے رجوع کیا تھا۔ جج نے حکم دیا ہے کہ نہ صرف ان ملازمین کو بحال کیا جائے، بلکہ Radio Free Asia اور Middle East Broadcasting Networks کے فنڈز بھی بحال کیے جائیں تاکہ ادارے اپنی قانونی ذمہ داریاں نبھا سکیں۔
وڈاکوسوارا نے عدالتی فیصلے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ صرف ہماری ملازمتوں کا معاملہ نہیں بلکہ آزاد صحافت، آئینی آزادی اور قومی سلامتی کا سوال ہے۔ وائس آف امریکا کی خاموشی عالمی سطح پر معلوماتی خلا پیدا کرتی ہے، جسے ہمارے مخالفین جھوٹ اور پروپیگنڈا سے بھر سکتے ہیں۔ ڈائریکٹر مائیکل ابرامووٹز نے کہا کہ یہ فیصلہ ہماری اس دلیل کی توثیق ہے کہ کسی حکومتی ادارے کو ختم کرنا صرف کانگریس کا اختیار ہے، صدارتی فرمان کے ذریعے نہیں۔
1942 میں نازی پروپیگنڈا کا مقابلہ کرنے کے لیے قائم ہونے والا VOA آج دنیا کے قریباً 50 زبانوں میں 354 ملین سے زائد افراد تک رسائی رکھتا ہے۔ اسے امریکا کی ’سافٹ پاور‘ کا اہم ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ USAGM، جسے پہلے براڈکاسٹنگ بورڈ آف گورنرز کہا جاتا تھا، دیگر اداروں کی بھی مالی مدد کرتا ہے۔ جج نے Radio Free Europe/Radio Liberty کو قانونی پیچیدگیوں کے باعث وقتی ریلیف دینے سے معذرت کی، کیونکہ ان کے گرانٹ کی تجدید تاحال زیر التوا ہے۔
مزید پڑھیں: بی بی سی اور وائس آف امریکا پر پابندی عائد
صدر ٹرمپ نے سابق نیوز اینکر اور گورنر کی امیدوار کیری لیک کو VOA سے وابستہ USAGM میں بطور سینیئر مشیر مقرر کیا تھا۔ لیک نے کہا تھا کہ وہ VOA کو انفارمیشن وار کے ہتھیار کے طور پر استعمال کریں گی، اور اس ادارے کو غیر ضروری اور ناقابل اصلاح قرار دیا تھا۔ تاہم اب عدالتی فیصلے نے حکومتی اقدام کو روک دیا ہے، اور صحافیوں کو اپنی اصل ذمہ داریوں کی طرف لوٹنے کا موقع فراہم کیا ہے۔
امریکی محکمہ انصاف نے تاحال اس فیصلے پر کوئی ردعمل نہیں دیا اور نہ ہی یہ واضح کیا ہے کہ وہ اس کے خلاف اپیل کرے گا یا نہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
VOA بحال ٹرمپ صحافی غیر آئینی وائس آف امریکا