عزہ‘ اسرائیلی جنگی جرائم کی لرزہ خیز تفصیلات
اشاعت کی تاریخ: 5th, February 2025 GMT
فلسطین کے مسلمانوں نے اقصیٰ کی آزادی کے لئے قربانیوں کی جو تاریخ مرتب کی ہے وہ بے مثال بھی ہے اور لازوال بھی، ہمیں شہداء فلسطین پہ فخر بھی ہے اور ان سے پیار بھی ،اللہ ان کی قربانیوں کو اپنی بارگاہ میں قبولیت کا شرف عطا فرمائے آمین۔
فلسطین کے سرکاری میڈیا آفس نے غزہ میں سات اکتوبر 2023 ء کے بعد اب تک 15 ماہ سے جاری نسل کشی کی ہولناک جنگ میں اسرائیلی جنگی جرائم کی لرزہ خیز تفصیلات کا انکشاف کیا ہے۔ سرکاری پریس آفس کا کہنا ہے کہ غزہ کی پٹی پر اسرائیلی جنگ کے نتیجے میں 61,709 سے زائد فلسطینی شہید ہوئے، جن میں سے 47,487 ہسپتالوں میں لائے گئے، جبکہ 14,222 شہداء ملبے تلے یا سڑکوں پر لاپتہ ہیں۔ زخمیوں کی تعداد 111,588 تک پہنچ گئی ہے۔ قابض دشمن کے ہاتھوں گرفتار ہونے والوں کی تعداد 6000 سے تجاوز کر گئی ہے۔ ان گرفتار شدگان کو انتہائی گھنانے تشدد اور بدسلوکی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے درجنوں قیدی شہید ہوچکے ہیں۔ جبری بے گھر ہونے سے 20 لاکھ سے زائد شہری متاثر ہوئے، جن میں سے بعض کو بے سروسامانی کے عالم میں 25 سے زیادہ بار بے گھر کیا گیا۔
سرکاری میڈیا نے غزہ شہر کے الشفا ہسپتال میں ایک پریس کانفرنس کے دوران مزید کہا کہ ’’غزہ کی 8 فیصد آبادی تباہی کی جنگ کا براہ راست شکار ہوئی ہے۔ اس جنگ کی ہولناکی انسانی تاریخ میں کسی بڑی سے بڑی تباہ کن جنگ میں بھی نہیں ملتی۔ قابض دشمن نے خاندانوں کے خلاف 9,268 مرتبہ اجتماعی قتل عام کا ارتکاب کیا۔ 2,092 خاندانوں کو مکمل ختم کردیا گیا اور ان کی نسل ختم کر دی گئی۔ جبکہ قابض دشمن نے 4,889 خاندانوں کو شہید کیا، جن سے صرف ایک فرد زندہ بچا۔ نسل کشی کی اس خوفناک جنگ میں دور حاضر کے فرعون صفت صہیونیوں نے 17,881 بچوں کو تہہ تیغ کیا۔ ان میں 214 شیر خوار بچے بھی شامل تھے جو جارحیت کے دوران پیدا ہوئے اور شہید ہوگئے۔ ان میں 17,000 بچے یتیم ہوگئے یا ماں اور باپ دونوں سے محروم ہو گئے۔ اس دوران قابض فوج نے 12,316 خواتین کو شہید کیا گیا۔
سرکاری میڈیا نے وضاحت کی کہ نسل کشی کے جرم نے انسانی خدمت فراہم کرنے والوں کو بھی نہیں بخشا، کیونکہ قابض فوج کی جارحیت کے نتیجے میں 1,155 طبی اہلکار، 205 صحافی، 194 سول ڈیفنس اہلکار، 736 امدادی کارکن اور 3500 سے زیادہ اہلکار شہید ہوئے۔ نسل کشی کی جنگ، نسلی تطہیر کے جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کا سلسلہ قابض فوج کی سیاسی قیادت کی براہ راست ہدایات اور بائیڈن انتظامیہ کی نگرانی میں جاری رکھے گئے۔ اس جارحیت کے نتیجے میں مختلف شعبوں میں مجموعی طور پر 50 ارب ڈالر سے زیادہ کا براہ راست نقصان پہنچایا۔ نقصانات کے یہ ابتدائی تخمینے ہیں۔ سرکاری میڈیا نے رپورٹ کیا کہ 450,000 ہائوسنگ یونٹس کو نقصان پہنچا۔ ان میں سے 170,000 عمارتیں اور مکانات مکمل طور پر تباہ، 80,000 بری طرح متاثر ہوئے جبکہ 200,000 گھروں کو جزوی طور پر نقصان پہنچا۔ غزہ میں نسل کشی کی جنگ میں گھروں کو پہنچنے والے نقصان کا اندازہ25 بلین ڈالر سے زیادہ ہے۔
طبی شعبے کے بارے میں سرکاری میڈیا نے بتایا کہ قابض فوج نے تباہی، جلا ئوگھیرائو اور تخریب کاری کے ذریعے 34 ہسپتالوں کو خدمات سے محروم کر دیا۔ خاص طور پر الشفا میڈیکل کمپلیکس جس نے غزہ کی پٹی کے تمام رہائشیوں کو صحت کی کم سے کم سطح کی دیکھ بھال سے محروم کر دیا۔ 80مراکز صحت، 212صحت کے اداروں اور 191 ایمبولینسوں کو تباہ کیا گیا۔ طبی شعبے کو پہنچنے والے نقصان کا تخمینہ 3 ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا۔قابض صہیونی دشمن نے تعلیم کے شعبے کو بھی براہ راست نشانہ بنایا۔ 1,661 تعلیمی اداروں کو نقصان پہنچا، جن میں 927اسکول، یونیورسٹیاں، کنڈرگارٹنز اور تعلیمی مراکز شامل ہیں جو مکمل طور پر تباہ ہوئے، 734 تعلیمی مراکز کو جزوی طور پر نقصان پہنچا، جبکہ قابض دشمن کی جارحیت 12،800 طلبا اور 800 کے قریب اساتذہ شہید ہوئے۔ 785,000 طلبا کو مختلف مراحل میں اپنی تعلیم جاری رکھنے سے محروم کر دیا گیا۔ اس طرح تعلیم کے شعبے کو پہنچنے والے نقصانات کی مالیت 2 بلین ڈالر سے زیادہ ہے۔سرکاری اداروں کے حوالے سے سرکاری میڈیا نے رپورٹ کیا کہ قابض فوج نے 216 سرکاری ہیڈکوارٹرز اور تنصیبات کو مکمل طور پر مسمار کر دیا۔ 60 ہیڈ کوارٹرز کو شدید نقصان پہنچا۔ اس شعبے کے نقصانات کا اندازہ ایک ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔
سروس اور انفرا اسٹرکچر کے شعبے میں سرکاری میڈیا نے وضاحت کی کہ قابض فوج نے 3,680 کلومیٹر بجلی کے نیٹ ورکس، 2,105 بجلی کے ٹرانسفارمرز، 350,000 صارفین کے میٹرز، 538 بجلی کے جنریٹرز، 16,266 شمسی توانائی کے منصوبے اور 335 کلومیٹر کے پانی کے نیٹ ورکس، 4116 پلانٹوں اور 4116 ڈیلینس کو نقصان پہنچایا۔ پانی کے 120 ٹینک، 1698 پانی کے کنویں کو مسمار کیا گیا۔ 655 کلومیٹر سیوریج نیٹ ورکس اور 65 ٹریٹمنٹ پلانٹس کو نقصان پہنچا، اس کے علاوہ 3,916 مربع کلومیٹر سڑکوں کے نیٹ ورک کو نقصان پہنچا۔ اس کا نقصان اور نقصان 4 بلین ڈالر سے زیادہ ہے۔معاشی شعبے میں سرکاری میڈیا نے نشاندہی کی کہ بلڈوز اور تباہ شدہ زرعی زمینوں کی کل تعداد 185 ہزار مربع میٹر، 49زرعی گودام، 6000 مویشی، 1000 پولٹری اور پرندوں کے فارم، ہزاروں میٹر آبپاشی کے نیٹ ورک اور 35 فشریز فارم تباہ کیے گئے۔
تباہ شدہ صنعتی تنصیبات کی کل تعداد 3,725 ریکارڈ کی گئی۔ ان میں سے 2,000 مکمل طور پر تباہ ہو گئے تھے، جبکہ تباہ شدہ تجارتی تنصیبات کی کل تعداد 23,000 تک جا پہنچی ہے۔ ان میں سے 12,583 مکمل طور پر تباہ ہو گئے۔ 229سیاحتی مراکز کو نقصان پہنچا، جن میں سے 111 مکمل طور پر تباہ کردیئے گئے۔ 291 آثار قدیمہ اور لوک ورثے کے مقامات کو نقصان پہنچا، جس کے نقصان کا تخمینہ نصف بلین ڈالر ہے۔ سرکاری میڈیا نے بتایا کہ 30,000 سے زائد گاڑیوں اور ذرائع آمد و رفت کو نقصان پہنچا، جن میں 25,000 کاریں، 1,000 ماہی گیری کی کشتیاں اور 1,000میونسپل اور سول ڈیفنس گاڑیاں شامل ہیں، جن کے نقصان کا اندازہ ڈیڑھ ارب ڈالر ہے۔ سرکاری میڈیا نے بتایا کہ مواصلاتی نیٹ ورکس، آلات اور مشینری کو ڈیڑھ ارب ڈالر کا نقصان پہنچا۔ یہ سارے تخمینے ابتدائی ہیں۔ اصل نقصان اس سے کہیں زیادہ ہوسکتا ہے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: ڈالر سے زیادہ ہے مکمل طور پر تباہ سرکاری میڈیا نے کو نقصان پہنچا قابض فوج نے کہ قابض فوج نسل کشی کی بلین ڈالر براہ راست نقصان کا ارب ڈالر نیٹ ورکس کیا گیا کے نیٹ کر دیا
پڑھیں:
پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت اور قابض میئر اہلِ کراچی کے لیے عذاب بنے ہوئے ہیں، حافظ نعیم
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی: امیرِ جماعتِ اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی 17 سال سے سندھ پر حکمران ہے مگر آج بھی کراچی سمیت صوبے بھر کے شہری بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں، صوبائی حکومت اور قابض میئر اہلِ کراچی کے لیے عذاب بنے ہوئے ہیں۔ عوام سے وسائل چھین کر کرپشن اور نااہلی کے ذریعے شہر کو کھنڈر میں بدل دیا گیا ہے۔
گلبرگ ٹاؤن کے تحت فیڈرل بی ایریا بلاک 18 ثمن آباد میں ہیلتھ کیئر یونٹ کے افتتاح اور عزیز آباد بلاک 8 میں شاہراہِ نعمت اللہ خان کے سنگِ بنیاد کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جماعتِ اسلامی بااختیار شہری حکومت کا نظام چاہتی ہے، لاڑکانہ، شکارپور، حیدرآباد یا کراچی ہر شہر کے بلدیاتی اداروں کو وسائل اور اختیار ملنا چاہیے تاکہ عوام کے مسائل مقامی سطح پر حل ہوسکیں۔
حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ کراچی میں ٹرانسپورٹ کا نظام تباہ ہوچکا ہے، 17 سال میں سندھ حکومت صرف 400 بسیں لاسکی، جن میں سے بیشتر غیر فعال ہیں جب کہ شہر کو 15 ہزار بسوں کی ضرورت ہے۔ پنجاب میں 200 روپے کا چالان کراچی میں 5 ہزار روپے کا کیا گیا ہے، اور سڑکوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے، ٹریفک پولیس میں کراچی کے شہری بمشکل 10 فیصد ہیں۔
انہوں نے خبردار کیا کہ اگر ای چالان کے مسئلے پر بات چیت سے حل نہ نکالا گیا تو جماعت اسلامی احتجاج کا راستہ اختیار کرے گی، صحت اور تعلیم بنیادی ضرورتیں ہیں، گلبرگ ٹاؤن نے مثالی ہیلتھ کیئر یونٹ قائم کرکے عوامی خدمت کا نیا باب رقم کیا ہے، یہاں اب روزانہ سیکڑوں افراد مستفید ہوں گے، جب کہ بیرونی ڈاکٹروں کی خدمات بھی حاصل کی جارہی ہیں۔
امیر جماعت اسلامی پاکستان نے کہا کہ کراچی پاکستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے، جو ملک کا 67 فیصد ریونیو اور 54 فیصد ایکسپورٹ فراہم کرتا ہے لیکن اسے اس کا حق نہیں دیا جاتا، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم محض میڈیا پر نورا کشتی کرتی ہیں، حقیقت میں دونوں ایک ہی ہیں۔ ایم کیو ایم کو عوام نے مسترد کر دیا تھا مگر فارم 47 کے ذریعے دوبارہ مسلط کیا گیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ جماعت اسلامی کے منتخب نمائندے محدود وسائل میں رہتے ہوئے شہر میں 171 سے زائد پارکس بحال کرچکے ہیں، 43 اسکولوں کی ازسرِنو تعمیر کی گئی، ایک لاکھ سے زائد اسٹریٹ لائٹس لگائی گئیں، اور ماڈل محلے تیار کیے گئے۔ جماعت اسلامی اختیارات کے حصول کی جدوجہد کے ساتھ ساتھ عوامی خدمت جاری رکھے گی۔
منعم ظفر خان نے کہا کہ شاہراہِ نعمت اللہ خان اس شخصیت کے نام سے منسوب ہے جنہوں نے دیانت، خدمت اور ترقی کی نئی مثالیں قائم کیں۔ جماعت اسلامی ان کے وژن کے مطابق کراچی کو دوبارہ روشنیوں کا شہر بنائے گی۔