امریکی خاتون کی ذہنی و جسمانی صحت کی بحالی میں کتنا وقت لگ سکتا ہے، ڈاکٹر کا بیان سامنے آگیا
اشاعت کی تاریخ: 5th, February 2025 GMT
جناح اسپتال کرچی کے شعبہ نفسیات کے سربراہ ڈاکٹر چنی لال نے کہا ہے کہ کراچی کے نوجوان سے آن لائن دوستی کے بعد کراچی آنے والی امریکی خاتون کی ذہنی اور جسمانی صحت کی بحالی کے لیے علاج جاری ہے لیکن مکمل صحت یابی میں وقت لگ سکتا ہے۔
جناح اسپتال کراچی کے اسپشل وارڈ میں داخل امریکی خاتون کے نفسیاتی مریضہ ہونے کی تصدیق کی گئی ہے جبکہ مریضہ کو دیگر طبی مسائل کا بھی سامنا ہے۔
رپورٹ کے مطابق امریکا سے آئی خاتون انیجا کا جناح اسپتال کراچی کے خصوصی وارڈ میں تاحال علاج ہے جہاں ان کی طبیعت میں بہتری آرہی ہے، لیکن وہ اب بھی نفسیاتی مسائل کا شکار ہیں۔
خاتون کبھی امریکا واپس جانے کی ضد کرتی ہیں تو کبھی پاکستان میں ہی رہنے کی بات کرتی ہیں، اس صورتحال میں میڈیکل بورڈ ان کی ذہنی کیفیت کا باریک بینی سے جائزہ لے رہا ہے۔
جناح اسپتال کرچی کے شعبہ نفسیات کے سربراہ ڈاکٹر چنی لال کے مطابق مریضہ کا امریکہ میں بھی نفسیاتی علاج جاری تھا، لیکن گزشتہ 6 ماہ سے انہوں نے ادویات لینا چھوڑ دی تھیں، جس کے باعث بائی پولر ڈس آرڈر کی علامات دوبارہ ظاہر ہوئیں۔
خاتون کی مجموعی صحت کا جائزہ لینے کے لیے خصوصی میڈیکل بورڈ تشکیل دیا گیا ہے جس کی سربراہی ڈاکٹر چنی لال کر رہے ہیں، جب کہ اسپتال کی انتظامیہ، میڈیکل اور نیورولوجی وارڈ کے ماہرین بھی اس میں شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ خاتون میں خون کی کمی پائی گئی تھی، جس کے بعد انہیں انتقال خون کیا گیا، ان کا سی ٹی اسکین، ایم آر آئی اور الٹرا ساؤنڈ نارمل آیا ہے، مگر ان کے موڈ میں بار بار تبدیلی آتی ہے، جس کی وجہ سے وہ کبھی چڑچڑی ہو جاتی ہیں اور کبھی الجھن کا شکار دکھائی دیتی ہیں۔
ڈاکٹر چنی لال کا کہنا ہے کہ ان کی ذہنی اور جسمانی صحت کی بحالی کے لیے علاج جاری ہے، لیکن مکمل صحت یابی میں وقت لگ سکتا ہے۔
ماہر نفسیات اور پروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال آفریدی نے بائی پولر ڈس آرڈر کے حوالے سے بتایا کہ یہ ایک نفسیاتی بیماری ہے جو ختم نہیں ہوتی، لیکن دوا اور تھراپی کے ذریعے اس کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ اس بیماری میں مریض کی کیفیت میں اتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے، مریض کبھی روتا ہے اور کبھی ہنستا رہتا ہے۔ اس بیماری میں 2 فیصد لوگ مبتلا ہیں اور یہ مرض 80 فیصد وراثت (By Birth) میں ملتا ہے۔ اس مرض میں مبتلا زیادہ تر مریض ڈپریشن کا شکار رہتے ہیں، اور شدید ڈپریشن کی صورت میں مریض نشے اور خودکشی کی طرف بھی مائل ہو سکتا ہے۔ یہ مرض مرد اور خواتین دونوں میں پایا جاتا ہے۔ اس بیماری میں مریض اکثر الٹے سیدھے فیصلے کرتا ہے اور اپنے آپ کو نقصان پہنچانے کی سوچ بھی پیدا کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بائی پولر ڈس آرڈر کی تین اقسام ہیں جن میں بائی پولر ون، بائی پولر ٹو اور سائیکلو تھیمیا شامل ہیں۔ واضح رہے کہ بائی پولر ڈس آرڈر میں مبتلا شخص ایک وقت میں خود کو بہت خوشگوار محسوس کرتا ہے اور دوسرے ہی لمحے وہ افسردگی میں گھرا ہوا پاتا ہے۔ یہ بیماری اس قدر بڑھ سکتی ہے کہ مریض خود کشی تک کرنے کی حد تک پہنچ جاتا ہے اور اپنے آپ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس مرض میں مبتلا مریض اپنے آپ پر قابو پانے کے قابل نہیں رہتا اور اپنے رویے پر قابو پانے میں ناکام ہو جاتا ہے۔ اس بیماری سے نمٹنے کے لیے ماہر نفسیات سے مشورہ کیا جاتا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: بائی پولر ڈس آرڈر جناح اسپتال جاتا ہے کرتا ہے کی ذہنی سکتا ہے کے لیے ہے اور
پڑھیں:
سسرالیوں نے خاتون کو ایک لاکھ 20 ہزار روپے میں فروخت کردیا
بھارت میں شوہر اور بیٹے کی موت کے بعد سسرال والوں نے بیوہ کو ایک لاکھ 20 ہزار روپے میں فروخت کردیا۔
مہاراشٹر سے تعلق رکھنے والی متاثرہ خاتون نے الزام عائد کیا ہے کہ مجھے خریدنے والے شخص نے شادی کے نام پر دو سال تک جسمانی اور ذہنی استحصال کیا اور پھر مجھے بے سہارا چھوڑ دیا۔
خاتون کے مطابق دو سال قبل بہنوئی، ساس، سسر اور بہنوئی، نند نے مل کر گجرات کے شخص کو بیچنے کی سازش رچائی۔
متاثرہ خاتون نے بتایا کہ 80 ہزار روپے میرے سامنے بہنوئی اور بھابھی کو دیے گئے اس کے بعد اس شخص نے جنسی استحصال کیا، بچے کی پیدائش کے بعد وہ گاؤں میں چھوڑ کر چلا گیا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ خاتون نے اپنے لاپتہ بیٹے اور بیٹی کو ڈھونڈنے کی فریاد کی ہے۔
سال 2023 میں متاثرہ کے والدین نے پولیس میں شکایت درج کروائی تھی کہ ان کی بیٹی اور پوتے لاپتا ہیں۔ جب آرنی پولیس لاپتا خاتون کی تلاش کر رہی تھی تو انہیں اطلاع ملی کہ خاتون گاؤں میں ہے۔ اس کے بعد پولیس نے خاتون سے پوچھ گچھ کی تو یہ چونکا دینے والا واقعہ سامنے آیا۔
واقعہ ارنی پولیس کی جانب سے لاپتہ افراد کی تلاش کے لیے شروع کی گئی مہم کے دوران سامنے آیا ہے لیکن خاتون کا بیٹا اور بیٹی تاحال لاپتہ ہیں۔
خاتون کی شکایت کی بنیاد پر چار لوگوں کے خلاف مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کر کے انہیں حراست میں لے لیا گیا ۔