امریکہ کو چیلنج کرنے کیلئے ہم مصر اور اردن کی حمایت کریں گے، انصار الله
اشاعت کی تاریخ: 5th, February 2025 GMT
اپنے ایک ٹویٹ میں محمد البخیتی کا کہنا تھا کہ اگر مصر یا اردن، امریکہ کو سبق سکھانے کا ارادہ کر لیں تو یمن پوری قوت اور تمام سرحدی حدود کو پار کرتے ہوئے ان کی مدد کرے گا۔ اسلام ٹائمز۔ یمن کی مقاومتی تحریک "انصار الله" کے پولیٹیکل بیورو "محمد البخیتی" نے سماجی رابطے کی سائٹ ایکس پر اپنے ٹویٹ میں لکھا کہ امریکی استکبار اس وقت تک کسی کو نہیں چھوڑے گا جب تک سارے عرب اس کے تابع نہ ہو جائیں۔ نیز یہ امر یمن کی جانب سے استقامتی محاذ کی حمایت کے فیصلے پر مہر تصدیق ثبت کرتا ہے۔ انہوں نے امریکی صدر کی جانب سے غزہ کے مکینوں کی جبری نقل مکانی کے متنازعہ منصوبے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اگر مصر یا اردن یا دونوں، امریکہ کو سبق سکھانے کا ارادہ کر لیں تو یمن پوری قوت اور تمام سرحدی حدود کو پار کرتے ہوئے ان کی مدد کرے گا۔
واضح رہے کہ محمد البخیتی کا یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب رواں ہفتے منگل کی شب ڈونلڈ ٹرامپ نے فلسطینیوں کو غزہ کی پٹی سے ہمسایہ عرب ممالک منتقل ہونے کا شوشہ چھوڑا۔ امریکی صدر نے صیہونی حملوں کے نتیجے میں غزہ کی پٹی میں ہونے والی تباہی کو بہانہ بناتے ہوئے اپنے منصوبے کا اظہار کیا۔ انہوں نے مصر اور اردن سمیت مقبوضہ سرزمین کے دیگر ہمسایہ عرب ممالک کو حکم دیا کہ وہ غزہ کے لوگوں کا استقبال کریں اور انہیں رہنے کے لئے جگہ فراہم کریں۔ قابل غور بات یہ ہے کہ قبل ازیں امریکی صدر فلسطینیوں کی اردن اور مصر جبری نقل مکانی کا مطالبہ کر چکے ہیں جس کے جواب میں ان ممالک سے شدید منفی رد عمل سامنے آیا۔
ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
اسرائیل کے بارے میں امریکیوں کے خیالات
اسلام ٹائمز: ان تمام خبروں کو ایک ساتھ رکھ کر ہم ایک نکتے پر پہنچیں گے اور وہ یہ ہے کہ امریکی معاشرہ بتدریج اس نتیجے پر پہنچ رہا ہے کہ انہیں اسرائیل کی وجہ سے جو قیمت چکانی پڑی ہے، وہ فائدہ مند نہیں۔ بہرحال سب سے اہم حکمت عملی وہ ہے، جس کی طرف رہبر انقلاب اسلامی ایران اور سید حسن نصراللہ جیسے رہنماؤں نے اشارہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ہمیں امریکیوں کو اسرائیلی خطرات سے آگاہ کرنا چاہیئے، تاکہ انہیں اسرائیل کی حمایت کی قیمت ادا نہ کرنی پڑے۔ اس سے خطے میں اسرائیلی فلسفہ کے نابود ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ تحریر: علی مہدیان
امریکی معاشرہ اسرائیل کے بارے میں اپنے رویئے تیزی سے بدل رہا ہے۔ آیئے ایک ساتھ کچھ خبروں پر نظر ڈالتے ہیں: امریکہ میں ایک جلسہ عام میں ایک نوجوان نے اتفاق سے امریکہ کے نائب صدر سے پوچھا، "کیا ہم اسرائیل کے مقروض ہیں۔؟ اسرائیلی کیوں کہتے ہیں کہ وہ امریکہ کو چلا رہے ہیں۔؟" اس نوجوان کے سوال پر ہجوم تالیاں بجاتا ہے اور امریکہ کے نائب صدر کے پاس جواب نہیں ہوتا اور کہتے ہیں کہ موجودہ صدر ایسے نہیں ہیں اور۔۔۔۔ ماہر معاشیات اور کولمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر جیفری سیکس نے کہا کہ امریکہ اسرائیل کی جنگوں کی قیمت ادا کرتا ہے اور اس سے ہمارا معیار زندگی گر گیا ہے۔ امریکی خبروں اور تجزیات پر مبنی ویب سائٹ "دی نیشنل انٹرسٹ" نے لکھا ہے کہ اسرائیل کی مہم جوئی کی قیمت امریکہ کی جیب سے چکائی جاتی ہے۔
امریکہ میں میڈیا پریزینٹر اور ایکٹوسٹ اینا کاسپرین ایک ٹیلی ویژن شو میں کہتی ہیں کہ اگر اسرائیل جنگی جرائم کا ارتکاب کرنا چاہتا ہے تو اسے ہمارے پیسوں سے نہیں کرنا چاہیئے۔ امریکی شہری اس ملک میں بہتر زندگی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، لیکن ان سے کہا جاتا ہے کہ وہ اسرائیلی حکومت اور فوج کو اربوں ڈالر دیں۔ سینیٹر ایڈم شیف کی قیادت میں چھیالیس امریکی سینیٹرز کی جانب سے ٹرمپ کو ایک خط لکھا گیا ہے، جس میں اسرائیل کی طرف سے مغربی کنارے کے الحاق کے فیصلے پر امریکہ کی جانب سے واضح موقف اپنانے پر تاکید کی گئی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹرمپ نے ڈیلی کولر کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کی امریکہ میں سب سے طاقتور لابی تھی، جسے انہوں نے تقریباً 15 سال پہلے دیکھا تھا اور اس وقت کانگریس پر صیہونیوں کا مکمل کنٹرول تھا، لیکن اب اسرائیل یہ اثر و رسوخ کھو چکا ہے۔
ان تمام خبروں کو ایک ساتھ رکھ کر ہم ایک نکتے پر پہنچیں گے اور وہ یہ ہے کہ امریکی معاشرہ بتدریج اس نتیجے پر پہنچ رہا ہے کہ انہیں اسرائیل کی وجہ سے جو قیمت چکانی پڑی ہے، وہ فائدہ مند نہیں۔ بہرحال سب سے اہم حکمت عملی وہ ہے، جس کی طرف رہبر انقلاب اسلامی ایران اور سید حسن نصراللہ جیسے رہنماؤں نے اشارہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ہمیں امریکیوں کو اسرائیلی خطرات سے آگاہ کرنا چاہیئے، تاکہ انہیں اسرائیل کی حمایت کی قیمت ادا نہ کرنی پڑے۔ اس سے خطے میں اسرائیلی فلسفہ کے نابود ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔