Nai Baat:
2025-09-18@16:14:48 GMT

ہیکر نے مجھے یرغمال بنا لیا

اشاعت کی تاریخ: 6th, February 2025 GMT

ہیکر نے مجھے یرغمال بنا لیا

پیر کے روز دوپہر کے قریب’ 11 بجے میں اپنے لان میں بیٹھا تھا کہ ایک فون کال موصول ہوئی۔ کال کرنے والے نے بتایا کہ آپ کا ایک کورئیر پیکٹ آیا ہے’ چونکہ یہ پیکٹ نہایت اہم اور حساس ہے اس لیے پہلے ہم آپ کا نمبر کنفرم کریں گے اور اس مقصد کے لیے آپ کے فون پر ایک کوڈ نمبر بھیجا جائے گا۔ وہ نمبر آپ ہمارے ساتھ شیئر کریں گے جس سے اس بات کی تصدیق ہو جائے گی کہ یہ آپ ہی کا نمبر ہے۔ اس کے بعد پیکٹ آپ کو ملے گا۔ کچھ دیر کے بعد کال کرنے والے نے پوچھا کہ کوئی کوڈ نمبر آپ کے موبائل پر آیا ہے؟ میں نے چیک کر کے بتایا کہ بالکل آیا ہے۔ کال کرنے والے نے کہا کہ وہ کوڈ نمبر آپ مجھے بتائیں۔ میں نے وہ نمبر یا کوڈ بتا دیا۔ مجھے اس وقت تک بالکل اندازہ نہیں تھا کہ کیا ہو رہا ہے کیونکہ میں اپنے گھر میں آرام سے بیٹھا تھا اور میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ میرے ساتھ کوئی فراڈ کر رہا ہے۔
میری جانب سے کوڈ بتائے جانے کے بعد فون کرنے والے شخص نے مجھے باتوں میں لگا لیا۔ کبھی کہا کہ کچھ دیر انتظار کیجیے۔ کبھی کہا کہ چیک کر رہے ہیں’ ابھی آپ کو بتاتے ہیں۔ کبھی کہا کہ ایک بندے کی ڈیوٹی لگائی ہوئی ہے’ وہ تھوڑی دیر میں بتاتا ہے۔ کبھی کہا کہ میں آپ کے ساتھ نمبر شیئر کرنے والا ہوں۔ خیر کچھ دیر باتوں میں لگانے اور انتظار کرانے کے بعد اس بندے نے مجھے ایک نمبر دیا اور کہا کہ آپ اس پر کال کریں۔ میں نے وہ نمبر لکھ لیا اور جب کال کی تو مجھے شک ہوا کہ کچھ ہو رہا ہے کیونکہ میرے موبائل فون پر لکھا ہوا آیا کہ Transferred۔ اس سے پہلے کہ میں بات پوری طرح سمجھ پاتا میرے ساتھ گیم ہو چکی تھی اور میرے آدھے سے زیادہ کانٹیکٹ نمبرز وہاں جا چکے تھے۔

جب بات کچھ سمجھ آئی کہ کیا ہوا ہے تو میں نے فوری طور پر 15 پر فون کیا اور سارا قصہ سنایا۔ انہوں نے کہا کہ سائبر کرائمز برانچ کو کال کریں۔ میں نے کہا کہ سائبر کرائمز برانچ کا نمبر دے دیں تاکہ وہاں بات کر سکوں۔ پہلے ٹال مٹول کی گئی’ پھر کافی انتظار کرانے کے بعد 1991 کا نمبر دیا گیا۔ 1991 پر متعدد بار کال کی تو بیل ہوتی رہی لیکن کسی نے نمبر اٹینڈ نہیں کیا۔ میں نے تھک ہار کر پھر تھانے والوں سے بات کی۔ انہوں نے کہا کہ اچھا کچھ کرتے ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اس سارے عمل کے دوران وہ بندہ جس نے مجھے فون کیا تھا اور جس کی وجہ سے فون ہیک ہوا تھا’ میرے ساتھ فون کال پر موجود تھا اور اگر پولیس چاہتی تو اس کی لوکیشن کا پتا چلایا جا سکتا تھا’ لیکن 15 والوں نے جان چھڑائی کہ سائبر کرائم والوں سے بات کریں۔ بہرحال جب رابطہ ہوا تو میری سائبر کرائمز ونگ’ پنجاب زون لاہورکے ایک اعلیٰ افسر سے بات ہوئی ،گلبرگ میں ان کا دفتر ہے۔بڑے تپاک سے ملے اور ساری صورت حال کے بارے میں جاننے کے بعد انہوں نے کہا کہ میں آپ کا واٹس ایپ بحال کرا دیتا ہوں’ آپ فلاں فلاں کام کریں۔ میں نے کہا کہ وہ بندہ یعنی ہیکر میرے نام پر پیسے بٹور رہا ہے’ میں بالکل Helpless بیٹھا ہوں’ جلدی کچھ کریں۔ انہوں نے کہا کہ ابھی کرتے ہیں۔ میرے ساتھ اس وقت میرا منیجر بھی تھا۔ وہ اوپر کی منزل پر بیٹھے متعلقہ افسر کے پاس چلا گیا۔ اس نے کہا کہ آپ رپورٹنگ کرائیں۔ وہ تماشا سہ پہر چار بجے سے شروع ہوا تھا اور رات ڈیڑھ بجے جا کر میرا فون ریکور ہوا۔ میں دن بارہ بجے سے تمام متعلقہ اداروں سے رابطہ کر چکا تھا کہ بتائیں اس صورت حال، جس میں مبتلا ہوں کیا ہو سکتا ہے؟ لیکن ہر طرف سے خاموشی ہی ملی۔

ہیکر نے مجھے فقیر بنا دیا تھا۔ وہ میرے ہر جاننے والے سے میرے نام پر پیسے مانگ رہا تھا کہ مجھے سخت ضرورت ہے’ اور لوگ مجھے فون کر کے کنفرم کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ واقعی مجھے پیسوں کی ضرورت ہے اور واقعی میں نے پیسے منگوائے ہیں’ لیکن ان کے فون یا میسجز مجھ تک پہنچ نہیں رہے تھے۔ ان کمنگ بند تھی لیکن وہ بندہ مسلسل میرے جاننے والوں کے ساتھ رابطے میں تھا۔ ہیکر نے میرے تمام Contact والوں کو پہلا میسیج کیا کہ Help Me کچھ دیر کے بعد دوسرا میسیج کیا کہ مجھے تین لاکھ روپے دیں’ ضرورت ہے۔ جب اس نے پہلا میسیج کیا کہ Help Meتو میرے جاننے والے یعنی کانٹیک والے سو’ ڈیڑھ سو لوگوں نے رابطہ کیا کہ کس طرح کی مدد کی ضرورت ہے اور کیوں؟ اس پر اس نے میسیج کیا کہ مجھے کچھ مجبوری ہے’ تین لاکھ روپے دیں۔ اب میرے جیسا بندہ’ جسے لوگوں کی کافی بڑی تعداد جانتی ہے’ جو ایک کالم کار ہے اور جو ایک کمپنی کا ہیڈ ہے’ ہو ہی نہیں سکتا کہ اس طرح لوگوں سے پیسے مانگے’ لیکن ہیکر نے میرا تماشا لگا دیا تھا۔

کچھ لوگوں نے میرے مغالطے میں اسے کئی لاکھ روپے بھیج بھی دیئے’ جن کی رسیدوں کا ذکر ایف آئی آر میں کیا جا چکا ہے۔ پہلے اس بندے نے سب سے تین تین لاکھ روپے مانگے۔ کچھ دیر کے بعد اس نے ایک ایک لاکھ روپے مانگنا شروع کر دیا حتیٰ کہ پچاس پچاس ہزار بھی مانگے۔ آخر میں اس نے بیس بیس ہزار مانگنا شروع کر دیئے۔ میرے بہت سے دوستوں نے یہ سوچ کر کہ الیاس صاحب سے پچاس ہزار کے لیے کیا پوچھنا’ اسے پیسے ٹرانسفر کر دیئے۔ میرے دوچار بزنس مین دوستوں نے تو تین تین لاکھ بھی اسے بھیج دیئے تھے۔

یہاں میں دوبارہ سائبر کرائمز کے افسر کی طرف آتا ہوں جنہوں نے مجھے مشورہ دیا کہ اپنا فون ریکور کرائیں اور آرام سے گھر جائیں۔ میں نے کہا کہ مجھے تو رپورٹ درج کرانی ہے تو کہنے لگے کہ آپ نئے بکھیڑے میں پڑ جائیں گے۔ پھر یہ ہے کہ مجرم پکڑے بھی گئے تو کیا ہو گا؟ یہاں پاکستان میں سزا کا رواج ہی نہیں ہے۔ میں نے پوچھا کہ وہ کس طرح؟ وہاں ڈیوٹی پر موجود ایک اور صاحب بھی آ گئے۔ وہ کہنے لگے کہ یہاں ہم محنت کر کے’ تگ و دو کر کے مجرم پکڑتے ہیں لیکن کیس جب آگے عدالت میں جاتا ہے تو ضمانت ہو جاتی ہے۔ میں نے سوال کیا کہ کتنے ملزموں کو سزا ملتی ہے؟ جواب ملا کہ سو فیصد ملزموں کی ضمانت ہو جاتی ہے’ آج تک کسی کو سزا نہیں ملی۔ میں نے اگلا سوال کر دیا۔ پوچھا کہ پھر کیا ہونا چاہیے؟ انہوں نے کہا کہ اس مسئلے کا حل یہ ہے سزا کا عمل تیزی سے ہونا چاہیے۔ ہم ملزم کے نوکر بنے ہوتے ہیں’ کبھی کہیں لے کر جا رہے ہیں’ کبھی کہیں لے کر جا رہے ہیں۔ وہ بندہ الٹا ہم پر بوجھ بن جاتا ہے کہ ظاہر ہے اسے بھوکا تو نہیں رکھا جا سکتا’ اسے کھانا کھلانا پڑتا ہے’ دوسری ضروریات کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ یہ ہو چکی ہے اس وقت پاکستان کی صورت حال۔حکومتیں لاقانونیت کا خاتمہ کرتی ہیں مگر یہاں اداروں کے افسر معاملہ ختم کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ خدارا ارباب اختیار لٹنے والوں کی اذیت کا خیال کریں،سائبر کرائمز قوانین کو بہتر کریں، عدالتیں کم ہیں تو ججوں کی تعداد بڑھائیں۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ میسیج کیا کہ کبھی کہا کہ نے کہا کہ ا کرنے والے لاکھ روپے میرے ساتھ تین لاکھ ضرورت ہے کا نمبر ہیکر نے کہ مجھے تھا اور کچھ دیر وہ بندہ نے مجھے تھا کہ کہ میں کیا ہو کے بعد رہا ہے

پڑھیں:

پروفیسر عبدالغنی بٹ کے نماز جنازہ میں شرکت سے محروم رکھنا ناقابل برداشت اقدام ہے، مولوی محمد عمر فاروق

گزشتہ روز علیحدگی پسند تنظیم کل جماعتی حریت کانفرنس کے سابق چیئرمین پروفیسر عبدالغنی بٹ مختصر علالت کے بعد اپنی رہائشگاہ واقع شمالی کشمیر کے سوپور میں انتقال کرگئے۔ اسلام ٹائمز۔ جموں و کشمیر کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین اور میرواعظ کشمیر مولوی محمد عمر فاروق نے کہا کہ حکام نے مجھے پروفیسر عبدالغنی بٹ کے نماز جنازہ میں شرکت کرنے کی اجازت نہیں دی اور مجھے اپنے گھر کے اندر بند رکھا گیا۔ میرواعظ محمد عمر فاروق نے ایکس پر لکھا کہ میں یہ دکھ اور تکلیف الفاظ میں بیان نہیں کرسکتا کہ حکام نے پروفیسر بٹ کے اہل خانہ کو ان کی نماز جنازہ جلدی ختم کرنے پر مجبور کیا۔ انہوں نے کہا "مجھے اپنے گھر کے اندر بند کر دیا گیا اور ان کے آخری سفر میں جنازہ کے ساتھ چلنے کے حق سے بھی محروم رکھا گیا"۔

انہوں نے مزید لکھا کہ میں نے پروفیسر بٹ کے ساتھ 35 برس دوستی اور رہنمائی کے گزارے ہیں اور ہماری دوستی 35 برس پر محیط تھی اور بہت سے افراد تھے جو ان کی نماز جنازہ میں شرکت کرنے کے لئے بے چین تھے۔ ان کے جنازہ میں شرکت کی اجازت نہ دینا اور آخری الوداعی سے بھی محروم رکھنا ناقابل برداشت ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ روز آزادی پسند تنظیم کل جماعتی حریت کانفرنس کے سابق چیئرمین پروفیسر عبدالغنی بٹ مختصر علالت کے بعد اپنی رہائشگاہ واقع شمالی کشمیر کے سوپور میں انتقال کر گئے۔ پروفیسر بٹ کئی دہائیوں تک کشمیر کی علیحدگی پسند سیاست میں متحرک رہے۔

پروفیسر بٹ کے انتقال پر جموں و کشمیر کے سیاسی، سماجی اور علحیدگی پسند رہنماؤں نے گہرے دکھ اور صدمہ کا اظہار کیا ہے۔ وزیر اعلیٰ عمر عبدللہ نے پروفیسر بٹ کی وفات پر ایکس پر اپنا تعزیتی پیغام شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ مجھے سینیئر کشمیری سیاسی رہنما اور ماہر تعلیم پروفیسر بٹ کے انتقال کی خبر سن کر دکھ ہوا، ہمارے سیاسی نظریات ایک دوسرے سے الگ تھے لیکن میں انہیں ہمیشہ ایک انتہائی معزز انسان کے طور پر یاد رکھوں گا۔

متعلقہ مضامین

  • پروفیسر عبدالغنی بٹ کے نماز جنازہ میں شرکت سے محروم رکھنا ناقابل برداشت اقدام ہے، مولوی محمد عمر فاروق
  • انصاف کے دروازے میرے اور اہلیہ پر بند ہیں: بانی پی ٹی آئی کا چیف جسٹس کو خط
  • لاہور؛ اہل خانہ کو یرغمال بنا کر دوست کو قتل کرنے والا ملزم گرفتار
  • چارلی کرک کے قتل کے بعد ملزم کی دوست کے ساتھ کیا گفتگو ہوئی؟ پوری تفصیل سامنے آگئی
  • ’انسانوں نے مجھے مارا‘: چین کا ہیومنائیڈ روبوٹ حیران کن ’فائٹ ٹیسٹ‘ میں بھی ڈٹا رہا
  • میرے اوپر انڈوں سے حملے کا واقعہ اسکرپٹڈ تھا، بدتمیزی کرنے والوں کو چھوڑ دیا گیا، علیمہ خان
  • ٹرمپ نے نیویارک ٹائمز کیخلاف 15 ارب ڈالر ہرجانے کا دعویٰ کردیا
  • 17 ارکان کے کمیٹیوں سے استعفے میرے پاس آگئے، آج جمع کراؤں گا، سینیٹر علی ظفر
  • مجھے کرینہ کپور سے ملایا جاتا ہے: سارہ عمیر
  • اسرائیل نے قطر پر حملے کی مجھے پیشگی اطلاع نہیں دی، دوبارہ حملہ نہیں کرے گا، صدر ڈونلڈ ٹرمپ