Nai Baat:
2025-04-26@02:27:55 GMT

ہیکر نے مجھے یرغمال بنا لیا

اشاعت کی تاریخ: 6th, February 2025 GMT

ہیکر نے مجھے یرغمال بنا لیا

پیر کے روز دوپہر کے قریب’ 11 بجے میں اپنے لان میں بیٹھا تھا کہ ایک فون کال موصول ہوئی۔ کال کرنے والے نے بتایا کہ آپ کا ایک کورئیر پیکٹ آیا ہے’ چونکہ یہ پیکٹ نہایت اہم اور حساس ہے اس لیے پہلے ہم آپ کا نمبر کنفرم کریں گے اور اس مقصد کے لیے آپ کے فون پر ایک کوڈ نمبر بھیجا جائے گا۔ وہ نمبر آپ ہمارے ساتھ شیئر کریں گے جس سے اس بات کی تصدیق ہو جائے گی کہ یہ آپ ہی کا نمبر ہے۔ اس کے بعد پیکٹ آپ کو ملے گا۔ کچھ دیر کے بعد کال کرنے والے نے پوچھا کہ کوئی کوڈ نمبر آپ کے موبائل پر آیا ہے؟ میں نے چیک کر کے بتایا کہ بالکل آیا ہے۔ کال کرنے والے نے کہا کہ وہ کوڈ نمبر آپ مجھے بتائیں۔ میں نے وہ نمبر یا کوڈ بتا دیا۔ مجھے اس وقت تک بالکل اندازہ نہیں تھا کہ کیا ہو رہا ہے کیونکہ میں اپنے گھر میں آرام سے بیٹھا تھا اور میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ میرے ساتھ کوئی فراڈ کر رہا ہے۔
میری جانب سے کوڈ بتائے جانے کے بعد فون کرنے والے شخص نے مجھے باتوں میں لگا لیا۔ کبھی کہا کہ کچھ دیر انتظار کیجیے۔ کبھی کہا کہ چیک کر رہے ہیں’ ابھی آپ کو بتاتے ہیں۔ کبھی کہا کہ ایک بندے کی ڈیوٹی لگائی ہوئی ہے’ وہ تھوڑی دیر میں بتاتا ہے۔ کبھی کہا کہ میں آپ کے ساتھ نمبر شیئر کرنے والا ہوں۔ خیر کچھ دیر باتوں میں لگانے اور انتظار کرانے کے بعد اس بندے نے مجھے ایک نمبر دیا اور کہا کہ آپ اس پر کال کریں۔ میں نے وہ نمبر لکھ لیا اور جب کال کی تو مجھے شک ہوا کہ کچھ ہو رہا ہے کیونکہ میرے موبائل فون پر لکھا ہوا آیا کہ Transferred۔ اس سے پہلے کہ میں بات پوری طرح سمجھ پاتا میرے ساتھ گیم ہو چکی تھی اور میرے آدھے سے زیادہ کانٹیکٹ نمبرز وہاں جا چکے تھے۔

جب بات کچھ سمجھ آئی کہ کیا ہوا ہے تو میں نے فوری طور پر 15 پر فون کیا اور سارا قصہ سنایا۔ انہوں نے کہا کہ سائبر کرائمز برانچ کو کال کریں۔ میں نے کہا کہ سائبر کرائمز برانچ کا نمبر دے دیں تاکہ وہاں بات کر سکوں۔ پہلے ٹال مٹول کی گئی’ پھر کافی انتظار کرانے کے بعد 1991 کا نمبر دیا گیا۔ 1991 پر متعدد بار کال کی تو بیل ہوتی رہی لیکن کسی نے نمبر اٹینڈ نہیں کیا۔ میں نے تھک ہار کر پھر تھانے والوں سے بات کی۔ انہوں نے کہا کہ اچھا کچھ کرتے ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اس سارے عمل کے دوران وہ بندہ جس نے مجھے فون کیا تھا اور جس کی وجہ سے فون ہیک ہوا تھا’ میرے ساتھ فون کال پر موجود تھا اور اگر پولیس چاہتی تو اس کی لوکیشن کا پتا چلایا جا سکتا تھا’ لیکن 15 والوں نے جان چھڑائی کہ سائبر کرائم والوں سے بات کریں۔ بہرحال جب رابطہ ہوا تو میری سائبر کرائمز ونگ’ پنجاب زون لاہورکے ایک اعلیٰ افسر سے بات ہوئی ،گلبرگ میں ان کا دفتر ہے۔بڑے تپاک سے ملے اور ساری صورت حال کے بارے میں جاننے کے بعد انہوں نے کہا کہ میں آپ کا واٹس ایپ بحال کرا دیتا ہوں’ آپ فلاں فلاں کام کریں۔ میں نے کہا کہ وہ بندہ یعنی ہیکر میرے نام پر پیسے بٹور رہا ہے’ میں بالکل Helpless بیٹھا ہوں’ جلدی کچھ کریں۔ انہوں نے کہا کہ ابھی کرتے ہیں۔ میرے ساتھ اس وقت میرا منیجر بھی تھا۔ وہ اوپر کی منزل پر بیٹھے متعلقہ افسر کے پاس چلا گیا۔ اس نے کہا کہ آپ رپورٹنگ کرائیں۔ وہ تماشا سہ پہر چار بجے سے شروع ہوا تھا اور رات ڈیڑھ بجے جا کر میرا فون ریکور ہوا۔ میں دن بارہ بجے سے تمام متعلقہ اداروں سے رابطہ کر چکا تھا کہ بتائیں اس صورت حال، جس میں مبتلا ہوں کیا ہو سکتا ہے؟ لیکن ہر طرف سے خاموشی ہی ملی۔

ہیکر نے مجھے فقیر بنا دیا تھا۔ وہ میرے ہر جاننے والے سے میرے نام پر پیسے مانگ رہا تھا کہ مجھے سخت ضرورت ہے’ اور لوگ مجھے فون کر کے کنفرم کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ واقعی مجھے پیسوں کی ضرورت ہے اور واقعی میں نے پیسے منگوائے ہیں’ لیکن ان کے فون یا میسجز مجھ تک پہنچ نہیں رہے تھے۔ ان کمنگ بند تھی لیکن وہ بندہ مسلسل میرے جاننے والوں کے ساتھ رابطے میں تھا۔ ہیکر نے میرے تمام Contact والوں کو پہلا میسیج کیا کہ Help Me کچھ دیر کے بعد دوسرا میسیج کیا کہ مجھے تین لاکھ روپے دیں’ ضرورت ہے۔ جب اس نے پہلا میسیج کیا کہ Help Meتو میرے جاننے والے یعنی کانٹیک والے سو’ ڈیڑھ سو لوگوں نے رابطہ کیا کہ کس طرح کی مدد کی ضرورت ہے اور کیوں؟ اس پر اس نے میسیج کیا کہ مجھے کچھ مجبوری ہے’ تین لاکھ روپے دیں۔ اب میرے جیسا بندہ’ جسے لوگوں کی کافی بڑی تعداد جانتی ہے’ جو ایک کالم کار ہے اور جو ایک کمپنی کا ہیڈ ہے’ ہو ہی نہیں سکتا کہ اس طرح لوگوں سے پیسے مانگے’ لیکن ہیکر نے میرا تماشا لگا دیا تھا۔

کچھ لوگوں نے میرے مغالطے میں اسے کئی لاکھ روپے بھیج بھی دیئے’ جن کی رسیدوں کا ذکر ایف آئی آر میں کیا جا چکا ہے۔ پہلے اس بندے نے سب سے تین تین لاکھ روپے مانگے۔ کچھ دیر کے بعد اس نے ایک ایک لاکھ روپے مانگنا شروع کر دیا حتیٰ کہ پچاس پچاس ہزار بھی مانگے۔ آخر میں اس نے بیس بیس ہزار مانگنا شروع کر دیئے۔ میرے بہت سے دوستوں نے یہ سوچ کر کہ الیاس صاحب سے پچاس ہزار کے لیے کیا پوچھنا’ اسے پیسے ٹرانسفر کر دیئے۔ میرے دوچار بزنس مین دوستوں نے تو تین تین لاکھ بھی اسے بھیج دیئے تھے۔

یہاں میں دوبارہ سائبر کرائمز کے افسر کی طرف آتا ہوں جنہوں نے مجھے مشورہ دیا کہ اپنا فون ریکور کرائیں اور آرام سے گھر جائیں۔ میں نے کہا کہ مجھے تو رپورٹ درج کرانی ہے تو کہنے لگے کہ آپ نئے بکھیڑے میں پڑ جائیں گے۔ پھر یہ ہے کہ مجرم پکڑے بھی گئے تو کیا ہو گا؟ یہاں پاکستان میں سزا کا رواج ہی نہیں ہے۔ میں نے پوچھا کہ وہ کس طرح؟ وہاں ڈیوٹی پر موجود ایک اور صاحب بھی آ گئے۔ وہ کہنے لگے کہ یہاں ہم محنت کر کے’ تگ و دو کر کے مجرم پکڑتے ہیں لیکن کیس جب آگے عدالت میں جاتا ہے تو ضمانت ہو جاتی ہے۔ میں نے سوال کیا کہ کتنے ملزموں کو سزا ملتی ہے؟ جواب ملا کہ سو فیصد ملزموں کی ضمانت ہو جاتی ہے’ آج تک کسی کو سزا نہیں ملی۔ میں نے اگلا سوال کر دیا۔ پوچھا کہ پھر کیا ہونا چاہیے؟ انہوں نے کہا کہ اس مسئلے کا حل یہ ہے سزا کا عمل تیزی سے ہونا چاہیے۔ ہم ملزم کے نوکر بنے ہوتے ہیں’ کبھی کہیں لے کر جا رہے ہیں’ کبھی کہیں لے کر جا رہے ہیں۔ وہ بندہ الٹا ہم پر بوجھ بن جاتا ہے کہ ظاہر ہے اسے بھوکا تو نہیں رکھا جا سکتا’ اسے کھانا کھلانا پڑتا ہے’ دوسری ضروریات کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ یہ ہو چکی ہے اس وقت پاکستان کی صورت حال۔حکومتیں لاقانونیت کا خاتمہ کرتی ہیں مگر یہاں اداروں کے افسر معاملہ ختم کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ خدارا ارباب اختیار لٹنے والوں کی اذیت کا خیال کریں،سائبر کرائمز قوانین کو بہتر کریں، عدالتیں کم ہیں تو ججوں کی تعداد بڑھائیں۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ میسیج کیا کہ کبھی کہا کہ نے کہا کہ ا کرنے والے لاکھ روپے میرے ساتھ تین لاکھ ضرورت ہے کا نمبر ہیکر نے کہ مجھے تھا اور کچھ دیر وہ بندہ نے مجھے تھا کہ کہ میں کیا ہو کے بعد رہا ہے

پڑھیں:

ایک تاریخی دستاویز۔۔۔۔۔۔ ماہنامہ پیام اسلام آباد کا "ختم نبوت نمبر"

اسلام ٹائمز: دیدہ زیب ٹائٹل، عمدہ کتابت، بہترین ڈایزائنگ اور اعلیٰ طباعت نے مجلے کی دلکشی میں اضافہ کر دیا ہے، ویلیو ایڈڈ کے طور پر بیک ٹائٹل پر قدیم کتب کے سرورق اسی طرح مجلے میں بھی ہر مضمون کے بعد قدیم کتب کے ٹائٹلز نے مجلے کی اعتباریت و استناد میں بڑھوتری کر دی ہے۔ محترم ڈاکٹر علی عباس نقوی، محترم نثار علی ترمذی، محترم اسد عباس تقوی، محترم عرفان حسین، محترم اکرام حسین اور عزیزم سید حسین نقوی سمیت البصیرہ کی تمام ٹیم اتنا عمدہ مجلہ شائع کرنے پر داد و تحسین کے ساتھ مبارک باد کی مستحق ہے۔ تحریر: سید انجم رضا
 
مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق ختم نبوت سے مراد یہ ہے کہ حضور محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کے آخری نبی اور آخری رسول ہیں۔ اللہ رب العزت نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس جہاں میں بھیج کر بعثت انبیاء کا سلسلہ ختم فرما دیا ہے۔ اب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کوئی نبی مبعوث نہیں ہوگا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ختم نبوت کا ذکر قرآن مجید میں ۱۰۰ سے زائد آیات بہت صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ ارشادِ خداوندی ہے: "مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًاo" (الاحزاب، 33 : 40) ترجمہ: "محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمھارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیاء کے آخر میں (سلسلۂِ نبوت ختم کرنے والے) ہیں اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔"

عقیدہ ختم نبوت تمام مکاتب فکر کے مسلمانوں کی مشترکہ میراث ہے، مکتب ِاہل بیتؑ تشیع اثناء عشری کے ہاں بھی عقیدہ ختم نبوت کو ایمان کی اساس مانا جاتا ہے۔ اہل تشیع کے عقائد میں نبوت کا اختتام اور امامت کا آغاز واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔ ان کے نزدیک ختم نبوت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے نبوت کو حضرت محمدﷺ پر مکمل کیا اور اس کے بعد قیادت و رہنمائی کا نظام امامت کے ذریعے چلایا۔ اہل تشیع کا یہ عقیدہ نبوت کے دروازے کو بند کرتے ہوئے امامت کو ایک روحانی اور سیاسی قیادت کے طور پر متعارف کراتا ہے۔ میرے پیشِ نظر اس وقت معروف دانشور و محقق  ثاقب اکبر مرحوم کے جاری کردہ ماہنامہ "پیام" اسلام آباد کا ختم نبوت نمبر ہے، ادارہ البصیرہ اسلام آباد کا یہ علمی مجلہ اپنے موضوعات و عناوین کے اعتبار سے مستند و معیاری مجلوں میں شمار کیا جاسکتا ہے۔

ثاقب اکبر مرحوم خود بھی ایک ایسے دانشور و محقق تھے، جن کی زندگی کا اوڑھنا بچھونا ہی دین فہمی اور تقابل ادیان، اتحاد بین المسلمین اور اسلام محمدی ؑ کی ایسی نشاة ثانیہ، جو کہ دور جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ اور فکر ِ دین پر اٹھنے والے سوالات کا جواب دے سکے۔ ماہنامہ "پیام" کا ختم نبوت نمبر جو کہ اپنے اداریئے سمیت اٹھارہ علمی مضامین پر مشتمل ہے۔ ہر مضمون اپنے متن کے اعتبار سے تاریخی علمی خزانہ سمیٹے ہوئے ہے۔ علامہ ڈاکٹر علی عباس نقوی کی زیر نگرانی شائع ہونے والے اس ختمِ نبوت نمبر کا اداریہ محترم نثار علی ترمذی کی تحریر ہے، جس میں آپ نے اس مجلے کی ضرورت و اہمیت کا ذکر کیا ہے اور برصغیر پاک و ہند میں مکتب اہل بیت ؑ تشیع کی عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے حوالے علمی کاوشوں کا ذکر بیان کیا ہے، ماہنامہ "پیام" نے ختم نبوت نمبر کیوں شا ئع کیا، اس کے بارے میں تفصیلاً بتایا گیا ہے۔

محترم ثاقب اکبر مرحوم بانی ادارہ البصیرہ کا علمی تبحر کسی سے ڈھکا چھُپا نہیں ہے، خاص طور تعلم قرآن، تفہیم قرآن اور تدبر فی قرآن پر آپ کی تحقیقی تحاریر بے مثال ہیں۔ اس شمارے میں آپ کا مضمون قرآن اور ختم نبوت بھی ایک عمدہ تحقیقی تحریر ہے۔ آپ نے آغازِ وحی سے لیکر اعلان بعثت تک اور اس کے بعد مکی مدنی آیات کی روشنی میں مختلف مفسرین قرآن سے استفادہ کرتے ہوئے ختم نبوت کی حقانیت کو الہیٰ برنامہ کے طور پر ثابت کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ نے تحریفِ قرآن کے تصور کو بھی اس تحریر میں بڑی عمدگی سے رد کیا ہے۔ ڈاکٹر علی عباس نقوی (صدر نشین البصیرہ) کا مضمون "شیعہ اردو تفاسیر میں ختم نبوت کا جائزہ" کوزے میں سمندر بند کرنے کے مترادف ہے، آپ نے برصغیر پاک و ہند میں مکتب اہل بیتؑ کے علماء کی تمام تر تفاسیر کا احاطہ کیا۔

علامہ سید امداد حسین کاظمی المشہدی، مولانا سید فرمان علی، مولانا سید مقبول احمد دہلوی، علامہ سید علی الحائری، علامہ حسین بخش جاڑا، علامہ محمد حسین نجفی، علامہ شیخ محسن علی نجفی، علامہ علی نقی نقوی کے تراجم و تفاسیر کو زیرِ نظر رکھتے ہوئے آپ نے چار اہم تفاسیر سے استفادہ کرتے ہوئے ایک بہت اعلیٰ علمی و تحقیقی تحریر قلم بند کی ہے۔ حجت السلام علامہ آفتاب حسین جوادی تحقیق و مناظرہ کے میدان میں ایک سند کی حیثیت رکھنے والی علمی شخصیت ہیں، آپ کا مضمون "تحفظِ ختم نبوت اور مرزائیت کا بطلان" ایک اہم تاریخی دستاویز ہونے کے ساتھ ساتھ عقیدہ ختم نبوت کا قرآن حدیث سے اثبات اور  عقیدہ ختم نبوت میں علماء و دانشوروں کی تصنیفی خدمات کو بیان کیا ہے، ساتھ قادیان سے اٹھنے والے "فتنہ احمدیت" کا رد بہت عمدگی سے کیا ہے۔

بلاد عرب اور مشرق ِ وسطیٰ کے شیعہ علماء کی عقیدہ ختم نبوت کے حوالے سے تصانیف کا ذکر اور پھر تحریک پاکستان میں شیعہ زعماء کے کردار اور خصوصیت کے ساتھ پاکستان مین "تحریک ختم نبوت" میں شیعہ علما و زعماء اور اکابرین کے تحرک کا تفصیلی ذکر ہے۔ مجلہ میں قدیم علماء کے مضامین سے بھی استفادہ کیا گیا ہے، نومبر ۱۹۶۷ء میں لکھنو سے علامہ محمد رضوان الحسنین کا مضمون "ختمِ نبوت کا عقلی پہلو" اس موضوع پر کام کرنے والے علماء و طلاب کے لئے تحقیق نئے دریچے وا کرسکتا ہے۔ حجت السلام والمسلمین علامہ افتخار حسین نقوی چیئرمین امام خمینی ٹرسٹ، جو کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن بھی رہ چکے ہیں، آپ کا مضمون "ختم نبوت کے بارے میں شیعہ نقطہ نظر" قرآ ن و حدیث کے ساتھ ساتھ فرامینِ آئمہ چہاردہ معصومین ؑ کی روشنی میں عقیدہ ختم نبوت پر عقلی دلائل پر مشتمل ہے۔

علامہ مقبول حسین علوی کا مضمون "نہج البلاغہ اور ختم نبوت" عقیدہ ختم نبوت پر حضرت امام علی ؑ کے خطبات سے اقتباسات پر مشتمل ایک بہت اہم تحریر ہے۔ ختم نبوت یا شریعتِ اسلام کا عقلی پہلو ہفت روزہ سرفرازِ نبوت لکھنو میں ۱۹۶۷ء میں سید صفی پور ایم اے کی بہت اہم تحریر ہے۔ ختم نبوت پر حجۃ السلام مولانا سید فدا حسین بخاری کا مضمون مکتب اہل بیتؑ تشیع کا عقیدہ ختم نبوت پر نقطہ نظر کے حوالے سے ایک جامع اور مدلل تحریر ہے، جیسے بر صغیر پاک و ہند میں فتنہ قادیانیت و مرزائیت عقیدہ ختم نبوت پر ایک سازش بن کر وارد ہوا، اسی طرح فتنہ بہائیت  ۱۸۵۲عیسوی میں ایران کے شہر میں نمودار ہوا۔ برصغیر ہندو پاک میں فتنہ بہائیت کے متعلق بہت کم معلومات ہیں، عبد الرحمٰن صاحب کے مضمون میں بہائیت و بایت کی ابتدا، اس کے عقائد کے بارے میں تفصیلی معلومات موجود ہیں۔

حافظ شاہد احمد صاحب کا مقالہ "نہج البلاغہ میں ختم  نبوت کے اسالیب" بہت عمدہ تحقیقی تحریر ہے۔ آپ نے اپنے مقالے میں تمہید میں ختم نبوت کو امیرالمومنینؑ کی خلافت کی دلیل کے طور پہ بیان کرتے ہوئے، مقالے کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا، جس میں جزو اول میں نہج البلاغہ میں وہ عبارتیں جن سے ختم نبوت کا مفہوم اخذ ہوتا ہے، جزو دوئم میں انبیاء علیہم السلام  کے لئے مخصوص اوصاف کا تذکرہ، تیسرے جزو میں عصمتِ انبیاء، چوتھے جُزو میں دعویٰ نبوت اور اس کی دلیل، پانچویں حصے میں جہادِ اسلامی پر گفتگو کی گئی ہے، یہ مضمون نہج البلاغہ پر تحقیق کرنے والے طالب علموں کے لئے بہت عمدہ تحریر ہوسکتی ہے۔

سید نثار علی ترمذی مذکورہ مجلہ ماہنامہ پیام ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مولف و محقق بھی ہیں۔ آپ نے اتحاد امت کے موضوع پر اب تک دو کتب اور متعدد مقالات تحریر کیے ہیں، آپ کا مضمون "تحریک ختمِ نبوت میں تشیع پاکستان کا کردار"   گذشتہ چوہتر برس میں پاکستان میں مسئلہ ختم نبوت کے حوالے سے پاکستان کے تمام مسالک کے ہمراہ مکتبِ اہل بیت تشیع کے علماء و زعماء اور اکابر کے کردار اور ردِ قادیانت و مرزائیت کی تحریک میں فعال حصہ لینے کا تذکرہ پر مشتمل ہے، تحقیق کرنے والے طلاب کے لئے یہ مضمون توشہ خاص ہے۔ اسی طرح سید وحید حیدر کاظمی کی تحریر "تحریک ختم نبوت ۱۹۷۴ء کی مختصر تاریخ بھی آئینی و قانونی طور پر قادیانیت و مرزائیت کو غیر مسلم قرار دینے کی تفصیلی روداد پہ مبنی ہے، جس میں آل پاکستان مجلس عمل تحٖفظ ختمِ نبوت کے قیام کا احوال اور قادیانیت و مرزائیت کو غیر مسلم قرار دینے کے لئے قانونی و آئینی جدوجہد کا مکمل احوال موجود ہے۔

علامہ حسین عارف ایک جید شیعہ عالم ِدین گزرے ہیں، آپ کی تحریر "کتابیات، ردِ قادیانیت" قادیانیت کے ابطال کے حوالے سے لکھی ہوئی کتابوں کا تذکرہ ہے۔ علامہ مراز یوسف حسین (رح) سربراہ مجلسِ علمائے شیعہ پاکستان ایک معتبر جید شیعہ عالم دین گزرے ہیں، جن کی عقیدہ ختم نبوت کے حوالے سے تحریک ختم نبوت میں خدمات مثالی ہیں۔ آپ کا وفاقی شرعی عدالت میں عقیدہ ختم نبوت کے حوالے سے مکتب تشیع کے عقائد پر مشتمل بیان بھی اس مجلے کا حصہ ہے۔ مبارک ثانی کیس کے سلسلہ میں صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیر کا سپریم کورٹ میں بیان اور چیف جسٹس سے مکالمہ بھی محمد سیالوی ایڈوکیٹ کی تحریر اور نائب امیر جماعت اسلامی کی تحریر "عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ، فتنہ قادیانیت کے حوالے سے مولانا مودودی کا لائحہ عمل" بھی مجلے میں شامل کی گئی ہے۔

دیدہ زیب ٹائٹل، عمدہ کتابت، بہترین ڈایزائنگ اور اعلیٰ طباعت نے مجلے کی دلکشی میں اضافہ کر دیا ہے، ویلیو ایڈڈ کے طور پر بیک ٹائٹل پر قدیم کتب کے سرورق اسی طرح مجلے میں بھی ہر مضمون کے بعد قدیم کتب کے ٹائٹلز نے مجلے کی  اعتباریت و استناد میں بڑھوتری کر دی ہے۔ محترم ڈاکٹر علی عباس نقوی، محترم نثار علی ترمذی، محترم اسد عباس تقوی، محترم عرفان حسین، محترم اکرام حسین اور عزیزم  سید حسین نقوی سمیت البصیرہ کی تمام ٹیم اتنا عمدہ مجلہ شائع کرنے پر داد و تحسین کے ساتھ مبارک باد کی مستحق ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ’ڈاکٹر چکر لگوا رہے تھے، چیٹ جی پی ٹی نے مرض کی تشخیص کر کے زندگی بچا لی
  • خلا میں پاکستان کے کتنے سیٹلائٹ ہیں۔۔؟ اور پوری دنیا کے کتنے ہیں۔۔؟
  • سرینا اور میریٹ ہوٹلز کو بم دھمکیاں، سکیورٹی ادارے حرکت میں آگئے
  • رجب بٹ پاکستان واپس کب آئیں گے؟ یوٹیوبر نے خاموشی توڑ دی
  • ایک تاریخی دستاویز۔۔۔۔۔۔ ماہنامہ پیام اسلام آباد کا "ختم نبوت نمبر"
  • ترک انفلوئنسر کے ماریا بی پر سنگین الزامات، پاکستانی ڈیزائنر نے بھی اپنا مؤقف دے دیا
  • پی ایس ایل 10 میں کونسی ٹیم کس پوزیشن پر ہے
  • بھارت پاکستان کیساتھ روایتی جنگ کر سکتا ہے، فیصل محمد
  • حکومت کا دورہ افغانستان میرے پلان کے مطابق نہیں ہوا، پتا نہیں کوٹ پینٹ پہن کر کیا ڈسکس کیا، علی امین گنڈاپور
  • اکلوتا بیٹا ایک کروڑ روپے لیکر رفوچکر یا اغوا؛ سعودیہ سے آئے والد نے مقدمہ درج کرادیا