وادی نیلم میں خواتین رضا کاروں کی پولیو کے خلاف جرأت مندانہ جدوجہد
اشاعت کی تاریخ: 6th, February 2025 GMT
15 ہزار سے زائد آبادی پر محیط وادی نیلم کے علاقے سرگن میں پولیو مہم چلانا شدید مشکلات سے بھرپور ہے۔ برفباری، دور دراز گھر، اور دشوار گزار راستے خواتین رضاکاروں کے لیے ایک بڑا چیلنج ہیں۔ مہناز سجاد سرگن کی رہائشی ہیں اور پولیو مہم میں 3 سال سے سوشل ورکر کے طور پر کام کرتی ہیں۔ مہناز کا تعلق کراچی سے اور شادی کے بعد سے سرگن میں مقیم ہیں۔
وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ شہروں میں ڈور ٹو ڈور پولیو مہم آسان ہوتی ہے، لیکن یہاں برفباری والے علاقوں میں جہاں درجہ حرارت منفی ہوتا ہے وہاں کام کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ ہمارے پاس کوئی سہولت نہیں ہوتی کہ ہم راستہ بنا سکیں ہم خود راستہ بنا کر گھر گھر جا کر بچوں کو پولیو کے قطرے پلاتے ہیں۔ بچوں کو تلاش کرنا پڑتا ہے کیونکہ گھر دور دور ہوتے اور بعض اوقات بچے گھر نہیں ہوتے۔
مزید پڑھیں: کوئٹہ: بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے سے انکار پر 5 افراد گرفتار
ایریا انچارج نذر علی نے وی نیوز کو بتایا کہ ان کی زیر نگرانی مائع بکوالی سے کنڈی گھموٹ تک 5 ٹیمیں کام کر رہی ہیں، جو ہر گھر تک پہنچنے اور کسی بھی بچے کو پولیو ویکسین سے محروم نہ رہنے دینے کے لیے مکمل جانفشانی سے کام کر رہی ہیں۔ شدید موسمی حالات اور برفانی تودے گرنے کے خطرات کے باوجود، خواتین اپنی جانوں کی پرواہ کیے بغیر پولیو جیسے موذی مرض کے خلاف جنگ لڑ رہی ہیں۔
نذر علی کا مزید کہنا تھا کہ رضا کاروں کو مناسب سہولیات، حفاظتی ساز و سامان اور حکومتی مدد کی اشد ضرورت ہے تاکہ وہ اپنا یہ قومی فریضہ مزید مؤثر انداز میں انجام دے سکیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پولیو خواتین رضا کار وادی نیلم.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پولیو خواتین رضا کار وادی نیلم کام کر
پڑھیں:
دریائے نیلم اور جہلم میں پانی معمول کے مطابق چل رہا ہے، ذرائع
دریائے نیلم اور دریائے جہلم میں پانی معمول کے مطابق چل رہا ہے، دریائے نیلم آزاد کشمیر میں ٹاؤ بٹ پر بھی پانی کا بہاؤ معمول کے مطابق ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ دریائے جہلم پر اڑی ون 480 میگا واٹ پراجیکٹ سے بھی پانی کا اخراج معمول کے مطابق ہے، اڑی ٹو 240 میگا واٹ پروجیکٹ سے پانی کا اخراج معمول کے مطابق جاری ہے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان دریاؤں کی تقسیم کا سندھ طاس معاہدہ کیا ہے؟بھارت اور پاکستان کے نمائندوں کے درمیان برسوں کے مذاکرات کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان عالمی بینک کی ثالثی میں (Indus Water Treaty ) سندھ طاس معاہدہ 19ستمبر 1960 کو عمل میں آیا تھا۔
پاکستان نے بھارتی پروازوں کیلئے فضائی حدود ایک ماہ کیلئے بند کردیپاکستانی فضائی حدود کی بندش سے بھارتی پروازوں کو 2 گھنٹوں کا اضافی وقت درکار ہوگا، بھارت کیلئے فضائی حدود کی بندش سے پاکستان کو بھی لاکھوں ڈالر یومیہ کا نقصان ہوگا۔
اس وقت بھارت کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو اور پاکستان کے سربراہ مملکت جنرل ایوب خان نے کراچی میں اس معاہدے پر دستخط کیے تھے۔
مغربی دریاؤں یعنی سندھ، جہلم اور چناب کو پاکستان، مشرقی دریاؤں یعنی راوی، بیاس اور ستلج کا کنٹرول بھارت کے ہاتھ میں دیا گیا، دونوں ممالک نے دریاؤں کے حوالے سے اپنے مشترکہ مفادات کو تسلیم کرتے ہوئے ایک مستقل انڈس کمیشن قائم کیا، بھارت یکطرفہ معاہدہ معطل یا ختم نہیں کر سکتا، تبدیلی کیلئے رضامندی ضرور ی ،پاکستان ثالثی عدالت جانےکاحق رکھتا ہے۔
قومی سلامتی کمیٹی نے واضح کردیا ہے کہ پاکستان اور اس کی مسلح افواج کسی بھی غلط قدم کے خلاف مکمل طور پر تیار ہے۔
پاکستان سندھ طاس معاہدے کے آرٹیکل 9 کے تحت بھارتی انڈس واٹر کمشنر سے رجوع کرنے پر غور کررہا ہے، معاہدہ معطل کرنے کی وجوہات جاننے کیلئے پاکستانی انڈس واٹر کمشنر کی جانب سے بھارتی ہم منصب کو خط لکھے جانے کا امکان ہے، یہ امید کی گئی تھی کہ یہ معاہدہ دونوں ملکوں کے کاشتکاروں کے لیے خوشحالی لائے گا اور امن، خیر سگالی اور دوستی کا ضامن ہوگا۔
دریاؤں کی تقسیم کا یہ معاہدہ کئی جنگوں، اختلافات اور جھگڑوں کے باوجود 62 برس سے اپنی جگہ قائم ہے۔
سندھ طاس معاہدے کے تحت مغربی دریاؤں یعنی سندھ، جہلم اور چناب کو پاکستان کے کنٹرول میں دیا گیا۔
بھارت کو ان دریاؤں کے بہتے ہوئے پانی سے بجلی پیدا کرنے کا حق ہے لیکن اسے پانی ذخیرہ کرنے یا اس کے بہاؤ کو کم کرنے کا حق نہیں ہے۔ بھارت نے وعدہ کیا کہ وہ پاکستان میں ان کے بہاؤ میں کبھی کوئی مداخلت نہیں کرے گا۔
مشرقی دریاؤں یعنی راوی، بیاس اور ستلج کا کنٹرول بھارت کے ہاتھ میں دیا گیا، بھارت کو ان دریاؤں پر پراجیکٹ وغیرہ بنانے کا حق حاصل ہے جن پر پاکستان اعتراض نہیں کر سکتا۔
دونوں ممالک نے دریاؤں کے حوالے سے اپنے مشترکہ مفادات کو تسلیم کرتے ہوئے ایک مستقل انڈس کمیشن قائم کیا۔ جو بھارت اور پاکستان کے کمشنروں پر مشتمل تھا۔ ہائیڈرولوجیکل اور موسمیاتی مراکز کا ایک مربوط نظام قائم کیا گیا۔