اوورسیز پاکستانیوں، پراپرٹی خریداروں کو کون سے ریلیف ملنے کا امکان ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 6th, February 2025 GMT
وزارت ہاؤسنگ نے تعمیراتی شعبے میں ریلیف کی تجاویز ایف بی آر کو بھیج دیں۔
یہ بھی پڑھیں:َ نئے ٹیکس قوانین: کیا پراپرٹی کی خریداری پر ٹیکس چھوٹ حاصل ہوگی؟
ملکی معاشی حالات کے باعث حکومت نے ٹیکس آمدن بڑھانے کے لیے دیگر شعبوں کی طرح پراپرٹی اور تعمیراتی شعبے میں بھاری ٹیکس عائد کیے تھے تاہم بھاری ٹیکسز میں کمی اور سرمایہ کاری بڑھانے اور تعمیراتی شعبے کی ترقی کے لیے وزیراعظم شہباز شریف نے ٹاسک فورس تشکیل دی تھی۔
مذکورہ ٹاسک فورس نے تعمیراتی شعبے کے لیے مجوزہ پیکج تیار کرلیا ہے اور ریلیف کی تجاویز وزارت ہاؤسنگ نے ایف بی آر کو بھیج دی ہیں۔
ٹاسک فورس نے ہاؤسنگ کے شعبے میں خریداروں کو ٹیکس میں ریلیف دینے کی سفارش کی تجویز دی ہے۔ نان فائلرز کو ایک کروڑ روپے مالیت کی جائیداد خریدنے کی اجازت دینے اور پراپرٹی کی فروخت میں ٹیکس کی شرح 50 فیصد کرنے کی تجویز شامل ہے۔
مزید پڑھیے: غیر ظاہر شدہ آمدن سے آپ کتنی پراپرٹی خرید سکتے ہیں؟ وفاقی حکومت نے بڑا فیصلہ کرلیا
اس وقت جائیداد کی لین دین میں مجموعی طور پر 11 سے 14 فیصد ٹیکس عائد ہے جسے ٹاسک فورس نے 4 سے4.
ٹاسک فورس نے اوورسیز پاکستانیوں کے لیے پراپرٹی کی خریداری میں آسان طریقہ کار بنانے اور نادرا سے آن لائن رجسٹرڈ ہونے کی سہولت فراہم کرنے کی تجویز دی ہے۔ فائلرز کے لیے 5 کروڑ کی پراپرٹی کو ویلتھ اسٹیٹمنٹ میں شامل کرنے کی سہولت کی تجویز بھی دی گئی ہے۔
مزید پڑھیں: جائیداد کی خریدوفرخت: اوورسیز پاکستانیوں پر کونسی نئی شرط عائد کردی گئی
نئے ٹیکس قوانین میں قرار دیا گیا تھا کہ ایک کروڑ روپے مالیت کے اثاثے ظاہر کرنے والے فائلر افراد پر ایک کروڑ 30 لاکھ روپے مالیت سے زائد کی جائیداد خریدنے پر پابندی عائد ہو گی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اوورسیز پاکستانی ایف بی آر پراپرٹی خریدار پراپرٹی خریداروں کو چھوٹ ٹاسک فورسذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اوورسیز پاکستانی ایف بی ا ر پراپرٹی خریدار پراپرٹی خریداروں کو چھوٹ ٹاسک فورس تعمیراتی شعبے ٹاسک فورس نے کی تجویز کرنے کی کے لیے
پڑھیں:
نیتن یاہو نے فوج کی ناکامی کے بعد حماس کو ختم کرنے کا ٹاسک جرائم پیشہ گروہ کو دیدیا
اسرائیل نے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے حماس کو ختم کرنے کے لیے غزہ کے جرائم پیشہ گروہ کو خودکار اسلحہ فراہم کرنا شروع کر دیا۔
ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق حکومت نے غزہ میں حماس کے خلاف مزاحمت بڑھانے کے لیے مقامی جرائم پیشہ گروہوں بالخصوص "ابو شباب" کی پشت پناہی شروع کردی۔
اس بات کا انکشاف سابق وزیر دفاع آویگڈور لیبرمین کے بیان اور بعد ازاں سیکیورٹی ذرائع کی تصدیق کے بعد ہوا۔
اسرائیل کے سابق وزیر دفاع نے مقامی میڈیا کو انٹرویو میں دعویٰ کیا کہ وزیراعظم نیتن یاہو نے سیکیورٹی کابینہ کی منظوری کے بغیر یکطرفہ طور پر یہ متنازع فیصلہ کیا ہے۔
سابق وزیر دفاع نے کہا کہ اسرائیلی حکومت ایک ایسے جرائم پیشہ گروہ کو ہتھیار دے رہی ہے جو ماضی میں اپنا تعلق فخریہ طور پر داعش سے بتاتی تھی۔
خیال رہے کہ ابو شباب جنوبی غزہ کے شہر رفح میں کافی سرگرم ہے جس کی قیادت یاسر ابو شباب کے ہاتھ میں ہے۔
ابوشباب پہلے بھی مصری شدت پسندوں کے ساتھ اسمگلنگ میں ملوث رہا ہے اور ان پر انسانی امداد لوٹنے کے الزامات بھی لگتے آئے ہیں۔
حالیہ ویڈیوز میں گروہ کے ارکان کو فلسطینی پرچم والے وردیوں میں دیکھا گیا، جن پر کاؤنٹر ٹیررازم میکنزم تحریر تھا۔ یہ ویڈیوز اسرائیلی کنٹرول والے علاقوں میں بنائی گئیں۔
دوسری جانب اسرائیلی وزیراعظم کے دفتر نے لیبرمین کے دعوے کو مسترد کردیا تاہم اس بات کی تصدیق بھی کہ البتہ سیکیورٹی اداروں کی سفارشات پر حماس کو ختم کرنے کے لیے کئی مختلف طریقے استعمال کر رہے ہیں۔
تاہم بعد میں ایک ویڈیو بیان میں اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے تصدیق کی کہ ہم نے سیکیورٹی مشاورت کے بعد ایسے قبائل سے رابطہ کیا جو حماس کے خلاف ہیں۔ اس میں کچھ غلط نہیں، اس سے ہمارے فوجی جوانوں کی جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔
اسرائیل کے دفاعی ذرائع نے عالمی خبر رساں ادارے کو تصدیق کی کہ اسرائیل نے ابو شباب گروہ کو کلاشنکوف رائفلز فراہم کیں جن میں کچھ وہ بھی شامل تھیں جو جنگ کے دوران حماس سے ضبط کی گئی تھیں۔
دفاعی ذرائع یہ بھی وضاحت کی یہ ابو شباب کو اسلحہ اور آشیرباد کی فراہمی کا نیتن یاہو فیصلہ سیکیورٹی کابینہ کی منظوری کے بغیر کیا۔
ادھر حماس نے گزشتہ ہفتے ایک ویڈیو جاری کی جس میں ابو شباب گروہ کے ارکان کو ایک عمارت کے باہر کارروائی کے دوران دھماکے سے اڑایا گیا۔
لبنانی اخبار سے بات کرتے ہوئے حماس کے ذرائع نے تصدیق کی کہ گروہ ان کے لیے درد سر بن چکا ہے۔
حماس کا کہنا ہے کہ اس گروہ میں تقریباً 300 افراد شامل ہیں جن میں سے 50 کو ذاتی طور پر ابو شباب نے بھرتی کیا جبکہ باقی مبینہ طور پر فلسطینی اتھارٹی کے انٹیلیجنس نیٹ ورک کے ذریعے لائے گئے۔