پیکا ایکٹ پر تحفظات:حکومت اور صحافیوں کے درمیان مذاکرات کا فیصلہ
اشاعت کی تاریخ: 6th, February 2025 GMT
اسلام آباد:قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نے صحافتی تنظیموں کی جانب سے احتجاج اور شدید ردعمل کے بعد پیکا ایکٹ سے متعلق خدشات دُور کرنے کے لیے صحافیوں کے ساتھ مل کر ایک ذیلی کمیٹی تشکیل دینے کا اعلان کیا ہے۔
نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات کے اجلاس میں حکومت اور صحافیوں کے درمیان براہ راست مذاکرات کرانے کا فیصلہ کیا گیا۔ کمیٹی کے چیئرمین پولین بلوچ نے اس حوالے سے کہا کہ پیکا ایکٹ کے تحت جن تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے، انہیں ذیلی کمیٹی میں تفصیل سے سنا جائے گا اور حل نکالا جائے گا۔
وزیر اطلاعات و نشریات نے کمیٹی اجلاس میں کہا کہ ڈیجیٹل میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کے قیام کے بعدڈیجیٹل پلیٹ فارمز کو باقاعدہ ضوابط کے تحت لایا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ پیکا ایکٹ کا مقصد صرف ڈیجیٹل میڈیا کو ریگولیٹ کرنا ہے، جب کہ اخبارات اور ٹی وی چینلز پہلے سے ہی قواعد و ضوابط کے تحت کام کر رہے ہیں، لہٰذا ان پر اس قانون کا اطلاق نہیں ہوگا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر اربوں روپے کمانے والے افراد کو بھی ملکی قوانین کے تحت اپنی ذمے داریاں پوری کرنی ہوں گی۔ نئے نظام میں ڈیجیٹل رائٹس ٹریبونل اور کونسل آف کمپلینٹس میں صحافیوں کی نمائندگی بھی یقینی بنائی جائے گی۔
اس دوران ایم کیو ایم کے رکن قومی اسمبلی امین الحق نے نشاندہی کی کہ فواد چودھری بھی ماضی میں پاکستان میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے قیام کی کوشش کر چکے ہیں اور فیک نیوز کا مسئلہ واقعی موجود ہے۔ انہوں نے تجویز دی کہ حکومت کو صحافتی تنظیموں اور پریس کلب کے نمائندوں کے ساتھ بیٹھ کر معاملے کا حل نکالنا چاہیے۔
وزیر اطلاعات نے اس تجویز سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ وہ ہر وقت صحافیوں کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔ اس پر چیئرمین قائمہ کمیٹی نے اعلان کیا کہ صحافیوں کے ساتھ مشاورت کے بعد مسائل کا قابلِ قبول حل نکالا جائے گا۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: صحافیوں کے پیکا ایکٹ کے ساتھ جائے گا کہا کہ کے تحت
پڑھیں:
اصلی اور اے آئی جنریٹڈ ویڈیوز میں فرق کس طرح کیا جائے، جانیے اہم طریقے
سوشل میڈیا پر آج کل آرٹیفیشل انٹیلیجنس (اے آئی) سے بنائی گئی ویڈیوز کا سیلاب آ گیا ہے لیکن ان جعلی ویڈیوز کو پہچاننے کا ایک اہم اشارہ ہے کہ کیا ویڈیو کی کوالٹی اتنی خراب ہے جیسے یہ کسی پرانے موبائل یا کمزور کیمرے سے بنائی گئی ہو؟
’یہ تو اصلی لگ رہی تھی‘ماہرین کے مطابق پچھلے 6 ماہ میں اے آئی ویڈیو بنانے والے ٹولز اتنے ترقی یافتہ ہو گئے ہیں کہ اب ہمیں حقیقت اور نقل میں فرق کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: روسی صدر پیوٹن کی پاکستان کے خلاف جعلی ویڈیو بے نقاب، یہ ویڈیوز کیسے پھیلائی جاتی ہیں؟
کیلیفورنیا یونیورسٹی برکلے کے کمپیوٹر سائنسدان اور ڈیجیٹل فرانزکس کے ماہر ہینی فرید کہتے ہیں کہ سب سے پہلے ہم ویڈیو کی کوالٹی پر نظر ڈالتے ہیں۔ اگر تصویر دھندلی یا دانے دار ہے تو یہ خطرے کی گھنٹی ہے۔
دھندلی ویڈیوز زیادہ خطرناک کیوں ہیں؟ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وقت جو اے آئی ویڈیوز ہمیں دھوکہ دے رہی ہیں وہ عموماً کم معیار کی ہوتی ہیں۔
وجہ یہ ہے کہ جب ویڈیو کو جان بوجھ کر دھندلا یا کم ریزولوشن میں رکھا جائے تو اس میں موجود چھوٹے نقائص جیسے عجیب حرکات، غیر فطری چہرے کے تاثرات یا پس منظر کی غلطیاں چھپ جاتی ہیں۔
مثال کے طور پر خرگوشوں کے ٹرامپولین پر اچھلنے والی جعلی ویڈیو کو ٹک ٹاک پر 24 کروڑ سے زیادہ بار دیکھا گیا۔
نیویارک سب وے میں 2 افراد کے ’محبت میں مبتلا‘ ہونے والی ویڈیو بھی لاکھوں لوگوں کو دھوکا دے گئی۔
اور ایک جعلی پادری کی ویڈیو، جس میں وہ دولت مند طبقے کے خلاف تقریر کر رہا تھا، لاکھوں لوگوں کو اصلی لگی۔
ان سب ویڈیوز میں ایک بات مشترک تھی جو یہ تھی کہ وہ سب کم معیار کی فوٹیجز تھیں۔
ویڈیوز اتنی مختصر کیوں ہوتی ہیں؟فرید کے مطابق جعلی ویڈیوز کی ایک اور پہچان ان کی لمبائی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اکثر ویڈیوز صرف 6 سے 10 سیکنڈ کی ہوتی ہیں کیونکہ طویل ویڈیو بنانا مہنگا اور مشکل ہے۔
مزید پڑھیے: ٹک ٹاک نے پاکستان میں مزید ڈھائی کروڑ ویڈیوز ڈیلیٹ کردیں
اسی طرح کم ریزولوشن اور زیادہ کمپریشن بھی ایک نشانی ہو سکتی ہے کیونکہ دھوکہ دینے والے اکثر ویڈیو کو جان بوجھ کر دھندلا کرتے ہیں تاکہ نقائص چھپ جائیں۔
اب آگے کیا ہوگا؟ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ یہ مشورہ ہمیشہ کام نہیں کرے گا کیونکہ اے آئی تیزی سے بہتر ہو رہا ہے۔
ڈریکسل یونیورسٹی کے پروفیسر میتھیو اسٹام کہتے ہیں کہ 2 سال کے اندر یہ ظاہری نشانات ختم ہو جائیں گے اور ہم اپنی آنکھوں پر اعتبار نہیں کر سکیں گے تاہم امید ابھی باقی ہے۔
ڈیجیٹل فورینسک کے ماہرین ایسے ڈیجیٹل فنگر پرنٹس پر کام کر رہے ہیں جن سے ویڈیو کے اصلی یا جعلی ہونے کا پتا لگایا جا سکے۔ مستقبل میں ممکن ہے کیمرے خود ویڈیو میں تصدیقی ڈیٹا (میٹا ڈیٹا) شامل کریں تاکہ اس کی اصلیت ثابت ہو سکے۔
ڈیجیٹل لٹریسی ماہر مائیک کولفیلڈ کے مطابق مسئلے کا حل ٹیکنالوجی نہیں بلکہ ہمارا رویہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں سیکھنا ہوگا کہ ویڈیوز کو بھی تحریر کی طرح دیکھیں صرف دیکھنے سے یقین نہ کریں بلکہ اس کا ماخذ، سیاق و سباق اور پوسٹ کرنے والے شخص کو پرکھیں۔
مائیک کولفیلڈ نے کہا کہ اب کسی ویڈیو کو صرف دیکھ کر اصلی سمجھنا خطرناک ہو گیا ہے اور حقیقت جاننے کے لیے ضروری ہے کہ ہم یہ پوچھیں کہ یہ ویڈیو کہاں سے آئی؟
مزید پڑھیں: ڈیپ فیک چہرے کے ساتھ پہلی سرٹیفائیڈ جعلی ویڈیو جاری کر دی گئی
انہوں نے کہا کہ یہ دیکھیں کہ یہ ویڈیو کس نے اپلوڈ کی ہے اور کیا کسی معتبر ذریعے نے اس کی تصدیق کی ہے؟
جیسا کہ پروفیسر اسٹام کہتے ہیں یہ 21ویں صدی کا سب سے بڑا انفارمیشن سیکیورٹی چیلنج ہے لیکن ہم ابھی ہار ماننے کے لیے تیار نہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اصلی اور نقلی ویڈیو میں پہچان اے آئی ویڈیو ڈیپ فیک