Jasarat News:
2025-06-09@13:35:49 GMT

مکارم اخلاق کی بنیادیں

اشاعت کی تاریخ: 7th, February 2025 GMT

تقویٰ: ترمذی اور مشکوٰۃ کی ایک حدیث میں جس کی روایت عطیہ السعدی نے کی ہے، رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا: ’’بندہ اہل تقویٰ کا مقام نہیں پاسکتا تا وقتیکہ وہ ان چیزوں کو بھی نہ چھوڑ دے جن میں (بظاہر) کوئی حرج نہیں ہے، اس اندیشے سے کہ کہیں وہ ان چیزوں میں مبتلا نہ ہوجائے جن میں حرج (گناہ) ہے‘‘۔ (ابن ماجہ)
مراد یہ ہے کہ بعض اوقات جائز امور بھی حرام کاموں کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ اس لیے ایک مومن کے سامنے صرف جواز کا ہی پہلو نہیں ہونا چاہیے بلکہ اسے اس لحاظ سے بھی چوکنا رہنا چاہیے کہ کہیں یہ جائز کام حرام کا ذریعہ نہ بن جائے۔
2۔متقیانہ زندگی کا اصول: ابن ماجہ اور مشکوٰۃ کی ایک حدیث میں جس کی روایت سیدہ عائشہؓ نے کی ہے، رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’اے عائشہؓ! حقیر گناہوں سے بچتی رہنا، اس لیے کہ ان کے بارے میں بھی اللہ کے ہاں باز پرس ہوگی‘‘۔ (ابن ماجہ)
صغیرہ گناہ بظاہر ہلکا نظر آتا ہے لیکن اسے بار بار کیا جائے تو دل زنگ آلود ہوجاتا ہے اور کبائر سے نفرت آہستہ آہستہ ختم ہوجاتی ہے۔ اس طرح صغیرہ گناہ کم خطرناک نہیں ہے۔ متقیانہ زندگی گزارنے کے لیے صغیرہ گناہ سے بھی بچنا چاہیے۔
حافظ ابن قیمؒ نے لکھا ہے کہ: ’’گناہ کو نہ دیکھو کہ وہ کتنا چھوٹا ہے بلکہ اس خدا کی بڑائی کو سامنے رکھو جس کی نافرمانی کی جسارت کی جا رہی ہے‘‘۔ اگر خداے بزرگ و برتر اور مالک یوم الدین کی عظمت اور اس کے عذاب کی ہولناکیاں پیش نظر ہوں، یعنی چشمِ تصور میں رہیں تو پھر انسان کسی چھوٹے سے چھوٹے گناہ پر بھی دلیر نہیں ہوسکتا۔
3۔وسائل و ذرائع کی پاکیزگی: مشکوٰۃ کی ایک حدیث میں حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’کوئی شخص بھی خدا کے مقرر کردہ رزق کو حاصل کیے بغیر موت کا لقمہ نہ بنے گا۔ سنو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور رزق کے حصول میں جائز ذرائع و وسائل کام میںلائو۔ رزق کے حصول میں تاخیر تمھیں ناجائز ذرائع اختیار کرنے پر آمادہ نہ کردے۔ اس لیے کہ اللہ کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ صرف اس کی اطاعت ہی سے حاصل کیا جاسکتا ہے‘‘۔ (مشکوٰۃ)

اس روایت میں دو اہم دینی حقائق بیان کیے گئے ہیں:
اگر کسی بھی انسان کو رزق کے حصول میں ناکامی یا تاخیر محسوس ہو تو اسے مایوسی کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ اللہ نے رزق کی جو مقدار اس کے لیے مقرر کی ہوئی ہے وہ بہرحال دیریا سویر اسے مل کر رہے گی۔
یوں تو انسان بعض اوقات اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتے ہوئے بھی بظاہر دْنیاوی خوش حالی اور آسایش پا لیتا ہے، لیکن یہ دراصل خدا کی طرف سے مہلت ہوتی ہے جس کے بعد اللہ تعالیٰ کے عذاب کا تازیانہ برستا ہے۔ حقیقی خوش حالی اور راحت و سکون تو وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرماںبرداری کرتے ہوئے حاصل ہو۔
مشکوٰۃ کی ایک اور حدیث میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی شخص حرام مال کمائے، پھر اس میں سے صدقہ دے تو وہ قبول کرلیا جائے اور پھر وہ اپنے مال میں برکت سے بھی نوازا جائے۔ اس کا متروکہ حرام مال صرف جہنم کا توشہ بن سکتا ہے (اس سے آخرت کی سعادت و کامرانی حاصل نہیں کی جاسکتی)۔ بلاشبہہ اللہ تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ وہ برائی سے برائی کو نہیں مٹاتا، بلکہ برائی کو بھلائی سے ختم کرتا ہے۔ (یہ ایک حقیقت ہے کہ) نجاست کو نجاست سے مٹا کر پاکیزگی حاصل نہیں کی جاسکتی‘‘۔ (مسند احمد)
اس روایت سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ محض مقصد کا پاک ہونا ہی کافی نہیںہے، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وسائل و ذرائع کی پاکیزگی بھی ضروری ہے۔

4۔علامت تقویٰ: ترمذی اور مشکوٰۃ کی ایک حدیث میں جس کی روایت حضرت حسن بن علیؓ نے کی ہے کہ میں نے رسول اللہؐ کی زبان مبارک سے یہ کلمات یاد کرلیے ہیں: ’’جو چیز شک میں مبتلا کرنے والی ہو، اسے چھوڑ کر اس کام کو پسند کرلو جو شک و شبہہ سے با لاتر ہو۔ اس لیے کہ سچائی سراپا سکون و اطمینان ہے اور جھوٹ سراپا شک و تذبذب‘‘۔ (ترمذی)

5۔توکّل: ترمذی کی ایک حدیث جس کی روایت حضرت انسؓ نے کی ہے، کہ ایک آدمی نے نبی کریمؐ کی خدمت میں عرض کیا: ’’اے اللہ کے رسولؐ! میں اونٹ کو باندھ کر توکل اختیار کروں یا اسے چھوڑ کر؟‘‘ نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا: ’’اسے باندھ لے اور پھر خدا پر توکّل کر‘‘۔ (ترمذی)
ترمذی اور مشکوٰۃ کی ایک اور حدیث جس کی روایت سیدنا عمرؓ نے کی ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہؐ کو فرماتے سنا:
اگر تم اللہ پر اس طرح توکل کرو، جس طرح کہ توکّل کرنے کا حق ہے تو وہ تم کو اس طرح روزی دے گا جس طرح پرندوں کو روزی دی جاتی ہے۔ صبح سویرے خالی پیٹ (آشیانوں سے) نکلتے ہیں اور شام کو آسودہ ہو کر پلٹتے ہیں۔ (ابن ماجہ)

پرندوں کے ساتھ تشبیہہ د ے کر رسول اللہؐ نے اس حقیقت کو آشکار کیا ہے کہ توکل یہ نہیں ہے کہ انسان ہاتھ پیر توڑکر گھر میں بیٹھا رہے، بلکہ توکل یہ ہے کہ خدا کے دیے ہوئے اسباب و وسائل کو کام میں لا کر نتائج خدا کے حوالے کردے۔
6۔شکر: مسند احمد کی ایک حدیث جس کی روایت حضرت ابو ہریرہؓ نے کی ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’شکر گزار بے روزہ انسان صبر کرنے والے روزے دار کی طرح ہے‘‘۔ (مسنداحمد)
یعنی جو صبر کے ساتھ نفلی روزے رکھتا ہے اور جو شکر کے ساتھ خدا کی دی ہوئی حلال روزی کھا کر دن گزارتا ہے، دونوں خدا کے ہاں درجہ میں برابر ہیں۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پانی پینے کے بعد بھی شکر اداکرتے تھے۔

ایک حدیث جس کی روایت حضرت ابوہریرہؓ نے کی ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’جو تم میں سے (مال، جسم اور وجاہت کے اعتبار سے) بالا تر ہیں، ان کو نہ دیکھو، اور جو تم سے (اس لحاظ سے) فروتر ہیں، ان کو دیکھو۔ اس طرح یہ صلاحیت پیدا ہوسکے گی کہ تم اپنے اوپر اللہ کی نعمت کو حقیر نہ سمجھو گے‘‘۔ (صحیح ابن حبان) ایک اورروایت ہے: ’’جب تم میں سے کسی کی نگاہ ایسے شخص کی طرف اٹھے جو مال اور جسمانی طاقت میں اس پر فضیلت دیا گیا ہے تو چاہیے کہ اسے دیکھے جو (اس لحاظ سے) فروتر ہے‘‘۔ (مسلم)
شکر ادا کرنے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں اور دل و دماغ کی صلاحیتوں کو اللہ کی ہدایت کے مطابق استعمال کیا جائے اور اس کی نافرمانی کے کاموں سے پرہیز کیا جائے۔
7۔صبر: مسلم کی ایک حدیث جس کی روایت حضرت صہیبؓ نے کی ہے، رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’مومن کے معاملے پر تعجب ہے کہ اس کا سارا کام خیر ہی خیر ہے۔ یہ (سعادت) مومن کے سوا کسی کو حاصل نہیں ہے۔ اگر اسے دْکھ پہنچتا ہے اور وہ صبر کرتا ہے، تو یہ اس کے لیے بہتر ہوتا ہے، اور اگر اْسے خوشی حاصل ہوتی ہے اور وہ سراپا شکر بن جاتا ہے تو یہ بھی اس کے لیے بہتر ہوتا ہے۔ گویا وہ ہر حال میں خیر ہی سمیٹتا ہے‘‘۔ (مسلم)

بخاری اور مسلم کی ایک حدیث میں جس کی روایت حضرت انسؓ نے کی ہے کہ رسول اللہؐ کا گزر ایک ایسی عورت کے پاس سے ہوا جو ایک قبر کے پاس بیٹھی رورہی تھی۔ آپؐ نے فرمایا: ’’اللہ کا تقویٰ اختیار کر اور صبر سے کام لے‘‘۔ اس عورت نے نبی کریمؐ کو نہ پہچانتے ہوئے کہا: اپنی راہ لو، میری جیسی مصیبت تم پر تو نہیں پڑی ہے۔ کسی نے اس سے کہا کہ یہ تو رسول اللہؐ تھے جو تمھیں صبر کی تلقین فرمارہے تھے، تو وہ دوڑی ہوئی آئی اور حضورؐ سے عرض کیا: حضور میں نے آپ کو پہچانا نہیں تھا۔ اس پر نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’بس صبر وہی ہے جو سینے پر پہلی چوٹ لگتے وقت کیاجائے‘‘۔ ایک اور حدیث ہے کہ: ’’اگر کوئی اللہ سے صبر کی توفیق مانگے تو اللہ اسے صبر کی توفیق عطا فرماتا ہے‘‘۔ (بخاری)

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: مشکو ۃ کی ایک حدیث میں اور مشکو ۃ کی ایک نے کی ہے کہ اللہ تعالی نے فرمایا اختیار کر یہ ہے کہ ایک اور کے ساتھ نہیں ہے کے لیے خدا کے ہے اور اس لیے

پڑھیں:

حضرت ابراہیمؑ کے ایثار و قربانی  کی روح سے سبق سیکھنے ، صدر آصف زرداری

سٹی42:  صدر مملکت  نے عید الاضحیٰ پر قوم کے نام تہنئیتی پیغام میں کہا کہ حضرت ابراہیمؑ کے ایثار و قربانی کی روح سے سبق سیکھنے اور اپنی زندگیوں میں اتارنے کی ضرورت ہے ، بطور قوم ایک دوسرے کا سہارا بن کر ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہو کر پاکستان کو ایک عظیم اور خوشحال ملک بنانا ہے ۔ 

 صدر  آصف علی زرداری نے کہا میں عیدالاضحیٰ کے مبارک موقع پر پوری پاکستانی قوم اور عالم ِاسلام کو دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ یہ دن ہمارے ایمان، قربانی، ایثار اور بھائی چارے کے جذبے کو ازسرِنوزندہ کرنے کا دن ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس دن کو ہمارے ملک اور پوری امتِ مسلمہ کے لیے خیر، برکت، اتحاد اور خوشحالی کا ذریعہ بنائے۔ 

قوم شہیدوں اور قربانیاں دینے والوں کو آج یاد رکھے

 صدر آصف علی زردار ی  نے کہا،  عیدالاضحیٰ حضرت ابراہیم ؑاور حضرت اسماعیل ؑ کی بے مثال اطاعت، قربانی اور تسلیم و رضا کی یاد تازہ کرتی ہے۔ ان عظیم ہستیوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے آگے سرِ تسلیم خم کرکے اطاعت، وفاداری، ایثار اور قربانی کی ایک روشن مثال قائم کی۔ یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اللہ کی رضا کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرنا چاہیے  اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں ہی ہماری انفرادی اور اجتماعی کامیابی مضمر ہے۔

  یکجہتی، قربانی اور ایثار کے جذبے کو اپنانا ہو گا، شہباز شریف کا عید پر قوم کے نام پیغام

 صدر مملکت نے قوم  سے کہا کہ ہمیں حضرت ابراہیمؑ کے ایثار و قربانی  کی روح سے سبق سیکھنے اور اسے اپنی زندگیوں میں اُتارنے کی ضرورت ہے۔  آج ہمیں معاشرے کے کمزور اور محروم طبقات کا سہارا بننے کی ضرورت ہے۔ عید کے موقع پر قربانی کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ عہد بھی کرنا چاہیے کہ ہم اپنے اطراف میں موجود ہر محتاج، بیمار،غریب اور مسکین فرد کا ہمیشہ خیال رکھیں گے۔ ہمیں اپنے رویّوں میں قربانی،محبت، بھائی چارے اور اتحاد کو فروغ دینا ہوگا۔  ہمیں بطور قوم ایک دوسرے کا سہارا بن کر، ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہو کر پاکستان کو ایک عظیم اور خوشحال ملک بنانا ہے۔

ٹک ٹاکر ثنا کا قاتل نفسیاتی مریض تھا؟

  

 ان کا مزید کہنا تھا کہ اس موقع پر پوری پاکستانی قوم کو اس عزم کا اعادہ کرنا ہے کہ ہم بحیثیت ِقوم دلوں کو نفرت اور تعصب  سے پاک کریں گےاور خلوصِ نیت سے ملک و ملت کی ترقی اور امتِ مسلمہ کی سربلندی کیلئے اپنا کردار ادا  کریں گے ۔ اللہ تعالیٰ ہماری قربانیوں کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے، پاکستان کو امن، ترقی اور خوشحالی عطا فرمائے، اور ہمیں ایک متحد اور مضبوط قوم بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

شہری کو اغوا کرنے والے پانچ پولیس اہلکار پکڑےگئے

Waseem Azmet

متعلقہ مضامین

  • پانی کو ہتھیار بنانے کی روایت بننے نہیں دیں گے، پانی روکنا اعلان جنگ تصور ہوگا، بلاول بھٹو کا اسکائی نیوز کو انٹرویو
  • چینی قوم کی وحدت کا تصور ثقافت اور اخلاق سے ہم آہنگ ہے، چینی میڈیا
  • پی ٹی آئی کو احتجاجی تحریک سے کچھ حاصل نہیں ہو گا، رانا ثنا اللہ
  • حج کیلئے گھوڑوں پر 6 ہزار کلومیٹر کا سفر: 3 ہسپانوی مسلمانوں نے صدیوں پرانی روایت زندہ کردی
  • تحریک سے کچھ حاصل نہیں ہوگا پی ٹی آئی ہم سے بات کرے، رانا ثنااللہ
  • اے اللہ! فلسطینیوں کی مدد فرما!
  • حضرت ابراہیمؑ کے ایثار و قربانی  کی روح سے سبق سیکھنے ، صدر آصف زرداری
  • کراچی، عیدالاضحیٰ پر مصنوعی مہنگائی کی روایت برقرار، اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ
  • کراچی؛ عید پر مصنوعی مہنگائی کی روایت برقرار، متعدد اشیا کی قیمتوں میں اضافہ
  • قربانی کیلئے جانوروں کی تعداد زیادہ ہونا چاہیئے یا قیمتی جانور ؟ جانئے