آزمائش کے مختلف مواقع پر اگر ہم عمل سے یہ ثبوت بہم پہنچادیں کہ ہماری زندگی کسی خاص گروہ یا جماعت یا کسی قوم کے فائدے کے لیے نہیں ہے بلکہ حق کے نصب العین کے لیے ہے تو ذہنوں کو فتح کرلینے میں کوئی دشواری نہ ہوگی۔ حقیقت یہ ہے کہ ابھی تک ہمارے ساتھ بے شمار عصبتیں چمٹی ہوئی ہیں اور ان کا ایک اچھا خاصا موٹا خول خود ہمارے گرد لپٹا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم لوگ خود اپنی دعوت کی راہ کی پہلی اور سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ یہ خول ہمیں جتنا جلد ممکن ہو اتار دینا چاہیے اور حق کو بالکل بے نقاب کر کے لوگوں کے سامنے لانا چاہیے تا کہ لوگ صاف صاف پہچان لیں کہ صداقت و حقیقت کیا ہے۔ اگر ہم اپنے بیوی بچوں، اپنے احباب، اپنی جماعت اور قوم کی غلط عصبیت کی آلودگیوں سے اپنا دامن پاک کرلیں تو اگرچہ دنیا کی زبان طعن کبھی بند نہیں ہوسکتی مگر ہمارے خلاف حجت و دلیل کی زبان بند ہوجائے گی۔ صرف یہی طریقہ ہے دنیا کو انکار حقیقت سے روک دینے کا۔ عصبیت کی بو بھی اگر باقی رہے گی تو ہم خود اپنے لیے حجاب بنے رہیں گے، اور اپنی دعوت کے راستے میں چٹان بن کر حائل رہیں گے۔ گھروں میں، بازاروں میں، جلسوں میں، خانقاہوں اور مسجدوں میں ہر پہلو سے اپنے آپ کو ادنی اغراض سے بالاتر دکھانا ناگزیر ہے۔
اس گزارش کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے آپ حضرات سورہ انبیاء کا مطالعہ کیجیے۔ اللہ کی طرف سے جتنے داعی اللہ کے کلمے کو اونچا کرنے کے لیے آئے، ان میں سے ہر ایک نے رشتہ حق کے سوا ہر رشتے کو توڑ دیا۔ حمیت جاہلیت کے سارے بندھن کاٹ ڈالے، تعصبات کی موٹی موٹی زنجیروں سے اپنے آپ کو آزاد کیا، اس کا نتیجہ تھا کہ ان کی دعوت بغیر کسی فرق و امتیاز کے ہر حق آشنا دل کو اپیل کرتی اور جو لوگ ان کی دعوت پر لبیک کہتے ان کے سینے میں گروہوں اور جماعتوں کی برتری کے بجائے انسانیت کی خدمت کا جذبہ مشتعل ہوتا۔ اگر انھی داعیان ہدایت کے اسوہ کا اتباع کیا جائے تو ہماری تبلیغی مشکلات معا حل ہوجاتی ہیں۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کے لیے
پڑھیں:
ماہ صفر المظفر کے متعلق پائے جانے والے چند توہمات کی حقیقت
(بھیرہ شر یف)
اسلامی سال کے مہینوں میں سے دوسر ے مہینے کا نا م صفر ہے جس کے لغو ی معنی گھر خالی کرنا، سونا، پیتل، یرقان، پیٹ میں زرد رنگ کا پانی جمع ہو جانا ہیں۔ ماہ صفر کو زبان نبوت نے مظفر فرمایا ہے مگر عو ام النا س میں جہا لت کی بنا پر اس کے با ر ے میں توہمات پر مبنی عجیب و غر یب نظر یا ت ہیں حالانکہ ہمار ے پیا ر ے نبی اکرم ﷺ نے بد شگونی کو شر ک سے تعبیر فرمایا ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا بد شگونی شرک ہے اور حضو ر ﷺ نے یہ الفاظ تین مر تبہ دوہرائے۔ (مشکو ۃ شر یف)
درج ذیل سطور میں قرآن و سنت کی روشنی میں ان توہمات کو دور کرنے کی سعی بلیغ کی جا ر ہی ہے ۔
پہلا وہم: یہ آفتوں اور بلاوٗں کے نازل ہونے کا مہینہ ہے حالانکہ اس بات کا حقیقت حال سے کو ئی تعلق نہیں ہے۔ دراصل زمانہ جاہلیت میں اہل عرب لوٹ مار اور قتل و غارت گری سے اپنا پیٹ پالتے تھے اس کے باوجو د ملت ابراہیمی ہونے کی وجہ سے چار مقد س مہینوں کا احترام اپنے اوپر لازم جانتے تھے۔ چناچہ تین ما ہ تسلسل کے سا تھ آتے اس لیئے تیسر ے مہینے تک ان کی جمع پو نجی ختم ہو جاتی اور تیسرا مہینہ محرم کو صفر میں تبد یل کر لیتے تھے۔ اب جونہی صفر کا مہینہ شر و ع ہوتا تو لڑائی مار کٹائی لوٹ کھسوٹ غارت گری دوبارہ شر وع ہو جاتی اس بنا پر دور جا ہلیت سے ہی عوام صفر کے مہینے کو مصیبتو ں کا مہینہ گردانتے تھے۔
اس باطل نظریہ کے بطلان کے لیے حضور اکر م ﷺ کا یہ فرمان عالی شان پیش خدمت ہے :
حضر ت جابرؓ فرماتے ہیں میں نے ر سول ا کرم ﷺ کو فرماتے ہو ئے سنا کہ ما ہ صفر میں بیماری، نحوست اور بھوت پریت وغیرہ کا کوئی نزول نہیں ہوتا (مسلم شر یف)
اور حقیقت یہ ہے کہ اگربلائیں اور مصیبتیں نا ز ل ہو تی بھی ہیں تو وہ نا فرمان لوگوں پر ا ن کی نافرمانی کی و جہ سے ہوتی ہیں اور وہ ماہ صفر کے ساتھ خا ص نہیںہیں۔
دو سرا وہم: اس ماہ میں شا دی کرنے وا لا ناکامیوں کا شکار ہوتا ہے حتی کہ زوجین میں طلاق یا ان میں سے کو ئی ایک ہلا ک ہو جاتا ہے حالانکہ اس بات میں بھی کوئی حقیقت نہیں۔ ما ہ صفر میں شادی کرنا ہرگز منحوس نہیں کیونکہ شادی تو سنت رسو ل ﷺ اور نیکی کا عمل ہے اور نیکی کے لیئے کوئی وقت مخصوص نہیں ہوتا اس باطل نظریہ نے لوگوں کے اندر اس وجہ سے رواج پکڑا کہ زمانہ جاہلیت میں ایک مرتبہ طاعون کی وبا پھیلی اور اس وبا کا زیا دہ تر شکار نو عروس ہوئیں لیکن اگر دقت نظر سے تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے وہ طاعون کی وبا شوال میں پھیلی تھی جسے امتداد زمانہ نے شوال سے صفر کی جا نب موڑ دیا اور ماہ شوال بھی ہرگز منحوس نہیں کیونکہ رسو ل اکرم ﷺ کا نکا ح حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ما ہ شوال میں ہوا تھا۔ جہاں تک تعلق ہے ماہ صفر میں شا دی کرنے کا تو اگر اس ما ہ میں شا دی کر نے میںکو ئی قبا حت ہوتی تو رسول اکر م ﷺ ا پنی لخت جگر سیدہ فاطمہ رضی ا للہ عنہا کا نکا ح کبھی بھی ما ہ صفر میں نہ کرتے۔ رسول اکرم ﷺ کا اپنی لخت جگر سیدہ فاطمہ ر ضی ا للہ عنہا کا نکاح ماہ صفر میں کرنا اس بات پر د لالت کرتا ہے کہ ماہ صفر میں شادی کرنا ہرگز منحوس نہیں۔
تیسرا و ہم: ماہ صفر میں کو ئی بھی شرو ع کیا جانے و ا لا کا م اد ھو را اور نامکمل رہتا ہے کبھی بھی کامیاب ہو کر منزل مقصود تک نہیں پہنچتا۔ یہ بھی باطل نظریہ ہے کیو نکہ اگر اسلامی تاریخ پر نگاہ دو ڑائی جائے تو یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ ماہ صفر کے مہینہ کی اسلام کے سا تھ بہت عظیم یادگاریں وابستہ ہیں جو اس وہم کے ازالہ کے لیئے کافی ہیں۔
مثلا اسلا م کا پہلا غزوہ ودان ماہ صفر میں پیش آیا۔ خیبر جیسی عظیم سلطنت ماہ صفر میں اسلا م کے دا من میںآئی، سریہ رجیع ماہ صفر میں ہوا، سریہ ضحا ک بن سفیا ن ماہ صفر میں ہوا ۔
قارئین کرام ا پ خود ا ندازہ لگائیے کہ ا تنے اہم امور ما ہ صفر میں وقو ع پذیر ہوئے اس کے باوجود افسوس آج بھی بعض عاقبت نااندیش لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس ماہ میں شروع کیا جا نے وا لا کا م اپنے منطقی ا نجا م تک نہیں پہنچ سکتا۔
چوتھا و ہم: حضور اکر م ﷺ نے ماہ صفر کے اختتا م کی خبر دینے والے کو جنت کی خو شخبر ی سنائی ہے۔ معلوم ہوا کہ صفر وہ منحو س مہینہ ہے جس سے نکلنے پرآپ ﷺ نے خوشی منائی ہے۔
یہ نظریہ بھی حدیث مبارکہ کو نہ سمجھنے کی بنا پر ہے۔ اس حدیث میں ماہ صفر کی نحوست کی طرف اشارہ نہیں بلکہ اس میں ایک راز پو شید ہ ہے اصل بات یہ ہے کہ چونکہ انبیا ء اور اولیا ء کو دار فنا سے دار بقا کی طر ف کوچ کر نے کا وقت اور دن پہلے سے بتا دیا جا تا ہے جیسا کہ نبی اکرم ﷺ نے فر مایا کہ اللہ کے ایک نیک بند ے کو اختیار دیا گیا تھا تو اس نے رفیق ا علی کی طر ف جا نا پسند کیا۔
چونکہ ما ہ ر بیع ا لاول میں حضوراکرم ﷺ کو محبوب حقیقی سے ملنا تھا اور آپ ﷺ کو ماہ ربیع ا لاول کا شدت سے ا نتظار تھا اس لیئے آ پﷺ نے ما ہ صفر کے اختتام کی خبر دینے وا لے کو جنت کی خوش خبر ی کا عندیہ دیا۔ دعا ہے ا للہ کر یم ہمیں ہر قسم کے توہمات سے اجتناب کرنے کی توفیق عطاء فرمائے اور اسلام کے بتلائے ہوئے ا حکامات کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطاء فرمائے ۔آمین۔