Nai Baat:
2025-11-05@03:11:47 GMT

غزہ پر قبضہ۔ ایک غیر انسانی فعل

اشاعت کی تاریخ: 7th, February 2025 GMT

غزہ پر قبضہ۔ ایک غیر انسانی فعل

غزہ کی پٹی پچھلے ستر سال سے فلسطینی عوام کی جدوجہد کا مرکز رہی ہے۔ یہ وہ خطہ ہے جہاں غاصب اسرائیلی حکومت اور فوج کی جانب سے نہتے فلسطینیوں پہ ظلم و ستم، ان پہ مسلط جنگیں اور انکے بنیادی انسانی حقوق کی پامالی کی ایک طویل تاریخ ہے۔ اس علاقے کی اہمیت صرف اس کی جغرافیائی حیثیت کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ یہاں کے عوام کی عزت نفس، خود مختاری اور قومی تشخص کا معاملہ بھی ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ فلسطین پہ قابض صیہونیوں کی مسلسل جارحیت اور اس کے ساتھ امریکہ اور کچھ مغربی حکومتوں کی جانب سے اسرائیل کی مسلسل پشت پناہی نے اس خطے کے رہائشی فلسطینی عوام کی زندگیوں کو اجیرن بنا رکھا ہے۔ طاقت کے زور پہ صیہونیوں نے فلسطین کے ستر فیصد سے زائد علاقے پہ زبردستی قبضہ کر رکھا ہے۔ جس کے خلاف نہتے فلسطینی اب تک مزاحمت کرتے آئے ہیں۔ چند روز قبل امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت نے ایک نیا، انتہائی متنازع اور یک طرفہ فیصلہ کیا ہے جس سے بلا شبہ صیہونی ظلم کی چکی میں پستے غزہ کے فلسطینی عوام کی حالت مزید بدتر ہو جائیگی۔ اس فیصلہ میں نا صرف امریکہ نے غزہ پہ اپنا قبضہ قائم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ بلکہ غزہ کے پچھلے ایک سال سے دربدر شہریوں کو ان کے وطن سے جبری بے دخل کر کے انہیں دیگر ہمسایہ ممالک میں بھیجنے کی دھمکی دے دی ہے۔ یہ فیصلہ فلسطینی عوام کے حقوق کی خلاف ورزی اور عالمی قوانین کی کھلی پامالی ہے، اور اس کے عالمی سطح پر بھی گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ کیونکہ اس طرح پوری دنیا میں ’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘ والا اصول لاگو ہو جائیگا۔ پھر کوئی بھی طاقتور کسی بھی کمزور کو اس کی مرضی کے خلاف بے دخل کر کے اسکی زمین پہ قابض ہو سکے گا۔ غزہ کی پٹی ایک چھوٹا سا، لیکن انتہائی اہم خطہ ہے، جس کی سرحدیں اسرائیل اور مصر سے ملتی ہیں۔ یہاں پر 2.

3 ملین سے زائد فلسطینی عوام بستے ہیں، اور یہ دنیا کے سب سے زیادہ گھنے آباد علاقوں میں سے ایک ہے۔ غزہ کے عوام کی زندگی سالہا سال سے اسرائیلی جارحیت اور غیر انسانی سلوک کا شکار ہے۔ پہلے اسرائیل نے غزہ کو ایک طویل عرصے سے محصور کر رکھا تھا جس کے نتیجے میں اس علاقے کی معیشت تباہ اور بنیادی ضروریات کی فراہمی مشکل بلکہ نا ممکن ہو چکی تھی اور اب رہی رہی کسر پچھلے ایک سال سے جاری صیہونی جارحیت نے پوری کر دی ہے۔ غزہ جو ایک سال پہلے تک آباد تھا آج کھنڈرات میں تبدیل ہو چکا ہے۔ اسرائیل کی جانب سے اس نسل کشی کے نتیجے میں ہزاروں نہتے فلسطینی شہید ہو چکے ہیں اور نوے فیصد غزہ تباہ ہو چکا ہے۔ امریکی ٹرمپ انتظامیہ کا غزہ پر قبضہ کرنے کا فیصلہ ایک آزاد، خود مختار فلسطینی قوم کے حقوق کی کھلی پامالی ہے۔ امریکہ نے غزہ کے شہریوں کو اپنے وطن سے بے دخل کرنے کا جو متنازع فیصلہ کیا ہے اس فیصلے کو اب عالمی سطح پر بھی شدید تنقید کا سامنا ہے کیونکہ یہ نہ صرف فلسطینی عوام کے حقِ خود ارادیت کی نفی ہے بلکہ یہ اقوام متحدہ کے چارٹر، جنیوا کنونشن برائے انسانی حقوق سمیت دیگر بین الاقوامی قوانین کی بھی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ غزہ کے عوام نے پچھلی کئی دھائیوں سے اپنی اس چھوٹی سی سر زمین کی حفاظت کے لیے لاکھوں جانوں کی قربانی دی ہے کئی جنگوں کا سامنا کیا ہے لیکن اپنی آزادی و خود مختاری پہ کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ اور اب امریکہ کا انہیں ان کی مرضی کے خلاف انکی سر زمین سے بے دخل کرنے کا فیصلہ فلسطینی عوام کی آزادی و خود مختاری پہ حملہ ہے کیونکہ دیگر آزاد ممالک کے شہریوں کی طرح فلسطینی عوام اور بالخصوص غزہ کے باسیوں کا بھی حق ہے کہ وہ اپنے وطن میں آزادی سے زندگی گزاریں، اور ان کے اس بنیادی حق کو تسلیم کرنا عالمی برادری کی اولین ذمہ داری ہے۔ غزہ پہ قبضے کی امریکی پالیسی نہ صرف بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے بلکہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر اور جنیوا کنونشن برائے انسانی حقوق کی ذیلی شقوں کے بھی خلاف ہے۔ اقوام متحدہ نے ہمیشہ فلسطینی عوام کے حقِ خود ارادیت کی حمایت کی ہے اور ان کی ریاست پہ صیہونیوں کے غیر قانونی قبضے کی مذمت کی ہے۔ یہاں یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ اس متنازع فیصلے سے امریکہ کا عالمی سطح پر ایک انصاف اور امن پسند عالمی طاقت کے طور پہ تصور اور موقف عالمی برادری کی نظر میں مزید کمزور ہو گا اور نتیجتاً فلسطینیوں کی آزادی و خود مختاری کی جدوجہد کو عالمی سطح پر مزید پذیرائی ملے گی۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے مسلسل اسرائیلی محاصرے، جنگوں اور اقتصادی مشکلات کا شکار غزہ کے باسی صاف پانی کی قلت، صحت کی بنیادی سہولتوں کے فقدان، تعلیم اور روزگار کی کمی جیسے مسائل کا سامنا کرتے آئے ہیں وہیں ان پابندیوں نے غزہ کی معیشت کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ رہی سہی کسر پچھلے ایک سال سے صیہونی حکومت کی غزہ پہ مسلط جنگ نے نکال دی ہے۔ اس جنگ کے نتیجے میں غزہ کے عوام پہلے ہی در بدر اور سخت مشکلات کا شکار ہیں۔ ان حالات میں امریکی افواج کا غزہ پر قبضہ کرنا اور فلسطینیوں کو اپنے وطن سے بے دخل کرنا اٹھارہ لاکھ سے زائد مکینوں کی مشکلات کو مزید بڑھا دے گا۔ بنیادی سہولتوں سے محروم، گھر بار کی تباہی کے بعد اب ان کے لیے بے دخلی جیسا فیصلہ صرف زمین سے محرومی نہیں بلکہ ان کی شناخت، ثقافت اور عزت نفس کے لیے بھی ایک بڑا دھچکا ہو گا اور وہ کبھی اس کو قبول نہیں کرینگے بلکہ اس ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے۔ یقینا امریکہ کا یہ فیصلہ عالمی سطح پر ایک غیر اخلاقی اقدام ہے جو نہ صرف فلسطینی عوام بلکہ پوری دنیا میں رائج الوقت انسانیت کے اصولوں کے بھی خلاف ہے۔ دوسری طرف امریکہ کی جانب سے ایسی پالیسی کو عالمی برادری کی طرف سے سخت مزاحمت کا بھی سامنا کرنا چاہیے۔ کیونکہ اگر امریکہ نے اس پالیسی پر عمل درآمد کیا تو اس کا اثر صرف غزہ اور فلسطین تک محدود نہیں رہے گا، بلکہ اس کے پورے مشرق وسطیٰ اور دنیا بھر میں امن و استحکام پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ یہ ایک چنگاری، آگ کی شکل اختیار کر لے گی جسے روکنا پھر کسی کے بس کی بات کی بات نا ہو گی۔ پاکستان نے اسرائیل کے ناجائز قیام سے لیکر اب تک ہمیشہ ہر انٹرنیشنل فورم پہ اپنے فلسطینی بھائیوں کے حقوق کی حمایت کی ہے اور عالمی سطح پر فلسطینی عوام کے حقِ خود ارادیت کے لیے آواز بلند کی ہے۔ پاکستان کا شروع دن سے یہ موقف رہا ہے کہ فلسطینی عوام کو اپنے وطن میں آزادی سے رہنے کا حق حاصل ہے اور صیہونی اس خطے میں غاصب ہیں۔ پاکستان نے ہمیشہ غزہ میں اسرائیلی جارحیت کی بھی کھل کر مذمت کی ہے اور فلسطینی عوام کے حقوق کی حمایت اور انکی اخلاقی، سفارتی اور مالی مدد کی ہے۔ پاکستان کا اس ضمن میں دو ٹوک موقف ہے کہ امریکہ کو اس متنازع فیصلے کو فوری واپس لینا چاہئے اور اس کی جانب سے اسرائیل کے کہنے پہ فلسطینیوں کے حقوق کی مزید پامالی کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ اسی طرح کئی دیگر مسلم ممالک کی طرف سے بھی اس فیصلے پہ کڑی تنقید کی گئی ہے اور فلسطینیوں کی اخلاقی و سفارتی مدد کا اعادہ کیا گیا ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کے اس متنازع و یک طرفہ فیصلے کے خلاف، امریکہ کے اندر سے اور بیرونی دنیا سے بھی شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ عالمی برادری کا کہنا ہے کہ امریکہ کا یہ فیصلہ اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کی مسلسل نسل کشی کے عمل کو تقویت اور دوام بخشنے کی کوشش ہے جسکی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ اسی طرح عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں اور اقوام متحدہ نے بھی اس فیصلے کی مذمت کی ہے اور اسے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ ٹرمپ کا غزہ پر قبضہ کرنے کا فیصلہ عالمی سطح پر امریکہ کے انصاف پسند طاقت ہونے کے موقف کو بھی کمزور کرتا ہے۔ فلسطینی عوام کو اپنے وطن میں آزادی سے زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے اور عالمی برادری بشمول مسلم ممالک، یہ سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ وہ فلسطینیوں کے اس حق کی حفاظت کریں۔ یقینا امریکہ کے اس غیر منصفانہ، متعصبانہ فیصلے کے خلاف عالمی سطح پر آواز اٹھانا ضروری ہو گیا ہے تاکہ غزہ کے باسی فلسطینی عوام نا صرف اپنے وطن کو دوبارہ تعمیر کر سکیں بلکہ اپنی سر زمین میں بلا خوف و خطر، امن و سکون سے زندگی گزار سکیں۔

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: فلسطینی عوام کے حق فلسطینی عوام کی عالمی برادری عالمی سطح پر اقوام متحدہ کو اپنے وطن خود مختاری کی جانب سے کے حقوق کی خلاف ورزی امریکہ کا امریکہ کے قوانین کی کی ہے اور کے عوام ایک سال کے خلاف مذمت کی کرنے کا غزہ کے کے لیے اور اس اور ان سال سے

پڑھیں:

لبنان کیلئے نیتن یاہو کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو گا

اسلام ٹائمز: اس وقت لبنان ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے اور لبنان آرمی لبنانی عوام اور اسلامی مزاحمت کی بھرپور حمایت سے امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے بدمعاشی اور بھتہ خوری پر مبنی پالیسی کے خلاف نیا محاذ کھولنے والی ہے۔ اگرچہ دشمن طاقتیں لبنان حکومت کو اسرائیل کی جانب سے وسیع جارحانہ اقدامات کی دھمکیاں دے رہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل حزب اللہ لبنان کے خلاف اپنا پورا زور لگا چکی ہے اور اب اس میں مزید زور لگانے کی ہمت نہیں ہے۔ لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ امریکہ اور اسرائیل نے لبنان کے خلاف نفسیاتی جنگ کا راستہ اپنا رکھا ہے اور وہ محض دھمکیوں کے ذریعے مطلوبہ اہداف حاصل کرنے کے درپے ہیں۔ ٹرمپ اور نیتن یاہو جس جنون اور پاگل پن کا مظاہرہ کر رہے ہیں اس کا واحد نتیجہ صیہونی رژیم کو درپیش بحرانوں میں اضافے کی صورت میں ظاہر ہو گا۔ تحریر: ہادی محمدی
 
امریکہ اور غاصب صیہونی رژیم خطے میں اپنی فتح اور اسلامی مزاحمت کی نابودی کا جشن منا رہے ہیں اور ڈھول پیٹ رہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کا یہ غل غپاڑہ اور پروپیگنڈہ خطے میں موجود زمینی حقائق پر پردہ نہیں ڈال سکتا۔ اگرچہ انہوں نے لبنان میں فوجی جارحیت، نرم جنگ اور فتح کے باجے بجانے کے ساتھ ساتھ لبنان حکومت سے بھتہ وصول کرنے اور اسے اپنے ناجائز مطالبات کے سامنے سر جھکا دینے کی بھرپور کوششیں انجام دی ہیں لیکن اب تک ان کی یہ تمام کوششیں ناکامی اور شکست کا شکار ہوئی ہیں۔ امریکہ اور اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم نے اس سال کے آغاز میں لبنان سے جنگ بندی کا اعلان کر تو دیا لیکن اس کے باوجود جنوبی لبنان میں اسرائیل کی فضائی جارحیت اور لبنانی شہریوں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ زور و شور سے جاری رہا۔
 
اسرائیلی حکمرانوں نے لبنان سے جنگ بندی کی تمام خلاف ورزیوں کو حزب اللہ لبنان کے ٹھکانوں پر حملوں اور حزب اللہ لبنان کے کمانڈرز کی ٹارگٹ کلنگ ظاہر کر کے اپنے ان مجرمانہ اقدامات کا جواز پیش کرنے کی ناکام کوشش کی ہے اور ساتھ ہی اندرونی سطح پر اپنی عزت اور وقار بحال کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کے بعد انہوں نے یونیفل کے مشن میں توسیع دینے کی کوشش کی تاکہ اس طرح اقوام متحدہ کی قرارداد 1701 کو بائی پاس کر کے پورے لبنان میں مداخلت آمیز اقدامات اور جاسوسی سرگرمیوں کے ذریعے اسلامی مزاحمت کے خلاف جنگ شروع کر سکیں لیکن لبنان کے لیے امریکہ کے خصوصی مشیروں اورٹیگاس اور تھامس براک کی بھاگ دوڑ کے باوجود ایسا نہ ہو سکا اور یونیفل کے مشن میں توسیع کی کوشش ناکام ہو گئی۔ اس کے بعد لبنان حکومت پر حزب اللہ لبنان کو غیر مسلح کرنے کے لیے دباو ڈالنا شروع کر دیا گیا۔
 
امریکہ اور اسرائیل کی یہ کوشش بھی اس وقت ناکام ہو گئی جب لبنان آرمی نے حزب اللہ لبنان سے ٹکر لینے سے انکار کر دیا اور اقوام متحدہ کی قرارداد 1701 پر عملدرآمد پر زور دے دیا۔ دوسری طرف غاصب صیہونی رژیم اس وقت کئی قسم کے سنگین بحرانوں سے روبرو ہے جن میں اقتصادی بحران، فوج میں ٹوٹ پھوٹ اور عوام کی جانب سے جنگ کے خلاف شدید بے چینی اور احتجاج شامل ہیں۔ جنوبی لبنان میں اس وقت بھی چند اسٹریٹجک مقامات اسرائیلی فوج کے قبضے میں ہیں اور اسرائیلی حکمران ان مقامات سے فوجی انخلاء کے بدلے نئی سودا بازی کے درپے تھے۔ اس طرح لبنان حکومت اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی پر نظارت کرنے والی قوتوں کے ذریعے بالواسطہ مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا جسے "میکانزم" کا نام دیا گیا۔ گذشتہ کچھ ہفتوں سے امریکی سینٹرز نے لبنان حکومت پر شدید دباو ڈال رکھا ہے جس کا مقصد حزب اللہ لبنان کو غیر مسلح کرنا ہے۔
 
ان امریکی سینٹرز نے دھمکی آمیز لہجہ اپناتے ہوئے لبنان حکومت کو خبردار کیا ہے کہ اگر وہ حزب اللہ لبنان کو غیر مسلح نہ کر سکی تو اس کے سنگین نتائج ظاہر ہوں گے۔ اسی سلسلے میں اورٹیگاس نے بھی لبنان اور اسرائیل کا دورہ کیا ہے۔ اس دورے سے پہلے اسرائیل نے وحشیانہ ادناز میں لبنان کے مختلف مقامات پر فضائی حملے انجام دیے تاکہ یہ بتا سکے کہ وہ ہر قسم کی بربریت کے لیے پوری طرح تیار ہے۔ یہ ڈرامہ بازی ایسے وقت کی جا رہی ہے جب امریکہ اور اسرائیل لبنان میں اسلامی مزاحمت کو ختم کر دینے کے کھوکھلے دعووں کے بعد اب اس حقیقت کو قبول کرتے دکھائی دے رہے ہیں کہ حزب اللہ لبنان نے نہ صرف اپنی طاقت بحال کر لی ہے بلکہ وہ غاصب صیہونی رژیم کا بھرپور مقابلہ کرنے کے لیے بھی تیار ہو چکی ہے۔
 
لہذا گذشتہ ہفتے کے شروع میں اسرائیلی فوج نے چار دن کی فوجی مشقیں انجام دیں اور ان کا مقصد مقبوضہ فلسطین کے شمالی علاقوں پر حزب اللہ لبنان کے ممکنہ زمینی حملے کا مقابلہ کرنا اعلان کیا گیا۔ اورٹیگاس کا لبنان کا دورہ بھی بے سود ثابت ہوا اور اس کے دورے کے اختتام پر صیہونی رژیم نے لبنان کے قصبے بلیدا کی بلدیہ کی عمارت پر فضائی حملہ کر دیا جس کے نتیجے میں وہاں کا چوکیدار شہید ہو گیا۔ اس واقعے نے پورے لبنان میں غم و غصے کی لہر دوڑا دی اور لبنان کے صدر جوزف عون نے لبنان آرمی کو ریڈ الرٹ کرتے ہوئے غاصب صیہونی رژیم کی ہر ممکنہ فوجی جارحیت کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کا حکم جاری کر دیا۔ اگرچہ گذشتہ دنوں سے لبنان کے تمام علاقوں میں اسرائیلی ڈرون طیاروں کی پروازوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے جس کا مقصد خوف و ہراس پھیلانا ہے لیکن صیہونی رژیم اب بھی حزب اللہ لبنان کی ممکنہ جوابی کاروائی سے شدید خوفزدہ ہے۔
 
اس وقت لبنان ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے اور لبنان آرمی لبنانی عوام اور اسلامی مزاحمت کی بھرپور حمایت سے امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے بدمعاشی اور بھتہ خوری پر مبنی پالیسی کے خلاف نیا محاذ کھولنے والی ہے۔ اگرچہ دشمن طاقتیں لبنان حکومت کو اسرائیل کی جانب سے وسیع جارحانہ اقدامات کی دھمکیاں دے رہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل حزب اللہ لبنان کے خلاف اپنا پورا زور لگا چکی ہے اور اب اس میں مزید زور لگانے کی ہمت نہیں ہے۔ لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ امریکہ اور اسرائیل نے لبنان کے خلاف نفسیاتی جنگ کا راستہ اپنا رکھا ہے اور وہ محض دھمکیوں کے ذریعے مطلوبہ اہداف حاصل کرنے کے درپے ہیں۔ ٹرمپ اور نیتن یاہو جس جنون اور پاگل پن کا مظاہرہ کر رہے ہیں اس کا واحد نتیجہ صیہونی رژیم کو درپیش بحرانوں میں اضافے کی صورت میں ظاہر ہو گا۔

متعلقہ مضامین

  • اقوام متحدہ غزہ میں عالمی فوج تعینات کرنے کی منظوری دے، امریکا
  • کشمیر کی صورتِحال پر عالمی خاموشی خطرناک ہے: مشعال ملک
  • سماجی ترقی کا خواب غزہ میں نسل کشی کو نظرانداز کرکے پورا نہیں ہوسکتا، صدر مملکت کا دوحہ کانفرنس سے خطاب
  • لبنان کیلئے نیتن یاہو کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو گا
  • غزہ پر اسرائیلی حملے فوری بند کیے جائیں، حماس کنٹرول فلسطینی کمیٹی کے سپرد کرنے کو تیار ہے، ترک وزیرِ خارجہ
  • غزہ کا نظم و نسق فلسطینیوں کے سپرد کیا جائے، استنبول اعلامیہ
  • علامہ صادق جعفری کا سوڈان میں جاری خانہ جنگی اور لرزہ خیز مظالم پر شدید تشویش کا اظہار
  • وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی کی چلتن گھی مل کیخلاف اقدامات کی ہدایات
  • 13 آبان استکبارستیزی اور امریکہ کے خلاف جدوجہد کی علامت ہے، حوزه علمیہ قم
  • عراق میں نیا خونریز کھیل۔۔۔ امریکہ، جولانی اتحاد۔۔۔ حزبِ اللہ کیخلاف عالمی منصوبے