جرمنی: تقریباً نوے فیصد ووٹرز بیرونی مداخلت سے خوفزدہ
اشاعت کی تاریخ: 7th, February 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 07 فروری 2025ء) برسلز میں قائم ڈیجیٹل انڈسٹری ایسوسی ایشن بٹ کام کی طرف سے شائع کردہ ایک نئے پول جائزے کے مطابق جرمن ووٹرز غیر ملکی انتخابی مداخلت کے بارے میں بہت زیادہ فکر مند ہیں۔
سروے کے مطابق، جن ووٹرز سے سوال کیا گیا ان میں سے مجموعی طور پر 88 فیصد سے زیادہ اہل ووٹروں نے یہ رائے دی اور اس بات کا خدشہ ظاہر کیا کہ انتخابات کے دوران بیرونی طاقتیں، چاہے حکومتیں، گروہ یا افراد ہوں، سوشل میڈیا مہم کے ذریعے ووٹ کو متاثر کرنے کی کوشش کریں گے۔
تاہم اس سروے میں صرف ایک ہزار اہل رائے دہندگان کو ہی سوال و جواب کے لیے شامل کیا گیا۔
جرمنی میں انتخابی نظام کیسے کام کرتا ہے؟
اس سروے میں ایسی سرگرمیوں کے لیے جن پر سب سے زیادہ شک کا اظہار کیا گیا، اس میں 45 فیصد کے امکانات کے ساتھ روس کا نام سر فہرست ہے، جبکہ 42 فیصد کے ساتھ امریکہ دوسرے نمبر پر ہے۔
(جاری ہے)
چین پر 26 فیصد اور مشرقی یورپی ایکٹرز پر بھی آٹھ فیصد تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔
ان ووٹروں نے یہ معلومات فراہم کی کہ وہ اپنی سیاسی رائے کیسے بناتے ہیں، جس میں سے 82 فیصد نے دوستوں اور کنبے کے ساتھ گفتگو کا حوالہ دیا، جبکہ 76 فیصد نے ٹیلیویژن اور 69 فیصد نے انٹرنیٹ کی بات کی۔
تقریبا 80 جواب دہندگان نے یہ بھی محسوس کیا کہ اگلی حکومت کو ڈیجیٹل پالیسی کو ترجیح دیتے ہوئے ممکنہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی غلط معلومات کے مسئلے کو حل کرنا چاہیے۔
جرمنی: انتہائی دائیں بازو کی جماعت اے ایف ڈی نے ایلس وائیڈل کو بطور چانسلر امیدوار منتخب کر لیا
بٹ کام کے صدر رالف ونٹرگرسٹ نے اس رجحان کو اٹھایا تھا اور اس حوالے سے 71 فیصد جواب دہندگان نے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ایک نئی خود مختار وزارت بنانے کا مطالبہ بھی کیا۔
رالف ونٹرگرسٹ کا کہنا ہے، "نئی ڈیجیٹل وزارت کو تمام ضروری حقوق اور وسائل سے لیس ہونا چاہیے، اسے اپنا بجٹ اور نئے قوانین اور منصوبوں کے لیے ڈیجیٹل شرائط کی ضرورت ہے۔
" جرمن ووٹرز میں غلط معلومات کی بھر مارایسے ووٹرز میں سے ایک تہائی، جو کہتے ہیں کہ وہ انٹرنیٹ کو خبروں اور معلومات کے ذریعہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں، نے بٹ کام کو بتایا کہ انہوں نے پہلے ہی آن لائن غلط معلومات دیکھی ہیں۔
جرمن صدر نے وفاقی پارلیمان تحلیل کر دی، نئے الیکشن کی راہ ہموار
رائے دہندگان کی طرف سے ظاہر کیے گئے سب سے بڑے خدشات کا تعلق نام نہاد ڈیپ فیکس، یعنی حقیقت پسندانہ تاہم مکمل طور پر جعلی، ویڈیوز، تصاویر یا آڈیو اور ٹارگٹڈ غلط معلومات سے ہے۔
تقریباً 56 فیصد جواب دہندگان نے کہا کہ جرمن جمہوریت ایسے خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔مزید 30 فیصد جواب دہندگان نے کہا کہ وہ پہلے ہی انتخابات کے بارے میں آن لائن آنے والے غلط معلومات میں مبتلا ہو چکے ہیں۔
بٹ کام کے ونٹرگرسٹ نے کہا، "غلط معلومات سے متعلق ووٹرز کی آگاہی بڑھ رہی ہے۔ یہ جعلی خبروں کے خلاف ایک اہم پہلا قدم ہے۔
غلط معلومات عام طور پر رائے عامہ کو متزلزل کر کے اور امیدواروں یا جماعتوں کو بدنام کر کے جرمنی کے وفاقی انتخابات کو ڈرامائی طور پر متاثر کر سکتی ہیں۔"اقتصادیات، جرمن انتخابات میں سب سے بڑا مدعا
ونٹرگرسٹ نے انتخابات کو "جمہوریت کا دل" قرار دیا لیکن خبردار کیا کہ "غلط معلومات جمہوری عمل پر اعتماد کو مجروح کرتی ہیں۔
" تاہم انہوں نے مزید کہا کہ "ایک باخبر معاشرہ ڈیجیٹل ہیرا پھیری کے خلاف بہترین تحفظ ہے۔" جرمن ووٹرز کو روسی اور امریکی مداخلت پر شبہانتخابات میں غیر ملکی مداخلت کے حوالے سے روس کا نام سر فہرست ہے اور گزشتہ امریکی اور یورپی انتخابات میں اس کی ایسی کوششیں اس کا کافی ثبوت فراہم کرتی ہیں۔
ادھر فعال امریکی مداخلت کا ایک واضح ذریعہ ایلون مسک بھی ہیں۔
دنیا کے سب سے امیر آدمی، ڈونلڈ ٹرمپ کے سب سے بڑے سنگل ڈونر اور سوشل میڈیا ایکس کے مالک مسک نے جرمن رہنماؤں کی توہین کی اور انتہائی دائیں بازو کی جماعت اے ایف ڈی کو جرمنی کے لیے واحد امید قرار دیتے ہوئے اس کی حمایت میں ڈھٹائی کا مظاہرہ کیا۔
گھریلو خطرات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتااس سروے میں جن ممالک پر انتخابات میں مداخلت کا شک ظاہر کیا گا، اس میں چین تیسرے نمبر ہے۔
چین بھی خطرناک سائبر سرگرمیوں میں فعال طور پر ملوث ہونے کے لیے معروف ہے۔انگیلا میرکل کی کتاب، میرکل کا مشن، میرکل کی دنیا
اپنی ڈیجیٹل کارروائیوں کے علاوہ چین نے سیاسی جماعتوں میں دراندازی کر کے جرمنی کے سیاسی نظام میں بھی اپنا راستہ تلاش کیا ہے۔ خاص طور پر انتہائی دائیں بازو کی اے ایف ڈی میں چینی اثر و رسوخ کی باتیں ہوتی رہی ہیں۔
اس کے ساتھ ہی چین اور روس اتحاد کے بارے میں بھی سوالات اٹھائے گئے ہیں۔تھامس ہالڈین وانگ نے سن 2022 میں اس مسئلے کے بارے میں کہا تھا، " اگر روسی مداخلت جرمنی سے ٹکرانے والے طوفان کی طرح ہے، تو چین گلوبل وارمنگ کی طرح ہے۔"
جرمنی: اولاف شولس ہی حکمراں جماعت ایس پی ڈی کی قیادت کریں گے
تاہم بٹ کام کے سروے میں گھریلو خطرات کے بارے میں آگاہ کیا گیا ہے اور جس طرح اے ایف ڈی سوشل میڈیا پر اپنی جارحانہ مہم کے ذریعے نوجوان ووٹرز کو نشانہ بنا رہی ہے، اس پر 66 فیصد رائے دہندگان نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔
رائے دہندگان میں سے 87 فیصد لوگوں کی رائے تھی کہ آن لائن انتہائی دائیں بازو کی آوازوں کا مقابلہ کرنے کے لیے معاشرے کو خود ہی بہت کچھ کرنا چاہیے۔
ص ز/ ج ا (جان شیلٹن)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے انتہائی دائیں بازو کی جواب دہندگان نے رائے دہندگان انتخابات میں غلط معلومات کے بارے میں سوشل میڈیا اے ایف ڈی سروے میں کے ساتھ کیا گیا کے لیے بٹ کام
پڑھیں:
افغانستان سے دراندازی بندہونی چاہیے،وزیردفاع۔بیرونی جارحیت کا جواب سخت اور شدید ہوگا، پاک فوج
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد /ایبٹ آباد (مانیٹرنگ ڈیسک /آن لائن/صباح نیوز)وزیردفاع نے کہا کہ افغانستان سے دراندازی بندہونی چاہیے۔ جبکہ پاک فوج نے کہ بیرونی جارحیت کا جواب سخت اور شدید ہوگا۔ دفترخارجہ نے کہا کہ طالبان نے دہشت گرد تنظیموں کی موجودگی کو افغان سرزمین پر تسلیم کیا ہے۔ تفصیلات کے مطابقوزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ کابل کی طالبان رجیم دہشت گردوں کی پشت پناہی بند کر دے، پاکستان میں امن کی ضمانت کابل کو دینا ہوگی۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر دفاع نے واضح کیا کہ ٹی ٹی پی ہو یا بی ایل اے ہو، پاکستان میں دہشت گردی برداشت نہیں کریں گے‘ افغانستان کی سرزمین سے دراندازی مکمل بند ہونی چاہیے کیونکہ دہشت گردی پر پاکستان اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔وزیر دفاع نے کہا کہ ثالث ہمارے مفادات کی مکمل دیکھ بھال کریں گے اور دہشت گردی کی روک کے بغیر 2 ہمسایوں کے تعلقات میں بہتری کی گنجائش نہیں‘ خیبر پختونخوا کی حکومت آہستہ آہستہ تنہائی کا شکار ہو رہی ہے، پی ٹی آئی کے لوگ اپنے سیاسی مفادات کی بات کرتے ہیں لیکن یہ ملک نیازی لا کے تحت نہیں چل سکتا۔ وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ سابق فاٹا کے لوگ سمجھتے ہیں وفاقی حکومت مخلص ہے جہاں ضرورت ہو ہم طاقت کا بھرپور استعمال کر رہے ہیں، ہم نے اس مٹی کے مفاد کا تحفظ کرنا ہے۔اِدھر ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے ایک بار پھر خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاک فوج دفاع وطن کے لیے پرعزم ہے، کسی بھی بیرونی جارحیت کا جواب سخت اور شدید ہوگا۔ایبٹ آباد میں مختلف جامعات کے اساتذہ اور طلبہ سے نشست کے دوران ڈی جی آئی ایس پی آر نے خصوصی گفتگو کی۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے حالیہ پاک افغان کشیدگی، ملکی سیکورٹی صورتحال اور معرکہ حق سمیت اہم موضوعات پر تبادلہ خیال کیا۔ انہوں نے گفتگو کے دوران واضح کیا کہ پاکستان نے دہشت گردی اور فتنہ الخوارج کے خلاف موثر اقدامات کیے ہیں۔اساتذہ اور طلبہ کی جانب سے شہدا اور غازیان کو زبردست خراج عقیدت اور خراج تحسین پیش کیا گیا۔وائس چانسلر ہزارہ یونیورسٹی ڈاکٹر اکرام اللہ خان نے کہا کہ پاک فوج ہمیشہ محاذِ اول پر ہوتی ہے اور ہم اس کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔پاکستان نے کہا ہے کہ مذاکرات میں افغان طالبان حکومت نے کالعدم دہشت گرد تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کی موجودگی کو تسلیم کیا ہے اور افغان حکام نے ان تنظیموں کے خلاف کارروائی نہ کرنے کے مختلف جواز پیش کیے‘پاکستان افغانستان کے ساتھ مزید کشیدگی نہیں چاہتا۔ توقع ہے کہ پاکستان اپنی سرزمین افغانستان کے خلاف استعمال نہیں ہونے دے گا۔ترجمان دفترخارجہ نے ہفتہ وار بریفنگ میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات کے حوالے سے کہا کہ حساس نوعیت کے مذاکرات پر ہر منٹ پر تبصرہ ممکن نہیں، وزارت خارجہ کو محتاط رہنے کا حق حاصل ہے اور یہ حق استعمال کیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ استنبول مذاکرات میں تمام متعلقہ اداروں کے نمائندے شامل تھے، مذاکرات میں تمام اہم امور پر تفصیلی گفتگو ہوئی، 6 نومبر کے اگلے دور میں مذاکرات کی جامع تفصیلات سامنے آئیں گی اور مذاکرات میں مثبت پیش رفت جاری ہے، یہ نہایت حساس اور پیچیدہ مذاکرات ہیں جن میں صبر اور بردباری کی ضرورت ہے۔ طاہر اندرابی کا کہنا تھا کہ سرحد کی بندش کا فیصلہ سیکورٹی صورتحال کے جائزے پر مبنی ہے، سیکورٹی جائزے کے مطابق سرحد فی الحال بند رہے گی اور مزید اطلاع تک سرحد بند رکھنے کا فیصلہ برقرار رہے گا‘ افغان سرزمین پردہشت گرد عناصر کی موجودگی پاکستان کے سیکورٹی خدشات کوتقویت دیتی ہے۔