الیکشن کو1سال ،PTI اہداف کے حصول میں ناکام
اشاعت کی تاریخ: 8th, February 2025 GMT
اسلام آباد(طارق محمودسمیر)ملک میں عام انتخابات کو آج8فروری کوایک سال مکمل ہوگیا،اس موقع پر تحریک انصاف ملک بھرمیں یوم سیاہ اور حکومت کی طرف سے یوم تعمیراورترقی کے طورپرمنایا جارہاہے،پی ٹی آئی کی طرف سے یوم سیاہ کی مناسبت سے صوابی میں جلسہ کیاجائے گا ،گزشتہ سال کے عام انتخابات کے نتائج تسلیم نہ کرنے والی پی ٹی آئی
کی سیاسی جدوجہدکے ایک سال کاجائزہ لیاجائے تو بظاہروہ کوئی سیاسی ہدف حاصل نہ کرپائی پارٹی کے بانی چیئرمین عمران خان رہاہوسکے نہ حکومت کو ٹف ٹائم دیاجاسکابلکہ ایک موقع پر پی ٹی آئی حکومت کے ساتھ مذاکرات کی میزپر بھی آگئی تاہم بعض ناقابل عمل شرائط کی وجہ سے یہ مذاکراتی سلسلہ آگے نہ بڑھ سکااور اب سپیکرقومی اسمبلی ایازصادق نے ایک بارپھرپی ٹی آئی کومذاکرات کی دعوت دی ہے،دوسری جانب حکومت کی طرف سے یوم تعمیروترقی منانے کاجوازموجود ہے کیونکہ اس ایک سال کید وران حکومت کو خاص طور پرمعاشی محاذ پر بہت سے کامیابیاں ملی ہیں، وزیراعظم شہبازشریف کی جانب سے ایک سالہ کارکردگی کے تناظرمیںتقریب میںاپنی حکومت کی کارکردگی کوگنوایاگیاہے،اس تقریب میں وزیراعظم شہبازشریف پرجوش ،پراعتماددکھائی دیئے ان کاکہناتھا جون 2023میں پی ڈی ایم دورمیں جب یہ شرطیں لگ گئی تھیں کہ پاکستان دیوالیہ ہوجائے گاتو اس وقت ہم نے ریاست کو بچایا،پریس میں ایم ڈی آئی ایم ایف سے مذاکرات میں اسٹینڈبائے پروگرام دیاگیاجس کے نتیجے میں دیوالیہ ہونے کاخطرہ ختم ہواکڑی شرائط کے نتیجے میں مہنگائی کا طوفان آیا،عوام نے اس مہنگائی کو برداشت کیااب ایک سال کے عرصے میں مہنگائی کی شرح 40فیصدسے کم ہوکردواعشاریہ اکتالیس فیصدپرآگئی ہے ،وزیراعظم نے کہاکہ مجھے ان باتوں کی کوئی پرواہ نہیں ہے،تنقیدکرنے والے تنقیدکرتے رہیں گے،کچھ لوگ طرح طرح کے ناموں سے مجھے پکارتے ہیں،میں ملک کی خاطرکام کررہاہوں ،عوام کی زندگیاں بہتربنائیں گے،بلاشبہ شہبازحکومت نے گزشتہ ایک سال میں نہ صرف معاشی محاذ پر کامیابیاں سمیٹی بلکہ سیاسی حوالے سے بھی مسلم لیگ ن ماضی کی نسبت بہترپوزیشن میں آچکی ہے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
بنگلہ دیش میں انصاف کی فتح‘ بھارت کے علاقائی تسلط کی ناکامی
اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) بنگلہ دیش میں عوامی انصاف کی فتح: بھارت کے علاقائی تسلط کی ناکامی ہے۔ بنگلہ دیش کی سابق وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کو عدالت کی طرف سے دی گئی سزائے موت کا فیصلہ نہ صرف بنگلہ دیش میں قانون کی بالادستی کی بحالی کا ایک تاریخی لمحہ ہے بلکہ یہ خطے میں بھارت کے سیاسی اثر و رسوخ کی ناکامی کا بھی واضح ثبوت ہے۔ شیخ حسینہ کے 15 سالہ دور حکومت کو بنگلہ دیش میں دہشت زدہ دور کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ جس میں بدعنوانی، ریاستی تشدد اور جبری گمشدگیاں عروج پر تھیں۔ سزا اس بات کا اشارہ ہے کہ بنگلہ دیش میں بالآخر انتقامی سیاست کا دور ختم ہوا، اور آئندہ تمام سیاسی قیدیوں کو آزاد اور غیر جانبدارانہ انصاف ملنے کی راہ ہموار ہو سکتی ہے کیونکہ ان کے دور حکومت کے دوران سیاسی مخالفین، خصوصاً جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے رہنماؤں کو 1971ء کے مقدمات کے نام پر سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا اور سزائے موت جیسی سخت ترین سزائیں دی گئیں۔ ان مقدمات کو بین الاقوامی سطح پر سیاسی انتقام اور غیر منصفانہ ٹرائل قرار دیا گیا تھا۔ اس فیصلے کے بعد بھارتی حکومت اور ان کے حامی میڈیا کی جانب سے جس غم و غصے کا اظہارر کیا جا رہا ہے، وہ یہ ثابت کرتا ہے کہ شیخ حسینہ درحقیقت بھارت کی علاقائی حکمت عملی کا سب سے اہم ستون تھیں۔ وہ دہلی کے مفادات کو ترجیح دیتی تھیں، جس کی وجہ سے بھارت کو اپنی شمال مشرقی ریاستوں کی سکیورٹی اور ٹرانزٹ کے حوالے سے مکمل تحفظ حاصل تھا۔ ان کے جانے سے، بھارت نے اپنا بنگلہ دیش میں سب سے بڑا سیاسی مہرہ کھو دیا ہے، اور اس کا علاقائی تسلط شدید کمزوری کا شکار ہوا ہے۔ شیخ حسینہ کے قریبی بھارتی جھکاؤ کی وجہ سے پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات میں تناؤ رہا۔ اب جبکہ ایک بھارت نواز حکومت کا سیاسی انجام ہو چکا ہے، بنگلہ دیش کی نئی قیادت کو یہ موقع ملے گا کہ وہ غیر ملکی دباؤ سے نکل کر پاکستان سمیت تمام ہمسایوں کے ساتھ مساوات اور باہمی احترام کی بنیاد پر متوازن تعلقات قائم کرے۔ یہ پاکستان کے لیے خطے میں امن اور سارک (SAARC) جیسے پلیٹ فارمز کو فعال کرنے کا بہترین سفارتی موقع ہے۔ طلبہ تحریک کی شکل میں شروع ہونے والا احتجاج جو بعد میں ملک گیر بغاوت میں تبدیل ہو گیا شیخ حسینہ واجد کی حکومت کو گرانے کا سبب بنا۔ احتجاج کے دوران شیخ حسینہ کی حکومت نے سخت ترین ریاستی کریک ڈاؤن کیا جس میں پولیس کی جانب سے شہریوں پر براہ راست گولیاں چلائی گئیں۔ اس احتجاج کے دوران تقریباً 1400 افراد ہلاک ہوئے جو 1971 کی آزادی کی جنگ کے بعد بنگلہ دیش میں سیاسی تشدد کی بدترین مثال ہے۔