موسمیاتی تبدیلی، آلودگی، ٹیکنالوجی میں انقلابی تبدیلیاں ،سماجی و اقتصادی ترقی کے چیلنجز سرحدوں تک محدود نہیں ‘ یوسف رضا گیلانی
اشاعت کی تاریخ: 8th, February 2025 GMT
لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 08 فروری2025ء)قائمقام صدر مملکت سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی، آلودگی، ٹیکنالوجی میں انقلابی تبدیلیاں اور جامع سماجی و اقتصادی ترقی کے چیلنجز سرحدوں تک محدود نہیں بلکہ علاقائی تعاون اور مشترکہ حکمت عملی کے متقاضی ہیں، اس فورم کے ذریعے ایک بار پھر اس حقیقت کو تسلیم کیا گیا ہے کہ پارلیمنٹ صرف قانون سازی کے ادارے نہیں بلکہ تبدیلی کے مراکز بھی ہیں جو حکمرانی کو جدت سے جوڑتے ، سماجی انصاف کو یقینی بناتے اور منصفانہ معاشی ترقی کو فروغ دیتے ہیں،جنوب مشرقی ایشیا ء اپنی متنوع ثقافتوں، تاریخوں اور اقتصادی مواقع کے ساتھ ساتھ غربت، عدم مساوات، شہری ترقی، موسمیاتی تبدیلی، اور ٹیکنالوجی میں تیز رفتار ترقی جیسے مسائل سے بھی دوچار ہے۔
(جاری ہے)
ان خیالات کا اظہار انہوں نے پنجاب اسمبلی میں منعقدہ سی پی اے ایشیا ء اور جنوب مشرقی ایشیا ء کی پہلی مشترکہ علاقائی کانفرنس کے اختتامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔قائمقام صدر مملکت سید یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ شرکاء کی گہری دلچسپی، مسلسل تعاون اور بامعنی شرکت نے اس کانفرنس کو ایک عظیم کامیابی میں بدل دیا ہے۔یہ تاریخی اجتماع 100 سے زائد معزز مندوبین، 12 اسپیکرز، 4 ڈپٹی اسپیکرز اور ملائشیاء ، مالدیپ، سری لنکا اور پاکستان کی 22 مقننہ کے نمائندوں کو ایک پلیٹ فارم پر لایا ہے،اس متنوع علاقائی اور عالمی شرکت نے باہمی تعاون پر مبنی طرز حکمرانی کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے،جو ہمارے عوام، خاص طور پر پسماندہ اور کمزور طبقات کی امنگوں کی تکمیل کے لیے ناگزیر ہے۔انہوں نے کہا کہ میں دولت مشترکہ کی پارلیمانی ایسوسی ایشن کے سیکرٹری جنرل کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے اس بروقت کانفرنس کا انعقاد ممکن بنایا۔ میں خاص طور پر اسپیکر ملک محمد احمد خان اور وزیراعلی پنجا ب مریم نواز کی قیادت کو سراہتا ہوں جنہوں نے اس کانفرنس کی کامیابی میں کلیدی کردار ادا کیا۔انہوں نے کہا کہ کانفرنس میں مختلف مسائل پر گہرے مکالمے ، بصیرتوں، حکمت عملیوں اور بہترین تجربات کا تبادلہ خیال کیا گیا ،موسمیاتی تبدیلی، آلودگی، ٹیکنالوجی میں انقلابی تبدیلیاں، اور جامع سماجی و اقتصادی ترقی مباحثوں کا مرکز رہے،یہ چیلنجز قومی سرحدوں تک محدود نہیں بلکہ علاقائی تعاون اور مشترکہ حکمت عملی کے متقاضی ہیں، اس فورم کے ذریعیایک بار پھر اس حقیقت کو تسلیم کیا گیا ہے کہ پارلیمنٹ صرف قانون سازی کے ادارے نہیں بلکہ تبدیلی کے مراکز بھی ہیں، جو حکمرانی کو جدت سے جوڑتے ہیں، سماجی انصاف کو یقینی بناتے ہیں، اور منصفانہ معاشی ترقی کو فروغ دیتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ جنوب مشرقی ایشیا ء اپنی متنوع ثقافتوں، تاریخوں اور اقتصادی مواقع کے ساتھ ساتھ غربت، عدم مساوات، شہری ترقی، موسمیاتی تبدیلی، اور ٹیکنالوجی میں تیز رفتار ترقی جیسے مسائل سے بھی دوچار ہے۔ ان مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے ہماری موضوعاتی نشستوں میں ان چیلنجز اور اجتماعی کوششوں سے فائدہ اٹھانے کے امکانات پر توجہ دی گئی۔میرے لیے ذاتی طور پر سب کے لیے معیاری صحت اور تعلیم کی فراہمی سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے، یہ دو ستون ایک منصفانہ اور خوشحال معاشرے کی بنیاد ہیں،جب ہم صحت اور تعلیم میں موجود خلا ء کو پر کرنے کے لیے قانون سازی کرتے ہیں تو ہم نہ صرف افراد کو بااختیار بناتے ہیں بلکہ معاشروں کو مضبوط اور اقوام کی صلاحیتوں کو اجاگر کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم نے موسمیاتی تبدیلی کے سنگین چیلنج پر بھی تفصیل سے گفتگو کی جو ہمارے وقت کا ایک اہم مسئلہ ہے،اس بحران سے نمٹنے کے لیے فوری اقدامات درکار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس کانفرنس نے ہمیں ماحولیاتی تحفظ، پائیدار شہری زندگی، اور قدرتی وسائل کی حفاظت کے لیے مشترکہ حکمت عملی پر تبادلہ خیال کرنے کا موقع فراہم کیا،اسی طرح، ٹیکنالوجی میں تیز رفتار ترقی کے اثرات پر بھی بحث کی گئی جو مواقع کے ساتھ ساتھ خطرات بھی رکھتی ہے۔ مصنوعی ذہانت اور سوشل میڈیا ایک طرف حکمرانی کو بہتر بنانے کے آلات فراہم کرتے ہیں تودوسری طرف، رازداری، غلط معلومات اور سکیورٹی جیسے خدشات کو بھی جنم دیتے ہیںِبطور قانون ساز، ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم جدت کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ اس بات کو یقینی بنائیں کہ یہ ٹیکنالوجیز ذمہ داری سے استعمال کی جائیں،یہی وہ شعبہ ہے جہاں سرحد پار تعاون بہترین حل نکالنے میں مدد دے سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ مقامی حکومتوں کو بااختیار بنانا بھی جمہوریت کو مستحکم کرنے اور عوامی خدمات کو زیادہ موثر بنانے کے لیے ضروری ہے، مقامی حکمرانی عوام کو براہِ راست فیصلہ سازوں سے جوڑتی ہے، احتساب کو بہتر بناتی ہے اور متنوع آوازوں کو سننے کا موقع فراہم کرتی ہے،اگر ہم اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کو فروغ دیں، تو ہم جمہوریت کو مزید فعال بنا سکتے ہیں،بطور پارلیمنٹرینز ہم پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم اختلافات کو کم کریں، مختلف نقطہ نظر کو ہم آہنگ کریں اور ایسے قوانین بنائیں جو ہمارے عوام کی ضروریات کو پورا کریں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ایسے پائیدار طرز حکمرانی کو اپنانا ہوگا جو تعاون، لچک، اور برابری کو فروغ دے،آنے والے وقت میں یہ بات واضح ہے کہ کوئی بھی ملک یا ادارہ تنہا ان چیلنجز سے نہیں نمٹ سکتا،تعاون محض ایک انتخاب نہیں بلکہ ایک ناگزیر ضرورت ہے۔یہ کانفرنس صرف مکالمے کے لیے نہیں تھی بلکہ عملی اور ٹھوس نتائج کے لیے بھی ایک بنیاد فراہم کرتی ہے،کانفرنس نے ہمیں 21ویں صدی کے چیلنجز کے تناظر میں حکمرانی کو از سر نو متعین کرنے اور جامعیت و پائیداری کے عزم کو مزید مضبوط کرنے کا موقع دیا ہے،اب ہماری بحثوں کو قانون سازی، تعاون کے فریم ورک اور طویل المدتی علاقائی حکمت عملیوں میں ڈھلنا ہوگا۔ انہوںنے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ لاہور ڈیکلریشن ہمارے لیے ایک رہنما اصول ثابت ہوگا، جو یہاں پیدا ہونے والی مثبت توانائی کو برقرار رکھنے اور بین الپارلیمانی و علاقائی تعاون کو مزید مستحکم کرنے میں مدد دے گا۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے موسمیاتی تبدیلی انہوں نے کہا کہ ٹیکنالوجی میں کے ساتھ ساتھ حکمرانی کو حکمت عملی نہیں بلکہ ہیں بلکہ کو فروغ ایشیا ء کے لیے
پڑھیں:
آسیان، چین، جی سی سی سربراہ اجلاس سےبین العلاقائی تعاون میں ایک نئے باب کا آغاز
آسیان، چین، جی سی سی سربراہ اجلاس سےبین العلاقائی تعاون میں ایک نئے باب کا آغاز WhatsAppFacebookTwitter 0 29 May, 2025 سب نیوز
بیجنگ :پہلا آسیان چین جی سی سی سربراہ اجلاس ملائیشیا کے شہر کوالالمپور میں منعقد ہوا جس سے ایشیا میں علاقائی تعاون کے ایک نئے مرحلے کا آغاز ہوا ۔ چین کے وزیر اعظم لی چھیانگ نے کہا کہ کہ آسیان- چین – جی سی سی سربراہی اجلاس تعاون کے میکانزم کے قیام کو علاقائی اقتصادی تعاون میں ایک بڑی جدت کے طور پر سمجھا جاسکتا ہے۔ بین الاقوامی رائے عامہ نے اس سربراہی اجلاس پر گہری توجہ دی ۔ قطر کے الجزیرہ نے اسے “بے مثال سہ فریقی سربراہی اجلاس” قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ کثیر قطبی عالمی نظام کی تعمیر کے لئے وقت کے رجحان کی عکاسی کرتا ہے۔ ملائیشیا کی قومی نیوز ایجنسی کے مطابق چین اور اس کے شراکت دار زیادہ لچکدار اور جامع علاقائی اقتصادی نیٹ ورک کی تعمیر کے لئے مل کر کام کر رہے ہیں، تاکہ ترقی کے ثمرات حقیقی معنوں میں سب کے لئے یکساں ہوں ۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس سربراہی اجلاس کا آغاز ملائیشیا نے کیا تھا جو اس سال آسیان کی صدارت سنبھالے ہوئے ہے اور چین نے اس میں فعال طور پر حصہ لیتے ہوئے اہم کردار ادا کیا۔
افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ملائیشیا کے وزیر اعظم انور ابراہیم نے اس بات پر زور دیا کہ تینوں فریق پہلی بار باضابطہ طور پر ایک ہی پلیٹ فارم پر ہیں ، جو علاقائی تعاون کے ایک نئے مرحلے اور ایک اہم سنگ میل کی نشاندہی کرتا ہے۔ چین کے شامل ہونے سے اس علاقائی تعاون کے پلیٹ فارم کو صارفین کی دنیا کی سب سے بڑی مارکیٹ، مضبوط صنعتی اور سپلائی چین، نیز مشترکہ سرمایہ کاری، تعمیر و ترقی اور خوشحالی کے نئے مواقع میسر آئے ہیں۔اگرچہ چین، آسیان اور جی سی سی کے درمیان دوطرفہ تعاون کی ایک طویل تاریخ ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ اس سہ فریقی سربراہی اجلاس کے تمام فریقوں اور عالمی معیشت پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ آسیان کے 10 ممالک کے پاس وافر قدرتی وسائل اور نوجوان آبادی ہے، اور جی سی سی کے رکن ممالک کے پاس توانائی کے وسیع ذخائر اور وافر فنڈز ہیں اور وہ فعال طور پر سرمایہ کاری کے نئے مقامات کی تلاش میں ہیں۔جبکہ دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت کی حیثیت سے ، چین کے پاس نہ صرف مضبوط انڈسٹریل مینوفیکچرنگ ، تکنیکی جدت طرازی اور بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کی صلاحیتیں موجود ہیں ، بلکہ ایک بڑی اور کھلی مارکیٹ بھی ہے۔
ایک دوسرے کی تکمیل اور ایک دوسرے پر انحصار کرنے والا تعاون کا یہ ماڈل مشترکہ ترقی کے لئے ایک وسیع موقع فراہم کرتا ہے۔ مساوات، باہمی فائدے اور جیت جیت پر مبنی تعاون کی خصوصیت کے ساتھ ایک نئی قسم کے بین الاقوامی تعلقات کے معنی کی واضح ترجمانی کرتا ہے، اور گلوبل ساؤتھ کے ممالک کے لئے فائدہ مند تعاون کا ایک نیا ماڈل بھی قائم کرتا ہے.سربراہ اجلاس میں وزیر اعظم لی چھیانگ نے سہ فریقی تعاون میں اضافے کے لیے “تین مثالی ماڈلز کی تجویز پیش کی جن میں بین العلاقائی کھلے پن کا ماڈل ، کراس ڈیولپمنٹ اسٹیج تعاون کا ماڈل اور بین الثقافتی انضمام کا ماڈل شامل ہیں ۔ یہ وژن مستقبل کے سہ فریقی تعاون کی راہ متعین کرتا ہے۔انہوں نے کہا کہ اگلا مرحلہ یہ ہے کہ تعاون کے ماڈلز کو عملی جامہ پہنایا جائے اور تعاون کو مزید گہرا اور مستحکم کیا جائے ۔ متعدد بین الاقوامی میڈیا رپورٹس سے یہ جانا جاسکتا ہے کہ متعلقہ ممالک موجودہ افراتفری والی بین الاقوامی صورتحال اور سست عالمی اقتصادی ترقی کے تناظر میں اس سہ فریقی تعاون کے مستقبل کے بارے میں توقعات سے بھر پور ہیں ۔ چین، آسیان ممالک اور جی سی سی کی مجموعی معیشت 24.87 ٹریلین امریکی ڈالر ہے اور اس کی کل آبادی 2.15 بلین ہے اور یہ دنیا کی کل معاشی مالیت اور آبادی کا تقریباً ایک چوتھائی بنتا ہے ۔
اس تعاون سے پیدا ہونے والا مجموعی اثر بھی انتہائی اہم ہو گا ۔ ملائیشین نیوز ایجنسی نے اس حوالے سے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ نئی شراکت داری، جو نظریے کے بجائے عملی تعاون پر مبنی ہے، عالمی معاشی منظر نامے کو نئی شکل دے رہی ہے۔چین نے ہمیشہ کھلے پن کے ساتھ دنیا کا استقبال کیا ہے ، علاقائی تعاون اور عالمی اقتصادی ترقی کے لئے مزید مواقع پیدا کئے ہیں اور اپنی اعلی معیار کی ترقی کے ذریعے علاقائی تعاون میں نئی قوت محرکہ پیدا کی ہے.اس سہ فریقی سربراہ اجلاس نے چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو، آسیان کنکٹیویٹی ماسٹر پلان 2025 اور جی سی سی وژن 2030 کے باہمی انضمام کے لئے ایک پلیٹ فارم فراہم کیا ہے۔ جیسا کہ وزیر اعظم لی چھیانگ نے سربراہی اجلاس میں اپنی تقریر میں کہاکہ سہ فریقی تعاون “ایک متحرک اقتصادی زون اور ترقی کے مرکز کو جنم دے گا “۔ بین العلاقائی تعاون کے اس جدید ماڈل نے تمام فریقوں کے درمیان قریبی روابط اور تعاون پیدا کیا ہے جس سے نہ صرف شراکت داروں کی اپنی اپنی معاشی خوشحالی میں انہیں مدد ملے گی بلکہ ایشیا سمیت دنیا بھر میں امن اور ترقی کو بھی فروغ ملے گا۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبروزیراعظم 3 روزہ دورہ آذربائیجان کے بعد تاجکستان روانہ ہوگئے پاکستان کے پہلے سرکاری حمایت یافتہ بٹ کوائن ریزرو، والٹ کے قیام کا اعلان چین نے تین فریقی تعاون کو مسلسل فروغ دینے کے بارے میں تجاویز پیش کی ہیں، چینی میڈیا عالمی بینک نے پاکستان میں اضافی درآمدی ٹیرف کو صنعتی ترقی کیلئے بڑی رکاوٹ قرار دیدیا پاکستانی نوجوان چین میں تجارت اور ثقافت کو اجاگر کرنے میں مصروف آئی ایم ایف کی ریونیو بڑھانے کیلئے وفاقی بجٹ کیلئے سخت تجاویز، عوام کیلئے مہنگائی کا نیا طوفان تیار تعلیمی تعاون اور علمی تبادلوں میں خلل نہیں آنا چاہیے، چینی وزارت خارجہCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم